تھل:وادی سندھ اور تہذیبیں
تہذیب کا اصل ترین مفہوم شہروں میں رہنے کا طور طریقہ اور اس سے وابستہ سماجی زندگی ہے۔ زندگی کا وہ فن جس کا نمونہ وہ دیہات ہیں جو تین چار ہزار قبل مسیح تک عراق کی پہاڑی علمیوں اور اس کے جنوب میں دریائے دجلہ و فرات کے کناروں پر آباد تھے، یا پھر کوہ ہمالیہ کے جنوب میں واقع دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ میانوالی ،بھکر، لیہ، جھنگ اور مظفر گڑھ تک پھیلے ہوئے تمام چھوٹے بڑے شہر اور دیہات تھے جن میں ہڑپہ، موہن جو دڑو اور قدیم روڑاں شامل ہے، جن کے کھنڈرات پورے محل میں پھیلے ہوئے تھے۔ جبکہ ایک بڑا قصبہ جو مغربی ترکی میں کوئنہ کے پاس چنتال ہیوک کے مقام پر لے ہزار سال قبل مسیح یا اس سے بھی پہلے آباد تھا لیکن اس سے پہلے صرف جریکو ہی وہ قدیم ترین شہر تھا جو اردن کی خشک وادی میں آباد تھا جس کے دفاعی انتظامات کے لیے ایک لمبی چوڑی دیوار اور چٹان کو کاٹ کر بنائی گئی خندق کی وجہ سے اس شہر کو دوسرے شہروں سے ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ جریکو کے مقام پر کھدائی کے وقت کاربن چودہ سے تحقیق کے مطابق جو عہد یا تاریخ متعین کی گئی ، اس کے مطابق یہ شہر لگ بھگ ۸ ہزار سال قبل مسیح میں آباد تھا اور یہ شہر دس بارہ ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔
اسے ایک دل پسند چشمے کے کنارے آباد کیا گیا۔ سرمور یٹر وہیلر کے مطابق وہاں آبادلوگوں نے اپنی معاشی اور جانی حفاظت کے لیے تمام ضروری انتظام کر لیے تھے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بقول مورخین تہذیب کا طلوع میسو پوٹیمیا اور سندھ کی وادی میں برابر ۳/۴ ہزار جبکہ ایک دوسرے اندازے کے مطابق ۷ / ۸ ہزار آبادی – سال قبل مسیح سے شروع ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ وادی سندھ اور میسو پوٹیمیا کی تہذیبوں کا آپس میں کتنا تعلق تھا۔ اس رشتہ کو واضح کرنے کے لیے ہم کچھ قدیم تحریری حوالوں کا ذکر کرتے چلیں کہ تہذیب میسو پوٹیمیا جس کو تہذیب دجلہ فرات بھی کہا جاتا ہے، وہ اہم مطالعہ جس میں ارک عہد کہ ایک ۳۵۰۰/۳۰۰۰ سال قبل مسیح میں اس وقت مذہبی اور ذاتی معلومات اور حساب کتاب مٹی کی کیسے کرے تختیوں پر کنندہ یا دیگر طور طریقوں میں رکھا جاتا تھا۔
یہ ماقبل تاریخ کا رنامہ تھا جس میں لوگ ابھی تک علم وفن کے شعور تک نہیں پہنچ پائے تھے۔لوگ اس وقت تک اپنی روز مرہ زندگی کے حالات اور حساب کتاب زبانی یا عقلی یاداشت کے مدد آپ ذریعے سے کرتے تھے۔ ایک عہد اور تہذیب میسو پوٹیمیا کے ساتھ ساتھ ۵/۴ ہزار سال قبل کیا وابستگی او تک وادی سندھ کی تہذیب بھی اپنے شعور کو پہنچ چکی تھی ۔ کوہ ہمالیہ کے نیچے جنوب کے میدانوں اور دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ جنوب میں سمندر تک پھیل چکی تھی۔ یہ ۴ ہزار سال قبل مسیح کا زمانہ تھا جب وہ جنگلی اور خانہ بدوش انسان شہری اور سماجی زندگی کے فن کو حاصل کر چکے تھے۔ ہم نے یہاں تہذیب وادی سندھ کے آغاز اور اہمیت کا جائزہ لینے کے لیے اس کے ساتھ ظہور پذیر ہونے والی دوسری تہذیبوں کا ایک مختصر حوالہ دیا ہے کہ کس طرح ان دونوں تہذیبوں اور ان کے باسیوں کا آپس میں رشتہ اور تعلق لین دین تھا۔ وادی سندھ سے پہلے میسوپو ٹیمیا کی تہذیب اپنی ارتقائی زندگی کا سفر طے کر چکی تھی کیونکہ ایک فرق ضرور تھا وادی دجلہ اور فرات کی سرزمین پر انسانی زندگی اس وقت سے وجود میں آئی یعنی اللہ تعالی نے حضرت آدم کو معبوث فرمایا۔
اس لیے یہ سرزمین انبیاء کے مبارک قدموں کی وجہ سے تمام دوسرے علاقوں کی نسبت فن و ثقافت کے میدان آسے تھی لیکن وادی سندھ کی تہذیب بھی اس زمانے سے بھی پہلے تک کئی فنی اور ثقافتی کارنامے سر انجام دے چکی تھی۔ اس لیے کہ عرب کے مخطے اور وسط ایشیاء کے علاقوں میں پیغمبروں پر اللہ کی طرف سے بھیجی گئی تعلیمات کے نزول کی وجہ سے ان علاقوں میں تہذیب اور علم وفن عام ہوتا رہا۔ ہر نبی کے دور میں دینی تعلیمات کے علاوہ دنیاوی تعلیم کو بھی فروغ ملتا رہا جبکہ ان تمام واقعات کو تاریخ و شریعت کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا جو کافی حد تک مستند بھی تھا لیکن دوسری طرف وادی سندھ کی تہذیب کا جنم ایک ایسے وقت اور خطے میں شروع ہوا جو اس سے پہلے ممکن ہے کہ ایک ویران جنگل ہو اور انسانی زندگی کا کہیں دور دور تک نام و نشان ہی نہ ہو لیکن وادی
سندھ کی فن و تہذیب سے متعلق جو شہادتیں ملتی ہیں ان کی نوعیت خاصی واضح ہے۔ اس تفصیل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بس اتنا مختصر لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ کم و بیش ۴ ہزار سال قبل مسیح تک سندھ کی وادی شہری اور سماجی زندگی کی آماجگاہ بن چکی تھی کیونکہ ایران کی سطح مرتفع میں سیدھے اوپر کی طرف اُٹھتے ہوئے پہاڑ اور ان کے نیچے دونوں جانب دجلہ اور فرات کی وادی ہو یا پھر کوہ ہمالیہ کے نیچے جنوب میں دریائے سندھ کی وادی، ان میں مختلف معاشرے کے لوگ آباد تھے۔
ان کا آپس میں کہیں نہ کہیں ضرور تعلق تھا اور ان کے در میان آمد ورفت اور تجارت کا سلسلہ بھی قائم تھا جو ایک دوسرے کے درمیان مالی تجارت کی صورت میں تھا۔ ہم اس تجارت اور آمدورفت کے بارے میں کچھ اہم اور ضروری معلومات کا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری دلیل کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہو جائے کہ کس طرح مغربی خلیج فارس کے راستہ سے ان دونوں تہذیبوں کا آپس میں رشتہ اور لین دین اور تجارت تھا۔ جنوبی ایشیا کی اس بات کی وضاحت کے لیے ہم نے ان تحریروں کو بیان کیا کہ کس طرح منی یا پیکانی تحریر تہذیب کی ؟ (CUNEIFORM) میں اس کی وضاحت موجود ہے جبکہ میری اور آکا دی تحریری دستاویزات میں بھی ایک محلہ جس کا نام دلمن اور مین تحریر ہے، کا ذکر ایک غیر ارضی بہشت کے نام سے کیا گیا سال قیام میں ہے کہ ایک ایسا مقام جہاں سے سورج نکلتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطے میر کے مشرق میں واقع تھے۔ ان تحریروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دلمن کا جہاز ۲۴۵۰ ق م سے بھی پہلے تک لاگاش کے شہروں اور نانشے سے عمارتی لکڑی لاتا تھا جبکہ اس سے ایک صدی قبل سرگوں اعظم نے اپنی تحریر میں بیان کیا ہے کہ دلن، ما گانہ اور میلوبہ سے آئے جہاز اس کی نئی راج دھانی تین مرتبه به ریاست آگیڈ کی بندرگاہ پر ٹھہرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ آگئیڈ کس مقام پر آباد تھا؟ اس کے متعلق ایم۔ای۔ایل میلون کا بیان ہے کہ یہ شہر بابل کے نواح میں واقع تھا اور یہ تینوں شہرار، لاگاش اور نانئے اس ریاست کے اندرآباد تھے جس کا دارالسلطنت آگیڈ تھا۔ یہ ریاست موجودہ عراق اور اس کے گردو نواح کے علاقوں شفیع صاح پر مشتمل تھی جبکہ دین اور مسلیمن جسے عام طور پر جزیرہ نما بحرین کو قرار دیا گیا ہے، لیکن ایس۔ این کریمہ نے دلہن کو سندھ کا خطہ مانتا ہے اور میرے خیال کے مطابق بھی دلسن نام کی بندرگاہ پاک ایران سرحد کے قریب واقع تھی جہاں مشرقی ہند سے آنے والے جہاز ٹھہرتے تھے۔ وہاں سے آگے مغرب کی طرف چل کر آگیڈ کی بندرگاہ موجودہ عراق کے جنوبی ساحل پر بصرہ کے قریب کیا ، ان واقع تھی جبکہ دیگر دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلو بہ جنوبی مغربی ہند کے ان علاقوں کا نام تھا جہاں تہذیب وادی سندھ کا ارتقا ہوا اور جہاں موہنجودڑو آباد تھا، جہاں سے ۲ ہزار سال قبل مسیح میں میلوہا سے تاجر سونا، چاندی، تانبہ، سنگ لاجواد کے ٹکڑے، پتھر اور ہاتھی دانت کے سکے، کنگھے، کہنے کے نمونے کا جل، لکڑی اور شاہد موتی، مچھلی کی آنکھیں ایک شہر میں لاتے تھے جو میسو پوٹیمیا کے علاقے کا مرکزی شہر تھا۔
یہ تمام سامان وادی سندھ کی تہذیبی ترقی کی مثال تھا جوار اور آ گیڈ تک پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری شہادتیں ان دونوں تہذیبوں کے تعلق کے لیے موجود ہیں جبکہ ایک شہادت یہ بھی ملی ہے کہ بلوچستان کے جنوب میں سمندر کے قریب لول کے مقام پر کھدائی کے دوران کچھ صابونی پتھر کی گول مہریں ملی ہیں جو سندھ تہذیب کی مہروں سے ہلکی سی مشابہت رکھتی تھیں۔ یہ مہریں خلیج فارس کے شمال مغرب کے نصف حصے اور جزیرہ بحرین کے جنوبی علاقوں میں عام پائی جاتی تھیں جبکہ بہت سارے اور مقامات ایسے ہیں جہاں ان دونوں تہذیبوں کے تعلق کو تقویت ملتی ہے جس میں وادی دشت کے مشرقی سرے پر بحیرہ عرب سے ۳۰ میل دور مقام شکا گن اور ستو کا قدیمہ (سوختہ کوہ یہ دونوں مقامات بلوچستان کے جنوب میں سمندر کے قریب پائے گئے ہیں جہاں سے ملتے جلتے اقتصادی حالات کا تصور پایا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف عہد سرگون تک تہذیب وادی سندھ پختی کو پہنچ چکی تھی جس کی مثال وہ شہادتیں اور آثار قدیمہ کے نمونے جو میسو پوٹیمیا کے شہروں ار کیشا ور تل اسمار کی کھدائی کے دوران تہذیب سندھ جیسی مہروں کا پایا جاتا اور قتل اسمار کی تہوں میں سے ہڑ پہ جیسے نمونوں والے مٹکوں کا ملنا اور تہذیب سندھ کے مخصوص نمونوں کی ہڈیوں کے ساتھ کی گئی مینا کاری اور مٹھیا والے برتنوں کی موجودگی ، یہ تمام شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دونوں تہذہ میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں اور ان کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قدیم ہندوستان مغرب کی نظر میں ایک خاص مقام رکھتا تھا جو ان کی آمد کا سبب بنتا رہا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم وادی سندھ کے آباد قبائل اس قابل ہو چکے تھے کہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ان بیرونی وحشی قبائل نے وادی سندھ پر حملہ آور ہوئے۔ ان میں سب سے پہلے آریہ نام کے قبائل نے وادی سندھ کی تہذیب کو نشانہ بنایا اور ان مقامی قبائل جن کو دراوڑی نسل کہا گیا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔