لیہ کی عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج لیہ کی مختصر تاریخ
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ....تحریر: پروفیسر میبر اختر وہاب
گورنمنٹ کالج لیہ علاقہ تھل کی سب سے پہلی اور بڑی علمی درس گاہ ہے۔ کالج کی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ راقم الحروف نے گورنمنٹ کالج لیہ کی تاریخ جانے کے لیے مختلف شخصیات سے معلومات حاصل کی ہیں۔ ان میں مہر فضل حسین سمرا سابق ایم پی اے عبد العزیز خان قیصرانی ایڈووکیٹ ، ڈاکٹر سید فیاض حسین بخاری ( کالج کے سابق طالب علم حال مقیم اٹک) ، ڈاکٹر امیر ملک کے بھائی کریم نواز ملک اور محمد رمضان سابق لائبریری اسسٹنٹ بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ حکومت مغربی پاکستان نے ۱۹۵۸ء میں تحصیل لیہ (ضلع مظفر گڑھ) کے لیے ہائر سیکنڈری سکول قائم کیا۔ بعد ازاں اسے انٹر کالج لیہ کا نام دیا گیا۔ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران میں ستمبر ۱۹۵۸ء میں میاں محموداحمد کو پرنسپل تعینات کیا گیا اور وہ یہ پہنچ گئے۔ اُس وقت لیہ میں کوئی عمارت خالی نہیں تھی جس میں تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جاتا۔ میاں محمود صاحب (پرنسپل) نے بڑی کوششیں کیں کہ کہیں سے کوئی خالی عمارت یا کسی عمارت کا کوئی حصہ دستیاب ہو تو انٹر کی کلاسز شروع کی جائیں۔ بلڈنگ کے بغیر کلاسز کا اجرا ممکن نہ تھا۔ اگر کلاسز کا اجراء نہ ہوتا تو کالج کے لیے رقبہ اور بلڈنگ کی تعمیر کے لیے گرانٹ کا حصول ممکن نہ تھا۔ نتیجتاً کالج کا قیام موخر کر دیا جاتا اور لیہ آئندہ کئی برسوں تک کالج سے محروم رہ جاتا۔ مختصر یہ کہ پہلا مرحلہ کالج کے لیے عارضی عمارت کا حصول تھا۔ یہ عقدہ مشکل کیسے حل ہوا؟اس کی کہانی یار محمد کلوالمعروف یا رو پہلوان نے مجھے سنائی۔ یارو پہلوان میرے پڑوسی تھے ۔ ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۳ء کو انھوں نے میری درخواست پر میری بیٹھک میں کچھ وقت پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ یوں سمجھیے ایک تفصیلی انٹرویو تھا جسے میں نے قلم بند کر لیا۔ انھوں نے بتایا کہ کالج کے پہلے پر سپل میاں محمود احمد صاحب یہ پہنچے اور عمارت کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے کلاس فیلو مہر غلام حسین سمرا ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا اور عمارت کے حصول کےلیے ان سے مشورہ کیا اور مدد چاہی ۔ مہر غلام حسین سمرا کی رہائش بھر اتری ہائی سکول کے جنوبی گیٹ کے بالمقابل تھی۔ مہر غلام حسین سمرا ۱۹۵۶ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج لاہور سے ایل ایل بی کر کے لیہ واپس آچکے تھے۔ اس وقت لیہ شہر میں چند ایک وکیل تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد مہر غلام حسین سمرا کی نگاہیں بھر اتری ہائی سکول پر مرکوز ہو گئیں۔ مہر غلام حسین سمرا جنھوں نے بھر اتری ہائی سکول سے میٹرک کیا تھا یہ مشورہ دیا کیوں نہ کالج کی کلاسیں بھر اتری ہائی سکول میں لگائی جائیں۔ اس کی ایک وجہ اس سکول کا شہر کے وسط میں ہونا تھا اور دوسری وجہ اس عمارت کے دو حصہ تھے۔ ایک حصہ سکول کی کلاسز کے لیے اور دوسرا حصہ بورڈنگ کے لیے مخصوص تھا۔ بھر اتری ہائی سکول جو اندر بھا نہ ٹرسٹ کی طرف سے بنایا گیا تھا اس وقت میونسپل کمیٹی لیہ کے زیر انتظام کام کر رہا تھا۔ اس وقت سکول کے ہیڈ ماسٹر سید ابن علی تھے۔ میاں محمود احمد اس تجویز کے بعد سید ابن علی ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملے تو انھوں نے نہ صرف عمارت دینے سے انکار کیا بلکہ گرمیوں کی تعطیلات کا جواز بنا کر تمام کمروں کو تالا بھی لگوا دیا۔ میر غلام حسین نے تجویز پیش کی کہ بورڈنگ کی عمارت میں اس قدر کمرے ہیں کہ یہاں کالج کی کلاسز شروع کی جاسکتی ہیں۔ مگر میاں محمود احمد پرنسپل صاحب پریشان تھے اس عمدہ تجویز پر عمل درآمد کیسے ہوگا ؟ اس کی ذمہ داری مہر غلام حسین سمرا نے قبول کرلی اور کہا کہ اس عمارت کا قبضہ ہم حاصل کرلیں گے۔ مہر غلام حسین سمرا نے اپنے دو پڑوسی یار محمد کلو اور غلام حسین مینار کی ( میرانی) اور اپنے دوست محمد حسین خواص کو ساتھ لیا اور رات کو ہاسٹل کی عمارت کو لگے تالے توڑنے کی کاروائی کا آغاز کیا سب سے طاقت ور میں تھا یعنی یار محمد کلو، لہذا تانے میں نے ہی توڑے دوسرے دن بورڈنگ کی بلڈنگ میں پرنسپل صاحب کا دفتر قائم کر دیا گیا اور غلام حسین مینار کی ، دوست محمد خواص اور اللہ ڈیوایا بھی ، رحم دین ، عطا محمد جوتہ بطور حفاظتی دستہ بورڈنگ کے دروازے پر موجود تھے۔ اس طرح کالج کا آغاز ہوا۔ مہر غلام حسین سمرا ایڈووکیٹ کی سفارش پر پرنسپل میاں محمود احمد نے غلام حسین مینار کی چپڑاسی محمد حسین خواص کو مکینک ، اللہ ڈیوایا بھٹی کو ماشکی ، رحم دین کو مالی ، عطا محمد جو تہ کو بیل دار بھرتی کر دیا گیا۔ بھر اتری ہائی سکول قیام پاکستان سے پہلے ہندوؤں کی نگرانی میں ٹرسٹ کے زیر اہتمام تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ پاکستان بنے بعد یہ عمارت اور اس کے ساتھ مہر خدا بخش سمرا کا بنگلہ بطور مہاجر کیمپ قائم کرنے لگا۔ نتیجا تعلیمی سرگرمیاں رک گئیں اور سکول اور پلاٹ کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پودے مرجھا گئے اور درخت سوکھ گئے ۔ لیکن کالج کے قیام کے بعد مہر خدا بخش سمرا نے ( تحصیل لیہ کے بڑے زمیندار تھے، جن کا رقبہ بعد ازاں ایوب خان کی زرعی اصلاحات میں بھی آگیا۔ یہ شوگر ملز کے سابق لیبر آفیسر مبر کرم حسینسمرا ان کے بیٹے تھے، معروف معالج میجر ڈاکٹر مہر امیر محد سمرا مہر خدا بخش کے بیٹے ہیں ) اپنے ایک بھتیجے مہر اللہ ڈیوا یا سرا کو جوکنویں کی دیکھ بھال کرتے تھے کالج کو سرسبز وشاداب بنانے کے لیے پانی کی فراہمی شروع کی۔ کالج کے نئے بھرتی شدہ سٹاف نے جلد ہی کالج کو سرسبز و شاداب بنادیا۔ کالج میں دوسرے پروفیسر جنھیں بٹ صاحب کہا جاتا تھا لا ہور سے لیہ پہنچے ۔ میاں محمود احمد نے اُسے وائس پر نیل بنا دیا۔ تیسرے پر وفیسر محمد صدیق صاحب تھے وہ تاریخ پڑھاتے تھے۔ بعد ازاں وہ اسٹنٹ کمشنر پھر ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری TIC ( تھل انڈسٹریل کارپوریشن) بھی بنے تھے۔ پروفیسر علامہ عبدالعزیز صاحب کراچی سے لیہ پہنچے۔ وہ اُردو پڑھاتے تھے۔ میانوالی سے پروفیسر شیر خان بھی حاضر ہو گئے۔ جب جنرل ایوب خان نے نے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لگایا تو انھوں نے کراچی کی بجائے اسلام آیا د میں دارالحکومت بنایا۔ ایوب خان دسمبر ۱۹۵۹ء میں کراچی سے سارا حکومتی سامان اور کاغذات وغیرہ ایک ٹرین میں لوڈ کر کے راولپنڈی جانے کے لیے لیہ سے گزرے تو وہ ایم سی ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج لیہ (ایم سی ہائی سکول کے گراؤنڈ میں پہنچے تو اس طرح کسی حکومتی سربراہ کا لیہ اور کالج کا پہلا دورہ تھا۔ اور اس کے بعد سکول کو بورڈنگ کی بلڈنگ میں منتقل کر دیا گیا کیوں اس کے کمرے کے زیادہ تھے اور سکول کی عمارت کالج کو دے گئی۔ میاں محمود احمد نے ۱۵ ستمبر ۱۹۵۸ء میں بھر اتری ہائی سکول کی بورڈنگ کی عمارت میں صرف چھ سٹاف ممبرز کے ساتھ کلاسز کا آغاز کر دیا۔ سٹاف کی کمی کی وجہ سے ہر اُستاد کو ایک سے زیادہ مضامین پڑھانے پڑتے تھے۔ اساتذہ کی محنت ، دلچپسی اور میاں محمود کی راہنمائی سے کالج کامیابی کی منازل طے کرنے لگا۔ میاں صاحب نے اپنے دو اڑھائی سال کے قیام کے دوران نہ صرف آرٹس بلکہ سائنس کے مضامین میں بھی درس و تدریس کا کام شروع کر دیا۔ انھوں نے کالج یونین ، بزم ادب اور دوسری سوسائٹیوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں کا بندوبست بھی کیا۔ ان کے زمانے میں یوم اقبال بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا۔میاں محمود احمد کے بعد آفتاب احمد خان کالج کے پرنسپل ہے ۔ ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ انھوں نے کالج کی عمارت کے لیے زمین حاصل کی جس پر ریت کے پہاڑ کھڑے تھے ۔ آفتاب احمد خان نے ریت کے ٹیلوں کو ہموار زمین میں بدلنے کی ممکنہ کاوشیں کیں۔
اپریل ۱۹۶۳ء میں آفتاب احمد خان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج ٹھٹھہ ہو گیا۔ ان کی عدم موجودگی میں شیخ ابراہیم صاحب چند ماہ کے لیے کالج کے انچارج پرنسپل بنے۔ انھوں نے تھوڑے عرصہ میں کالج کے بڑا کام کیا۔شیخ ابراہیم نے سب سے پہلے کالج میں بجلی لگوائی۔ شیخ صاحب نے اپنے اثر ورسوخ سے شہر والوں سے تیرہ پنکھے حاصل کیے اور کالج فنڈ سے جو پنکھے خریدے گئے۔ اس طرح سارے کلاس روم ہوادار بنا دیے گئے اور تعلیمی سلسلہ خوش گوار ماحول میں جاری ہوا۔ ۶ اکتوبر ۱۹۶۳ ء میں سید فضل علی شاہ ملتان سے یہ پہنچے۔ انھوں نے شیخ محمد ابراہیم سے کالج کا چارج لیا۔ اس وقت ان کی عمر چھپن برس تھی مگر وہ چاک و چوبند، انتھک اور منتی شخص تھے۔ وہ ہر روز شہر سے دور جہاں نیا کالج بن رہا تھا جاتے اور تعمیری کام کی نگرانی کرتے۔ انھوں نے گورنمنٹ ورکشاپ کے ڈائریکٹر ایم ۔ اے خان ترین کی مدد سے کالج کے لیے کھیل کے میدان بغیر ایک روپیہ خرچ کیے مفت میں تیار کروا لیے۔ انھوں نے سایہ دا ر، آرائشی اور پھل دار درخت بھی لگوائے۔ ان کے زمانے میں اردو / انگریزی میامٹے ، سائنسی موضوعات پر ایک مذاکرہ اور ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ وہ سائنس کے پروفیسر ہونے کے بعد شعر و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ کالج میگزین تھل کا اجراء سید فضل علی شاہ کا ایک گراں قدر کارنامہ ہے۔ کالج کا علمی وادبی مجلہ تھل کا پہلا شمارہ ۶۴ ۔ ۱۹۶۳ء میں اور دوسرا شمارہ ۶۶ – ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ دونوں شماروں کے پروفیسر مدیر حصہ اردو علامہ عبد العزیز جالنوی اور حصہ انگلش کے ایڈیٹر پروفیسر غلام محمد خان اور پروفیسر سید افتخار بخاری تھے۔ اور ناشر پروفیسر محمد اور میں تھے۔ اسی دونوں شماروں سید ارشاد کیوپڈ بخاری اور غلام جعفر بلوچ حصہ اردو ، رحمت اللہ حصہ انگلش کے طالب علم مدیر تھے۔ کالج کے ۱۹۶۶ ء کے داخلے سکول کی بلڈنگ میں ہوئے اور کلاسز کا آغاز ستمبر میں ہوا۔ مگر نومبر تک کلاسزاسی پرانی بلڈنگ میں لگتی رہیں۔ جنوری ۱۹۶۷ء میں سید فضل علی شاہ کا تبادلہ ملتان ہوگیا اور نئے پرنسپل خواجہ خورشید احمد نے پرنسپل کا چارج سنبھالا اور کالج کونئی بلڈنگ میں منتقل کر دیا۔
۱۹۵۸ ء سے پہلے مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی میں کالجز تھے مگر گورنمنٹ کالج لیہ کے اجراء سے لیہ اور نقل کی تاریخ میں ایک تابناک عنوان کا اضافہ ہوا۔ ٹی۔ ڈی۔ اے کے قیام سے زرعی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا اور تھل کا ریگزار لالہ زاروں میں بدلنے لگا اور نئے کلچر اور نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ تھل پر صدیوں سے طاری یکسانیت ، ویرانی کے بجائے زندگی حرارت اور تازگی اور علوم وفنون کے چشمے پھوٹنے لگے ۔ متروکہ ہند و وقف کی عمارت میں کالج کی بنیاد رکھی گئی اور ٹی۔ ڈی۔ اے سے کالج کے لیے زمین حاصل کی گئی ۔ آفتاب احمد خان نے ۱۹۶۱ء میں ۱۴۲ یکڑ رقبہ ٹی۔ ڈی۔ اے سے لے کر محکمہ تعمیرات کے حوالے کیا اور محکمہ تعلیمات نےشیخ ابراہیم نے سب سے پہلے کالج میں بھی لگوائی ۔ شیخ صاحب نے اپنے اثر و رسوخ سے شہر والوں سے تیرہ پنکھے حاصل کیے اور کالج فنڈ سے چھ پنکھے خریدے گئے۔ اس طرح سارے کلاس روم ہوا دار بنا دیے گئے اور تعلیمی سلسلہ خوش گوار ماحول میں جاری ہوا۔ ۶ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں سید فضل علی شاہ ملتان سے لیہ پہنچے۔ انھوں نے شیخ محمد ابراہیم سے کالج کا چارج لیا۔ اس وقت ان کی عمر چھپن برس تھی مگر وہ چاک و چوبند ، انتھک اور محنتی شخص تھے۔ وہ ہر روز شہر سے دور جہاں نیا کالج بن رہا تھا جاتے اور تعمیری کام کی نگرانی کرتے۔ انھوں نے گورنمنٹ ورکشاپ کے ڈائریکٹر ایم۔ اے خان ترین کی مدد سے کالج کے لیے کھیل کے میدان بغیر ایک روپیہ خرچ کیے مفت میں تیار کروا لیے۔ انھوں نے سایہ دا ر، آرائشی اور پھل دار درخت بھی لگوائے۔ ان کے زمانے میں اردو / انگریزی مباحثے ، سائنسی موضوعات پر ایک مذاکرہ اور ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ وہ سائنس کے پروفیسر ہونے کے بعد شعر و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ کالج میگزین تھل کا اجراء سید فضل علی شاہ کا ایک گراں قدر کارنامہ ہے۔ کالج کا علمی وادبی مجلہ تھل” کا پہلا شمارہ ۶۴ ۔ ۱۹۶۳ء میں اور دوسرا شمارہ ۶۶ – ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ دونوں شماروں کے پروفیسر مدیر حصہ اردو علامہ عبد العزیز جالنوی اور حصہ انگلش کے ایڈیٹر پروفیسر غلام محمد خان اور پروفیسر سید افتخار بخاری تھے۔ اور ناشر پروفیسر محمد ادریس تھے۔ اسی دونوں شماروں سید ارشاد کیوپڈ بخاری اور غلام جعفر بلوچ حصہ اردو ، رحمت اللہ حصہ انگلش کے طالب علم مدیر تھے۔ کالج کے ۱۹۶۶ء کے داخلے سکول کی بلڈنگ میں ہوئے اور کلاسز کا آغاز ستمبر میں ہوا۔ مگر نومبر تک کلاسز اسی پرانی بلڈنگ میں لگتی رہیں۔ جنوری ۱۹۶۷ء میں سید فضل علی شاہ کا تبادلہ ملتان ہو گیا اور نئے پرنسپل خواجہ خورشید احمد نے پرنسپل کا چارج سنبھالا اور کالج کونئی بلڈنگ میں منتقل کر دیا۔
۱۹۵۸ء سے پہلے مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی میں کالجز تھے مگر گورنمنٹ کالج لیہ کے اجراء سے لیہ اور تھل کی تاریخ میں ایک تابناک عنوان کا اضافہ ہوا۔ ٹی۔ ڈی۔ اے کے قیام سے زرعی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا اور تھل کا ریگزار لالہ زاروں میں بدلنے لگا اور نے کلچر اورنئی زندگی کا آغاز ہوا۔ تھل پر صدیوں سے طاری یکسانیت ، ویرانی کے بجائے زندگی حرارت اور تازگی اور علوم وفنون کے چشمے پھوٹنے لگے۔ متروکہ ہند و وقف کی عمارت میں کالج کی بنیا د رکھی گئی اور ٹی۔ ڈی۔ اے سے کالج کے لیے زمین حاصل کی گئی ۔ آفتاب احمد خان نے ۱۹۶۱ء میں ۱۴۲یکٹر رقبہ ٹی۔ ڈی۔ اے سے لے کر محکہ تعمیرات کے حوالے کیا اور محکمہ تعلیمات نےمبلغ آٹھ لاکھ روپے کی رقم عمارت کے پہلے مرحلے کے لیے جاری کی۔ ۱۹۶۳ء میں سید فضل علی شاہ بطور پرنسپل تشریف لائے اور ان کے عہد میں کالج کی نئی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا گیا۔ ان کے سامنے ایک عظیم منصوبہ تھا اور انھوں نے کمال مہارت ، تدبر اور لگن کے ساتھ منصوبوں پر عمل درآمد شروع کیا۔ انھوں نے اپنے رفقاء کار کی معیت میں کالج کی تمام زمین کا جائز و لیا، کھیل کے میدان ، باغ پھلواڑی اور سٹیڈیم کا خاکہ تیار کیا اور اپنے مدد آپ کے اصول کے تحت تین کھیل کے میدان اپنے مخلص رفقائے کار کی انتھک کاوشوں سے تیار کر وائے ۔ انھوں نے اپنے چار سالہ قیام کے دوران میں کالج کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔جنوری ۱۹۶۷ء میں جناب خواجہ خورشید احمد صاحب بطور پرنیل تشریف لائے ۔ انھوں نے کالج بھر اتری ہائی سکول کی عمارت سے نو تعمیر شدہ عمارت میں منتقل کیا ۔ نئی عمارت میں درس و تدریس کا سہرا خواجہ خورشید صاحب کے سر ہے۔ انھوں نے اپنے پیش رو فضل علی شاہ کے تیار کردہ خاکہ پر اور انھی مخطوط پر کام جاری رکھا۔ انھوں نے کالج کو خوب سے خوب تر بنانے اور قلیل عرصہ میں رنگا رنگ پھولوں پر مشتمل ایک چمن کی عمارت کو آب و تاب بخشی ۔ خواجہ صاحب نباتات کے پروفیسر تھے اور ذوق جمال بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے ہوسٹل کی تعمیر اور ٹیوب ویل کی تنصیب کے سلسلے میں تخمینے اور نقشے تیار کروائے۔ انھوں نے محکمہ سے دو لاکھ روپے کے خرچ سے ایک ہاسٹل تعمیر کروایا۔ جس میں چالیس طلباء کی گنجائش موجود ہے۔ انھوں نے اس وقت کے SDM سے اندرونِ کالج کھیل کے میدانوں تک رابطہ سڑک بنوئی اور ٹیوب ویل کی تنصیب کا کام سرانجام دیا۔
.۱۲ فروری ۱۹۷۰ء کو خواجہ خورشید احمد کا تبادلہ ہوا تو انھوں نے ملک الہی بخش جکھر لیکچر ر عربی کو ادارہ کی سر براہی کا چارج دیا۔ پروفیسر ملک الہی بخش نے اپنے آٹھ ماہ کے عرصے میں اپنی ذمہ داریوں کو بہ طرز احسن سرانجام دیا اور کالج کی تعمیر و ترقی کے لیے برابر کوشاں رہے۔ پروفیسر ملک الہی بخش جکھرہ کی کوششوں سے اکتوبر ۱۹۷۰ء میں کالج کو ترقی دے کر ڈگری کا درجہ دے دیا گیا ۔ ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ء کو خر بہادر زار پر نسپل تعینات ہوئے مگر ایک ماہ سترہ دن کے بعد اُن کا تبادلہ ہو گیا ۔ 4 فروری ۱۹۷۱ء میں جناب قاضی فیض احمد صاحب بطور پرنسپل تشریف لائے۔ جناب قاضی کے ایک سالہ قیام کے دوران میں کالج کے ٹیوب ویل کی تنصیب کا کام شروع ہوا۔ قاضی صاحب کے ریٹائر ہونے پر چوہدری عبدالمجید صاحب تین ماہ دس دن تک بطور انچارج پر نسپل کام کیا۔ جون ۱۹۷۲ء میں پروفیسر سیدمحمد باقر رضوی کالج میں بطور پرنسپل تشریف لائے ۔ وہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ تقریبا سات برس پرنسپل رہے۔ ان کے بعد چوہدری محمد حسین چیمہ چھ ماہ تک بطور پرنسپل اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کے بعد پروفیسر چوہدری عبدالمجید آٹھ ماہ تک انچارج پرنسپل رہے پھر سید زاہد حسین کاظمی ۲۰ جولائی ۱۹۸۰ء سے ۲ فروری ۱۹۸۲ء تک پرنسپل رہے۔ بعد ازاں ڈیرہ غازی خان سے پروفیسر محمد حسن حیات خان اثر بطور پرنسل تشریف لائے اور وہ تین ماہ چار دن تک پرنسپل رہے۔ یکم جولائی ۱۹۸۲ء کو لیہ ضلع اور ڈیرہ غازی خان کو ڈویژن بنا یا گیا تو پروفیسر محسن حیات خان اثر کو نئے ڈویژن کا ڈائریکٹر کالجز بنا دیا گیا۔ اجون ۱۹۸۲ء کو سید جعفر عباس زیدی را ولپنڈی سے تشریف لائے اور ۱۵ جنوری ۱۹۸۵ء تک پرنسپل رہے۔ اُن کا مضمون اردو تھا مگر فلسفہ، سیاسیات، تاریخ اور انگریزی ادب پر عالمانہ گرفت رکھتے تھے۔ اُن کے تبادلے پر فقیر محمد خان سرگانی ۱۶ جنوری ۱۹۸۵ء میں انچارج پرنسپل بنائے گئے۔ چھ ماہ بعد ۱۵ جنوری ۱۹۸۵ء کو سید محمد سرور زیدی صادق آباد دبطور پر نیل لیہ پہنچے اور ۱۰ ستمبر ۱۹۸۷ء کو ان کا تبادلہ ہو گیا اور فقیرمحمد خان سرگانی دوبارہ پانچ ماہ کے لیے انچارج پرنسپل بنا دیے گئے۔ پھر مظفر گڑھ سے پروفیسر املاک احمد نیازی ۷ فروری ۱۹۸۸ء کو بطور پرنسپل تشریف لائے اور آٹھ ماہ یہاں تعینات رہے۔ فقیر محمد خان سرگانی پرنسپل بنے اور وہ ۱۳ مئی ۱۹۹۵ ء تک پرنسپل رہے۔ بیسویں پرنسپل پروفیسر عبد الغنی خان اس مئی ۱۹۹۱ء کو مظفر گڑھ سے تشریف لائے اور ۱۲ جنوری ۱۹۹۴ء تک بطور پر نسپل کام کرتے رہے۔ اکیسویں پرنسپل پروفیسر سید زین الدین حسین نقوی تھے جو کہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۴ء سے ۱۲۰اپریل ۱۹۹۴ ء تک پرنسپل رہے۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میلسی کالج میں بطور پرنسپل ٹرانسفر ہوئے۔ بائیسویں پرنسپل پروفیسر غلام محمد خان تھے جو کہ ۱۲۱اپریل ۱۹۹۵ء سے ۵ ستمبر ۲۰۰۱ء تک چھ برس چار ماہ چودہ دن تک پرنسپل رہے۔ ان کی پوری سروس گورنمنٹ کالج لیہ ہی کی ہے۔ وہ اُس وقت انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے کالج میں حاضر آئے جب انٹر کی کلاسز ایم سی ہائی سکول کی بلڈنگ میں ہوا کرتی تھیں ۔ ۶ ستمبر ۲۰۰۱ کو تیسویں پرنسپل ڈاکٹر ظفر عالم ظفری بنے جن کا تعلق کوٹ ادو سے تھا۔ ۸ جولائی ۲۰۰۹ء کو ان کی ترقی بیسویں گریڈ میں ہوئی تو انھیں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ڈیرہ غازی خان پرنسپل بنا دیا گیا۔ اس طرح وہ لیہ کالج میں سے برس ۱۰ ماہ ۲ دن تک بطور پرنسپل اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ چوبیسویں پرنسپل پروفیسر مہر اختر وہاب لیہ کے پہلے مستقل مقامی پرنسپل تعینات ہوئے۔ ۸ جولائی ۲۰۰۹ ء سے اپنی ریٹا ئر ڈمنٹ ۹ دسمبر ۲۰۱۹ ء تک پرنسپل رہے۔ اُن کا دورانیہ ساڑھے دس برس بنتا ہے۔ پروفیسر مہر اختر وہاب نے ریٹائر منٹ بعد پروفیسر محمد طارق مومن انچارج پرنسپل بنایا اور ۲ ما ٠ ادن پرنسپل رہے۔ ۴ مارچ ۲۰۲۰ ء میں ڈاکٹر مزمل حسین پرنسپل تعینات ہوئے۔ ستمبر ۱۹۵۸ ء سے مئی ۲۰۲۱ ء تک ۲۲ (باسٹھ برس ۸ ماہ کے دورانیے میں چھیں (۲۶) پرنسپل تعینات ہوئے۔ اگر طویل دورانیے کا تخمینہ لگایا جائے تو پروفیسر سید محمد باقر رضوی ۶ برس ۱۱ ماه ۹ ا دن، پروفیسر غلام محمد خان ۶ برس ۴ ماه ۱۴ دن ، ڈاکٹر ظفر عالم ظفری ۷ برس ۱۰ ماہ ۲ دن اور پروفیسر مہر اختر وہاب ۱۰ برس ۴ ماه ادن بطور پرنسپل تعینات رہے۔”پرنسپل سید فضل علی شاہ کے دور میں مجلہ تھل کا آغاز ہوا۔ جس کا پہلا شمارہ سیشن ۶۴ ۔ ۱۹۶۳ ء اور دوسرا شماره ۶۶ – ۱۹۶۵ء کو شائع ہوا۔ پروفیسر خواجہ خورشید احمد کے دور میں تھل کا قائد اعظم نمبر ۱۹۶۷ء میں شائع کیا گیا۔ پرنسپل سید محمد باقر رضوی صاحب کے دور میں مجلہ تھل کے تین شمارے سال ۱۹۷۲۷۳ء، سال ۷۴ ۱۹۷۳ ء اور سال ۷۶-۱۹۷۵ء میں شائع ہوئے ۔ پرنسپل سید زاہد حسین کاظمی کے دور میں ایک شمارہ سال ۸۱۔ ۱۹۸۰ ء اور پروفیسر غلام محمد خان کے دور میں ایک شمارہ سال ۱۔۲۰۰۰ ء شائع ہوا۔ ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کے دور میں مجلہ تھل کے دو شمارہ سال ۵۔ ۲۰۰۳ ء اور سال ۲۰۰۸ ء میں شائع ہوئے۔ پروفیسر مہر اختر وہاب کی تعیناتی کے دوران مجلہ تھل کے بالترتیب پانچ شمارے شائع ہوئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا شمارہ
سال ۱۴- ۲۰۱۳ء
دوسرا شمارہ
سال ۱۵- ۲۰۱۴ء
تیر اشماره
سال ۱۶-۲۰۱۵
چوتھا شمارہ
سال ۱۸-۲۰۱۷ء
پانچواں شمارہ
سال ۲۰- ۲۰۱۹ء
اس طرح گورنمنٹ کالج لیہ کی باسٹھ سالہ تاریخ کے پہلے باون سالوں میں مجلہ تھل کے دس شمارے شائع ہوئے اور پروفیسر میر اختر وہاب کے دس سالہ دور میں پانچ شمارے شائع ہوئے۔
کالج کے قیام کے سات برس بعد ۱۹۶۵ء میں ادارہ کا نام ہائرسیکنڈری سکول کے بجائے گورنمنٹ انٹر کالج لیہ رکھا گیا۔ اکتو بر ۱۹۷۰ء میں ڈگری کلاسز کا اجراء ہوا۔ پروفیسر فقیر محمد خان سرگانی پرنسپل بنے تو ان ہی کے دور میں 1990ء میں ملک غلام حیدر تھند سابق ایم پی اے لیہ کی کوششوں سے ایم ۔ اے انگلش کلاسز کا اجراء ہوا اور اکیڈمک اور سائنس بلاک بھی ان ہی کی کوششوں سے تعمیر ہوئے ۔ 1996ء میں پروفیسر غلام محمد خان پر نسپل کی کوششوں سے اُس وقت کے ممبران صوبائی اسمبلی مہر اللہ ڈیوا یا تھند اور ملک غلام محمد سواگ نے ایم ۔ اے اردو اور ایم ۔ اے اسلامیات کی کلاسز شروع کروا ئیں اور ان شعبوں کے لیے اپنے فنڈ سے بلڈنگ تعمیر کروائی۔
۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر ظفر عالم ظفری پرنسپل بنے تو اس وقت کے ایم۔ پی۔ اے مہر فضل حسین سمرا نے 2004ء میں ذاتی کوششوں سے ایم ایس سی فزکس اور میتھ کی کلاسز کی منظور کروائیں اور شعبہ فزکس کی عمارت کے لیے فنڈ ز جاری کروائے تعمیر مکمل ہوئی اور ۲۰۰۷ء میں فزکس اور میتھ کی کلاسز کا آغاز ہوا۔
۲۰۱۹ء میں پرنسپل پروفیسر مبر اختر وہاب کی کوششوں سے بی۔ ایس کلاسز کی منظوری ہوئی اور بی ایس فزکس ، میتھ ، باٹنی ، کیمسٹری، انگلش اور بی ایس اردو کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ اسلامیات کی کلاسز سال ۲۰۲۰ء میں
پرنسپل ڈاکٹر مزمل حسین نے شروع کروائیں۔ جولائی ۲۰۰۹ء کو پروفیسر مہر اختر وہاب کالج کے پرنسپل بنے تو ان کی پہلی ترجیح کالج کے لیے لائبریری بلاک کی تعمیر تھی ۔ کالج ہذا کے قیام کے ساتھ ہی لائبریری بھی بنائی گئی ۔ لائبریری کالج کے مختلف کمرہ جات میں منتقل ہوتی رہی۔ ۱۹۶۷ء میں جب موجودہ بلڈنگ میں کلاسز کا آغاز ہوا تو پرنسپل آفس کے اوپر کمرہ میں لائبریری بنائی گئی ۔ کچھ عرصہ سائنس بلاک کی اپر سٹور پر لائبریری کے لیے دو کمرے مختص کیے گئے ۔ 2001ء سے 2011 ء تک ایم اے اردو بلاک میں الگ سے سیمینار لائبریری بنائی گئی ۔ تمبر ۲۰۰۹ء میں پرنسپل پروفیسر مہر اختر وہاب کی کوششوں سے افتخار علی بابر خان کھتر ان ایم پی اے نے کالج کے لائبریری بلاک کے لیے فنڈز جاری کر وائے اور لائبریری بلاک کی تعمیر کا کام مکمل کرایا۔ جس کا افتتاح گورنر پنجاب سردار محمد لطیف خان کھوسہ نے کیا۔ پرنسپل پروفیسر میر اختر وہاب اور لائبریرین حمید الغت ملغانی کی ذاتی دلچسپی دلگن سے لائبریری میں موجود تمام کتب کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔ ایم ۔ اے اردو ، ایم ۔ اسلامیات ، ایم ۔اے انگلش ، ایم ۔ ایس سی فزکس، ایم۔ ایس سی۔ ریاضی کی کتابوں کا عمدہ ذخیرہ موجود ہے۔ پہلی مرتبہ لائبریری میں گوشتہ لیہ بنایا گیا۔ جس میں لیہ کے اہل قلم کی کتابیں موجود ہیں۔