تھل کے معنی ہیں مقام جگہ اور وہ علاقہ جو خشک، سخت، ریگستانی اور میدانی جگہ زمین پر مشتمل علاقہ جیسا کہ تھل کا علاقہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع ہے جسے دو آب سندھ سما گر کے نام سے بھی لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ دو آب سندھ ساگر کے علاوہ تھل کو ریگستان، صحرا کے نام بھی دیے گئے ہیں اور ہم نے ان تمام ناموں کو سامنے رکھ کر تھل کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دو آپ کا مطلب ہے دو پانیوں یا در یاؤں کے درمیان کا علاقہ، مقام جبکہ یہ علاقہ تقل دریائے سندھ و جہلم کے درمیان واقع ہے جبکہ دریائے سندھ کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کو سندھ ساگر کا نام دیا گیا ہے۔ اس خشک اور ریتلے علاقے کو ریگستان اور صحرا بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ میانوالی، خوشاب کے اضلاع سے لے کر بھکر، لیہ اور مظفر گڑھ تک کا علاقہ ریتلا ویران و بیابان خشک زمین پر مشتمل ہے اس لیے ہم نے ان تمام ناموں کو سامنے رکھ کر جب دیکھا تو اس کا مفہوم بنا تھا۔ تھل اس لیے یہ علاقہ ریت کا مقام، خشک مقام، ویرانی کا مقام، دو دریاؤں کا درمیانی مقام اور مقام کا مطلب محل وقوع اور ٹھکانا ۔ اس لیے اگر ان تمام ناموں کو ایک جگہ اکھٹا کریں تو اس کا مطلب یا مفہوم ہے تھل ۔ جو آج بھی اس علاقے کا نام ہے تھل جو قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اس لیے ہم نے بھی اس دھرتی کی سابقہ حیثیت مقامی و علاقائی ، تہذیب و ثقافت، وی و قدیمی رنگ دینے کیلیے اس علاقے کا نام تھل ہی مشہور کیا ہے۔ ہاں ایک حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تھل کا بھی قدیم ہند کی طرح تہذیبی و سماجی و جغرافیائی نقشہ تبدیل ہوتا رہا ہے آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلیاں کی وجہ سے تھل نے بھی کئی رنگ تبدیل کیے ۔ یہاں بہت اتار چڑھاؤ آتے رہے۔
جس طرح آج کا تھل اور اس سے پہلے ۱۸ دیں اور ۱۹ ویں صدی عیسوی کا تھل، ۱۲ویں صدی عیسوی اور ۵ویں صدی عیسوی کا تھل جب چینی سیاح فاہیان یہاں سے گزرا تھا۔ فاہیان کا سفر ۴۱۵ ء کے قریب کا تعل آج کا تھل اس وقت سے مختلف ہے۔ لیکن اس کا رنگ و بود، تہذیب و ثقافت ، رسم و رواج ایک ہی ہے۔ چینی سیاح فاہیان کو ہندوستان میں داخل ہونے کے لیے مغرب کی طرف سے دریائے سندھ کو پار کرنا پڑا انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور بھکر کے مقام سے دریائے سندھ کو پار کیا اور بھکر سے سیدھا منکیرہ حیدر آباد تھل کے راستہ سے ہیڈ تریموں پہنچا۔ یہاں سے انہوں دریائے جہلم کو عبور کیا۔ چینی سیاح نے اپنی تحریر میں ایک وسیع ریتلے میدان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تھل کو ریت کا دریا کے نام سے منسوب کیا ہے۔ سیاح مزید اپنی تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ یہاں کا سفر جاڑے یعنی گرمیوں کے موسم میں دشوار ہے۔ سخت ترین گرمی اور جھکڑ آندھی چلتی ہے۔ اس علاقہ میں پانی بڑی مشکل میں مل پاتا ہے۔ دن کے وقت سفر کرنا کیا ، ان انتہائی مشکل ہے۔ فاہیان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تھل اس علاقے کا قدیمی نام ہے اس علاقے کی تاریخی حیثیت اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسانی تہذیب۔ یہ وہ علاقہ ہے جو پوٹھا یعنی سلسلہ کوہ کے جنوب کی میدانی پٹی جس پر قدیم ہندوستان کی آباد کاری ہوتی ہے۔ سب سے پہلا جزیره یا خشک مقام تھل ہی ہے جہاں سے وادی سندھ کی قدیم تہذیب نے جنم لیا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسان نے تہذیبی ارتقاء شروع کیا اور وادی سندھ کی قدیم تہذیب معرض وجود میں آئی اور باقی ہندوستان میں پھیلی جس کی تفصیل اگلے ابواب میں آئے گی۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔