تاریخ نتیہ سے ایک ورق کے حوالے سے آج وطن پرستی اور اسلام کے حوالے سے تھل کے مسلمان حریت پرستوں اور وفا سرشتوں کی ایک ایمان افروز جنگ جنگ واژه کشکوری کے نام سے پیش خدمت ہے۔ جس میں صحرائے تھل کے چند غیور اور بہادر لوگوں کی داستان حریت قلمبند ہے جنھوں نے تعداد میں کم ہونے اور سامان حرب کی کمی کے باوجود انگریز جرنیل ایڈورڈ کی دو پلٹن فوج کے چھکے چھڑا دیئے، ان کا دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور انھیں دریائے سندھ کے اس پار بھاگنے پر مجور کر دیا۔ ایڈورڈ کی فوج کے ہزاروں سپاہی مر گئے اور سینکڑوں زخمی ہو کر دریائے سندھ کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ صحرائے تھل لیہ میں واڑہ جہاں پیوند زدہ کپڑوں والے پاؤں سے نگے سانولی صورتوں والے فرزندان اسلام رہائش رکھتے تھے ۔ واڑہ کشکوری زمانہ قدیم میں جسکانی حکمرانوں کا پایہ تخت تھا۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ داڑہ کشکوری انتہائی با رونق اور آباد شہر تھا۔ یہاں کے لوگ انتہائی خوشحال لوگ تھے ۔ اعتداد زمانہ اور دریائے سندھ کی طغیانیوں نے اس شہر کو تو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیا ہے جس کے اب کوئی بھی آثار و باقیات نہیں ہیں۔ تاہم یہ علاقہ اب بھی موضع دارہ مشکوری کے نام سے موسوم ہے اور تاریخ میں یہی نام جسکانی حکمرانوں کی راجدھانی کا ہے۔ صحرائے تھل پر بہا در جنگجو جسکا نیوں نے ایک سو ستر سال تک حکومت کی ہے اور انھوں نے اپنی بقاء کے لئے پنجاب اور دہلی کی فوجوں کے ساتھ ان ہی صحراؤں میں انتہائی خوفناک جنگیں لڑی ہیں۔ مڑھا نوالی اور ہڈانوالی ان بہادر جنگجو جسکانیوں کی خون ریز جنگوں کی نشانیوں کے طور پر اب بھی صحرائے تھل میں موجود ہیں۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ بالوچ (بلوچ) چاکر اعظم کی اولاد کی تیسری پشت میں سے ایک بلوچ سردار رند خان صحرائے تھل میں آکر رہائش پذیر ہوا اور اس سردار کے ایک بہادر بیٹے داؤد خان نے واڑہ کشکوری شہر کی بنیاد رکھی اور اسے پایہ تخت بنایا۔ جسکت خان بلوچ کی اولاد ہونے کے ناطے سے یہ جسکانی بلوچ کہلاتے تھے۔ جسکانی حکمرانوں کا آخری فرمانروا محمد خان جسکانی تھا جو جلا وطنی کے عالم میں محمد اسد خان جسکانی کے ہاں پناہ گزیں ہوا، کسمپرسی کے عالم میں وہیں فوت ہو گیا اور منگر وٹھہ میں دفن ہوا۔
۱۸۴۸ء میں انگریزوں کے خلاف جب یہ جنگ واژه کشکوری لڑی گئی، اس وقت اس علاقہ کو برباد ہوئے مدت ہو گئی تھی۔ اب اس علاقہ میں پیوند زدہ کپڑوں والے بھوک و افلاس کے مارے ہوئے فرزندان اسلام رہائش رکھتے تھے۔ ۱۸ اپریل ۱۸۴۸ء کو جب دیوان مولراج گورنر ملتان نے انگریزوں کو ملتان کی نظامت کا چارج دیا تو اس علاقے کے عوام کو انگریزوں کا حکومت لینے کا یہ انداز پسند نہ آیا چنانچہ انگریزوں کو پروٹوکول دینے کے لئے جو دستہ مقرر کیا گیا تھا اس کی قیادت صو بیدار الہی بخش کر رہے تھے کہ ایک حفاظتی کھائی کے قریب اس دستے کے ایک مسلمان سپاہی نے اچانک انگریز حاکم ایکیو پر برچھی سے حملہ کر دیا مگر عجلت میں برچھی کا یہ دار او چھا پڑا ۔ اتنی دیر میں امیر چند نامی ایک گھڑ سوار دستے کے سپاہی نے اچانک انگریز ایکینو کے شانے پر تلوار کا وار کیا مگر یہ دار بھی خالی گیا۔ اب گھڑ سوار دستے کے سپاہی نسیم خان اور کرم الہی نے بڑھ کر ایکنی پر تلوار سے وار کرنا شروع کر دیے چنانچہ ان ہی مسلمان سپاہیوں کی کسی ایک کی تلوار کا ایک وار انگریز ایکنیو کی آنکھ سے نیچے ناک کے قریب سے گوشت کو کا تنا ہوا تھوڑی تک چلا گیا اور اس کا ٹھوڑی تک گوشت لٹک گیا۔ اس سے پہلے کہ یہ مسلمان سپاہی نسیم خان اور کرم الہی انگریز ایکینو کا کام تمام کر دیتے انگریز ایکیو نے اپنی جان بچانے کے لئے حفاظتی کھائی میں چھلانگ لگا دی۔ اس طرح گھڑ سوار دستے کے یہ سپاہی دوسرے انگریز افسر اینڈرسن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اینڈرسن نے اس جگہ سے بھاگنے کی بڑی کوشش کی مگر اسے بھی سخت زخمی کر دیا گیا سکھ کا بنا سنگی”اور رام رنگ نامی ایک ہندوسپاہی زخمی اینڈرس اور ایکیو کو بچا کر ہاتھی پر اٹھا کر لے گئے ۔ انگریز ایکینو کو یقین ہو گیا کہ ملتان کی حکومت اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی بلکہ یہ ہاتھ سے گئی۔ چنانچہ اس نے لاہور کے انگریز سربراہ فریڈرک کو ایک خط لکھا کہ مائی ڈئیر سر فریڈرک ایہ سن کر آپ کو ضرور افسوس ہوگا کہ میں اور پی اے وان ایکنیومسٹر اینڈرسن دیوان مولراج سے ملتان کے قلعہ کا چارج لے کر واپس آرہے تھے تو قلعہ کے گیٹ کے باہر باغی سپاہیوں نے ہم دونوں پر بے خبری میں حملہ کر دیا ہے جس سے مجھے اور اینڈرسن کو سخت زخم آئے ہیں۔ تمام فوج نے بغاوت کر دی ہے ۔ لاہور کے انگریز افسر فریڈرک کو جب یہ خط ملا تو اس نے فوری طور پر کو ہستانی علاقوں کی فتوحات کے لئے مقرر کئے گئے فوجی کمانڈر ایڈورڈ کو ایکٹیو کی امداد کے لئے ایک پلٹن فوج لے کر فوری ملتان پہنچنے کا حکم دیا۔ ادھر انگریز پی اے وان ایکنیو کو پتہ تھا کہ اس کی امداد کے لئے ایڈورڈ کو کہا جائے گا۔ چنانچہ اس نے اپنی طرف سے بھی ایک خط ایڈورڈ کو بھجوایا جس میں مزید ایک پلٹن فوج کے ساتھ پہنچنے کی درخواست تھی۔ انگریز فوجوں کے کماندار ایڈورڈ کو جب لاہور سے ایکیو کے زخمی ہونے اور ایک پلٹن فوج لے کر اس کی امداد کرنے کا خط ملا تو اس وقت وہ پشاور کی مہمات سے فارغ ہو کر بنوں کے قلعہ میں بنوں کے گردونواح میں واقع میرانشاہ میر علی رزمی، واہنوں اور جھنڈولا کے علاقوں میں آزاد قبائل پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ جبکہ ادھر سے آزاد قبائل متحد ہو کر اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لئے انگریزوں سے جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے۔ چنانچہ اسے جو نبی لاہور کے انگریز افسر فریڈرک کا خط ملا وہ فوری طور پر ایک پلٹن فوج لے کر مسٹرا یکیو کی امداد کر نے ملتان کے لئے انتہائی عجلت میں روانہ ہوا ۔ وہ تاجہ زکی کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنا چاہتا تھا کہ اسے درہ پیر و پہنچنے سے پہلے مسٹرا یکینو کا ذاتی خط ملا جس میں دو پیشین فوج کے ساتھ اسے ملتان پہنچ کر اس کی امداد کرنے کا پیغام ملا۔ انگریز اور سکھ ملتان فوج کے حریت پرست فوجیوں سے انتہائی خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملتان اور گردو نواح کا اقتدار سکھوں اور انگریزوں کے ہاتھ سے لکھتا ہے چنانچہ انگریز کمانڈرائیڈ ورڈ نے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر فوری طور پر پٹھانوں، گنڈا پروں اور استرانوں پر مشتمل ایک پلٹن فوج مزید بھرتی کی اور پھر محبت میں دو پلٹن فوج لے کر وہ ملتان میں ایکیو کی امداد کے لئے روانہ ہوا۔ وہ بہت جلد ملتان پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ دریائے سندھ کے اس پار غربی کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا چنانچہ اس نے اپنے ہمراہیوں سے ملتان تک کا سفر معلوم کیا جس پر ڈیرہ فتح خان سے واڑہ مشکوری تک دریا کو پایاب سفر بتایا گیا اور اتیہ سے ملتان جلد پہنچنے کا کم راستہ بتایا گیا۔ چنانچہ ایڈورڈ نے اپنی فوج کو دریا پار کر کے لیہ پہنچنے اور لیہ سے ملتان پہنچنے کا حکم دیا۔ ادھر لیہ کے بہت سارے سپاہی جو دیوان ساون مل کے وقت سے ملتان کی فوج میں ملازم تھے انگریزوں کے اس ہنگامے کے دوران ملتان سے فرار ہو کر یہ پہنچ گئے تھے اور انگریز افسروں کے مرنے اور ملتان کی فوج کی بغاوت کے قصے لوگوں کو سنارہے تھے۔ چنانچہ ملتان کی پل پل کی خبر میں لیہ پہنچ رہی تھیں اور پھر اچانک ایک دن یہ خبر مشہور ہوئی کہ پشاور کا ایک انگریز جرنیل ایڈورڈ ایک فوج قہار کے ساتھ ملتان پر چڑھائی کے لئے روانہ ہو چکا ہے۔ لیہ کے علاقہ واڑہ کشکوری کے مسلمانوں میں جہاد کی حس بیدار ہو گئی اور وہ فرنگی سے غزوہ کے لئے تیار ہو گئے ۔ واڑہ کشکوری دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا جس کی وجہ سے اس علاقے کے لوگ پیرا کی کے ماہر تھے دریائی جنگلوں کے راستوں سے واقف تھے۔ دریائے سندھ بھی اس وقت ایسا دریا نہیں تھا اور جیسا اب ہے۔ اس وقت دریائے سندھ کے کناروں پر کوندر“ اور ”کائی کے جنگلوں کی اور جھیلوں کی ایک ہیبت ناک کیفیت ہوتی تھی جنھیں دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا تھا۔ چنانچہ جو نہی اس علاقہ کے لوگوں کو پتہ چلا کہ انگریز جرنیل اپنی فوج ملتان کے لئے اس واڑہ کشکوری کے راستے لے جانا چاہتا ہے داڑہ مشکوری کے مسلمان قبائل جسکانی، سامیے اور کھوکھر فورا اکٹھے ہو گئے ۔ آزادی کے جذبہ سے سرشار یہ چند سو مسلمان سامان حرب کے لحاظ سے بھی کمزور تھے مگر جذبہ ایمانی سے سرشاران چند سو مسلمانوں نے انگریز کی فوج سے ٹکرا جانے کی ٹھانی۔ چنانچہ موضع الشارہ سے لے کر واڑہ کشکوری سے اس پار تک مسلمانوں نے دریا کے کناروں پر جنگلوں میں اور دریا کے پتوں پر اپنے گوریلے کلہاڑیوں اور تلواروں سے مسلح مسلمانوں کو کھڑا کر دیا۔ افسوس کہ تاریخ کا کوئی صفحہ مجھے اس جنگ واڑہ کشکوری کے کماندار کا نام نہیں بتا سکا میں اس گمنام مجاہد اعظم کو دل کی گہرائیوں سے سلام کرتا ہوں اور ان گمنام نمازیوں کو سلام کرتا ہوں جنھوں نے جنگ واژه گشکوری میں انگریزوں کے خلاف جہاد کے جذبہ سے حصہ لیا اور کامران ہوئے۔ انگریز ایڈورڈ کی فوج کے سپاہی چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر جو نہی اس طرف واڑہ کشکوری کے قریب دریا کے کنارے کے قریب پہنچے ابھی وہ دریا کے کنارے یا تین سے دور ہی تھے کہ اس علاقے کے لوگ جو بہترین پیراک اور غوطہ خور تھے ، جانگئے پہن کر اور اپنے جسم کے ساتھ تلوار میں اور کلہاڑیاں باندھ کر کنارے سے غوطہ لگا کر ان کی کشتیوں کے قریب پہنچ کر اپنا سر نکالتے، تلواریں، کلہاڑیاں سونت کر اچانک ایڈورڈ کے فوجیوں پر ٹوٹ پڑتے۔ ایڈورڈ کے فوجی اس آفت نا گہانی سے ابھی سنبھل ہی نہیں پاتے تھے کہ وہ کشتی کے فوجیوں کو ختم کر چکے ہوتے تھے اور خالی کشتیوں کو کنارے پر لا کر آگ لگا دیتے تھے۔ اسی طرح ایڈورڈ کے جو فوجی دریا کے کنارے پر پہنچ کر ابھی دریائے کوندر کے جنگل میں پاؤں رکھتے ہی تھے کہ اچانک سیاہ جسموں والے جانگیہ پہنے ہوئے بگڑ پوش تلواروں اور کلہاڑیوں سے ایڈورڈ کے فوجیوں کو قتل کرتے اور پھر ان ہی کوندر کے جنگلوں میں گم ہو جاتے ۔ پورے تین دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ایڈورڈ کے سینکڑوں فوجی کام آئے اور سینکڑوں زخمی ہو کر دریائے سندھ کی لہروں کی نذر ہو گئے اور کشتیاں واپس نہ جاسکیں۔ تیسرے دن ایڈورڈ نے فوج کو دریا کے اس پار اترنے کی بجائے دریا کے ساتھ چلتے ہوئے ڈیرہ غازی خان پر حملہ کرنے اور غازی گھاٹ کے مقام سے دریائے سندھ کو عبور کر کے ملتان پہنچنے کا حکم دیا۔ اس وقت لیہ شہر پر دیوان مولراج کی طرف سے تجامل نامی اروڑہ خاندان کا ایک ہندو حاکم مقرر تھا۔ مگر اس وقت تک واڑہ کشکوری کے مسلمان جنگ جیت چکے تھے اور انگریز جرنیل ایڈورڈ کی فوج نے غازی گھاٹ کے مقام سے دریائے سندھ عبور کر کے انگریز جرنیل وارن کارٹ لینڈ کی تازہ دم فوج کے ساتھ ملتان پر حملہ کیا اور پوری ایک صدی کی غلامی مسلط کر دی۔ میں نے جنگ واڑہ کشکوری کو اس لئے اُجاگر کیا ہے تا کہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ کتنے غیرت مند تھے اُن کے آبا و اجداد، جن کی غربت و افلاس سے گرمی اور جلی ہوئی عمارت کی راکھ میں سے بہادری، غیرت وحمیت کی ایسی چنگاریاں سلگ رہی ہیں کہ اس آگ کا دھواں اب بھی نظر آتا ہے۔ انگریزوں نے اپنی اس شکست کا بدلہ ان صحرا نشینوں سے کس طرح لیادہ ایک طویل المناک داستان ہے۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے