تھل: میں کشان دور
تقریباء سے عیسوی کی دہائی میں کنشک ہی وہ کشان بادشاہ تھا جس نے پشاور اور ٹیکسلا سے آگئے جنوب کے ان تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا جن میں دریائے سندھ کے مشرق کا وہ علاقہ تحمل جو ریاست سیٹھیا کے نام سے مشہور تھا بھی شامل تھا۔ مزید آگے سات دریاؤں کے سنگم بیک کا علاقہ شامل تھا جوکستان حکومت کے ماتحت آگیا۔ علاقہ سیتھیا چھل” ہندی پارتھی اور ہندی سی تھی سرداروں اور جنگی جتھوں کے قبضہ میں تھا لیکن کشانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے ان کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ جہاں کنشک کے دور میں روڑاں کے مقام اے پر سے ہوشک کے کثیر تعداد میں سکے ملے ہیں کیونکہ کنشک کا درالسلطنت پر شیپور موجودہ پشاور تھا۔ اندرونِ ملک بطور نائب ہوشک اور واشک مقرر تھے ۔ یہ کنشک کے بیٹے تھے جو کنشک کی زندگی اور موت کے بعد کشان سلطنت کے مالک بنے رہے۔ یہ واسودیو کے دور تک حکمران رہے۔ ہم پہلے ان سے متعلق بیان کر چکے ہیں کہ تیسری اور چوتھی صدی عیسوی تک ان کشان بادشاہوں کے آثار ملتے ہیں لیکن چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں واسود یو کشان جوکشان سلطنت کا مالک بنا، اس کے دور میں روڑاں بی جو مغربی ہے آباد ہوئی، جہاں صرف واسودیو کے سکے ملے ہیں یا پھر آخری کشان بادشاہ گر میکس کے جو چوتھی صدی عیسوی کے آخر یا پانچویں صدی عیسوی کے اول میں حاکم تھا۔ اسی بادشاہ کے دور میں گورے ہنوں نے شمالی مغربی ہندوستان پر حملہ کیا اور ظلم کی انتہا کر دی ۔ پورے شہر کو جلا کر خاکستر کر دیا۔
شہر کے باشندوں کو قتل اور کچھ کو غلام بنا لیا۔ عورتوں بچوں سب کو قتل کر دیا۔ ان ظالم ہنوں نے اس حد طرح پورے شہر کو تباہ کر دیا، ہن حملہ آوروں نے ظلم کی وہ داستان رقم کی کہ دوبارہ روڑاں کے اس مقام پر کئی سو سالوں تک آبادی ممکن نہ ہوسکی۔ اس بڑے شہر کی جگہ تھل میں چھوٹے چھوٹے قصبات نے لے لی۔ پانچویں صدی عیسوی کے آخر تک روڑاں کے مقام پر موجود آبادی اور شہر ویرانے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ آخری کشان بادشاہ کے بعد تھل کی تاریخ بالکل خاموش ہے ۔ جب کے صدی عیسوی سے مسلم حکمران امیر غزنوی سبکتگین اور محمد بن قاسم کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو تھل سے متعلق کچھ حد تک تاریخی مواد موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح جھل کئی ایک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا ہے۔
قدیم روڑاں کی جغرفیائی اہمیت:
اگر ہم تھل کا محل وقوع اور جغرافیے کا انداز ولگا ئیں یا نقشہ ذہن میں رکھ کر ارد گرد کے علاقوں کی سمت دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر جو شہر آباد تھا، اس کو باقاعدہ منصوبے کے تحت تعمیر کیا گیا کیونکہ چاروں طرف سے درمیان میں واقع تھا۔ مظفر گڑھ سے میانوالی تک موجودہ تھل کے بالکل وسط میں۔ اگر اس کی قدیم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مشرق میں تریموں ہیڈ قدیم نام غازی گھاٹ موجودہ غازی آباد دریائے جہلم اور مغرب میں دریائے سندھ اور قدیم شہر کر وڑ جو پہلے کسی اور نام سے منسوب تھا سید ھالین میں اور عین درمیان میں ہے۔ حل کے علاقوں میں اکثر شہر بہت بعد میں آباد ہوئے۔ جس طرح منکیرہ کو چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں ایک راجہ نے آباد کیا تھا جبکہ لیہ کو بھی ایک للہا“ نام کے ہندو برہمن نے ساتویں صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔ کچھ مورخین کے مطابق منکیرہ اور بھکر ایک راجہ نے آباد کیے تھے اور روڑاں کے سیدھا مغرب میں واقع کروڑ شہر جس کی تاریخ بہت قدیم ہے، روڑاں سے تیس میل کے فاصلے پر واقعہ ہے۔
ہم نے چاروں طرف سے اس قدیم مقام کا جائزہ لیا ہے تو ہمارے اندازے کے مطابق روڑاں کے مقام پر آباد شہر چاروں طرف سے تقل اور وادی سندھ کی اس میدانی پٹی میں بالکل درمیان میں آتا ہے۔ ہم نے پورے اس علاقے کو قریب سے دیکھا تو اس تھل کے علاقے میں جتنی قدیم بستیوں کے آثار ملے ہیں، ان سب کا موازنہ کریں تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس مقام پر آباد شہر پوری وادی سندھ کو کنٹرول کرتا تھا اور ایک طرح سے ان تمام بستیوں کا رابطہ اور سیاسی اور سماجی لین دین اس شہر سے تھا۔ ہم نے اس مقام کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس سے آپ کو سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ وادی سندھ کے اس محلے میں قدیم روزاں کو کیا تاریخی اہمیت حاصل تھی اور اسی صحرائے تھل کی پٹی میں قدیم تاریخ کے کون سے راز دفن ہوئے پڑے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔