تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ لڑتی فوج ہے لیکن نام جرنیل یا بادشاہ کا ہوتا ہے اور تاریخ اس لحاظ سے تو بالکل بے لحاظ اور بے اصول ہے کہ اس نے کبھی گمنام لوگوں کا نام نہیں لیا جنہوں نے جرات و تہور کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور وہ گمنام مرگئے ہیں۔ میرے مضمون کا محور صحرائے تھل کے وہ غریب لوگ ہیں، اسلام کے وہ شیدائی ہیں جنہوں نے جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء صرف اور صرف اسلام کے نام پر لڑی اور خدا کی راہ میں شہید ہو گئے ۔ یہ جنگ نڑ کی پڑوپی کے نام سے مشہور ہوئی۔ پایہ تخت دہلی جب اپنی مرکز گریزیت کی بنا پر اپنی افادیت کھو چکا تھا اور مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوگئی تو بد عہد ، بد خود خصلت حرص کا پجاری بر چھا گردشکری راجہ رنجیت سنگھ پنجاب بھر کے چوروں ڈاکوؤں اچکوں اور اٹھائی گیروں کا ایک غول بیابانی لے کر اٹھا اور اس نے سب سے پہلے اس طرف کے پنجاب کی چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کو اپنی غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا اوران کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پنجاب کی تاریخ میں راجہ رنجیت سنگھ کے ظلموں کی لامتناہی داستانیں رقم ہیں۔ اپنے ظلم وستم کی وجہ سے وہ ہمیں تاریخ میں چنگیز خان اور بلا کو کی اولاد معنوی نظر آتا ہے بلکہ قلعہ قصور کے مسلمانوں پر اس کے ظلم و استبداد نے چنگیز خان کے ظلموں کو بھی شرما کے رکھ دیا۔ رنجیت سنگھ وسطی پنجاب کے مسلمانوں کو ، ان کے مذہب، ان کی انا اور ان کی حشمت سمیت زمین میں دفن کر چکا تو اس نے اٹک پشاور اور ڈیرہ جات کی طرف توجہ کی۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں مسلم اکثریت میں تھے۔ پہلے اس نے ایک اور پشاور کو اپنے قبضہ میں کیا اور پھر اس نے ڈیرہ جات کواپنے زیر قبضہ لانے کے لئے ان کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کی۔ صحرائے تھل لیہ میں مسلمانوں کے مٹ جانے والے چھوٹے چھوٹے مٹی کے قلعوں کی ریت میں منہدم ہونے والی دیوار میں آج بھی زبان حال سے سکھوں کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کر رہی ہیں کہ ہم کبھی مسلمانوں کے بھرے پرے اور آباد شہر تھے۔ جنہیں سکھ ستم گروں نے برباد کر دیا ہے۔ سکھ برچھا گرد اپنے ٹڈی دل لشکروں کے ساتھ جب صحراؤں میں پہنچ کر مختلف آبادیوں پر شب خون مارتے تھے تو وہ مردوں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بلا دریغ تہ تیغ کر دیتے تھے اور ان کی جھونپڑیوں کو آگ لگا دیتے تھے۔ ان کا مال و اسباب نقد و جنس لوٹ کر لے جاتے تھے۔ تاریخ صحرائے تھل کا ہم عمیق نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو تھل کے غریب اور غیور مسلمان ہمیں جگہ جگہ سکھوں سے برسر پیکار نظر آتے ہیں اور کہیں اپنے معصوم بچوں کو سینوں سے چمٹائے ادھر سے ادھر جنگلوں اور صحراؤں میں بے بسی سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہی دور صحرائے تھل کی زبان میں جگیاں بھا جڑاں اور دھاڑاں کا دور کہلاتا ہے۔
ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ سکھ حکومت کا خاتمہ سفید فام انگریزوں کے ہاتھوں ہو گیا۔ سکھ حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد سکھوں نے صحرائے تھل کا علاقہ بھی اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے انگریزوں کے حوالے کر دیا اور اس طرح ۱۸۴۰ء میں پنجاب کے برٹش گورنمنٹ میں شامل کر دیئے جانے پر صحرائے تھل لیہ بھی برٹش گورنمنٹ کی جا گیر ٹھہرایا گیا۔ انگریزوں نے لیہ کو جو صحرائے تھل کے صوبے کی حیثیت رکھتا تھا پر قبضہ کرنے کے بعد لیہ کو کمشنری کا درجہ دے دیا۔ لیہ میں زمانہ قدیم میں لنگر سرائے والہ تھا جہاں مسلمان حکمرانوں کے دور دراز کے مسافر قافلے اور تاجر قافلے آکر پڑاؤ کیا کرتے تھے۔ یوں تو مسلمان حکمرانوں کے دور میں پورے ہندوستان میں کاروان سرائے موجود تھے مگر کاروان سرائے اور لنگر سرائے میں فرق یہ تھا کہ ہندوستان کے دیگر کاروان سرائے میں مسافروں کو ٹھہرنے کے لئے صرف جگہ مہیا کی جاتی تھی۔ مگر یہ تھل کے لنگر سرائے میں مسلمان حاکمان وقت مسافروں کو ٹھہرنے کی جگہ کے علاوہ کھانا بھی مفت دیا کرتے تھے اس لئے اسے لنگر سرائے کہا جاتا تھا اور یہیں سے یہ قافلے ہندوستان کی ٹیکسال تبدیل کرتے تھے۔ اسی لنگر سرائے کے پاس ٹیکسال قائم تھی جہاں ہندوستان کے سکوں کی ڈھلائی ہوتی تھی جس پر معمولی سائیکس لگا کر ہندوستان کے سکے ڈھال دیئے جاتے تھے اور پھرمسافر آگے ہندوستان کے لئے دہلی اور کانگڑھ کو روانہ ہو جاتے تھے۔ انگریزوں نے لنگر سرائے والہ پر اپنی فوجی چھاؤنی قائم کر دی اور سابق ہندو گورنر کی بنوائی ہوئی نہر لالہ ہزاری کے کنارے پر کمشنر کے بنگلے اور دفتر بنوا دیے اور صوبہ لیہ کا پہلا انگریز کمشنر کرنل راس ۱۸۵۰ میں مقرر ہوا۔ یہ کمشنر جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے چند ماہ پیشتر طبعی موت مر گیا اور لیہ شہر کے مغرب میں دریا کے کنارے دفن ہے۔ اب تو لوگوں نے اس کی قبر کے نشان بھی مٹا دیتے ہیں۔ اب سے تمہیں برس پہلے تک اس انگریز کمشنر کی قبر کے نشانات صحیح حالت میں موجود تھے۔ صحرائے تھل جو مسلم اکثریت پر مشتمل علاقہ تھا سچے رسول عربی کے شیدائی مسلمان تھے اور مسلمانوں کی سرشت کے مطابق اس علاقے کے مسلمانوں کے سینوں میں آزادی کا ولولہ ایک شعلے کی صورت میں دمکتا رہتا تھا یہی وجہ ہے کہ چندا بوالہوس غدار ابن غدار جاگیردار خاندانوں کو چھوڑ کر صحرا کے غریب مسلمان ہمیں ریشمی رومال تحریک میں بھی شامل نظر آتے ہیں۔ سید احمد شہید اور اسماعیل شہید کے شانہ بشانہ بالاکوٹ میں سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور مجاہدین آزادی کو رسد اور خوراکبھی پہنچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
صحرائے تھل لیہ میں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء:
انگریزوں کے وقت میں انگریزوں کی نگرانی میں لکھی جانے والی تاریخوں میں اور انگریزوں کے لکھے ہوئے گزیٹرز میں ہندوستان کی جنگ آزادی کو غدر ” ۱۸۵۷ء لکھا گیا ہے یعنی غداری کی جنگ اور ان تاریخوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا عشر عشیر بھی نہیں لکھا گیا۔ اس جنگ آزادی میں انگریزوں نے مسلمانوں ہی کو محرک آزادی اور مور و التزام ٹھہرایا ہے اور ان پر کوہ ستم توڑے۔ خدا مسلمانوں کا یہ جنون، یہ جذ بہ سلامت رکھے۔ ہندوستان میں جنگِ آزادی کی تمام قیمت مسلمانوں کو ہی چکانا پڑی ہے۔ امئی ۱۸۵۷ء کو جب جنگِ آزادی کا پہلا شعلہ ہندوستان سے بلند ہوا تو اس کی تپش ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ یہی چمک روشنی جب صحرائے تھل کے مسلمانوں کے سانولے چہروں پر پڑی تو ان کے چہرے چمک اُٹھے ۔ انہیں پل پل کی خبریں مل رہی تھیں اور جنگ آزادی کے یہ صحرائی پر دانے مصروف عمل ہو گئے۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر صحرا میں پھیلے ہوئےکنوؤں (چاہات) پر جاتے لوگوں کو جذبہ جہاد اور جذبہ آزادی سے سرشار کرتے اور اس سے اگلے روز وہ رات کی تاریکی میں صحرا کے کسی اور چاہ پر یہ لوگ اکٹھے ہوتے اور جہاد کا تذکرہ ہوتا ، آزادی کے فسانے ہوتے۔ اس تحریک کی سر پرستی صحرا کے اعوان سیال اور سواگ قوم کے بزرگ لوگ کر رہے تھے ۔ جنگِ آزادی ہندوستان کے شعلے وسطی ہندوستان سے چلتے ہوئے پنجاب اور ڈیرہ جات کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ادھر انگریز اپنے زرخرید کالے غداروں سے مل کر جہاں بھی بغاوت ہوتی وہاں پر قابو پالیتے تھے۔ مسلمانوں کو توپوں پر اڑا رہے تھے۔ ان کو سولیوں پر لٹکا رہے تھے۔ ان کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے چراغ زندگی گل کر رہے تھے اور مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے تھے۔ ان کی بستیوں اور آبادیوں کو جلا رہے تھے ۔ انگریزوں کی مسلمانوں پر اس ظلم و بربریت کا تاریخ عالم میں جب بھی ذکر ہوتا ہے، تاریخ عالم کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ ان سزاوں سے مسلمان سہمے ہوئے اور خوفزدہ تھے۔ خصوصاً اپنے ہم منصب اور اپنے ہی لوگوں کی مجری سے زیادہ خوفزدہ تھے۔ ادھر جنگِ آزادی کے متوالوں پر ظلم و بربریت کی داستانیں زور پکڑی رہی تھیں، ادھر صحرا میں جنگ آزادی کے صحرائی پروانے شعلہ بجاں ہو کر انگریزوں کے خلاف جہاد کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ادھر صحرا ہی کے تمندار جاگیردار اور سردار انگریزوں کے قریب ہو کر اور انہیں تیاریوں کی خبریں پہنچا کر ان سے سر کے خطاب اور جاگیروں لوٹنے میں مصروف تھے ۔ ان دنوں میں وہ 1 استمبر ۱۸۵۷ء کا دن تھا جس دن سانولی سلونی صورتوں والے مفلوک الحال ، مفلس اور غریب صحرائے تھل کے صحرائی مسلمان چاہ نڑ کی پڑوپی کے میدان میں تیہ شہر سے تین کوس کے فاصلے پر انگریز جابر حکمرانوں کو گھیرے میں لینے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہو رہے تھے۔ ادھر انگریز حاکم کرنل نامسن کو مخبروں نے خبر دار کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی فوج کو لے کر چاہ سکھے والہ پر مورچہ بند ہو گیا۔ کرنل نامسن کی فوج تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس تھی ۔ جس میں چھوٹے دہانے کی تو ہیں بھی شامل تھیں ۔ ادھر پیوند لگے کپڑے، پاؤں سے نگے ٹوٹی پھوٹی تلواریں، کلہاڑیوں، ہلم اور چند توڑے دار بندوقیں اور سونے ۔ یہ ان بے سرو سامان صحرائی مسلمانوں کا سامان حرب تھا ۔ ۲ بجے دن کے قریب کی پڑوپی سے مسلمان غازیوں کا جیش روانہ ہونے کو تھا کہ ادھر کرنل ٹامس کو غدار لوگوں نے اطلاع دی کہ مسلمان فوج لیہ شہر کی طرف روانہ ہونے کو ہے تا کہ وہ انگریز چھاؤنی اور انگریزوں کے گھروں پر قبضہ کر لیں۔چنانچہ کرنل ٹامسن اپنی فوج لے کر ایک سیلاب کی صورت میں چاہ نڑ کی پڑوپی کے میدان میں پہنچ گیا تا کہ مسلمان حریت پسندوں کا راستہ روک سکے۔ اچانک کرنل ٹامسن کی فوج کے سامنے آجانے سے اب حریت پسند صحرائی مسلمانوں کے لئے دست بدست جنگ کرنے علاوہ کوئی اور چارہ کا رنہ رہا چنا نچہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور علی مدد کے نعروں کے ساتھ یہ صحرانشین انگریزوں کی فوج کی طرف تلواریں اور کلہاڑیاں سونت کر بھاگ پڑے۔ ادھر کرنل ٹامسن نے ایمان کے ان متوالوں پر آتش و آہن کی باڑ مارنے کا حکم دیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ صحرا کے سانولی صورت اور پیوند لگے کپڑوں والے پچاس دیوانے خاک و خون میں لتھڑ کر سرفراز ہو گئے اور شہادت کی معراج کو پہنچ گئے اور ان میں سے کچھ لوگ بندوقوں سے مسلح انگریزوں کے سپاہیوں کے سروں پر پہنچ گئے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انگریز آفیسر تھارو بریڈ گھوڑوں پر سوار ہو کر بندوقوں سے مسلمان مجاہدین کونشانہ بنارہے تھے اور گھوڑوں کو ادھر سے ادھر بھگا رہے تھے۔ جب بھی کوئی مجاہد گرتا تو سب مجاہد بیک آواز انا اللہ و انا الیه راجعون بڑی بلند آواز سے پڑھتے اور پھر نئے ولولے سے لڑائی میں مصروف ہو جاتے ۔ گھمسان کی لڑائی بڑی شدت سے جاری تھی۔ اسلام کے شیدائی صحرائی ( تھلوچی) پینے، خون اور خاک سے لت پت زمین پر گر رہے تھے۔ اللہ اکبر یا نبی یا رسول انا لله و انا اليه راجعون کے نعرے گونج رہے تھے۔ ان حریت پسند مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں کی طرف سے لڑنے والے مسلمان سپاہیوں کے تیور بدلنے لگے تھے اور اسے کرنل ٹامسن نے محسوس کر لیا تھا چنانچہ وہ اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے رہا تھا کہ اچانک ایک طرف سے ایک صحرائی جاٹ نے نکل کر آنا فانا ایک بہت بڑا سونٹا کرنل ٹامسن کے کندھے پر اس انداز سے مارا کہ کرنل ٹامسن گھوڑے سے نیچے گر گیا اس کے سپاہی فوراً اس کی مدد کو لیکے اور اسے سہارا دے کر دوبارہ گھوڑے پر سوار کر دیا اور پھر وہ گھوڑا بھنگا تا ہوا اپنے بنگلے کی طرف چلا گیا۔ انگریزوں کی فوج چھاؤنی کی طرف آگئی۔ شام کا اندھیرا پھیل گیا تھا اسلام کے بچے شیدائی سانولی صورتوں اور ایمان سے روشن چہروں والے صحرانشین بارود اور سیسہ کے آگے خون سے لت پت ہو کر اسلام کے تین سو پروانے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے تھے۔ جبکہ ایک سو ستر سپاہی انگریزوں کے کھیت رہے جن میں آدھے انگریز شامل تھے۔ مسلمان اپنے شہداء کی لاشیں لے کر صحراؤں میں گم ہو گئے۔ انگریزوں نے دریائے سندھ کے کنارے اپنا قبرستان بنا لیا اور اپنےانگریزوں کو اس قبرستان میں دفن کر دیا۔ جس کے آثار و باقیات اب تک موجود ہیں ۔ کرنل ٹامسن اس چوٹ کے اثر سے کئی ماہ بعد مر گیا اور لیہ میں دفن ہوا ۔
انگریزوں نے جنگ نڑ کی پڑوپی کے بعد صحرائے تھل کے مسلمانوں پر کوہ ستم توڑ ڈالے۔ مسلمانوں کی زبانوں کو تالے لگ گئے ۔ انگریزوں کے مراعات یافتہ غدار ان مجاہدوں کو اور ان کے قبیلوں کو شکاری کتوں کی طرح تلاش کرنے لگ گئے ۔ تو یہ خدا کے سیاہی صحراؤں کی وسعتوں میں گم ہو گئے انہوں نے اپنے نام بدل لئے۔ انہوں نے اپنی قو میں بدل لیں۔ انہوں نے خود کو مزدور پیشوں میں گم کر لیا اور اب تک ان مجاہدوں کی نسلیں موچی، ترکھان اور اوہار بن کر تھل کے صحراؤں کی وسعتوں میں گم ہیں اور زندگی کے دن گزار رہی ہیں ۔ میرے صحرائے تھل کی عظمت کے امین عظیم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صحرائے تھل کے اکثر قدیم قبرستان گمنام شہیدوں سے بھرے ہوئے ہیں اور یہ وہ گمنام شہید ہیں جنہوں نے اسلام کی عظمت کے لئے اپنی مادر وطن کے لئے اپنی آزادی کے لئے جنگ لڑ کی پڑوپی ۱۸۵۷ء میں جسم و جان کے نذرانے پیش کئے تھے اور گمنام اس لئے ہوئے تھے کہ ان کی آنے والی نسلوں کو انگریز ختم کرنا چاہتے تھے ۔ اسلام اور وطن کے شیدائی ان صحرائی دیوانوں کی نسلیں صحراؤں میں گم ہوگئی ہیں۔ انہوں نے اپنے نام اور قومیں تک تبدیل کر لی ہیں۔ یہ تھل کے صحراؤں میں جنگ لڑکی پڑوپی کے نام سے موسوم لڑی جانے والی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے متعلق انگریز اور اس کے خوشامدی صرف اتنا لکھ سکے ہیں کہ لیہ میں جنگ آزادی رائے احمد خان کھرل کے چند بھگوڑے ساتھیوں نے آکر لڑی تھی جس میں وہ سب لوگ مارے گئے تھے اور کرنل نامسن معمولی زخمی ہوا تھا اور پھر لکھا ہے کہ کوئی خاص بغاوت نہیں ہوئی ہے۔ میری عقیدتیں، میری صبحیں میری شامیں میرے لیہ کے ان گمنام شہیدوں کے نام ہیں۔ میرے جذبے میرے الفاظ صحرا کے اُن غازیوں سلام ”شہیدوں کے صدقے ہیں ان کی اولادوں کو سلام ہے میرے سلام اعوانوں سیالوں، سواگوں اور تھل کے صحرائی جائوں کے نام ہیں جو خدا کی راہ میں شہید ہوئے اور غازی کہلائے اور گمنام ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے راہ وفا کے ان شہیدوں کو میر اسلام ہے جو جنگ لڑ کی پڑو پی میں شہید ہوئے۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے