تھل

تھل:ریاست سیتھیا کی قدیم آباد قومیں

ریاست سیٹھیا کا در السلطنت مگر شہر جو روڑاں کے مقام پر آباد تھا، کے آباد کاروں کا تعلق کسی قوم اور نسل سے تھا ؟ اور یہ لوگ کسی تہذیب و ثقافت اور من مذہب سے تعلق رکھتے تھے ؟ یہ بات کافی مرتبہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ قدیم پاک و ہند کی آبادی ہمیشہ کثیر النسل اقوام پر مشتمل رہی ۔ ۲ ہزار سال قبل مسیح آریہ کی آمد سے لے کر ۱۸ ویں صدی عیسوی برٹش اور فرانسیسی اقوام کی آمد تک کے درمیانی عرصہ میں کئی حملہ آور قو میں ہندوستان میں داخل ہو ئیں اور پہلے سے آباد قبائل میں رچ بس گئیں۔ جس سے نسل و مذہب میں ایک بہت بڑا کر اس پیدا ہو گیا۔ اسی طرح تھل کے قدیم علاقہ میں بھی آباد شہریوں کا تعلق ایک سے زائد قبائل سے تھا جس میں ہندی، یونانی، باختری، پارتھی اور ایرانی لوگ شامل تھے۔ موجودہ محل کے علاقہ قدیم ریاست سیتھیا جس کا در السلطنت مگر نام کا شہر تھا، میں تین قسم کے لوگ یا گروپ آباد تھے۔ یہ علاقہ ان کے قبضہ میں تھا۔ ایک گروپ مقامی قبائل پر مشتمل تھا جن میں یونانی لوگ بھی شامل تھے (ہندی یونانی گروپ) جبکہ دوسرا گروپ باختری یونانی اور تیس پارتی ایرانی گروپ تھے۔ یہ تمام قبائل آپس کی خانہ جنگی میں مصروف رہتے تھے۔

انہی گروہوں سے متعلق یونانی سیاح نے بیان کیا ہے کہ ریاست سیتھیا کے مختلف جنگجو قبائل جو آپس کی خانہ جنگی میں مصروف ہیں، تمام چھوٹے چھوٹے راجواڑوں اور علاقوں پر قابض تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور چوتھا گروپ جو حاکمیت اعلیٰ کا دعویدار تھا، وہ کشان تھا۔ کشان جو پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک پشاور، ٹیکسلا، مغربی ہند اور پنجاب تا وادی سندھ کے علاقہ موجودہ تھل پر بطور حاکم اعلیٰ قابض ہو چکے تھے۔ ان چاروں گروپوں میں مختلف قوم کے لوگ شامل ہوں گے جیسا کہ کشان ۔ یہ یوچی قبائل کی ایک شاخ تھی۔ یوچی ایک کثیر النسل قومی قبائل تھا۔ اسی طرح یونانیوں میں بھی بہت سارے قبیلے اور قوموں کے لوگ شامل تھے جو ہندی یونانی (ہندی سیہ بھی گروپ) مشہور تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو چھٹی صدی ق م میں سائرس اعظم کے ہمراہ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے اور ہندوستان میں رچ بس کر ہندی یونانی مشہور ہوئے ۔ یہ گروپ دریائے سندھ کی وادی میں کافی حد تک طاقتور تھا اور اپنے آپ کو مقامی ہندوستانی سماج میں ڈھال چکا تھا اور علاقے میں کافی با اثر بھی تھا۔

یہی گروپ اپنے آپ کو اس ریاست سینتھیا کا اصل حقدار سمجھتا تھا اور اس گروپ کے لوگ اکثر باختری اور پارتھی قبائل سے اپنے علاقے کی خاطر جنگ کرتے رہتے تھے۔ ان میں مصر، بابل اور یونان کے وہ قبائل شامل تھے جو چھٹی صدی ق م سے لیکر پہلی صدی ق م تک مغربی ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے۔ یونانی سی تھی لوگوں کے علاوہ باختری اور پارتھی قبائل بھی کافی حد تک دریائے سندھ کے مشرقی میدانوں میں وارد ہو چکے تھے اور انہوں نے وادی کے کچھ حصوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام قبائل ریاست سیتھیا کے علاقوں پر مقامی طور پر بطور حکمران تھے ۔ ہر طبقہ اپنے اپنے علاقے پر بھی خود مختیار تو بھی اطاعت گزار کے طور پر حکومت کرتا تھا۔ کبھی یہ قبائل ٹیکسلا کی مرکزی حکومت کی اطاعت کو قبول کر لیتے تھے اور جب موقع ملتا، خود مختیاری اعلان کر دیتے تھے ۔ یہ تمام قبائل وادی سندھ کی اس میدانی پی تھل میں اپنے اپنے سترپ کے حکمران تھے اور ہر سردارا اپنے نام کا مقامی طور پر سکہ بھی جاری کرتا تھا۔ ان سرداروں کے سکے کافی تعداد میں روڑاں کے مقام سے ملے ہیں جو مختلف نام اور نشان کے ساتھ بنائے جاتے تھے۔

مذہب:

قبل از اسلام ہندوستان میں سب سے زیادہ پر چار ہونے والا مذہب ہندومت تھا۔ اس مذہب کے لفظی معنی ہیں کہ ہندو سماج جبکہ عرف عام میں اس مذہب کو بت پرست یا بت پرستوں کا مذہب کہا جا سکتا ہے۔ ہندو مذہب قبل از اسلام ہندوستان کا اکثریتی مذہب تھا۔ جس طرح ہندوستانیوں کا خاندانی ماجی اور قبائلی تعلق مغربی علاقوں، مصر، یونان ، ایران اور وسطی ایشیا سے تھا اسی طرح یہ بت پرستی کا مذہب بھی انہی مغربی آقاؤں کی اطاعت گزاری کے صلے میں آیا۔ کیونکہ بت پرستی اور فرضی خداؤں کی پوجا سب سے پہلے مصر اور بابل کے بت پرست بادشاہوں نے شروع کرائی تھی جیسا کہ حضرت موسیٰ” کے زمانے میں مصر کے بادشاہ فرعونِ مصر (سائرس اعظم) جس نے خود کو زمینی خدا کے طور پر پیش کیا اور لوگوں کو اپنی پوجا کرنے کا حکم دیا۔ یہی بادشاہ چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور پوری ایک صدی تک اس نے ہندوستان پر حکومت کی۔ اسی بادشاہ نے ہندوستان کو معاشی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی تعلیم سے روشناس کرایا۔ اپنی پوجا اور بت پرستی کی بھی تعلیم اسی بادشاہ نے دی۔ اس بادشاہ نے ہندوستانیوں کو اس طرح متاثر کیا کہ وہ انہیں اپنا فرمانروا مجھنے لگے اور بطور دیوتا اس کی پوجا کرنے لگے۔ اس بادشاہ کے بعد ایک یونانی النسل بادشاہ دیمیتریس، ہندیوں کا بادشاہ، تقریباً ۱۹۰ ق م میں ہندوستان آیا۔ وہ شام کے بد معاش بادشاہ انٹی اوکس، جس نے تھیوس یعنی خدا” کا لقب اختیار کیا ، کا داماد تھا۔ اس نے بھی ہندوستان میں بت پرستی کی تعلیم دی۔ ہندو مذہب کی بنیاد ہی بت پرستی پر استوار ہے۔

اس سے پہلے آریہ جن کو ہندوستان کی سماجی اور مذہبی زندگی کے ارتقا میں بنیادی حثیت حاصل ہے، بھی بت پرست تھے اور وہ اپنے بادشاہ کی پرستش کرتے تھے ۔ اس کا نام اندر یعنی آگ اور پانی کا دیوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کی قدیم مذہبی تحریروں میں ایک نام "ارم” کا ملتا ہے جس کو ہندوستان کی اکثریت اپنا مہر بجھتی ہے اور رام کو ماننے والے ہندوستان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ وادی سندھ کے میدانی علاقے تھل” روڑاں کے اکثر کھنڈرات سے پائے جانے والے آثار قدیمہ کے نمونے جن میں خاص کر دیوی اور دیوتا کی مورتیاں ملی ہیں، ان سب کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ شمالی ہند کے علاوہ وسطی ہند، پنجاب اور ریاست سیتھیا کے اکثر علاقوں میں ہندو مذہب نمایاں تھا۔ ان علاقوں سے ملنے والی تمام تر مورتیوں کا تعلق ہندو مذہب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان مورتیوں میں آرد خشو، آرتھو شو د یوی باکشمی دیوی اور وشنود ہو تا شامل ہیں۔

جین مت:

یہ مذہب دوسری اور تیسری صدی قیام کے دوران وسطی ہندوستان میں کچھ عرصہ کیلئے آیا لیکن مذہب جین مت ہندوستان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکا۔ جین مذہب کو ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس مذہب کے بارے میں کوئی زیادہ تفصیل بھی ہم نہیں۔

بدھ مت :

اس کے علاوہ ۳۲۰/۲۱ قبل مسیح چندر گپت موریہ سے لے کر اشوک اعظم ایک مغربی اور شمالی ہندوستان کا تیزی سے پھلنے پھولنے والا سر کاری مذہب بدھ مت تھا۔ میں نے اس کو سرکاری مذہب اس لیے کہا ہے کہ موریہ بادشاہ اشوک نے کالنگ کی جنگ کے بعد جس میں لاکھوں افراد قتل ہوئے تھے، اپنی پوری توجہ صرف اور صرف ۔ بدھ مذہب کی تبلیغ پر مرکوز کر دی تھی۔ ساتھ ہی اس نے اپنی فوج کو ملکی حفاظت کے ساتھ ساتھ بدھ کی تعلیم اور تبلیغ کی ذمہ داری سونپ دی اور اس سے آگے بڑھ کر خود شہزادوں کو بھی اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ اپنے آپ کو بدھ مذہب سے وابستہ کر لیں۔ ایسا ہی ہوا جس سے تمام شمالی ہند سے لے کر چین تک بدھ مذہب کی شہرت پائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں ٹیکسلا اس کا مرکز تھا جہاں بدھ مذہب کی ایک بہت بڑی درسگاہ اور یو نیورسٹی قائم کی
گئی تھی ۔ یہاں پورے ہندوستان سے لوگ بدھ مت کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

روایت:

اس روایت کے مطابق پہلی صدی عیسوی کے اوائل میں عیسائیت کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ عیسائی مذہب کے متعلق روایت کچھ یوں ہے کہ یونانی النسل ہندی بادشاہ گنڈ وفریس نے  ایک بہان نامی ہندی سوداگر کو کہا کہ ایک ہو شیار اور کاریگر صناع کو لے آئے جو بادشاہ کے لائق محل تیار کر دیے۔ اس طولانی روایت کا خلاصہ کچھ یوں بیا ، کیا جاتا ہے جو سینٹ ٹاس کی کتاب جو شامی زبان میں تحریر ہے کہ جب حضرت عیسی کے بارہ پیر کاروں نے عیسائیت کی تبلیغ کیلئے قرعہ اندازی سے پوری دنیا کو آپس میں تقسیم کیا تو ہندوستان کا ملک معروف بہ نامس کے حصہ میں آیا لیکن اس نے اس کام کیلئے ہندوستان کا سفراختیار نہ کیا۔ مشرقی سفر سے واپسی پر ٹامس حواری کی دل برداشتہ ناطری دور کرنے کیلئے خود حضرت عیسی سوداگر کو خواب میں ملے اور دوسرے حواریوں نے ٹامس کو میں چاندی کے سکوں کے بدلے سوداگر کے ہاتھ بیچ ڈالا۔

اپنے مولا کے حکم کے مطابق سینٹ ٹامس سوداگر کے ہمراہ کشتی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا اور سفر کے دوران اپنے ساتھی بہان کو یقین دلایا کہ وہ فن تعمیر اور لکڑی اور پتھر کے ہر قسم کے کام کا ماہر ہے اور پوری طرح واقف ہے۔ آخر کار وہ ہندوستان کے بادشاہ گنڈ وفریس کے دربار میں پہنچا۔ ٹامس نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ وہ چھ ماہ کے عرصہ میں آپ کیلئے محل تیار کر دے گا لیکن جو رقم اس کو کام کی انجام دہی کیلئے دی گئی ، اس نے تمام کی تمام خیرات کر دی۔ جب اس سے اس رقم کا حساب مانگا گیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے لیے بہشت میں محل تیار کروارہا ہوں جو انسان کے ہاتھ سے تعمیر نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد ٹامس نے اس قدر جوش و خروش سے اپنے مذہب کی تبلیغ کی کہ خود با دشاہ ، اس کا بھائی گڈا اور عوام جوق در جوق دینِ عیسائیت میں داخل ہو گئے ۔ دی اے سمتھ نے اس روایت کے بارے میں اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند کے صفحہ ۲۸۹/ ۹۰ تحریر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ تمام حکایت فرضی اور مصنوعی قصہ خیالی ہے۔ وی اے سمتھ مزید اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ہندوستانی مرغ کیلئے آتی دلچسپی ہے کہ ایک یونانی ہندی بادشاہ گنڈ وفریس نے اپنی موت سے قبیل اپنا تعلق پاک رسول نبی سے جوڑ کر توحید پرستی کی ہوگی۔

زبانیں:

قدیم ہندوستان کثرت اقوام کی ساتھ ساتھ کثیر زبانوں کا بھی مرکز رہا ہے۔ ان زبانوں میں سب سے قدیم زبان داوڑی، تلگو، سنسکرت، پالی، پراکرت ، نگاری، بروہی، خروشتی ، کریک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب زبانیں قدیم دور میں ہندوستان کے طول و عرض میں بولی جاتی تھیں۔ ان میں سب سے قدیم زبان در اوڑی ہے۔ یہ زبان وادی سندھ کے اُن قدیم لوگوں میں بولی جاتی تھی جنہوں نے وادی سندھ میں سماجی زندگی کی ابتدا کی۔ یہ تقریباً ۶/۸ ہزار سال قبل سے لے کر ۲۰۰۰ سال ق م تک مقامی قبائل، جن کو دراوڑ کہا گیا ہے، استعمال کرتے تھے۔ ۲ ہزار سال قدم سے ایک اور قوم جو آریہ کے نام سے مشہور ہے، نے سنسکرت اور پراکرت، پالی اور نگاری زبانیں متعارف کروائیں اور تقریباً ایک عرصہ تک ہندوستان میں انہی زبانوں کا راج رہا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں یہ زبانیں بولی جاتی تھی۔ سنسکرت آریہ سماج کی ایک طرح سے سرکاری زبان تھی جبکہ باقی تینوں زبانیں پالی ، پراکرت ، نگاری مختلف علاقوں میں ۶/۵ ق م تک وسطی اور مغربی ہندوستان میں بولی جاتی تھیں۔

جس طرح آج کل سندھی، پنجابی اور بلوچی وغیرہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سندھ کی اس وادی ” تھل” کے اکثر علاقے مغربی پنجاب میں زیادہ تر نگاری زبان بولی جاتی تھی جبکہ مسکرت ایک مرکزی اور سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ گرائمر کی بھی حامل تھی ۔ آریہ دور کی تمام تر تحریریں منکرت میں ہیں۔ سنسکرت کے مشہور مصنف پانی یابانی نے چاروں دید، رگ دید، بیبر د دید، اتھرو دید اور سام دید تحریر کیے۔ سنسکرت زبان کو ہندوستان میں کافی حد تک شہرت ملی جبکہ پالی اور پراکرت زبان سنسکرت کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئیں۔ براہمی ، خروشتی ، نگاری وغیرہ زبانیں یونانی، فارسی اور چینی زبانوں کا خلاصہ ہیں اور ان حملہ آوروں کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رائج ہو ئیں۔ ان مغربی بادشاہوں کی آمد سے مغربی ہند کے اکثر علاقوں میں یہ زبان بولی جاتی تھیں جس طرح یونانی باختری بادشاہ یو کرے ٹائیڈ ز ، اپالو وٹس، سوٹر میگس اور میوس وغیرہ کے تمام سکوں پر ایک طرف گر یک اور دوسری طرف خروشتی رسم خط پایا گیا ہے۔ براہمی مقامی بادشاہوں کا رسم خط تھا۔ جس طرح یودھیا قبائل کے سکوں پر فروشتی زبان پائی گئی ہے۔ لیکن کچھ مقامی اور کشان بادشاہوں کے دور میں خروشتی کے ساتھ نگاری اور براہمی رسم خط بھی پایا گیا ہے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ گر یک رسم الخط دوسری صدی قیام کے بعد سے اس علاقے کی سرکاری زبان بن چکی تھی کیونکہ ہم نے دیکھا کہ یونانی باختری بادشاہوں سے لے کر آخری کشان بادشاہ تک تمام کے سکوں کی ایک ایک طرف پر خروشتی براہمی یا نگاری ہے تو دوسری طرف گر یک زبان تحریر ہے۔ اس طرح روڑاں کے مقام سے ملنے والے تمام تر سکوں کے ایک رخ پر اگر گریک ہے تو دوسرے رخ پر زیادہ تر خروشتی زبان تحریر ہے ۔

براہمی اور نگاری زبان اس علاقہ میں بہت کم مد تک استعمال ہوتی تھی۔ واسود یو کشان کے سکوں پر گریک کے ساتھ براہمی در حالی تحریر بھی موجود ہے۔ اس کے بعد آنے والے آخری کشان بادشاہ کے دور میں جب دریائے جہلم کے دوسری جانب گپت خاندان بر سر اقتدار تھا تو گریک کے ساتھ براہمی اور نگاری زبان بھی استعمال ہوتی رہی لیکن ان سب زبانوں کے ساتھ ساتھ گر یک زبان کا استعمال لازمی رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ۸ سو سالہ دور یعنی دوسری صدی قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی عیسوی تک گر یک زبان کو اس علاقہ میں ایک مرکزی سرکاری حیثیت حاصل تھی جبکہ پانچویں صدی عیسوی کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں ہندی، پنجابی اور سرائیکی زبانیں رائج ہوئیں۔ یہ زبانیں اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔ ہندی سرائیکی اور پنجابی زبانیں پالی اور پراکرت کی دوسری شکل ہیں۔ یہ مقامی زبانیں پالی اور پراکرت کے ملاپ سے وجود میں آئیں۔ ہندی سرائیلی اور پنجابی زبانیں پالی پراکرت اور تلگو زبانوں کا جز ہیں۔ خروشتی اور براہی زبان غیر مکی حملہ آوروں کے ساتھ آئی۔ خروشتی زبان کو زیادہ تر کشان استعمال کرتے تھے اور براہمی کو یونانی اور باختری بادشاہوں کے سکوں پر پایا گیا ہے۔

ذریعہ معاش:

قدیم ہندوستانی لوگوں کا ذریعہ معاش، مویشی پالنا اورکھیتی باڑی کرنا تھا۔ سب سے پہلے وادی سندھ کے قدیم آباد کاروں نے اپنی روزی روٹی کا ذریعہ مویشی پالنے سے کیا لیکن کچھ عرصہ بعد میں کسی حدتک کھیتی باڑی بھی شروع کر دی تھی لیکن سب سے پہلے انہوں نے مال مویشی کو پالتو کرنے کا طریقہ اپنایا۔ ان قدیم آباد کاروں کا گزارانہی جنگلی جانوروں پر ہوتا تھا۔ ان جانوروں میں اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور گھوڑ اوغیرہ شامل ہیں۔ ان میں اہم ترین جانور گھوڑا ، اونٹ اور بیل وغیرہ تھے۔ ان تینوں جانوروں سے وہ لوگ دو تین کام لیتے تھے۔ ایک تو کاشتکاری، دوسرا مال برداری اور سواری جبکہ اونٹ اور گھوڑا لوگوں کی خاص سواری کیلئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ قدیم ہندوستانی قبائل مال برداری اور سواری وغیرہ کیلئے گھوڑے، اونٹ اور خچر استعمال کرتے تھے جبکہ دودھ اور گوشت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے گائے بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ رکھتے تھے ، یہ چھوٹے جانور جن میں بکری شامل تھی چھل کے اکثر علاقوں میں بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے تھے۔ ریوڑ کے ریوڑ لوگوں نے پال رکھے تھے۔

ان چھوٹے جانوروں کو سماج میں بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔ اونٹ اور بھیڑ بکری علاقہ تھل کے مشہور جانور تھے اور 19 ویں صدی عیسوی تک تھل لوگوں کا زیادہ تر گزارا اوقات انہی جانورں کو پالنے سے ہوتا رہا ہے۔ اگر ہم وادی سندھ کی قدیم تہذیب اور تاریخ پر نظر ڈالیں کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وادی سندھ کے قدیم قبائل کا ذریعہ معاش صرف کھیتی باڑی یا مال مویشی پالنا نہیں تھا بلکہ وہ لوگ بہت جلدی تہذیب سے واقف ہو چکے تھے جس کا وہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح ریاست مالوہ کے تجارتی جہاز جزیرہ نما عرب کی ریاست آگیڈ کی بندرگاہ اُر، لاگاش اور ناشا میں آکر رکھتے تھے تو اس سے معلوم ہوا کہ وادی سندھ کے لوگ مال مویشی اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ تجارت بھی ان کا اہم پیشہ تھا۔ تجارت کے ساتھ ہی یہ لوگ فن اور صنعت سے بھی واقف ہو چکے تھے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ایک ہزار سال قبل مسیح تک ان لوگوں نے فن کاری، سکہ سازی ، ہاتھی دانت کی چوڑیاں بنانا، تانبے کے زیورات اور لوہے کے اوزار بنانا سیکھ لیے تھے۔

اب آہستہ آہستہ وادی سندھ کی تہذیب ہندوستان کے دیگر مشرقی علاقوں کی طرف پھل پھیل رہی تھی اور ۷ / ۸ دیں صدی قبل مسیح تک پورا ہندوستان تہذیب کی دنیا سے آشنا ہو چکا تھا وادی سندھ اور تھل کے لوگ بھی پہلی صدی عیسوی کے شروع ہونے تک تہذیب اور فن و ثقافت کے تمام رازوں سے واقف ہو چکے تھے اور اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے مال مویشیوں کے ساتھ ساتھ کا شتکاری میں کافی حد تک مہارت حاصل کر چکے تھے۔ دریائے سندھ کے اس میدانی علاقے میں کاشتکاری شروع ہو چکی تھی جس میں گندم، چنا، باجرہ وغیرہ فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ زیادہ تر فصلیں بارانی تھیں جبکہ کچھ حد تک مقامی لوگ گندم کی فصل کو برساتی ندی نالوں سے پانی نکال کر سیراب کر لیتے تھے ۔ خاص کر ان کے لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا تھا ، اس کیلئے تقل قدیم کے قبائل اپنے جانوروں کے ریوڑوں کے ساتھ علاقے کی چراگاہوں میں پھرتے رہتے تھے اور جہاں ان کو جانوروں کیلئے چراگاہول جاتی تھی ، وہاں جھونپڑی بنا کر ڈیرہ لگا لیتے اور ایک عرصہ تک وہاں قیام کرتے ۔

اس طرح کی ہزاروں بستیاں دریائے سندھ کے مشرقی علاقہ پھل میں پائی جاتی ہیں۔ سماج میں ۵۰ فیصد لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے جبکہ ۵۰ فیصد لوگوں میں کچھ کا پیشہ تجارت اور صنعت کاری تھا۔ ایک اچھا خاصہ طبقہ جو سرداروں اور حکمرانوں کا تھا۔ ایک طبقہ جنگجو لوگوں کا بھی تھا جو علاقے کے مختلف سرداروں سے تنخواہ لیتے اور ان کیلئے لڑتے رہتے تھے۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی یک قتل کے تمام قبائل ترقی کی منزل تک پہنچ چکے تھے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ قدیم روڑاں کے مقام پر پائے جانے والے کھنڈرات میں آثار قدیمہ کے نمونے ملے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت تک لوگ کافی مالدار ہو چکے تھے ۔ یہاں سے ملنے والے آثار قدیمہ میں سکے ، تانے کے زیورات، حقیق، لاجرد کے جنگ اور مکئے، ہاتھی دانت کی چوڑیاں اور منکے وغیرہ اس بات کے مظہر ہیں کہ اس علاقے کے لوگ کافی حد تک مالدار اور خوشحال تھے۔

فن و ثقافت :

ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ وادی سندھ کے قدیم قبائل ۲۰ ہزار سال قبل مسیح سے ہی تہذیب کی دنیا میں داخل ہو چکے تھے اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں تہذیب کا ارتقا اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ باقی ہندوستان کی طرح وادی سندھ کے اس علاقے تھل، جس میں پورا میدانی علاقہ شامل تھا، کے لوگ ہنر فن اور ادب و ثقافت سے واقف ہو چکے تھے۔ علم تحریر اور رسم الخط ان لوگوں میں عام تھا۔ ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی تھیں۔ لوگ فروشتی کے علاوہ براہی اور گر یک زبان ساتھ ساتھ استعمال کرتے تھے۔ فن، کاریگری اور ہنر میں اس علاقہ تھل کے لوگ کافی تجربہ کار تھے۔ یہاں کے مٹی کے برتنوں کو وادی سندھ میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ ایک خاص قسم کے برمن یہاں تیار کیے جاتے تھے۔ قدیم روڑاں کے کھنڈرات سے ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کاریگر برتن سازی میں ماہر تھے نقش دنگار والے برتن اس علاقے میں عام طور پر تیار کیے جاتے تھے۔ برتنوں کے علاوہ مٹی کے بت اور مورتیاں جو مذہبی رسومات میں استعمال ہوتی تھیں، مقامی طور پر تیار کی جاتی تھیں۔ مٹی کے مکے اور ہاتھی ، بیل اور پرندوں کی مورتیاں بھی قدیم روڑاں کے مقام پر تیار کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ تابنے کے زیورات جن میں انگوٹھی اور چوڑیاں وغیرہ شامل تھیں، ہاتھی دانت کی چوڑیاں، مسنکے اور گلے میں پہنے والی تختیاں مقامی طور پر تیار ہوتی تھیں ۔ ان سب سے اہم کام یہ تھا کہ نولا دلو با یہاں مقامی طور پر تیار کیا جاتا تھا۔ روڑاں کے کھنڈرات سے بہت ساری بھٹیاں ملی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ لوہا مقامی طور پر تیار کیا جاتا تھا۔ ان شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کے لوگ فن، ادب و ثقافت اور مذہب سے لے کر تحریر وتعلیم، ہنر اور کاریگری ، الغرض سب کاموں سے واقف تھے۔ ہم نے دیکھا کہ برتن سازی ہو یا خام لوہے کی تیاری ، تابنے کے زیورات ہوں یا سکہ سازی کا شتکاری ہو یا تجارت ، ان سب کاموں سے تھل کے مقامی باشندے واقف ہو چکے تھے۔

نوادرات:

ہم نے ان نوادرات کا جائزہ لیا جو ہمیں روڑاں کے مقام سے ملنے والے آثار قدیمہ کے نمونے جن میں سب سے زیادہ وہ سکہ جو مقامی حکمرانوں کے نام سے جاری کیا جاتا تھا، جو مختلف دور میں اس علاقہ محل پر حکمران یا قابض رہے، اہم تاریخی ثبوت یا شہادت ہے جس کی مدد سے قدیم زمانے کی تاریخ و ثقافت سے متعلق تمام حالات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ سکہ ایک ایسی تاریخی شہادت ہے جوگزرے ہوئے زمانہ سے متعلق آگہی دیا ہے کیونکہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک ہر بادشاہ کے دور میں اُس کے نام کا سکہ جاری کیا جاتا تھا۔ ہر بادشاہ کا نام اور مرتبہ اس پر ندہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے نمبر پر وہ حریری مواد جو کتبوں کی صورت میں ہندوستان کے تمام تاریخی مقامات پر پائے گئے ہیں ، اہم شہادت گئی جاتی ہے جیسا کہ روڑاں کے کھنڈرات "بی” سے کچھ تحریر شدہ نمونے ملے ہیں۔ ساتھ ہی دیوی دیوتاؤں کے بت اور مورتیاں جو مٹی سے بنی ہوئی ہیں، جن کی تفصیل آگے آئے گی، جبکہ تابنے کے ٹوٹے ہوئے زیورات، ہاتھی دانت کی چوڑیاں، مسکے، گلے کے ہار، مٹی کے مکے، ہاتھی، بیل اور پرندوں کی مٹی سے بنی مورتیاں، لاجرد اور عقیق کے مکے اور نگ کافی تعداد میں پائے گئے ہیں۔ ان نوادرات کے علاوہ اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ لوہا اور تانبا مقامی طور پر تیار کیا جاتا تھا۔ یہ بڑی مقدار میں ملا ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ وہ فولادی کوئلہ جس میں سے لوہا اور تانبا کالا جاتا ہے، اس کیلئے قدیم روڑاں کے مقام پر سے ۶/۵ عدد بھٹیوں کے نشانات پائے گئے جہاں یہ کوئلہ پگھلایا کرتے تھے اور اس سے لوہا اور تانبا نکالتے تھے۔

سکہ جات:

قدیم تحمل کے دیگر علاقوں اور روڑاں کے کھنڈرات اور اس کے آس پاس سے ملنے والے سکوں میں بہت سارے بادشاہوں کے دور کے سکے پائے گئے ہیں ۔ روڑاں اور تھل کے دوسرے مقامات سے ملنے والے سکوں کی نوعیت بھی کچھ ایک جیسی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روڑاں کے مقام سے ملنے والے سکے تعداد میں بہت زیادہ ہیں جبکہ تھل کے باقی مقامات سے ملنے والے سکے تعداد میں کم۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روڑاں کے کھنڈرات پر قدیم زمانے میں ایک بہت پڑا شہر آباد تھا جس کو اس علاقہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی جبکہ باقی تھل کے اکثر علاقے کی آبادیاں چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل تھی جہاں سے یہ سکے ملے ہیں۔ ان کی مختصر تفصیل یہ ہے لیکن آگے ہم ان تمام سکوں کے علیحدہ نام اور تفصیل دیں گے ۔ ان سکوں میں، جو ہمارے پاس موجود ہیں، سب سے قدیم ترین سکہ یودھیا قبائل کا ہے۔ اس کے علاوہ یونانی باختری بادشاہوں میں اپالوڈوٹس، مندر، گمنام بادشاہ جسے سوٹر ٹیکس کا نام بھی دیا گیا ہے، اور ان کے علاوہ کشان بادشاه، کنشک ، ہو کشک داشکا ، واسودیو اور آخری کشان بادشاہ جس کا نام گرمیکس بھی پڑھنے میں آیا ہے، جبکہ کچھ حد تک علاقہ تھل کے مقامی سترپ یا صو بیداروں کے بھی کچھ سکے ملے ہیں جن کی تفصیل اگلے باب میں آئے گی۔

یودھیا قبائل:

یودھیا اقوام کے سکے بہت تھوڑی تعداد میں صرف روڑاں کی سائیڈ ” اے سے ملے ہیں ۔ یه قبائل ۴/۳ صدی قبل مسیح میں وادی سندھ کے ان علاقوں پر حکمران تھے جس کو ریاست و ہی کا کہا جاتا تھا۔ ان قبائل کے سکے کسی ایک نام سے نہیں، بلکہ ان اتحادی اقوام کے مشتر کہ نام سے جاری کیے جاتے تھے جن کے ساتھ ان کا اتحاد تھا یعنی یودھیا جیوی۔اس اتحادی سکے پر ایک طرف اتحادی قوم کا مشترکہ نشان تھا جس میں ایک سپاہی دائیں ہاتھ میں نیزہ لیے کھڑا ہے۔

اپالوڈوٹس:

قدیم روڑاں اور علاقہ تھل میں پائے جانے والے سکوں میں سب سے قدیم سکہ اپالو ڈوٹس یونانی باختری بادشاہ کا ہے۔ وہ تقریبا ۱۵۵ / ۱۶۰ ق م کے قریب مغربی پنجاب تھل کے علاقوں پر حکمران رہا۔ یہ سکہ تمام سکوں سے سائز میں بڑا ہے۔ اس کا وزن ۲۵۵ گریس یونانی کے برابر ہے۔ سکہ کی ایک سائیڈ پر بادشاہ کی مورتی کے ساتھ گر یک زبان میں بادشاہ کا نام جبکہ دوسری سائیڈ پر خروشتی تحریر موجود ہے۔

گم نام بادشاہ سوٹر میگس :

یہ بھی یونانی باختری النسل بادشاہ تھا اور یوکرے ٹائیڈ کی فوج کا افسر تھا۔ یہ اپالوڈوٹس کے بعد مغربی پنجاب تھل“ کا حاکم بنا۔ سوٹر میگس کے سکے بھی کافی تعداد میں تھل کے علاقے سے ملے ہیں۔ وزن اور سائز میں اپالوڈوٹس کے سکوں سے تھوڑے کم ہیں۔ سکے کی ایک سائیڈ پر بادشاہ کی آدمی مورتی ہے جبکہ دوسری سائیڈ پر بادشاد گھوڑے پر سوار ہے اور گر یک رسم الخط میں بادشاہ کا نام تحریر ہے۔

کنشک :

یوچی قبائل میں پہلا بادشاہ کنشک تھا جس کے سکے روڑاں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پائے گئے ہیں۔ یہ سکہ وزن میں ۱۲۲ تریس کے برابر ہے۔ ایک سائیڈ پر خود بادشاہ کی مورتی اور گریک زبان میں بادشاہ کا نام تحریر ہے جبکہ دوسری سائیڈ پر آرتھو شو آگ کی دیوی پنی ہے جس کو وہ پوجا کیا کرتے تھے۔ ساتھ گر یک زبان میں کندہ الفاظ انگریزی کے حروف (AQPO) سے ملتے جلتے ہیں جبکہ کنشک کے کچھ سکے جو شمالی گندھارا یا کابل کے علاقوں میں رانج رہے، ان پر مختلف مذہبی نشانات پائے گئے ہیں۔ ایک سکہ جو دوسرے سکوں میں سائز میں چھوٹا ہے، ایک رخ پر بدھ کی مورتی موجود ہے اور گریک میں (Boddo) تحریر ہے جبکہ ایک دوسرے سکہ پر آڈو دیوی کی مورتی اور گریک میں نام (oado) تحریر ہے جبکہ ایک اور سکہ بھی ملا ہے جس پر نو وشوا اور شود ادشنو دیوتا کی مورتی اور نام درج ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کنشک نے سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور تمام علاقوں کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا اور ہر علاقے کے مذہبی رنگ میں خود کو ڈھال لیا۔

ہو کشک، داشک:

ہوشک کشان بادشاہ کے سکے بہت کم تعداد میں روڑاں کی سائیڈ اے سے ملتے ہیں جو دوسرے مرکزی سکوں سے بہت مختلف ہیں۔ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ ان کی نشاندہی کرنا بہت مشکل ہے لیکن ہو شک کنشک کے بعد اقتدار میں آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی کے اول میں جنوبی مشرقی علاقوں کا حکمران تھا جبکہ واسودیو کے سکے روڑاں کی ”جی سے بہت زیادہ تعداد میں ملے ہیں۔ ان کا وزن ان کا ۱۲۲ گریس ہے اور ان میں کچھ بالکل اچھی حالت میں پائے گئے ہیں۔ ان کی نشاندہی سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ فرنٹ پر کنشک بادشاہ کی مورتی اور گریک میں نام تحریر ہے جبکہ بیک سائیڈ دوسرے کشان بادشاہوں سے مختلف ہے جو وشنود ہوتا اپنے بیل نندی کے ساتھ مورتی نقش ہے اور یونانی بیکٹیرین زبان میں نام تحریر ہے۔ جو سکہ واسودیو کاروڑاں کے کھنڈرات سے ملا ہے، اس کی ایک پر شواد یو کی مورتی ہے۔ اس کے نندی بیل کے ساتھ پائی گئی ہے اور یونانی زبان میں کچھ الفاظ بھی تحریر ہیں۔

آخری بادشاہ:

آخری کشان بادشاہ کے مختلف نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک نام گریس کا ہے۔ وہ کشان بادشاہ تھا جس نے ۵ویں صدی عیسوی میں ہندوستانی فوج کی کمان کرتے ہوئے ایرانی بادشاہ کی فوجی مہم میں آمدہ کے مقام پر رومی فوج کا محاصرہ کیا۔ آمدہ کا وسیع وعریض قلعہ جو دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر واقع تھا جبکہ دوسرا نام کٹیلاگ میں تحریر (kipanada) ہے۔ فرنٹ پر دوسرے کشان بادشاہوں کے سکوں کی طرح بادشاہ کی مورتی اور گر یک زبان میں نام تحریر ہے جبکہ بیک پر آر خوشود یوی اور نگاری زبان میں تحریر موجود ہے۔ یاد رہے کہ آخری کشان بادشاہوں میں ایک سے زائد لوگوں کے حکمران ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ ان تمام حکمرانوں میں ایک سربراہ تھا جن کا نام سکوں میں کندہ ہے۔ اس کے نام (Latadas-kushan) کا سکہ چلتا تھا جو سونے اور چاندی کی دھات سے بنے ہوئے تھے۔ اس بادشاہ کے نام کا ایک سونے کا ایک سکہ بھی روڑاں کے مقام سے ملا جس کا وزن آٹھ گرام تھا اور یہ خالص سونے کا تھا۔ اس کی تفصیل مونوگرام میں آئے گی۔

سترپ یا صوبیدار:

روڑاں اور گردو نواح کے علاقے تھل میں ایک سے زائد مقامی سرداروں کے سکے بھی ملے ہیں جن میں کچھ سکے تو واسودیو سے مشابہت رکھتے ہیں جبکہ باقی پر مختلف نشان ہیں۔ سٹار کی طرح کے سکے جو وزن میں بہت کم ہیں اور ساخت ادر سائز میں چھوٹے جیسے پاکستانی روپیہ ہے، ملے ہیں۔ یہ سکہ مقامی طور پر تیار کیا جاتا تھا اور مقامی سطح پر لوگ ان سے لین دین کیا کرتے تھے۔ یہ کہ کہیں گو تو کہیں مربی شکل میں ہوتا تھا جو ریاست سیٹھیا کے ہندی، یونانی باختری اور پارتھی سرداروں کے علاقوں میں رائج ہوتا تھا۔ یعنی اس کرنسی کو آپ دوسرے لفظوں میں جعلی کرنی بھی کہہ سکتے ہیں۔

سکندر گپت:

سکندر گپت ایک مقامی ہندو راجہ تھا جس نے ایک عرصہ کے بعد اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملی ہوئی سلطنت کو وسعت دے کر ہندوستان کے اکثر علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ گورے ہنوں کا پہلا حملہ جس میں دریائے سندھ کے مشرق کے تمام علاقے ”تھل“ اور گندھارا ٹیکسلا تک تباہ کر دیے گئے ، اس عہد میں ہوا۔ جب ان حملہ آوروں نے دریائے چناب کو پار کیا تو ان کا راستہ ہندوستانی راجہ سکندر گپت نے روکا جس پر ان کو شکست خوردہ ہو کر واپس لوٹنا پڑا ۔ اس کے بعد ۵۰۰ ء تک شمال میں ٹیکسلا، پشاور اور مغرب میں دریائے سے آگے کے علاقوں کو اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس ہندی بادشاہ کے سکے زیادہ تر منکیرہ اور پٹی بلندہ کے علاقہ جو روڑاں سے تقریباً دس کلومیٹر مغرب میں واقع ہے، ملے ہیں۔ ان علاقوں میں کافی قدیم آبادیوں کے آثار اور کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ ان میں دو مختلف اقسام کے سکے پائے جاتے ہیں۔

دیوی دیوتا کے بت اور مورتیاں :

بت اور مورتیاں تقریبا چارقسم کی پائی گئی ہیں جو زیادہ تر روڑاں کے کھنڈرات سے ملی ہیں۔ تمام مورتیاں مقامی طور پر سرخ مٹی سے بنی ہیں اور سائز میں چھوٹی ہیں۔ یہ صرف چہرے اور گردن تک ہیں۔ ان میں کشمی آرد خشو، آرتھو شود یوی ، وشنو ، شوا دیوتا کی مورتیاں شامل ہیں۔ حیوانوں کی مورتیاں : ہندومت کو مانے والے ان کو مقامی طور پر تیار کرتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔

حیوانوں کی مورتیاں:

بیل، ہاتھی اور گھوڑے کی مورتیاں بھی روڑاں کی کھنڈرات میں پائی گئی ہیں۔ یہ مورتیاں بھی مقامی سطح پرسٹی سے تیار کی جاتیں تھیں۔ ان کے علاوہ کچھ پرندوں کی ٹوٹی ہوئی مورتیاں بھی ملی ہیں جن میں ممکن ہے کہ کوے اور کبوتر کی مورتیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں بیل کو ہندو مذہب میں خاص مقام حاصل تھا۔ واسود یو کشان کے سکوں پر وشنو دیوتا کے ساتھ نندی بیل کی تصویر پائی گئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بیل ہندو مذہب میں ایک مذہبی علامت سمجھا جاتا تھا جبکہ گھوڑا اور اتھی ممکن ہے کہ جنگجو سرداروں یا شہ سوار طبقہ کی علامت ہو یا بطور نمائش ان کی مورتی بنائی گئی ہو۔ اسی طرح کوئے اور کبوتر کی مورتی بھی کسی خاص مقصد کے لیے تیار کی جاتی تھی۔ یہ سب کی سب مورتیاں خالص مٹی سے مقامی سطح پر تیار کی جاتی تھیں اور ممکن ہے کہ یہ مورتیاں دوسرے علاقوں یعنی مشرقی ہندوستان میں سپلائی بھی کی جاتی ہوں۔ علاقہ تھل میں مٹی کے علاوہ خام پتھر یا چونے کی بنی مورتیاں کہیں نہیں ملیں۔ یہاں صرف مٹی سے تیار کی ہوئی مورتیاں پائی گئی ہیں۔

مٹی کے برتن اور اوزار :

روڑاں کے کھنڈرات سے تین چار قسم کے ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے ملے ہیں۔ ان میں سیاہ پالش والے، سرخ، روغنی، پتھری چورا اور مٹی کے برتن شامل ہیں۔ سیاہ پالش والے برتنوں کے ٹکڑے کم تعداد میں ملے ہیں۔ یہ اکثر روڑاں کی سائیڈ اے پر پائے گئے ہیں۔ یہ سیاہ پاشی برتن یونانی تہذیب کا حصہ ہیں اور قدیم زمانے میں استعمال ہوتے تھے۔ سر مور ٹیمر وھیلر کے مطابق سیاہ پاشی برتنوں کی خصوصی صنعت انفرادی انداز میں لگ بھنگ ۵۰۰ قبل مسیح سے بھی پہلے ہندوستان کے شمالی اور مغربی میدانوں میں پہنچ چکی تھی ۔ چھٹی صدی قیم کے نصف تک سلطنت فارس کی توسیع سے اور اکائمیتی بادشاہوں نے مغربی ہند کے سرحدی علاقوں میں جو بستیاں بسائیں، ان کی وجہ سے نئے طریقوں اور تکنیک سے شمالی سیاہ پالش والے مٹی کے برتنوں کی صنعت وجود میں آئی۔ یہ وہ دور تھا جب ایرانی شہنشاہ دارا کی فوج جس کی کمان رستم کر رہا تھا، ایک عرصہ تک مغربی ہند یا پنجاب کے میدانی علاقوں پر قابض رہی۔ میرے خیال میں سیاہ پاشی برتنوں کی صنعت دارا سے پہلے اکائیتی بادشاہ سائرس اعظم کے ہندوستان پر قبضے کے وقت سے یہاں قائم ہو چکی تھی۔

پتھری چورا:

یہ نمونہ بھی مغربی تہذیب کا حصہ لگتا ہے ۔ ممکن ہے کہ بہت کم تعداد میں ہونے کی وجہ بھی یہی . ہ کہ یہ پتھری چوراہے برن کسی مغربی حملہ آور کی مد کے ساتھ ساتھ یہاں تک پہنچے ہوں لیکن ان یسے برتی اس علاقے میں تیارنہیں ہوتے تھے ۔ جس طرح مقامی سطح پر سرخ اور روغنی برتن کافی مقدار میں تیار کیے جاتے تھے، ان کے مقابلے میں سیاہ پاشی اور سفید پتھر کی چورا ملے برتن بہت کم تعداد میں پائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے برتن کسی مغربی حملہ آوروں کے ساتھ ایک مختصر وقت کے لیے آئے ہوں اور جب وہ حملہ آور واپس گئے تو یہ سیاہ پاشی یا سیلوی جنگ کے برتن بھی بند ہو گئے۔

سرخ روغنی برتن :

یه سرخ روغنی بر تن خالصتاً مقامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان برتنوں میں استعمال ہونے والی مٹی کو ایک خاص طریقے سے فلٹر کر کے اس میں سے ریت کو نکالا جاتا تھا۔ یعنی ایک گڑھا کھود کر اس میں مٹی بھر کر اوپر پانی سے بھر دیا جاتا تھا۔ جیسے جیسے پانی خشک ہوتا رہتا تو ریت نیچے اور ٹی او پر تبہ بنالیتی تھی۔ مزید پانی خشک ہونے کے بعد ریت کے اوپر سے مٹی کو علیحدہ کرلیا جاتا تھا۔ اس طرح سرخ مٹی کو سفید اور سیاہ ریت سے علیحدہ کرنے کے بعد پھر سے مٹی تیار کر کے برتن بنائے جاتے تھے۔ کچی مٹی کے برتن تیار کرنے کے بعد ان کے اوپر آدھے حصہ پر سرخ روغن کے ساتھ نقش نگاری کی جاتی تھی۔ مختلف قسم کے نقش و نگار جو تصویر میں نظر آرہے ہیں، ان کو آگ میں پکایا جاتا تھا۔ ان میں ہر قسم کے برتن شامل تھے۔ بت اور مورتیاں بھی اس مٹی سے تیار کی جاتی تھیں ۔

برتن سازی ایک صنعت:

برتن سازی کو تہذیب وادی سندھ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ جب سے انسان نے سماجی اور تہذیبی زندگی کا آغاز کیا تو انسان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین کام بہت ضروری تھے۔ ان کے بغیر انسانی زندگی تہذیبی منازل طے نہیں کر سکتی تھی ۔ ان میں ایک برتن سازی، دوسرا مال مویشی پالنا اور تیسرا کا شیکاری تھا۔ چونکہ انسان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اناج کی ضرورت تھی، اس لیے کا شیکاری بہت اہمیت رکھتی تھی ۔ دودھ، گوشت اور کاشتکاری کے لیے جانوروں کی ضرورت اہم تھی۔ اس کے لیے مویشی پالنا بہت ضروری تھا۔ قدیم ہندوستانی لوگ مال مویشی بہت زیادہ تعداد میں پالتے تھے ۔ جبکہ تیسری گھر یلو ضروریات کے لیے برتنوں کا استعمال بھی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے زمانہ قدیم میں صرف مٹی کے برتن ہی استعمال کیے جاتے تھے۔ قدیم ہندوستان میں مٹی کے برتنوں کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ مٹی کے برتن کا رواج عام تھا اور یہ بہت زیادہ مقدار میں تیار کیے جاتے تھے۔ اس لیے برتن سازی کو ایک صنعت کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا ایک ثبوت مہا بھارت کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے جس میں قدیم زمانہ میں ایک کمہار کا ذکر ملتا ہے جس کی مٹی کے برتنوں کی صنعت تھی اور اس کے پاس پانچ سو مزدور کام کرتے تھے جبکہ اس کا ایک اور ثبوت جو روڑاں کے کھنڈرات سے ملا ہے، وہ ایک مٹی کا اوزار ہے جس کو مقامی زبان میں ” کو نیرہ” کہا جاتا تھا۔ یہ مٹی کا کو نیرہ کمہار کا ریگر برتن بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس قسم کے کو تیرے مقامی کاریگروں کے استعمال میں بھی ہوتے تھے جو کہ کچھ تعداد میں روڑاں کے کھنڈرات سے ملے ہیں۔ ان کو نیروں پر خروشتی زبان میں مخصوص الفاظ بھی نقش کیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کے برتن سازی ایک صنعت تھی اور با قاعدہ مقامی حکومت ان سے ٹیکس لیتی تھی اور ان کی رجسٹریشن بھی ہوتی تھی۔

مٹی کے منکے :

سیہ منکا نما گول چہوترا جس کی اوپر کی سطح اندر کو دھنسی ہوئی جبکہ نچلی سطح باہر نکلی ہوئی ہے۔ گول منکا نما شکل کے درمیان میں سوراخ پایا گیا ہے۔ یہ منکا بڑے سائز کا ہے، تقریب ۳۸ گرام اس کا وزن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ منکا کسی اور کام کے علاوہ گلے کے بار میں استعمال ہوتا ہو۔ یہ خالص سرخ اور سفید رنگ کی مٹی سے بنا ہے۔ یہاں عام اور خاص قسم کے منکے بھی پائے گئے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں عام لوگوں کے ساتھ کچھ امیر گھرانے بھی ایسے مٹی کے منکے گلے کے بار میں استعمال کرتے تھے۔ اس لیے دو قسم کے منکے بنائے جاتے تھے۔ یہ مسکے سیکڑوں کی تعداد میں پائے گئے ہیں۔ ایک اور بات جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مٹی کے مکے صرف مگر قدیم رواں
کے مقام پر آباد لوگ استعمال کرتے تھے۔ یہ منکے کسی اور جگہ سے دریافت نہیں ہوئے۔

زیورات:  

روڑاں کے آثار قدیمہ میں ایک سے زائد نمونے پائے گئے ہیں جن کی تفصیل پہلے آچکی ہے۔ ان آثار قدیمہ کے نمونوں میں کچھ زیورات تو زنگ شدہ صحیح حالت میں ہیں جبکہ کچھ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ان میں تانبے اور تھوڑی مقدار میں ہاتھی دانت سے بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو ہاتھی دانت سے بنے زیورات ہیں، وہ چوڑیاں ،کنگن ٹوٹے ہوئے جبکہ مکے اور تختی وغیرہ اصل حالت میں پائے گئے ہیں۔ ہاتھی دانت کے علاوہ تانبے سے بنے زیورات کی تعداد زیادہ ہے جن میں چوڑی، چھلا، انگوٹھی اور گلے کی تصویر نماتختی چوڑی اور انگوٹھی اکثر زنگ شدہ ٹوٹی ہوئی ہیں۔ انگوٹی کی اوپر والی جگہ پر نقش نگاری کے علاوہ کہیں کہیں مسخ شدہ تحریریں معلوم ہوتی ہیں۔ تانبے کی انگوٹھی اور چھلا ہر سائز میں بچے بڑے اور عورت تمام استعمال کرتے تھے۔ ان میں ممکن ہے عام و خاص کا فرق ضرور حائل ہوگا ۔ ان زیورات میں مٹی کا بڑے سائز کا منکا جو بہت زیادہ تعداد میں پایا گیا ہے ممکن ہے تمام لوگ یا مزدور لوگ یا مزدور طبقہ کی عورتیں مجھے کے ہار پہنتی ہوں گی۔

نگینه ( پتھر کے منکے ):

گینہ جو خاص کر انگوٹھی اور گلے کے ہار میں استعمال ہوتا ہے، اس میں دو قسم کے پتھر دریافت ہوئے ہیں۔ ایک لاجر و جبکہ دوسرا عقیق ۔ ان کے علاوہ بہت تھوڑی تعداد میں نیلے اور سرخ لال رنگ کے چھوٹے ملکے بھی پائے گئے ہیں۔ ان کی شناخت تو نہیں ہو سکی ممکن ہے کہ لال سرخ یا قوت اور نیلے نیلم پتھر ہوں ، مگر عقیق اور لاجرد کے چھوٹے اور بڑے منکے بہت زیادہ تعداد میں ملے ہیں۔ لاجد کا تو ایک ہی رنگ ہے جبکہ تحقیق دو تین رنگوں میں ملا ہے۔ لال اور سفید۔ یہ سب کے سب مکے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گلے میں منکوں کا ہار پہنے کا رواج عام تھا۔ لوگ اپنی بساط کے مطابق پتھر، ہاتھی دانت اور مٹی کے منکوں کے ہار استعمال کرتے تھے۔ حقیق اور لاجرد کے علاوہ ہاتھی دانت اور مٹی کے سکے بھی بہت زیادہ تعداد میں پائے گئے ہیں۔ یہ گول اور بڑے جبکہ ہاتھی دانت کے منکے چھوٹے ہیں۔ لاجرد کے مکے گول ، چورس، چھوٹے اور بڑے سائز میں لیکن حقیق کے مکے گول اور چھوٹے بڑے سائز میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھی دانت کی گول اور چورس گلے کے بار میں استعمال ہونے والی تختی جس کے درمیان میں کہیں ایک تو کہیں دو سوراخ ہیں بھی ملی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منکوں کے ساتھ ساتھ گلے کے ہار میں یہ تختی استعمال کی جاتی تھی لیکن انگوٹھی میں استعمال ہونے والے حقیق اور لاجرد کا کوئی خاص نگینہ نہیں ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے پتھر کو گلے کے ہار میں استعمال کرتے تھے نہ کہ انگوٹھی میں ۔

چوڑی یا انگوٹھی:

یہ زیورات زیادہ تر تانبے میں پائے گئے ہیں۔ ان میں زنگ شدہ ٹوٹی ہوئی چوڑی کم اور زیادہ تر انگوٹی اور گول چھلے زیادہ ہیں۔ قدیم مگر روزاں کے باشندے تانبے کی انگمونھی کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ اس کی اوپر کی سائیڈ گول اور چورس جس پر کچھ نقش نگاری یا تحریر نقش ہوتی تھی۔ اب جو ہمارے پاس اس کے نمونے موجود ہیں، وہ بالکل ٹوٹے ہوئے زنگ شدہ ہیں جن کی شاخت کرنا کافی مشکل ہے۔ جو نو اور ہمارے پاس موجود ہیں، ان کو صاف کر کے تصویر جاری کی ہے۔ تانبے کے علاوہ ہاتھی دانت کی چوڑی کا رواج بھی ہندوستان کے قدیم باشندوں میں عام تھا۔ اس کا ذکر تہذیب وادی سندھ کے باب میں ہم کر چکے ہیں۔ باقی ہندوستان کی طرح مغربی ہند کے ان علاقوں ریاست و بیکا یا سیتھیا قدیم تھل کے باشندے بھی ہاتھی دانت کی چوڑی اور کچھ دوسرے زیورات جن میں مسکے وغیرہ شامل تھے ، کا استعمال کرتے تھے۔

اوزار

روز مرہ میں استعمال ہونے والے اوزاروں میں مٹی اور پتھر دونوں قسم کے نمونے ملے ہیں۔ اس میں برتن ، مٹی کا کونیرا جس کے ذریعے برتن کو اندر سے برابر کیا جاتا ہے، بات وزن کرنے والے میر ، آدھا سیر، پاؤ یا آدھ پاؤ، یہ سب کے سب پتھر کے ہیں۔ ان کا وزن پاؤ دوسو گرام کے برابر ہے جو ممکن ہے کہ یونانی گریس کے برابر ہو ۔ باٹ گول پتھر کے ہیں جو چھوٹے اور بڑے سائز میں موجود ہیں او معلوم ہوتاہے کہ یہ بات یونانی گریس میں میں ممکن ہے کہ اس زمانے میں ناپ تول یونانی گریس میں ہوتا ہو کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ سکوں کا وزن یونانی گریس کے مطابق تھا۔ کو تیرا ایک ایسامٹی کا اوزار ہے جو مٹی کے برتن بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کو برتن بنانے والے کاریگر استعمال کرتے تھے۔ یہ گول مٹی کا ایک ڈھیلا ہے مگر ایک لحاظ ۔ اہمیت کا حامل ہے۔ کاریگر اس اوزار کی مدد سے نرم مٹی کے برتن کو گول اور اس کو باریک کرتے تھے۔ دوسرا یہ گول کو نیا اس لیے اہم ہے کہ قدیم زمانے میں برتن سازی کو صنعت کی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے اس کو نیا پر برتن بنانے والے مالک یا فرم کا نام ( کوڈ ) تحریر ہے۔ اس پر خروشتی زبان کے تین حرف پائے گئے ہیں۔ جیسے آجکل انگلش میں CCB-BBC وغیرہ۔ اسی طرح کے تین حرف اس مٹی کے ڈھلے پر نقش ہیں۔

خام لوہا :

روڑاں کے کھنڈرات سے پتھر نما سیاہ رنگ کے ٹکڑے جو لو ہے سے ملتے جلتے ہیں، بہت زیادہ مقدار میں پائے گئے ہیں۔ جب ان پتھر یا لو ہے نماٹکڑوں کو اکٹھا کیا گیا تو ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ پتھری کوئلہ ہے جس سے لو ہا تیار کیا جا تا تھا۔ ان سیاہ ٹکڑوں کو آگ میں گرم کرنے اور الیکٹرونکس ویلڈنگ راڈ کے ذریعے سے گرم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ واقعتا خام لوہا ہے جو درآمد شدہ پتھری کوئلہ سے مقامی طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ان مقامات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یلو با تیارکیا جاتا تھا۔ ان پتھری سیاہ کوئلوں کو برتن پکانے والی بھٹی ، جو زمین میں گڑھا کھود کر بنائی جاتی تھی ، میں استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک کونے میں کوئلہ رکھ کر اوپر آگ ڈال دی جاتی تھی۔ یہ کوئلہ کئی دن تک آگ میں رہتا تھا پھر مقررہ وقت پر سیاہ لوہے کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ جس کو ممکن ہے کہ بعد میں دوبارہ کسی دوسری دھات کے ہاتھ شامل کر کے زم کیا جاتا ہولیکن اس سے آگے معلوم نہیں کہ ان سیاہ ٹکڑوں کو کہاں اور کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ خالص لوہا تیار کیا جاتا تھا یا صرف اس خام مال کو باہر کے علاقوں میں برآمد کیا جاتا تھا، علم نہیں ہو سکا ۔ تحقیق شدہ بات ہے کہ کوئلے سے لوہا تیار کرنے کی صنعت یہاں موجود تھی۔ اس کو گلے کو زمین کے اندر گڑھے میں بند کر کے پگھلایا جاتا تھا۔ پگھلا ہوا کوئلہ (لوہا) کافی مقدار میں پایا گیا ہے۔

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com