لیہ

لیہ تاریخ کے آئینے میں

زیر شفیع غوری

لیہ ضلع مظفر گڑھ کی ایک اہم تحصیل ہے۔ اگر چہ اب یہ سمٹ کر سب ڈویژن کی صورت اختیار کر چکی ہے لیکن ماضی کے پردے اٹھائے جائیں تو معلوم ہوگا کہ فوجی اعتبار سے اہم مقام ہونے کی وجہ سے لیہ اس سے پہلے
ضلع کمشنری اور ایک زمانے میں صوبہ رہ چکا ہے۔ لفظ لیہ کے اصل مآخذ کے متعلق حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے لیکن مقامی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ لیاں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جب اس شہر کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت یہ بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا اور یہاں لیاں نام کی جھاڑیاں بڑی کثرت سے تھیں۔ اس وجہ سے جگہ کا نام ان سے منسوب کیا گیا جو بگڑتے بگڑتے ، یا کہہ سکتے ہیں سنورتے سنورتے ، لیڈ کی صورت اختیار کر گیا۔ ڈاکٹر راقب بلوچ نے اپنی تاریخ بلوچاں میں عجیب و غریب تحقیق اور دلائل دینے کے بعد کہا ہے کہ لیہ کا نام حضرت نوع کی زوجہ کے اسم گرامی کی نسبت سے رکھا گیا، جن کا نام بھی لیا تھا۔ یہ خیال بعید از قیاس ہے اور جو دلائل ڈاکٹر صاحب نے دیے ہیں ان پر کسی اور وقت قلم اٹھا کر ان کو آسانی کے ساتھ رڈ کیا جا سکتا ہے۔ لیہ کی تاریخ کا با قاعدہ آغاز سولہویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے، جب ۱۵۵۰ء میں کمال خان نے اس کی بنیاد رکھی۔ اس وقت لیہ کو غازی حکومت میں صوبہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس سے پہلے کے زمانے کے متعلق تاریخ کی کڑیوں میں باہمی ربط مفقود ہے۔ مشہور مؤرخ ایرین کے مطابق یہ مضمون آج سے کم وبیش چالیس سال پہلے ۱۹۸۰ء میں لکھا گیا جب راقم الحروف گورنمنٹ ڈگری کالج لیہ میں سال چہارم کا طالب علم تھا۔ مضمون کے متن میں الفاظ اور سین کی تصیح یا جملوں کی بناوٹ میں معمولی تبدیلی کے علاوہ کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا، البتہ جہاں کچھ وضاحت بہت ضروری سمجھی گئی اسے فٹ نوٹ کی صورت میں واضح کیا گیا۔۳۲۷ ق۔ م میں جب سکندر دریا کے راستے جہلم ، چناب اور سندھ کے سنگم کی طرف روانہ ہوا تو اس کا مشہور سردار کر یٹرس دریا کی دائیں جانب فوج کے ایک حصے کو اپنے ساتھ لیے چلا ۔ قدرتی طور پر اس کا سفر دریا کنارے صحرا کے تھلی یا اس کے قریب قریب رہا ہوگا۔ دریا اگر چہ اس وقت تھل سے دور بہتا ہے لیکن ایسے نشانات ملتے ہیں جن سے انداز ولگانا مشکل نہیں کہ ۳۲۷ ق۔ م میں وہ ٹیلوں کے بالکل ساتھ بہتا ہوگا۔ گو یا ہم کہ سکتے ہیں کہ سکندر کی فوج اس علاقہ سے گزری۔ سکندر اعظم اور کمال خان کے ادوار کی درمیانی کڑیاں ملانے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے، اگر چہ تھل میں اس درمیانی عرصہ سے متعلق آثار تلاش کرنا خاصا محنت طلب کام ہے۔ لیہ کی سیاسی تاریخ کے بیان سے قبل میں یہاں آنے والے قبائل کے بارے میں کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے براہ راست یہاں کی تاریخ پر اثرات مرتب کیے۔ یہ علاقہ ، تقریبا تمام کا تمام، جنوب کے علاقوں سے آنے والے قبائل کی وجہ سے آباد ہوا۔ پندرہویں صدی کے آغاز میں جاٹ قوم کے مختلف قبائل جن میں کھو کھر اور چھینہ وغیرہ شامل تھے، ملتان اور بہاول پور کی طرف آئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے میانوالی تک کی درمیانی وادی کو آباد کیا۔ اس کے بعد علاقے میں بلوچوں کی آمد شروع ہوئی ۔ جنوب کی طرف سے آنے والی اس قوم سے تعلق رکھنے والے قبائل کی نوعیت زیادہ تر فوجی جتھوں کی تھی۔ یہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کی قیادت میں وارد ہوئے اور چھوٹی موٹی کئی لڑائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ تھل کلاں اور کوٹ سلطان کے صحرا میں ان کی آبادی جانوں کی نسبت بہت کم تھی لیکن سندھ کنارے کوٹ سلطان میں یہ بڑی تعداد میں آباد ہوئے ۔ لیہ ۱۷۳۸ء تک، جب نادر شاہ نے اس علاقے پر حملہ کیا مغل سلطنت کا حصہ تھا۔ ۱۷۳۹ء میں دریائے سندھ کا مغربی حصہ نادر شاہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس کی موت کے بعد یہ علاقہ احمد شاہ ابدالی کے زیر نگیں آگیا ۔ احمد شاہ کی فوج نے ایک بار پھر ۱۷۵۶ء میں پنجاب پر فوج کشی کی اور دوسرے علاقوں کی طرح اس علاقے پر بھی اپنا قبضہ سلام کیا۔احمد شاہ کے ابتدائی دور میں لیا اور اس کے ملحقہ علاقوں میں کابل کی حکومت کی طرف سے کوئی مخصوص گورنر مقرر نہیں کیا گیا اور یہ ہوت اور جسکانی سرداروں کے درمیان تقسیم رہا جوکم و بیش خود مختار حیثیت رکھتے تھے۔ ابدالی کے آخری دور میں گورنروں کا با قاعدہ طور پر تقرر ہونے لگا۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں مناسب ہے کہ پندرہویں صدی اور احمد شاہ ابدالی کے درمیانی دور کے بارے میں کچھ ضروری معلومات جان لیں۔ تاریخ فرشتہ میں ابوالقاسم فرشتہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ بلوچ سردار آباد ہوئے۔ یہ بات ایک فارسی دستاویز سے بھی ثابت ہوتی ہےجس کا ترجمہ لیفٹینٹ میکلین (Maclagon) نے کیا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق ۸۷۴ ھ بمطابق ۱۴۹۹ء میں سلطان حسین بن قطب الدین نے ملتان کی حکومت حاصل کرلی اور شورکوٹ ، چونیاں، کروڑ اور دھنکوٹ پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ملک سہراب خان نے ، جو کہ دورائی بلوچ تھا، اپنے بیٹے اسماعیل خان اور فتح خان کے ساتھ آکر سلطان حسین کی خدمت میں حاضری دی۔ اس زمانے میں پہاڑی ڈاکو سلطنت کے لیے مصیبت بنے ہوئے تھے۔ سلطان نے سہراب خان کو خوش آمدید کہا اور قلعہ کروڑ سے لے کر قلعہ دھنکوٹ تک اس کو عطا کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حاجی خان اپنے بیٹے غازی خان اور قبیلے کے لوگوں کے ساتھ سلطان کے پاس آیا اور شاہی نوکری اختیار کر لی۔ اس طرح سے سلطنت کا پہاڑی علاقہ محفوظ ہو گیا اور شاہی ریونیو میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اسی زمانہ میں ملک سہراب خان نے اپنے بیٹے اسماعیل خان کے نام پر ڈیرہ اسماعیل خان اور حاجی خان نے اپنے بیٹے غازی خان کے نام پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں ہم ایک بار پھر بلوچ سرداروں کا تذکرہ سنتے ہیں جب ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ سوری نے خوشاب اور بھیرہ کا دورہ کیا۔ اس وقت بلوچ سرداروں غازی خان، اسماعیل خان اور فتح خان نے بھی حکومت دہلی کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ تب تک یہ لوگ خاصی اہمیت اختیار کر چکے تھے اور علاقہ میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ اس صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچ قبائل دریائے سندھ کے کنارے اپنے دو ممتاز خاندانوں کی قیادت میں آئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسماعیل خان اور غازی خان دونوں دورائی بلوچ تھے۔ بعد میں یہ نام تاریخ سے غائب ہو گیا اور مقامی تاریخ کے بقول غازی خان کے قبیلے کو میرانی بلوچ جبکہ اسماعیل خان کے قبیلے کو ہوت بلوچ کہا جانے لگا۔ ہوتوں نے ڈیرہ اسماعیل خان پر کم و بیش ۱۷۷۰ء تک مسلسل حکومت کی۔ ان کے آخری حکمران نصرت خان کو احمد شاہ ابدالی نے . بر طرف کر دیا اور قیدی بنا کر کابل لے گیا۔ لیہ غازی خان کی حکومت میں شامل تھا۔ خیال ہے کہ نوشہرہ سے آگے کا علاقہ اسماعیل خان کو عطا کیا گیا تھا۔ روایات کے مطابق ۱۵۵۰ء میں غازی خان کے چار بیٹوں نے کوٹ ادو، کوٹ سلطان، لیہ اور نوشہرہ کی بنیاد رکھی۔ کمال خان جس نے لیہ کی بنیاد رکھی سب سے بڑا تھا۔ لیہ کو صوبہ کی حیثیت حاصل تھی مگر مرکز سے دوری کی وجہ سے اس کے دفاع پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جاتی تھی۔ نتیجے کے طور پرنوشہرہ کا ذکر گزیٹیئر ز میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ یہ چھوٹا سا قصبہ لیہ سے کروڑ جاتے ہوئے کوٹلہ حاجی شاہ اور دورہ کے درمیان واقع ہے اور اب بھی ایک معروف جگہ ہے۔جسکانیوں کو طاقت پکڑنے کا موقع مل گیا اور داؤد خان نے کم و بیش ایک ڈاکو کی حیثیت اختیار کر کے لیہ اور کروڑ کے در میان دریائے سندھ کے کنارے پھیلے جنگل کو مسکن بنا کر مشکوری کو پتا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ آنے والے دنوں میں داؤد خان نے مصیبت کھڑی کر دی۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنت دہلی کے تخت پر شہنشاہ اکبر رونق افروز تھا۔ دارالسلطنت کی ہدایت پر ایک فوج جسکانیوں کے خلاف بھیجی گئی جس نے ان کا قلع قمع کر دیا لیکن ۷ اویں صدی کے آغاز میں یہ لوگ پھر اکٹھے ہو گئے۔ اس دفعہ ان کا سردار بلوچ خان تھا۔ شہنشاہ کی طرف سے انھیں یہ علاقہ گرانٹ کے طور پر عطا کر دیا گیا۔ اس طرح میرانیوں نے اپنا اثر و رسوخ اور قبضہ مکمل طور پر اس علاقے پر کھو دیا۔ خیال ہے کہ ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ میرانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا مسکن چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ بلوچ خان اور اس کے قبیلے نے علاقہ قبضے میں لے لیا۔ آج بھی بلوچ خاندان کی سرکردہ شاخیں مثلاً جسکانی، مندرانی، کندانی پر دوانی اور ملیانی وغیرہ بھی بلوچ خان کی اولاد میں سے ہونے کا دعوی کرتی ہیں۔ اس علاقے پر ان کا قبضہ اٹھارہویں صدی کے آخری دور تک رہا جس کے دوران انھیں اپنی بقا کے لیے چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں۔ دوسری جانب سندھ کے کلہوڑہ حکمران بھی اس علاقے پر حکومت کا دعویٰ کرتے تھے۔ اگر چہ سندھ اسی علاقے کا حصہ تھا جو کابل کے حکمرانوں نے دہلی کے حکمرانوں سے حاصل کیا تھا لیکن سندھ پر ان کی گرفت مضبوط نہیں تھی ۔ کلہوڑہ خاندان کم و بیش خود مختار تھا لیکن اس کے لیے کابل سے باہمی طور پر طے شدہ ریونیو، مقامی سرداروں سے لڑائی اور مالیہ وغیرہ کی وصولی کے بغیر، ادا کرنا ناممکن تھا۔ وقتاً فوقتاً وہ ڈیرہ غازی خان کی حکومت پر اپنا حق ملکیت جتلاتے اور حملہ کرتے رہتے تھے۔ ۱۷۵۸ء میں احمد شاہ نے ایک فوج کوڑہ پل کی قیادت میں ان کی سرکوبی کے لیے سندھ بھیجی۔ مقامی فوج نے آپس کے انتشار کی وجہ سے شکست کھائی۔ کلہوڑوں کے ساتھ ساتھ ڈیرہ غازی خان کے میرانی بھی باہمی پھوٹ سے نہ بچ سکے اور ان کی خاصی بڑی تعداد ڈیرہ غازی خان کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر آباد ہوگئی۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے ۱۷۶۹ء میں غلام شاہ کلہوڑو نے ڈیرہ غازی خان پر حملہ کر دیا اور میرانیوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ محدود فوجی قوت اور امراء کا اپنے حکمرانوں پر عدم اعتماد میرانیوں کی شکست کا باعث بنا۔ غلام شاہ نے ۱۷۶۹ء میں ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کیا لیکن ۱۷۷۲ء میں اس کی مشکوری کی حدود کاتعین کرنا آسان نہیں لیکن نوشہرہ کے مغرب، شمال مغرب میں دریا کے کنارے اب بھی مشکوری نام کی بستی موجود ہے۔ عین ممکن ہے یہی پرانے مشکوری کی جگہ آباد ہوئی ہو جس کے اردگر دو سیع جنگل جسکانیوں کے لیے پناہ گاہ کا کام دیتا ہوں۔وفات کے بعد کا ہوڑو حکومت تیزی سے زوال کا شکار ہوئی۔ ۱۷۸۲ء میں انھیں تالپوروں سے فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجہ کے طور پر کلہوڑے کابل کے حکمرانوں کے رحم و کرم پر آپڑے۔ انھیں ڈیرہ غازی خان سے دستبردار ہونا پڑا جہاں ان کی خاصی جاگیریں موجود تھیں اور جن کی بنیاد پر نھیں کلہوڑہ کی بجائے سرائی کہا جانے لگا تھا۔ سرائی اس شکست کے بعد بار دیگر ایک بڑی فوج کے ساتھ نئی ریاست کی بنیا در کھنے کے لیے نکلے۔ لیہ پر اس وقت جسکانیوں کی حکومت تھی جو اندرونی خلفشار کا شکار تھے۔ عبدالنبی سرائی جو غلام شاہ کلہوڑو کا بھائی تھا اس علاقہ میں داخل ہوا ۔ شورش پسند سرگانیوں کے ساتھ مل کر ۱۷۸۹ء میں لیہ پر حملہ کر کے محمد خان جسکانی کو شکست دی اور لیہ کی حکومت حاصل کر لی۔ اس طرح جسکانیوں کی حکومت جو اس علاقے میں تقریباً دو سو سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہی بالآخر ختم ہو گئی۔ عبدالنبی سرائی کی حکومت بھی تین سال سے زیادہ نہ چل سکی۔ اس کے خلاف شکایتیں بادشاہ کو بھیجی گئیں جس میں اس کی سختی اور ظلم کے خلاف فریاد کی گئی اور کہا گیا کہ اس کی جگہ محمد خان سدوزئی کو حکمران بنایا جائے جو حاکم ملتان مظفر خان کا چچازاد بھائی تھا۔ نتیجے کے طور پر محمد خان سدوز کی کو حکمران بنادیا گیا۔ محمد خان جانتا تھا کہ عبد النبی سرائی سے جنگ کیے بغیر اس کے علاقے پر قبضہ حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ اس کا مقابلہ عبد النبی سرائی سے لیہ کے قریب ہوا۔ عبدالنبی کے حامی خوب بڑے اور محمد خان کی فوج کی شکست کے آثار نظر آنے لگے مگر اپنوں کی غداری نے پانسہ پلٹ دیا۔ میاں راجہ فقیر رکھی اور اس کے ہمراہ سید جی توڑ کر معرکہ آراء ہوئے مگر میدان جنگ میں کام آئے ۔ عبدالنبی سرائی کا فرزند محمد عارف جو لڑائی کا روح رواں تھا جنگ میں واصل بحق ہوا۔ اس کی شہادت کے بعد سرائیوں نے حوصلے ہار دیے۔ محمد خان نے سرائیوں کو اجازت دی کہ وہ ایک دن کے اندر اندر اپنا مال و منال ساتھ لے کر علاقہ چھوڑ دیں۔ اُدھر کابل میں تیمور شاہ ۱۷۹۳ء میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد زمان شاہ حکمران ہوا لیکن شہزادہ ہمایوں کے ساتھ تخت نشینی کے مسئلے پر جو جھگڑا شروع ہوا اس میں بالآخر ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ روایات کے مطابق وہ لیہ تک آیا اور ایک کنوئیں پر رکا جہاں اس نے گنوں کے عوض اشرفی عطا کی۔ قدرتی طور پر اس امر پر ہیجان پیدا ہوا اور واقعہ کی اطلاع نواب محمد خان تک ھی جواس وقت لیہ میں مقیم تھا۔ زمان شاہ نے ہمایوں کی گرفتاری کے لیے انعام واکرام کا علان کیا تھا، چنانچہ حمدخان فوج کے ساتھ نکالا اور ہمایوں کو تھل میں لیہ سے تقریبا پندرہ میل دور جالیا۔ ہمایوں کے ساتھ تھوڑے سے گھڑ سواروں نے شدید مزاحمت کی۔ اس کا جوان لڑکا اس لڑائی میں مارا گیا۔ ہمایوں کو قیدی بنا لیا گیا اور معاملے کی اطلاع زمان شاہ کو دے دی گئی۔ زمان شاہ کے جوابی احکامات کی تعمیل میں ہمایوں کی آنکھیں نکال دی گئیں۔ نواب محمد خان کو انعام کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان کی اضافی حکومت اور سر بلند خان کا خطاب دیا گیا۔ ہمایوں نے باقی زندگی قید میں گزاری۔ نواب محمد خان نے علاقے میں ایک مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر منکیرہ اور بھکر کو بنایا۔ وہ جس وقت تک زندہ رہا اپنی حکومت کی طرف کسی کو میلی نظروں سے نہ دیکھنے دیا۔ وہ بڑے زبردست کردار کا مالک تھا۔ اگر چہ اس زمانے میں سکھ قوت پکڑ رہے تھے لیکن انھیں رنجیت سنگھ کی قیادت میں نواب کی زندگی میں اس کے علاقے پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ نواب محمد خان کی وفات کے بعد اس وقت معاملہ مختلف ہو گیا جب حافظ احمد خان تخت پر بیٹھا۔ سکھوں نے پہلے تو لوٹ مار مچا کر اور اردگرد کے علاقوں میں واقع کچھ قلعے اپنے قبضے میں لے کر حافظ احمد خان کو خراج دینے پر مجبور کر دیا، لیکن جیسا کہ بعد میں ہوتا ہے سکھوں کی نیت خراب ہو گئی۔ ۱۸۱۸ء میں ملتان پر قبضہ کے بعد ۱۸۲۱ء میں رنجیت سنگھ نے فیصلہ کیا کہ اب نواب احمد خان کا معاملہ بھی صاف کر دیا جائے۔ آخری مقابلہ منکیرہ میں ہوا۔ نو دس دن کے محاصرے کے بعد سکھوں نے یہ قلعہ کچھ شرائط کے ساتھ فتح کر لیا۔ نواب کو ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف مال و متاع سمیت جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ۱۸۳۷ء میں رنجیت سنگھ کے متعین کردہ گورنر ملتان دیوان ساون مل نے ، جو نہایت دور اندیش اور قابل شخص تھا ، زراعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ علاقے کا پہلا باقاعدہ بند و بست کیا۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھوں کے تعلقات انگریزوں سے اچھے نہ رہے۔ بالآخر ملتان میں ہونے والے ہنگامے کا آغاز وانس ایکٹیو اور اینڈرسن کی موت سے ہوا اور انگریزوں نے ملتان پر حملہ کر دیا جو اس وقت ساون مل کے بیٹے مول راج کے تحت تھا۔ ۲۲ جنوری ۱۸۴۹ء کو مول راج کی شکست کے نتیجے میں ملتان پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ۲۹ مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کا الحاق ہوا اور اس طرح سارے کا سارا علاقہ سلطنت برطانیہ کا حصہ بن گیا۔ لیہ میں کوئی خاص لڑائی نہ ہوئی معمولی جھڑپوں کے بعد انگریزوں کو علاقے کا کنٹرول حاصل۔ یادر ہے تھل کینال کی تعمیر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی آبادکاری بہت بعد میں عمل میں آئی۔ اس سے قبل صحرائے تھل کی حدود کچے کے علاقے تک وسیع تھیں ۔

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com