لیہ کے متعلق مختلف تو جہات پیش کی جاتی ہیں۔لیہ کی بنیاد کمال خان میرانی نے 1550ء میں رکھی۔ اپنے نام کمال خان کی مناسبت سے اس کا نام کوٹ کمال رکھا جو کہ لیہ میں بگڑ کر کوٹ کمال خان کی بجائے حرف لیہ رہ گیا۔ یہ شہر کی بنیا د کمال خان میرانی نے 1550ء میں رکھی۔ اس وقت اس جگہ ایک پودا جس کو مقامی زبان میں لئی کہتے ہیں کی بہتات تھی چونکہ لٹی کی جمع لیاں ہے اس لیے یہ جگہ لیاں کہلانے لگی جو کہ بعد میں لیہ مشہور ہو گیا۔
عربی زبان میں ایک لفظ لیا ہے جس کے معنی ایک ایسی جگہ جہاں پانی دور ہو چونکہ لیہ ماضی میں دریائے سندھ سے کافی دور تھا۔ اس لیے اس کو یہ کہا گیا۔ یہ کے ایک معنی چھی جگہ کے ہیں چونکہ ماضی میں اس شہر کے ارد گرد کافی تعداد میں درخت تھے یہ شہر نظر نہ آتا تھا۔ اس لیے معنوی لحاظ سے لیہ موسوم ہوا۔ ریکارڈ بند و بست سال
1878ء میں درج ذیل وجہ بیان کی گئی ہے۔ یہ شہر تھل اور کچھ کے دہانہ پر تھا درخت بہت زیادہ تھے اور آبادی بھی کم تھی ۔ چونکہ آبادی بوجہ کثرت در ختماں نظر آتی تھی۔ اس لیے لیہ موسوم ہوا۔جب پرانا شہر دریا برد ہوا تو پھر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر مختلف جگہوں پر آبادیاں ہو گئیں۔لیہ شہر کی جگہ پر جو لوگ آباد ہوئے انھوں نے اس جگہ کو پرانا نام لیہ دیا اور لیہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر جولوگ آباد ہوئے انھوں نے اس جگہ کو پر ان نام لیہ دیا اور لیہ کے شمال کچھ فاصلے پر جو لوگ آباد ہوئے وہ جگہ نواں شہر کہلانے لگی جو کہ بعد ازاں نواں شہر کی بجائے نوشہرہ کہلانے لگی۔ محققین تاریخ کی تحقیقات کے مطابق مختلف نسلوں کے قبائل شمال مشرقی ایران سے تقریباً 3200 قبل از مسیح پاکستان موجودہ داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے ہی ایک قوم طلوبہ تاریخ میں مشہور ہوئی۔ اس قوم کی رہائش کا علاقہ ملتان ساہیوال اور جھنگ بیان کیا جاتا ہے۔ لیہ میں ایک قوم اب بھی ملیحہ آباد ہے۔ ابن حنیف کے مطابق مل کے معنی پہاڑ کے ہیں اور ملوہہ کے معنی ہوئے پہاڑی لوگ یا دیگر الفاظ میں ان کو پہاڑوں کے رہنے والے لوگ جیسا کہ آج کل تھل کے باشندوں کو تعلو چی دامن کو ہ سلیمان سے آنے والے بلوچوں کو دامانی کہا جاتا ہے، اسی طرح درہ گومل نے ان کو ملو ہہ کا نام دیا۔ اہد آج سے تقریباً 5000 ہزار قبل یہ قبائل دره گول پار کر کے قدیمی راستے پر چلتے چلتے و ہوا نالہ کے کنارے پہنچے تو انھوں نے و ہوا نالہ پار کر کے گزرگاہ نالہ کے قریب ڈیرہ جمالیا، زمین زرخیز تھی ، پانی بھی ساتھ تھا کوئی روک ٹوک نہ تھی ، انھوں نے جھونپڑیاں بنا کر مستقل رہائش اختیار کر لی۔ مقامی لوگوں نے اس نئی بستی کو ملو ہہ یعنی پہاڑ سے آنے والے لوگوں کی بستی کہا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ ملو ہہ بگڑ کر ملیحہ بن گیا۔ ملیحہ سے
لو ہیہ اور لیہہ لیہ بن گیا۔ ان ہی قبائل میں سے کچھ خاندانوں نے آگے بڑھ کر ملتان شہر کی بنیا د رکھی جو کہ ملو ہ استھان مشہور ہوا ملو ہہ استھان کے معنی بھی پہاڑ سے آنے والے لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ لہذا ان ہی قبائل کی پہلی آبادی جس کی ملو ہہ استھان کا نام دیا گیا بعد ازاں مطلوبہ استھان لیجے کے بگاڑے مولتان اور پھر ملتان مشہور ہو گیا۔ لیہ میں ملیحہ قوم کے لوگ آج بھی آباد ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ ملیحہ ملاح ولی سب ملیحہ قوم کے لوگ ہیں۔ بعض پرانی روایات سے دو اڑھائی سو سال قبل لکھی جانے والی قلمی دستاویزات میں لیہ کو لبیہ لکھا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ لیہ ایک قدیمی شہر ہے لیکن پرانا یہ شہر سالوں صدی عیسوی میں دریائے سندھ کے کٹاؤ کا شکار ہو کر غرق ہو گیا جس کے باعث تمام قدیمی آثار بھی بہت نیست و نابود ہو گئے۔یہ قدیم کے لوگوں نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہونا شروع کر دیا بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کر کے آگے چلے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی گئی اور یہ اچھا خاصا قصبہ بن گیا۔ جب بلوچ میرانی نے علاقہ تھل پر قبضہ جمایا تو ریاست تھل بھکر منکیرہ کے علاقے کہا جاتا رہا۔ سترھویں صدی عیسوی کے آخر اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے شروع میں کمال خان میرانی نے ڈیرہ غازی خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے ایک خود مختار صوبہ کی شکل دے دی تھی اور اس صوبے میں دریائے سندھ کے مشرقی علاقے چوبارہ اور نواں کوٹ کو شامل کیا۔ چونکہ کمال خان میرانی یہاں کا گورنر اور جاگیر دار تھا، اس لیے یہ شہر لیہ کمال خان کہلانے لگا۔ بعد کے مورخین سے یہ سمجھ لیا کہ لیہ شہر کی بنیا د کمال خان نے رکھی ہے۔ کسی مشہور و معروف شخصیت کی مناسبت سے بہت سے شہروں کے نام مشہور ہوئے ہیں۔ مثلاً فیصل آباد کا نام لائل پور تھا۔ ساہیوال کا نام منکسری تھا۔ فیصل آباد سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل سے منسوب ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ شہر شاہ فیصل نے بسایا تھا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب ضلع لیہ کی قتل کروڑ لعل عیسن کا قدیمی نام دیو پال گڑھ تھا۔ جب محمود غزنوی نے اس قلعہ کو فتح کر لیا تو حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی بہاؤالدین کے آباؤ اجداد نے یہیں رہائش کر لی تھی اور سلطان خوارزمی کے آباؤ اجداد نے بھی یہیں رہائش اختیار کر لی۔ جب حضرت محمد یوسف قریشی المعروف کروڑ لعل عیسن نے 1546ء میں یہاں تعلیم و تبلیغ شروع کی تو کوٹ کروڑ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی اور کوٹ کروڑ آپ کے نام کی مناسبت سے کروڑ لعل عیسن کہلانے لگا اور یوں دیکھتے ہیں کہ تقریباً ایک ہزار سال کے عرصہ میں ایک ہی جگہ تین ناموں سے مشہور ہوئی۔ اب اگر کوئی مورخ یہ لکھ دے کروڑ لعل عیسن کا شہر حضرت لعل عیسن کے آنے سے معرض وجود میں آیا ہے تو یہ بات تاریخی طور پر قطعی غلط ہو گی۔ اسی طرح یہ شہر بھی عرصہ قدیم میں لیہ کے نام سے ہی آباد تھا لیکن کمال خان میرانی کے یہاں متوطن ہونے سے یہ علاقہ کچھ عرصہ تک یہ کمال خان مشہور ہوا ہے۔ کتاب مناقب سلطانی میں اسے یہ کمال خان لکھا گیا ہے۔ہماری تحقیقات کے مطابق لیہ پانچ ہزار سال پرانی قدیمی شہر ہے۔ لیہ پرانا شہر جب دریا برد ہوا تو اس کے مشرقی کنارے پر نئی آبادی بنی وہ بھی پرانے نام لیہ سے ہی موسوم ہوئی تھی۔ ان حفیف لیہ کو ملتان سے بھی
قدیم شہر سمجھتے ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد یہ اس جگہ آباد ہوا جہاں آج کل سکھنے والا نز د جنرل بس سٹینڈ ہے۔ موجودہ شہر کی جگہ 1405 ء میں سید خضر خان حاکم ملتان نے قلعہ بنوایا اور یہاں افغان فوج تعینات کی تھی کیونکہ 1399ء میں تیمور واپسی پر ملتان اور لاہور میں سید عرفان کو بطور نائب مقرر کر کے گیا تھا۔ ان دنوں کوہ سلیمان کے بلوچ اور افغان قبائل جتھے بنا کر لوٹ مار کرتے تھے۔ ان سے حفاظت کی خاطر سید عرفان نے جو قلعے بنا کر افواج تعینات کی تھیں ان میں سے ایک قلعہ لیہ میں تھا اور یہ قلعہ چوک قصاباں سے لے کر قیوم دی ہٹی جنوبی بازار تک سطح زمین سے بلند مقام پر تھا۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ محلہ اندر کوٹ اس قلعہ کے اندر تھا۔ بعد ازاں حفاظت کی خاطر لوگوں نے قلعہ کے اندر رہائش اختیار کرلی تھی۔ پرانی آبادی کی جگہ نیلے بن گئے اور قلعہ کی جگہ پر شہر آباد ہو گیا۔ چینی سیاح ہیون سانگ کی تحقیق کے مطابق لیہ ایک قدیمی شہر ہے اور ساتویں صدی سے قبل تک یہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تھا۔
دریائے سندھ :
ضلع لیہ کی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ 50 میل کی لمبائی میں شمالاً جنو با دریائے سندھ بہتا ہے۔ یہ دریا موجودہ ضلع بھکر سے ضلع لیہ میں چاہ باغ والا موضع بیٹ بخشو سے داخل ہوتا ہے اور لیہ کے موضع سکھانیوالہ کے قریب ضلع مظفر گڑھ میں داخل ہوتا ہے دریائے سندھ کی کل لمبائی 1800 میل میں ہے ۔ گرمیوں میں اس کی چوڑائی ( پیٹ ) 12 میل میں سے 15 تک پھیل جاتی ہے جبکہ سردیوں میں یہ چند شاخوں میں تقسیم ہو کر بہتا ہے۔ لیہ شہر کے ساتھ ہے اس کی ایک شاخ جس کو لالہ کہا جاتا ہے، گزرتی ہے۔ اصل دریا لیہ شہر ہے مغرب کی طرف اس وقت 8 کلومیٹر کے فاصلے پر بہتا ہے۔ جبکہ 80-1878ء کی بندو بست رپورٹ کے مطابق لیہ شہر سے دریائے
سندھ کا فاصلہ 12 میل تھا۔ دریائے سندھ کی گزر گا ہیں: تھل سے ملنے والی شہادتوں اور سکہ جات سے معلوم تھا ہے کہ سکندر اعظم کے وقت دریائے سندھ لیہ سے 30 میل مشرق کی طرف موجودہ ڈیرہ خضر خان اور چوبارہ کے درمیان بہتا تھا۔ نواں کوٹ اور چوبارہ کے شہر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر تھے۔ دریائے سندھ مغرب کی طرف بڑھنا شروع ہوا تو 634 ء کے لگ بھنگ دریائے سندھ اس جگہ بہہ رہا تھا جہاں آج کل یہ شہر آباد ہے۔ یہ شہر ریلوے لائن کے ساتھ بستی بھنگ اس بات کی واضح شہادت موجود ہے۔ پیر جگی کے بھڑے میں جو سکہ ملا تھا وہ یزدگرد ایرانی حکمران کا تھا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ساتویں صدی میں قصبہ پیر جنگی دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوگا۔ اسی دوران پر انا عظیم
الشان شہر لیہ دریائے سندھ کے کٹاؤ کا شکار ہو گیا جو کہ بعد ازاں آٹھویں صدی میں آباد ہو گیا۔
قدیم راستے
ا۔
۲۔
٣۔
دور قدیم سے لیہ شہر اس بڑی سڑک پر واقع ہے جو راولپنڈی چکوال اور میانوالی بھکر سے ہوتی ہوئی یہ شہر
سے آگے کوٹ ادو علی پور اور اوچ شریف سے ہوتی ہوئی ساحل سمندر تک چلی جاتی ہے۔ دوسری بڑی سڑک درہ گول سے ڈیرہ اسماعیل خان ڈیرہ فتح ہوتی ہوئی لیہ تک پہنچی تھی۔ ڈیرہ فتح خانسر کے مقام پر دریائے سندھ پار کر کے یہ سڑک لیہ کی حدود میں داخل ہوتی تھی۔ یہ سڑک نورے والا کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔ یہ وہ قدیمی سڑک ہے جہاں سے آرین سے قبل اور بعد بہت سی اقوام درہ گول سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہوتی رہی ہیں۔ اسے شیر شاہ سوری سڑک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک غزنی تک چلی جاتی تھی۔
آج بذریعہ پختہ سڑک ملتان ، لیہ سے 110 میل کے فاصلے پر ہے جبکہ دور قدیم میں لیہ سے ایک سڑک قصبہ لدھانہ سے چوک ٹیل منڈہ سے ہوتی ہوئی ملتان کے قریب دریائے چناب کو پار کرتی ہوئی ملتان چلی جاتی تھی۔ اس راستہ سے ملتان کا فاصلہ 60 میل بنتا ہے۔ ماضی میں اس سڑک سے میلوں لمبے راستے گذرتے رہے ہیں۔ لیہ سے ایک راستہ موضع لو پانچ نشیب سے گزرتا ہوا دریائے سندھ کے مغرب میں تونسہ شہر تک پہنچتا تھا۔ اب دریائے سندھ پر ایک پل پختہ زیر تعمیر اور تکمیل کے قریب ہے۔ پختہ سڑک لیہ کو تونسہ شہر ملا دے گی جس سے ان شہروں کا فاصلہ تقریباً 32 کلومیٹر رہ جائیگا۔
موجودہ لیہ چوک اعظم روڈ چوبارہ سے ہوتی ہوئی دربار حضرت باہو سلطان تک چلی جاتی ہے اور چوک گڑھ مہاراجہ سے جانب شمال اٹھارہ ہزاری سے گزر کر دریائے چناب پر ہیڈ تریموں سے گزر کر جانب مشرق جهنگ تا شور کوٹ سے گزرتی ہوئی ملتان تک جاتی ہے۔ یہ سڑک بذریعہ جھنگ شہر کو جاتی ہے اور گڑھ موڑ سے جانب مشرق دریائے چناب پر ایک نئے پل تعمیر شدہ سے گزر کر شور کوٹ شہر سے شور کوٹ چھاؤنی سے ہوتی ہوئی جدید سٹرک موٹروے ملاتی ہے۔ لیہ سے جانب شمالی مشرق فتح پور کوٹ گل امام سے ہوتی ہوئی اٹھارہ ہزاری جاتی ہے اور پھر دریائےچناب پر ہیڈ تریموں سے گزر کر جانب مشرق جھنگ تا ملتان روڈ سے گزر کر جھنگ شہر کو جاتی ہے۔قدیمی راستے کی بجائے ایک سڑک پختہ لیہ شہر کے جانب شمال کروڑ لعل عیسن بھکر اور دریا خان اور پھر وہاں سے جانب مغرب دریائے سندھ پر جدید پل تعمیر شدہ سے عبور کرتی ہوئی ڈیرہ اسماعیل خان د خیبرپختونخواہ سے ملاتی ہے۔لیہ شہر سے جانب جنوب ایک سڑک پختہ کوٹ سلطان سے تونسہ موڑ سے جانب مغرب دریائے سندھ پر تعمیر شدہ ہیڈ تونسہ سے دریائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی جانب مغرب جاتی ہوئی نہر ڈیرہ غازی خان پر تعمیر شدہ پل عبور کرتی ہوئی جانب شمال تونسہ شہر سے ہو کر ڈیرہ اسماعیل خان جو خیبر پختونخواہ سے ملاتی ہے اور یہی سڑک نہر ڈیرہ غازی خان پر تعمیر شد و پل قصیر سے ڈیرہ غازی خان شہر جاتی ہے۔ وہاں سے یہی سڑک جانب مغرب قصبہ سخی سرور اور فورٹ منرو سے ہوتی ہوئی رکنی اور بارکھان سے جانب مغرب کوئٹہ صوبہ بلوچستان کو ملاتی ہے۔
لیہ سے ایک سڑک جو کہ تونسہ موڑ تک جاتی ہے ، وہ کوٹ ادو شہر سے ہوتی ہوئی قریشی موڑ تک جاتی ہے۔ وہاں ایک سڑک جانب مغرب ڈیرہ غازی خان کو ملاتی ہے اور قریشی موڑ سے ایک سڑک مظفر گڑھ کو جاتی ہے اور وہاں سے سڑک ملتان شہر کو دریائے چناب پر تعمیر شدہ پل چناب عبور کر کے جاتی ہے اور مظفر گڑھ سے جانب مغرب قصبہ خان گڑھے اور علی پور کو جاتی ہے اور راستہ سے ایک سڑک صادق آباد اور رحیم یار خان سے گزرتی ہے اور آخر کار صوبہ سندھ میں سے گزرتی ہوئی ساحل سمندر کراچی تک چلی جاتی ہے۔ جن سڑکوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ تمام قدیم راستوں کی بجائے اب جدید شکل میں پختہ سڑکیں ہو چکی ہیں۔ ان قدیم راستوں سے لیہ شہر کی مرکزیت ثابت ہوتی ہے اور دیگر تمام صوبہ جات خیبر پختونخواہ بلوچستان اور سندھ کو لیہ سے ملاتے تھے۔ اس طرح لیہ شہر کی قدیمی اور مرکزی حیثیت ثابت ہوتی ہے۔معاہدہ سندھ ساگر ایکٹ سال 1901ء جو کہ انگریزوں کے دور میں ہی تھل کے علاقہ کی آبادی کی خاطر زمینداروں کے ساتھ طے کر کے پلان کیا گیا تھا۔ جس پر بوجہ مختلف حالات و واقعات انگریزوں میں عملدرآمد نہ ہو سکا تھا۔ پھر 14 اگست 1947ء میں یہ علاقہ پاکستان کے معرض وجود میں آجانے سے حکومت پاکستان نے سال 1945ء میں اس منظور شدہ ایکٹ پر عملدر آمد کا فیصلہ کیا۔ ایک ادارہ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کیا گیا جس کا سر براہ ایک چیئر مین تعینات کیا گیا جو کہ CSP کیڈر کا افسر تھا۔ پہلا چیئر مین ایک نہایت قابل ، ذہین اور لائق CSP ظفر الاحسن تعینات کیا گیا۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا۔ علاقہ کی آبادکاری کیلئے فنڈ فنڈز (USA) امریکہ نے فراہم کئے جو کہ چیئر مین TDA کے انڈر تھے جس کو وہ بدوں منظوری صوبائی اجازت استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کہ ماسوائے ریلوے کے دیگر تمام محکمے سویلین مال علیحدہ تعینات اس کے ماتحت کیے گئے تھے۔ چیئر مین وفاقی حکومت کے اندر تھا۔ دریائے سندھ سے کالا باغ کے مقام پر ایک ہیڈ تعمیر کر کے پختہ نہر نکالی گئی جو کہ پانی کے حجم کے لحاظ سے بہت بڑی چوڑی اور گہری کھو دی گئی تھی اور اس کو اندر سے با قاعدہ پیندے سے کناروں تک پختہ اینٹوں اور سیمنٹ سے تعمیر کیا گیا تھا۔ میانوالی سے یہ گہرائی میں گزرتی ہے پھر آگے تحصیل بھکر ، لیہ، کوٹ ادو، مظفر گڑھ تک زمین کے لیول پر ، کچھ حصہ پختہ اور باقی خام نہریں اور مائنز ۔ علاقہ تھل کے کچھ حصہ نہری سیراب کرنے کیلئے تیار کر کے نہروں کا جال بچھا دیا گیا اور اس سے قبل اس علاقہ تھل میں کیلہ بندی کرائی جا چکی تھی۔ اب چک بندی اس طرح کی گئی کہ علاقہ تھل کے کچھ حصہ نہر ی طرف میں سرکاری ملکیت (STATE LAND) رکھوگ سرکا ر کا تھا اور باقی رقبہ ملکیت مالکان اور تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا تھا جس کے چک کو نمبر شمار کے لحاظ سے TDA چکوک اور ملکیت سرکار کے چکوک کو M. L ( مین لائن کینال) کا نام دیا گیا تھا۔ چونکہ بڑی نہر جو کالا باغ کے مقام سے نکاتی تھی۔ اس کام MAIN LINE CANAL تھا ان جدید چکوک کو آپس میں ایک دوسرے سے ملانے اور دیگر پختہ سڑکات سے منسلک کرنے کیلئے پہلے خام راستے (کریٹ دے) بنائے گئے پھر بعد ازاں حسب ضرورت مختلف ادوار میں پختہ سڑکوں میں مقامی ایم این اے اور ایم بی حضرات نے اپنے اپنے علاقہ کی آبادی اور ووٹران کے مطالبے پر عوام الناس کی سہولت کی خاطر سڑکیں بے شمار باختہ بنوادی ہیں ۔ جن سے یہ ضلع میں لوگوں کی آمدورفت کی اور منڈیوں تک اپنی پیداوار اور سبزیات اور پھل دو دیگر سامان لے جانے میں سہولت ہو چکی ہے۔اب تو ان پر مختلف قسم کی ٹرانسپورٹ ویگن ، بس، رکشے ریڑھیاں اور ٹریکٹر ٹرالیاں چلنے لگی ہیں۔
تھل
میری معلومات کے مطابق تھل مل کی اضافی شکل ہے۔ مقامی سرائیکی زبان میں تل کسی بھی چیز کےپیندے کو کہتے ہیں چونکہ تھل کا علاقہ آج سے ہزاروں سال پہلے دریائے سندھ کا تل تھا اور تھل دریائے سندھ کی لائی ہوئی ریت پر مشتمل ہے۔ سنسکرت زبان میں اس کو ماروس تھل (Marus Thal) کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ریت کے سمندر کے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ تین دریاؤں جہلم ، چناب اور دریائے سندھ کے درمیان کا علاقہ ہے۔اس لیے اسے سندھ ساگر دو آب بھی کہا جاتا ہے۔ پور انتقل جو کہ میانوالی ، خوشاب، بھکر، جنگ، لیہ، مظفر گڑھ کے اضلاع کے 9965 مربع میل کے علاقہ پر گاجر کی شکل بناتا ہے۔ تھل 71 درجے اور 72 درجے طول بلد اور 30 سے 32.5 درجے عرض بلد کے درمیان ساڑھے سولہ ہزار مربع کو میٹر کے رقبے پر مشتمل ہے۔ میانوالی سے مظفر گڑھ تک شمالاً جنوب لمبائی 190 میں جبکہ چوڑائی زیادہ سے زیادہ 70 میل ہے۔ آج سے ہزاورں سال قبل جب دریائے سندھ نے چوبارہ اور نواں کوٹ کے شہروں کے مشرقی حدود سے مغربی جانب کٹاؤ شروع کیا تو موجودہ مواضعات نواں کوٹ اور چو بارہ اور دیگر مواضعات تھل کلاں کے مغرب کی جانب بڑھتا رہا ہے دریا کی دوری کی وجہ سے پیچھے چھوڑے گئے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 150 فٹ تک نیچے پانی نہ ملتا تھا۔ بارشوں کی کمی اور پانی کی زیر زمین کم دستیابی پر انسانی آبادی بھی خشک سالی کا شکار ہو کر زمین کو چھوڑ کر مغرب کی جانب دریائے سندھ کے مشرق کنارے پر آباد ہوتی گئی۔ یہ تو ایک اصلی حقیقت ہے کہ جس زمین کو نہ تو زیر کاشت لایا جائے اور نہ ہی پانی سے سیراب ہو۔ اس کو خالی ویران چھوڑ دیا جائے ۔ بارشوں کو کمی اور پانی کی سطح زیر زمین انتہائی گہری ہونے کے سبب پودے جھاڑیوں اور درخت سوکھ جائیں ۔ درختوں اور پودوں کی کمی کے باعث تیز چلنے والی ہوا میں آندھیوں اور طوفانوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ آندھیوں اور طوفان اور کبھی کبھی تیز بارشوں کے باعث پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ زمین کے کٹاؤ کے باعث کہیں کہیں پہاڑ نما ٹیلے اور کہیں کھائیاں اور ٹو بھے وجود میں آتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی صحرا کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو یہی بات مشترک نظر آئے گی۔ ماہرین مواضعات کے مطابق سائنسی احول بھی یہ ہے کہ خط استوا کے شمال میں بہنے والے دریاز مین کی محوری گردش کے سبب مہینوں تک تھل کے ریگزاروں اور جھاڑی نما جنگلوں میں انسان اور حیوان بھوکا نہ رہ سکتا ہے۔ گرمیوں میں دن قیامت خیز ہوتا ہے۔ دو پہر کے وقت کوئی پرندہ بھی پرواز کرتے ہوئے تھل کے اوپر سے نہ گزر سکتا ہے۔ اگر کوئی پرندہ غلطی سے بھٹک جاتا تو پھر گرمی کی تپش سے زندگی سے ہاتھ
دھو بیٹھتا لیکن جال کے جھنڈ جانوروں، پرندوں اور انسانوں کے لیے بہترین جائے پناہ تھے۔
آب و ہوا اور موسم : موسم کے لحاظ سے ضلع میں بھی موسمی تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ آب و ہوا گرم و خشک ہے۔ موسم گرما میں جون جولائی ، اگست کے مہینوں میں انتہائی شدید گرمی ہوتی ہے جبکہ موسم سرما میں دسمبر و جنوری کے مہینوں میں سردی کی شدت ہوتی ہے۔ کورا ( برف) بھی پڑتا ہے۔ موسم بہار اور موسم خزاں عموما معتدل ہوتے ہیں۔ بھادوں (اگست) کی گرمی اور حبس تو نا قابل برداشت ہوتا ہے۔ تھل کی آبادکاری سے پہلے گرمیوں کا موسم اتنا شدید ہوتا تھا کہ اگر دن کے وقت کوئی پرندہ پرواز کرتا ہوا یہاں سے گزرتا تو وہ گرمی کی شدت اور تپش سے مرجاتا تھا لیکن اب نہروں کے آجانے سے اور درختوں اور فصلات و دیگر باغات اور پھول دار پودوں اور زمین کے سیراب ہونے سے گرمی کی وہ شدت نہیں رہی ہے لیکن پھر بھی مجموعی طور پر موسم گرما شدید ہوتا ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ چلا جاتا ہے بارش بہت کم ہوتی ہیں۔ البتہ گرمیوں میں برسات ساون اور بھادوں میں اور سردیوں
میں جنوری اور فروری کی مہینوں میں بارش ہوتی ہیں جن سے فصلوں اور موسم پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ محل وقوع
لیہ 19-30 درجے تا 33-31 درجے طول بلد اور 55-70 درجے تا 53 تا 71 در جے عرض بلد پر واقع ہے سطح سمندر سے 500 فٹ بلند ہے لہذا جو با53 میل اور شرقا غربا 64 میل کے اندر ضلع لیہ محدود ہے۔ اس وقت لیہ شہر دریائے سندھ کے مشرق میں 3 میل دور تھل اور کچھی کے دہانے پر واقع ہیں۔ ضلع لیہ کے شمال میں ضلع بھکر اور جنوب میں ضلع مظفر گڑھ اور مشرق میں ضلع جھنگ اور مغرب میں ڈیرہ اسماعیل خان وڈیرہ غازی خان کے اضلاع واقع ہیں۔ ماضی میں ضلع لیہ کی حدود مختلف رہی ہیں۔ میرانی دور حکومت میں اس کی شمالی حدد لے والا ضلع بھکر اور مشرق میں دریائے چناب اور مغرب میں دریائے سندھ اور جنوب میں محمود کوٹ تک کا علاقہ لیہ میں شامل تھا۔کلہوڑہ دور حکومت میں لیہ کی سرحد پھر سے شمال کی طرف ڈلے والہ تک واقع ہو گئیں۔ 1849ء میں جب انگریزوں نے لیہ پر قبضہ کیا تولیہ کو ڈویژن کا درجہ دے دیا اور اس میں پنجاب کے دریائے سندھ کے مشرقی علاقے لیہ وگردونواح کے تمام علاقے اس ڈویژن میں شامل کر دیے تھے۔ لیہ ڈویژن کی انتظامی حالت مندرجہ
ذیل تھی:
ضلع ( تحصیل سنانواں کوٹ ادو) تحصیل لیہ تحصیل در یا خان بیکر تحصیل راجن پور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل بنوں (ہیڈ کوارٹر بنوں ) تحصیل ٹانک تحصیل کلاچی تحصیل لکی مروت تک ۔ حالات جوں جوں بہتر ہوتے گئے ، انگریز حکومت اپنی ضرورت اور سہولیات کی خاطر اپنے فیصلوں میں ردو بدل کرتی رہی۔ سال 1859ء میں ضلع ہیڈ کوارٹر خان گڑھ کی بجائے مظفر گڑھ میں قائم کیا گیا اور تحصیلات میں بھی روو بدل کیا گیا۔ ان تحصیلوں کے نام رنگ پور مظفر گڑھ ، خان گڑھ، پینچر اور سیت پورتھے جبکہ سنانواں کی بجائے کوٹ ادو تحصیل ہیڈ کواٹر بنا کر ضلع مظفر گڑھ میں شامل کر دیا گیا اور مظفر گڑھ کو ملتان ڈویژن میں شامل کر دیا گیا۔ 1861ء میں رنگ پور تحصیل ختم کر دی گئی ۔ گڑھ مہاراجہ اور احمد پور کے تعلقے ضلع جھنگ میں شامل کر دیے گئے۔ سیت پور تحصیل ہیڈ کواٹر ختم کر کے علی پور کو تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ دریا خان تحصیل 1860 ء میں توڑ دی گئی اور تحصیل بھکر کو تحصیل ہیڈ کوارٹر قراردیا گیا۔ 54-1853ء میں منکیر تحصیل تو ڑ دی گئی ۔ تعلقہ خوشاب جو کہ تحصیل منکیر و کا حصہ تھا، کو شاہ پور سرگودھا میں شامل کر دیا گیا ۔ پہلاں اور ہرنولی تحصیل دریا خان سے الگ کر کے تحصیل کبھی (میانوالی) میں شامل کر دیئے گئے۔ مٹھ ٹوانہ اور نور پور کے علاقے جو کہ کبھی تحصیل (میانوالی) میں شامل تھے ، شاہ پور میں شامل کر دیئے گئے ۔ 1857ء میں 19 گاؤں جو کہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر تھے تحصیل ڈیرہ اسماعیل خان سے منسلک تھے اور مشکوری اور بیٹ ہوگھا کے درمیان تھے بھکر میں شامل کر دیئے گئے ۔ بھکر تحصیل اس وقت کلورکوٹ دریا خان، نواب پور ( کا نجن ) کوٹلہ جام، بھکر، چھینہ اور چنگ شیخانی ،نو تک، بہل، پیر اصحاب، خان پور، جنڈ انوالہ، دلے والہ ،منکیرہ اور حیدر آباد پر مشتمل تھی۔
یکم جنوری 1861ء کو ضلع لیہ توڑ دیا گیا۔ ضلع بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو اضلاعی کا درجہ دے دیا گیا۔ تحصیل بنوں تحصیل مردت تحصیل عیسی خیل اور تحصیل میانوالی جو کہ ضلع لیہ کا سب ڈویژن تھا، ضلع بنوں میں شامل کر دیئے گئے جبکہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل بھکر تحصیل لیہ، ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل کلاچی اور تحصیل ٹانک شامل کی گئیں۔ کمشنری ہیڈ کوارٹرلیہ سے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا گیا تھا۔ 1866ء میں و ہوا اور کھتر ان قوم کا کا علاقہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ضلع ڈیرہ غازی خان میں منتقل کر دیا گیا۔ 1871ء میں ٹبی قیصرانی اور سات دوسرے قیصرانی گاؤں اور تھل کلاچی میں شامل تھے، تبدیل کر کے ڈیرہ غازی خان میں شامل کر دیئے گئے۔ 1901ء میں جب صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) بنایا گیا تو میانوالی کو ضلع بنا کر بھکر ، لیہ، عیسی خیل اور میانوالی تحصیل قائم کی گئیں۔ ہر تحصیل میں تحصیل انچارج سب ڈویژنل آفیسر ہوتا تھا۔ دوسرے انتظامات کیلئے ایک اسٹنٹ کمشنر تحصیل داره، نائب تحصیل دار، قانون گوئی اور پٹواری مقرر تھے۔1849ء میں انگریزوں نے لیہ کو ڈویژن کا درجہ دیا اور ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور خان گڑھ (موجودہ ضلع مظفر گڑھ) اس کے اضلاع تھے۔ 1880ء میں ڈویژن سے ضلع لیہ بنادیا گیا لیکن جنوری 1861 ء سے ضلعی حیثیت ختم کر کے تحصیل کا درجہ دے کر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل کر دیا گیا تھا اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ڈیرہ اسماعیل خان سے الگ کر کے ضلع میانوالی میں شامل کر دیا گیا۔ 1909ء میں تحصیل لیہ کو ضلع مظفر گڑھ میں شامل کر دیا گیا تھا اور جون 1982 ء تک ضلع مظفر گڑھ کیا تھاتحصیل لیہ شامل رہا۔میرانی دور حکومت میں 1520ء تا 1748ء تک یہ صوبائی صدر مقام رہا۔ خاندان میرانی کے گورنر یہاں رہ کر علاقہ تھل کو کنٹرول کرتے تھے۔ میاں عبد الغنی کا ہوڑہ 1789ء تا 1893 ء نے بھی اپنا ہیڈ کوارٹرلیہ کو بنائے رکھا۔ سال 1836 ء میں دیوان ساون مل نے لیہ کا انتظام سنبھالنے کے لیہ کو ہیڈ کوارٹر مقرر کر کے اپنے بیٹے کرم چند نارائن کو یہاں مقرر کر دیا۔ یکم جولائی 1982ء میں انتظامی تنزلی کے شکار لیہ کو جنرل ضیاء الحق نے ضلع کا درجہ دے کر کروڑ لعل عیسن لیہ اور چوبارہ کو اس کی تحصیل بنادیں۔ ضلع مظفر گڑھ جس کی لیہ تحصیل تھی کو ملتان ڈویژن سے الگ کر کے نئے دویژن ڈیرہ غازی خان میں شامل کر دیا گیا۔ ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل را جن پور کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ اس طرح اب ضلع ڈیرہ غازی خان کو ڈویژن کا درجہ حاصل ہو گیا ہے اور اس میں ضلع راجن پور ڈیرہ غازی مظفر گڑھ اور اس کے اضلاع شامل کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح اب ضلع لیہ ملتان ڈویژن کی بجائے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں شامل ہو چکا ہے۔ ضلع لیہ کا پہلاڈ پٹی کمشنر تحصیل CSP مقرر ہو تھا جس نے لیہ کے انگریزی سپیلنگ (LEIAH) بدل کر (LAYYAH) درست قرار دیکر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ لہذا اب لیہ کو انگریزی زبان میں (LAYYAH) لکھا جاتا ہے جبکہ لیہ کے سابق تمام ریکارڈ میں لیہ کو انگریزی زبان میں (LEIAH) لکھا جاتارہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر انتظامی تبدیلی کی بازگشت چل پڑی ہے جس میں ضلع بھکر اور تھل کوٹ ارو ( ضلع مظفر گڑھ) کو ضلع کا درجہ دیکر اور تحصیل تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان ) کو ضلع کا درجہ دیکر ضلع لیہ کو ڈویژن کا درجہ دے کر اس میں اضلاع بھکر ، کوٹ ادو، تونسہ شریف اور میں شامل کر دیئے جائیں۔ چونکہ اب لیہ اور تونسہ شریف کے درمیان بہتے دریائے سندھ کر پختہ پل تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جس سے لیہ اور تونسہ شریف کا فاصلہ صرف 30/32 کلومیٹر رہا جائیگا، اس لیے یہ انتظامی تقسیم عوام الناس کی سہولت اور ڈویژن ہیڈ کوارٹرلیہ میں آمد و رفت آسان بنا دے گی۔
چونکہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف سیاسی پارٹی کی وفاقی اور صوبہ پنجاب میں حکومت ہے اور خوش قسمتی سے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سردار سکنہ تحصیل تونسہ شریف کے ہیں۔ اب مقامی سیاستدان ایم۔ این۔اے اور ایم ۔ پی۔ اے حضرات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے ضلع لیہ کو ڈویژن کا درجہ دلانے کے لیے اپنے سیاسی تجربہ اور فراست کو کس انداز میں استعمال کر کے سردار محمد عثمان خان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب کو قائل کر پاتے ہیں کہ وہ اہل علاقہ کی سہولت کی خاطر جناب عمران خان وزیر اعظم پاکستان سے لیہ کو ڈویژن کے درجہ کی منظوری دلادیں۔
مسلمانوں کی لیہ میں آمد:
تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تولیہ میں مسلمانوں کی آمد سال 256ھ بمطابق 870ء میں ہوئی۔ یعقوب بن لیث صفاری کے عہد میں مسلمانوں نے پھر کابل فتح کامل فتح کر لیا تھا۔ کاہل کے ہندو راجپوت لیہ شاہ نے قندہار پر قبضہ کر کے وہند کو دارالحکومت بنایا۔ قندہار سے لیکر مشرق میں دریائے سندھ تک کا علاقہ قبضہ میں کر لیا۔ اسی خاندان کے ایک فرد نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ کے مغرب میں ایک قلعہ کی تعمیر کی اس کا نام راجہ بیل تھا۔ اس نے جہاں قلعہ تعمیر کرایا تھا وہ بلوٹ کہلاتا تھا۔ اسی راجہ بل کے تحت سرزمین ڈیرہ اسماعیل خان بھکر اور لیہ تھی۔
سرز مین لیہ بھکر پر ایک رشتہ دار راجہ دیو پال حکومت کرتا تھا۔ راجہ دیو پال نے دونوں علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرایا تھا جس کا نام کوٹ دیو پال رکھا۔ اور نہایت سکون سے حکومت کرنے لگا۔ قلعہ کوٹ دیو پال محمود غزنوی نے 395 ھ بمطابق 5-1004ء میں حملہ کر کے قبضہ میں لے لیا اور یہاں کا گورنز دریائے سندھ عبور کر کے مغرب کی طرف بھاگ گیا۔ قلعہ دیو پال محمود غزنوی کے قبضہ میں آگیا۔ محمود غزنوی کی فوج میں حضرت سلطان حسین قریشی بھی تھے جن سے محمود غزنوی کو بڑی عقیدت تھی۔ محمود غزنوی جب آگے بڑھا تو قلعہ دیو پال سنگھ میں حضرت سلطان حسین قریشی سے گذارش کی کہ آپ اب یاں سکون سے رہائش رکھیں اور عبادت کریں۔ انھوں نے قلعہ دیو پال میں ایک مسجد بنوائی اور قلعہد یو پال گڑھ کا نام کوٹ کروڑ تھا۔محمود غزنوی نے کوٹ کروڑ سلطان حسین قریشی کو بطور جا گیر دے دیا اور خود آگے بڑھ گیا اور آگے بڑھ کر قلعہ پھالیہ پر حملہ آور ہوا جسے مورخین نے الباطیہ لکھا ہے۔ محمود غزنوی نے جب 396ء میں ملتان پر حملہ کیا تو اس وقت سر زمین لیہ حضرت سلطان حسین جد امجد حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کی جاگیریں تھی ۔ اس خاندان کے لوگ تقریباً دو سو سال تک یہاں حکومت کرتے رہے۔ حضرت سلطان حسین خوارزمی تو اکثر وقت عبادت الہی اور کفار میں تبلیغ میں گزارتے۔ آپ کے انداز تبلیغ اور حسن سلوک سے لاکھوں باشندوں نے بت پرستی سے تو بہ کر کے دین اسلام قبول کیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی تبلیغ سے تقریبا ایک کروڑ افراد نے دین اسلامقبول کیا۔
حضرت سلطان حسین کا ایک بیٹا سلطان علی با صر تھا جو کہ کوٹ کروڑ کے تخت پر براجمان ہوا۔ سلطان علی ناصر یہاں کے حکمران تھے بلکہ روحانی پیشوا بھی تھے۔ امن و امان، خوشحالی اور آپ کی مہمان نوازی اور مشائخ وعلما سے محبت کے باعث کوٹ کروڑ میں ہزاروں علماء جمع ہو گئے۔ بعد ازاں سلطان علی ناصر کے وارثان خاندان قریشی کی حکومت تھی جب غوری خاندان نے محمود غزنوی پر حملہ کر کے مقبوضات اور ملتان پر قبضہ کر لیا تو خاندان قریشی
سے حکومت لے کر علی کر باغ کی نگرانی میں دے دیا۔ بہاؤ الدین زکریا ملتانی متحد دوم رشید میں منتقل ہو گئے۔ پھر اس سرزمین لیہ پر شہاب الدین غوری کی حکومت آئی 602 ہجری مطابق 1206ء میں شہاب الدین غوری نے قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر دیا اور خود غزنوی واپس جانے کیلئے روانہ ہوئے تو اسے دریائے جہلم کے کنارے قتل کر دیا گیا۔ شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد قطب الدین نےدیلی پر جبکہ سندھ اور ملتان کے صوبوں پر قبضہ کیا اور خود مختار بن بیٹا جو کہ شہاب الدین غوری کے غلام تھے۔ سلطان ناصر الدین قباچہ 1210 : 1227ء اس کے بعد جلال الدین خوارزمی اور بعد میں چنگیز خان نے تھل میں بہت تباہ کاریاں کیں اور تھل کے علاقہ پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد اس علاقہ پر سیف الدین حسن قرلوغ حکومت کرتا رہا 1245ء میں جب مغلوں نے اس پر حملہ کر دیا تو وہ ملتان سے بھاگا اور کسی طرح واپس لاہور، ملتان اور دیپالپور کے لیے سید خضر خان کو اپنا نائب مقرر کر کے سمر قند واپس چلا گیا۔ سید خضر خان نے 28 مئی 1414 ء میں دہلی پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ یوں خاندان تغلق کی حکومت ختم ہوگئی۔ خاندان سادات میں 1451ء تک حکومت رہی ۔ 1451ء میں بہاول لودھی نے دارالسلطنت دہلی پر 1451ء میں قبضہ کر لیا۔
لودھی خاندان لودھی خاندان افغانون کے ایک تجارتی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ بہول لودھی کے دادا ابراہیم نے تجارت ترک کر کے فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت میں بطور صوبہ دار ملتان کی ملازمت اختیار کر لی تھی۔ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ببول لودھی کی والدہ بچپن میں فوت ہو گئی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے نانا اسلام خان دائی سرہند کے پاس پرورش پائی۔ نانا کی وفات کے بعد اس کا جانشین بنا۔ جب دہلی کے حالات ابتر ہوئے تو وہ بدایوں کے علاقوں پر قابض ہو گیا اور خود سلطنت دہلی کے امید میں مصروف ہو گیا اور ادھر ملتان میں محمد یوسف شاہ قریشی کو ملتان کا حکمران بنا کر خود مختاری کا اعلان کر دیا جو کہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے تھے۔ لیہ میں مختلف قبائل کی آمد: ان حالات میں جب بڑے بڑے شہروں اور ریاستوں میں بادشاہوں کی جنگیں اور خون ریزیاں جاری تھیں تو یہ تھل میں کہیں کہیں گاؤں آباد تھے اور یہاں کے باشندوں نے کنوؤں کے ذریعے چند ٹکڑے زمین کے آباد کر لیے تھے۔ علاقہ نشیب بھی پہاڑی بلوچوں اور پٹھانوں کی لوٹ کا شکار رہتا تھا۔ امیر تیمور کے حملوں سے تو بہاول پور سے لے کر دلی تک کے لوگوں نے علاقہ تھل میں پناہ گاہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ رفتہ رفتہ بہت سے قبائل نے اس طرف ہجرت کرنا شروع کر دی تھی۔ ان قبائل میں جو سب سے پہلے سرزمین لیہ میں تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں وارد ہوئے ، وہ سیر ، چھینہ چھپڑے، ڈھانڈلے سواگ ، سمرا تھند اور دوسرے بڑے قبائل بھی تھے۔ ان قبائل کی زندگی بالکل صحرائی تھی۔ ذریعہ روزگار جانور پالنے اور چرانا تھا ان قبائل نے رفتہ رفتہ اپنی ضروریات کے مطابق کنویں کھودے اور زمینیں آباد کہیں کھو کھر اور بلسم میں علاقہ کی قدیم اقوام میں بندوبست رپورٹ سال 80-1878ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو میں اپنی اپنی جگہ خود مختیار تھی اور کسی حکمران یا صو بیدار کو کوئی خراج ادا نہ کرتی تھیں۔ انگریزوں نے 80-1878ء کے بندوبست میں ان کی ریاستوں کو تبدیل کر کے مواضعات میں بدل دیا اور قیام پاکستان کے بعد جب تھل کی آبادکاری کے لیے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تو مواضعات کی مزید تقسیم کر کے مختلف چکوک میں بدل دیا گیا ہے۔
اس سے قبل سرزمین لیہ پر مختلف قبائل نے حکومت کی ہے۔ لنگاہ دور حکومت، دو دائی بلوچ ، ہوت خاندان، میرانی خاندان کی حکومت، جسکانی خاندان، کلہوڑہ خاندان ، سدوزئی کا دور حکومت ،سکھوں کا دور حکومت بعد ازاں لیہ میں جون 1848 ء میں انگریزوں نے لیہ پر قبضہ کر لیا۔ 29 جون 1849ء میں پنجاب کے ساتھ لیہ کا با ضابطہ الحاق حکومت برطانیہ سے ہوا اور لیہ کوڈ ویژن بنا دیا گیا جس کا ذکر پہلے تفصیل سے ہو چکا ہے۔ الیکشن سال 46-1945ء: اس وقت یہ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل تھا تحصیل کوٹ ادو اور تحصیل لیہ پر مشتمل ایک قلعہ تھا جو کہ مظفر گڑھ کا شمالی علاقہ کہلاتا تھا۔ اس قلعہ میں مسلم لیگ کی طرف سے غلام جیلانی گورمانی تحصیل کوٹ ادو اور یونینسٹ پارٹی کی طرف سے ملک قادر بخش جکھر تحصیل لیہ سے باہم مقابل تھے۔ مسلم لیگ کی مدد کے لیے نذر حسین شاہ بخاری، فیض اللہ خان، محمد رضا خان جسکانی ، غلام حسین، چینو شاہ ، شاہ پور، کوٹلہ حاجی شاہ صاحبان ہمرا خاندان سے مہر اللہ داد، مہر خدا بخش ، شاہ حبیب سے حاجی محمد کلاسرہ، چانڈیہ سے غلام فرید ، غلام سرور نوری ، کی میرانی سے اللہ بخش میرانی، خضر خان میرانی اور نورمحمد خان مسلم لیگ کے مخلص کارکن تھے۔ فتح پور پیر چھتر سے پیر فیض محمد شاہ، کروڑ لعل عیسن سے ملک علی محمد سامٹیہ اور میرانی ، سب سید نذرحسین شاہ کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ شہر لیہ کے اترانہ خاندان، قاضی خاندان، ارائیں خاندان بھی مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ تمام بیلدار اور نمبر دار صاحبان یونینسٹ پارٹی کی حمایت پر تھے۔
تحریک پاکستان کا عروج : ایکشن سال 46-1945ء میں پنجاب میں مسلم لیگ کی واضح اکثریت حاصل ہوئی لیکن انگریز حکومت نے مسلم لیگ کو وزارت اعلیٰ کی دعوت دینے کی بجائے ملک خضر حیات خان ٹوانہ کہ پنجاب میں وزارت بنانے کی دعوت دے دی۔ دل کا نگرس اور یونینسٹ پارٹی پر مشتمل کولیشن نے وزارت قائم کر کے پنجاب کا نظم وسبق سنبھال لیا۔ مسلم لیگ کے ممبران نے پنجاب میں اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اس احتجاج میں یہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ اکثر جلسے جلوس نکالے جاتے احتجاج کے دوران سید نذرحسین شاہ بخاری کو گرفتار کر لیا گیا اور انھیں جیل بھیج دیاغزنی پہنچ گیا۔بعد ازاں منگولوں نے پانجاب پر کم وبیش 20 حملے کیے لیکن شکست سے دو چار ہوتے رہے۔ منگولوں نے 1304ء میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے ملتان پر حملہ کیا تو اس سے پہلے 1304ء میں دہلی پر علاؤ الدین خلجی حکمران تھا۔
منگولوں نے ملتان میں تباہی مچادی۔ اس حملے میں تھل میں جو خال خال آباد یاں تھیں، وہ بھی منگولوں کی تباہ کاریوں کا شکار ہوگئیں۔مغلوں نے آخری بار 8-1307ء میں ہندوستان پر حملہ کیا اور شکست کھائی۔ پھر آئندہ کیلئے مغل حملوں کی روک تھام ہوگئی ۔ علاؤ الدین خلجی کی وفات کے بعد غازی الدین ملک تغلق جو علاقہ ہائے ملتان اور دیپالپور کا صوبیدار تھا، حکمران بن گیا۔ غازی ملک نے غیاث الدین تغلق شاہ لقب سے تخت پر قدم رکھا۔ اس نے 1325 ء تک حکومت کی ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمد بن تغلق ہندوستان کی مسلم تاریخ کا مشہور فرمانروا ہوا۔ اس نے چاندی کے بجائے تانبے اور پیتل کے علامتی سکے چلائے ۔ اس فرمانروا کے سکے بھی علاقہ تھل میں ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں محمد بن تعلق کا سکہ بھی چلتا رہا ہے۔ 1351 ء تک زندہ رہا اس کے بعد اس کا بھتیجا فیروز شاہ تغلق حکمران بنا۔ فیروز تغلق کی وفات کے بعد خاندان میں انتشار پیدا ہو گیا جس کا فائدہ اٹھا کر امیر تیمور نے ہندوستان پر 1398ء میں حملہ کر دیا۔ امیر تیمور ترکوں کے ایک قبیلے پڑلاس کے سردار کا بیٹا تھا۔ 35 سال کی عمر میں قبیلے کا سر براد بنا۔ 13 ستمبر 1398ء کو اس نے دریائے سندھ کو عبور کیا۔ تھل کے علاقہ کو روندتا ہوا گڑھ مہاراجہ سے گذرتا ہوا سرائے سدھو کے مقام پر دریائے چناب کو عبور کر کے علمہ جا پہنچا پھل جلمبہ، دیپالپور اور ملتان وغیرہ میں تنہاہی و بربادی کیساتھ ایک لاکھ قیدیوں کو لے کر دہلی جا پہنچا۔ دہلی کے حکمران سلطان نصیر الدین محمود اور وزیر اقبال نےراستہ روکا۔خون ریز جنگ ہوئی امیر تیمور کامیاب رہا اور فتح کی خوشی میں علاقہ ہائے تھل ، ملتان دیپالپور سے پکڑے ہوئے ایک لاکھ قیدیوں کولوٹ کے گھاٹ اتار دیا۔ دہلی میں پندرہ ور ز خوب قتل و غارت ہوئی اور دولت سمیٹتا ہوا بنوں آپہنچا۔ ملک خضر حیات خان ٹوانہ کے استعفیٰ دینے کے بعد 1947ء میں رہائی ملی۔
انگریز دور حکومت:
لیہ جون 1848ء میں انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا لیکن محاصرہ ملتان کی طوالت کے باعث انگریز یہاں کے انتظامات کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ 23 فروری 1849ء میں مولراج نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی سکھ افواج انگریزوں سے شکست کھا چکی تھی۔ خالصہ فوج پر فتح پانے کے بعد گورنر جنرل لارڈ ڈلہوری نے فیصلہ کیا کہ اب مہاراجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر کے پنجاب کو ممالک محروسہ میں شامل کر لیا جائے 23 مارچ 1848ء کولاہور میں ایک دربار منعقد ہوا۔ اس دربار میں کمسن مہاراجہ دلیپ سنگھ اور لارڈ ڈلہوزی برابر تخت پر بیٹھے۔ مہاراجہ نے پنجاب کے تخت و تاج سے دستبرداری کی علامت کے طور پر مشہور عالم کوہ نور ہیرا لارڈ ڈلہوزی کو پیش کیا جو اس وقت ملکہ برطانیہ کی نمائندگی کر رہا تھا۔ یہ رسم ادا کرنے بعد مہاراجہ کو تخت سے اتار دیا گیا۔ اس رسم کے ادا ہوتے ہی تمام پنجاب میں انگریزی اقتدار کا دور شروع ہو گیا۔ انگریزوں نے پنجاب کو مختلف انتظامی ڈویژنوں میں تقسیم کر دیا۔ اس سلسلہ میں لیہ کو بھی ڈویژن کا صدر مقام مقرر کر دیا گیا۔ 1849ء میں لیہ کو ضلع درجہ دیا گیا تھا لیکن انگریز حکومت نے اپنی ضروریات کے تحت 1850ء میں لیہ کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر مقرر کیا اور ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان اور خان گڑھ کو موجودہ ضلع مظفر گڑھ بطور اضلاع لیہ سے منسلک کر دیا ۔ کرنل راس لیہ کے پہلے کمشنر مقرر ہوئے ۔ انھوں نے لیہ ڈویژن کا چارج 1850ء میں سنبھالا اور 1857 ء تک لیہ کے کمشنر رہے۔ کرنل راس کمشنر 1857ء میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کی قبر بر گدا قبرستان میں موجود ہے اور اب ختم ہونے والی ہے۔ 1860ء میں لیہ ڈویژن کو ختم کر کے ڈیرہ غازی خان کوڈویژن بنادیا گیا اور لیہ کو اس میں بطور تحصیل شامل کر دیا گیا۔ 1854ء میں لیہ ڈویڑنل جیل بنائی گئی: جون 1850 ء میں لیہ اور بھکر کا پہلا عارضی بندو بست اراضی ہوا۔ کیپٹن ہالنگو ڈپٹی کمشنر لیہ نے کیا اور 1855ء میں دوبارہ عارضی بندو بست اراضی ہوا جو کہ کمسن ڈپٹی کمشنر لیہ کی نگرانی میں ہوا۔ 1880ء میں تیسرا عارضی بند و بست اراضی لیفٹینٹ پارسنز ڈ پٹی کمشنرلیہ کی نگرانی میں ہوا۔ 1861ء میں پہاڑ پور کا علاقہ تحصیل لیہ میں شامل کئے گئے جو کہ پہلے تحصیل سنگھر، تونسہ میں شامل تھے۔ 1873ء میں لیہ کو میونپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1872ء تا 1874ء میں لیہ میں دریائے سندھ میں زبر دست سیلاب آئے جس کے باعث مکانات اور مویشی مک بہ گئے۔ فصلات تمام بر باد ہوگئیں اور تمام کنوئیں مٹی سے بھر گئے۔1874ء میں کوٹ سلطان میونسپل کمیٹی بنی لیکن 1879ء میں ختم کر دی گئی۔ 1874ء میں کروڑ لعل عیسن کو میونسپل کمیٹی بنادیا گیا۔ 1874ء میں موضع سکھانی والا اور دوسرے اچھے گاؤں تحصیل سنگھر تونسہ سے الگ کر کے تحصیل لیہ میں شامل کر دئیے گئے۔
قیام پاکستان:
14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہو گیا تولیہ کی ہندو مسلم آبادی نہایت پر امن اور پر سکون تھی لیکن اسی دوران ہندوستان سے مسلمانوں پر ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم کی اطلاعات آنے لگیں۔ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت تھی۔ یہاں پر سکھ ان دنوں قصبہ شینہ والا ہو والا اور کوٹ سلطان میں آباد تھے۔ کوٹ سلطان کے سکھ تو بخیریت چلے گئے لیکن مسلمانوں نے غصے میں آکر شینہ والا کے سکھوں کا قتل عام کیا ، گھروں کو آگ لگادی، یہاں تک کہ ان کی نعشیں جنگلی جانور اور گدھ کھاتے رہے۔ باقی تمام آبادی یہاں پرامن طور پر ہندوستان منتقل ہو گئی۔
مسلمان مہاجرین کی آمد:
لیہ میں جب مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو سخت سردیوں کا موسم تھا۔ مسلمانوں مہا جرین کا تن بدن کپڑوں کی بجائے صرف چیتھڑوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ پیٹ غذا سے خالی تھے۔ بہت سے خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہو چکے تھے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے بہت سے لوگوں اپنے ہوش و حواس میں نہ تھے۔ مہاجرین کی رہائش کے لیے دو کیمپ بنائے گئے تھے۔ ایک ریلوے اسٹیشن کے نزدیک اور دوسرا ایم سی ہائی سکول لیہ میں ۔ یہاں تمام مہاجرین کی دیکھ بھال کی جاتی ۔ انھیں کپڑے اور کھانا فراہم کیا جاتا۔ ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکان جن کو الاٹ ہوتے ، وہ کیمپ سے وہاں چلے جاتے ۔ مہاجرین کی آبادکاری کیلئے فیض اللہ خان ، احسان اللہ خان اور حسن رضا گردیزی جو کہ ان دنوں لیہ میں تحصیلدار تھے لگن اور جانفشانی سے کام کرتےتھے۔
تھل کی آبادکاری مسلم :
علاقہ تقل صدیوں سے ویران صحرا پر مشتمل تھا۔ جو کہ اضلاع میانوالی بیکر خوشاب جھنگ ۔ لیہ ۔ مظفر گڑھ پر مشتمل ہے۔ اس وسیع و عریض علاقہ کی تعمیر و ترقی کی خاطر سندھ ساگر دو آب ایکٹ 1912 ء کا نفاذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت اعلان کیا گیا کہ گورنمنٹ پنجاب ایک مقررہ مدت میں تھل نہر جاری کر کے تھل کی زمینوں کو سیراب کرے گی۔ اس کے عوض تھل کے مالکان سے اپنے بنجر رقبہ کا 3/4 حصہ حکومت وقت کو دیں گے۔ جنگ عظیم شروع ہونے کے باعث انگریز حکومت معاہدے پر عمل نہ کر سکی۔ 1932ء میں بیا یک خود بخود ختم ہو گیا۔ سال 1940 ء ایک بار پھر نئے سرے سے ایکٹ کا نفاذ کیا گیا لیکن حکومت پھر بھی نہر جاری نہ کر سکی۔ سال 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کیلئے آباد کاری کا مسئلہ پیش آیا تو گورنمنٹ کو تھل کی آبادی کا خیال آیا ۔ سال 1949 ء میں تھل ڈیویلپمنٹ ایکٹ کے تحت ایک نیم خود مختار ادارہ تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ اس ایکٹ کے تحت تھل کے مالکان اراضی سے زمین حاصل کر کے مہاجرین کو آباد کر سکے۔ حصول اراضی کیلئے ابتدائی نوٹیفیکیشن نمبر 6-1522, 6-1542 مورخہ 1951-04-04 جاری کئے گئے اور اس دوران پھر بعد میں مختلف نوٹیفیکیشن جاری کئے جاتے رہے ۔ اس دوران گورنمنٹ پنجاب نے بذریعہ پریس نوٹ سال 1954ء میں اعلان کیا کہ اندر آب پاش تھل کینال کے مالکان سے مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولا کے تحت رقبہ حاصل کیا جائے گا۔
مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولا :
115 ایکٹر سے کم زمین کے مالکان سے زمین نہیں لی جائیگی۔
100-15 ایکٹر تک کے مالکان کو اول – 15 ایکٹر رقبہ چھوڑ کر باقی رقبہ کا نصف 112 حصہ حاصل کیا
جائے گا۔
اول – 115 ایکٹر رقبہ محفوظ رکھ کر ۔ 100 ایکٹرتک کے کل رقبہ کا نصف 1/2 حصہ باقی رقبہ کا 312 حصہ حاصل کیا جائے گا۔
اس ترمیمی ایکٹ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تھل کی آباد کاری سکیم سے یہ کیسا تھ دوسرے اضلاع میں بھی خوشحالی کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ پہاڑ نما ٹیلے ہموار کرنے کیلئے ایک الگ محکمہ لیولنگ ایگریکلچرحل مشینری بنایا جس میں اتھارٹی بلڈوز مشینری منگوائی گئی اور ٹیلے ہموار کئے گئے۔ نہریں جاری ہو گئیں۔ درختوں کے بڑے بڑےذخیرے لگائے گئے۔ آمد و رفت کیلئے سڑکیں بنائی گئیں۔ جو زمین مالکان اراضی سے حامل کی گئی ، اس کومختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان کی منظوری سے 300 یونٹ سے کم اراضی کے مالکان کو مختلف چکوک میں۔ 15 ایکٹر فی گنہ کے حساب سے الاٹ کر دی گئی تین اور کچھ رقبہ میں جنگلات، ڈیری فارم اور غلہ منڈیوں کالونیاں بنگلے تعمیر کردیئے گئے ہیں۔
شوگر ملز کا قیام:
سال 1952ء میں لیہ شوگر ملز کی تعمیر کا کام شروع ہوا ۔ 1955ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ 31 مارچ 1955ء کو بیگم وقار النسانون نے لیہ شوگر ملز لیہ کا افتاح کیا۔ تب سے یہ شوگر ملز ہر سال بھر پور انداز سے اپنا کرشنگ سیزن مکمل کر رہی ہے۔ یہ شوگر ملز یہ میں اس وقت 1400 افراد خدمت سر انجام دے رہیں۔ ہر سال لاکھوں بوری چینی تیار ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ بوجہ جنگ عظیم دوئم اور دگرگوں حالات کی بنا پر انگریزوں کے دور میں تھل کی آبادکاری کا منصوبہ شروع نہ ہو سکا تھا۔ چنانچہ حکومت پاکستان کے بعد ایک ہم خود می را ادارہ TDA تحل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اس کے مقاصد میں جہاں نہری آبپاشی سے زمینیں آباد اور ٹیلے ہموار کرنے کیلئے مشینری منگوانے کا کام تھا وہاں پر صنعتی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی پلاننگ تھی جس میں تھل انڈسٹریز کارپوریشن کے نام سے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ اس ادارے نے لیہ میں شوگر ملز اور بھکر میں ٹیکسٹائل ملز کے لیے منصوبہ بندی کی تھی۔
لیہ میں نہریں :
تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) کے قیام سے لیہ تھل میں نہریں لائی گئیں ۔ لیہ میں ان کی لمبائی 601.3 میل نہریں بنتی ہے۔ تھل کینال میں 9300 کیوسک پانی بہنے کی صلاحیت ہے لیکن اس نہر کو پورا پانی سپلائی نہیں کیا جاتا۔خریف سیزن میں 6000 کیوسک پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس نہری نظام سے ضلع لیہ کے نقل کا چھ لاکھ ایکٹر رقبہ سیراب ہوتا ہے جبکہ کل رقبہ ضلع لیہ میں سے تقریباً 19لاکھ ایکڑ رقبہ سے بھی زیادہ نہری پانی سے محروم صدر ایوب خان کی حکومت اور سیاسی حالات: لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان کی شہادت کے بعد پاکستان میں کرسی ، اقتدار کی جو جنگ شروع ہوئی ، اس کا نتیجہ 7-18اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب کو مارشل لاء کے نفاذ کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن بعد ازاں پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف نے بطور مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر ملک کی باگ ڈور سنبھالی ۔ لیہ اور ملک میں صدارتی نظام لانچ کر دیا۔ صدر ایوب خان کے خلاف سال 1965ء میں انڈیا سے جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد نے تحریک شروع کر دی تو صدر ایوب خان 25 مارچ 1969 ء کو صدارت سے الگ ہو گئے اور اقتدار جنرل محمد یحیی خان کے سپر د کر دیا۔ اس نے سال 1962 ء کا آئین دفن کر کے مارشل لاء لگا دیا اور صدرمحمد یحیی خان اقتدار میں آگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک کے نتیجہ میں جنرل محمد یحیی خان نے سال 1970ء میں الیکشن کرا دیے جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں وزیر اعظم بن گئے اور انڈیا کی سازش کے تحت مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا جہاں شیخ مجیب الرحمن وزیر اعظم ہو گئے۔ مغربی پاکستان میں ذو الفقار علی بھٹو کو 14اپریل 1979ء میں پھانسی کی سزادی گئی۔ اس سے پہلے ملک میں پھر 7 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق چیف آف آرمی نے مارشل لا لگا دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئے۔ 1988 ء تک وہ اقتدار میں رہے۔
18 اگست 1988ء میں ایک ہوائی جہاز کے حادثہ میں دیگر کئی فوجی افسران کے ہمراہ جنرل ضیاء الحق صدر پاکستان بہاولپور میں کسی تقریب میں شرکت کے بعد واپسی پر شہید ہو گئے اور بے نظیر بھٹو دختر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آگئی ۔ پھر میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ ن الیکشن جیت کر اقتدار میں آگئے ۔ 12اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف آرمی چیف پاکستان نے محمد نواز شریف وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا اور جیل میں ڈال دیا۔ خود اقتدار میں آگئے اور ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف چودھری افتخار احمد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف فیصلہ کرنے کی پاداش میں تحریک چلی تو الیکشن کرانے پڑے جس کے بعد بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی پھر الیکشن جیت کر اقتدار میں آگئی لیکن صدر پاکستان فاروق احمد لغاری جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن تھے نے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان کو پاکستان کے آئین کی دفعہ 8-2-58 کے تحت بر طرف کردیا اور الیکشن سال 2008ء میں کرا دیے تو پاکستان مسلم لیگ ن نے جیت کر محمد نواز شریف کو وزیر اعظم بنادیا اس طرح پھر الیکشن 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی اور صدر آصف علی زرداری قائدہ پیپلز پارٹی نے محمد یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنا دیا اور خود صدر پاکستان کے عہد پر فائز ہو گئے ۔ ایکشن 2018 میں پاکستان تحریک انصاف پارٹی جیت گئی جس نے 18 اگست 2019 کو عمران خان کو وزیر اعظم پاکستان بنا دیا۔ اب پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔
سیاسی طور پر ضلع لیہ (جنوبی پنجاب) کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ضلع لیہ کے الیکشن سال 2018ء میں نولاکھ چھ ہزار چھ سوتینتیس ووٹ تھے۔ ضلع لیہ کی آبادی کے لحاظ سے دو حلقے قومی اسمبلی اور پانچ حلقے صوبائی اسمبلی پنجاب کے بنائے گئے ہیں جن میں الیکشن 2018ء میں حسب ذیل دو نمبر ان قومی اسمبلی وفاق میں پانچ نمبران صوبائی اسمبلی پنجاب میں منتخب ہوئے ہیں۔
ا۔ قومی اسمبلی حلقہ نمبر NA187 کروڑ عبدالمجید خان نیازی پاکستان تحریک انصاف ۲۔ قومی اسمبلی حلقہ نمبر NA188 یہ ملک نیاز احمد جکھرہ پاکستان تحریک انصاف ۔ صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر PP280 کروڑ ملک احمد علی اولکھ، ایم پی اے آزاد صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر PP281 کروڑ سردار شہاب الدین سیہڑ پاکستان تحریک انصاف ۵۔ صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر PP282 چوبارہ محمد طاہر رندھاوا پاکستان تحریک انصاف صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر PP283 یہ مہر محمد اعجاز احمد اچلانہ مسلم لیگ ن ے۔ صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر PP284 یہ سید رفاقت حسین شاہ گیلانی آزاد
ضلع لیہ کی تہذیب و ثقافت اور حیثیت: سرزمین لیہ کے لوگ ہمیشہ اپنے کردار اور اوصاف کی بدولت جانے جاتے رہے ہیں ان اوصاف حمیدہ کے حامل بزرگوں میں چند نام نامی بزرگ اور اولیائے کرام نمایاں رہے ہیں جنہوں نے اس علاقہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو دین اسلام کی طرف مائل کیا اور دین اسلام کی تبلیغ کر کے راہ حق دکھائی۔
سرزمین لیہ میں تبلیغ اسلام کا آغاز سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے دوران ہو ا سب سے
پہلے کرور لعل عیسن میں حضرت سلطان حسین قریشی نے ۱۰۰۴ء کے لگ بھگ یہاں تشریف لا کر تبلیغ اسلام کافریضہ انجام دیا۔ یہی خاندان تقریباً دو سو سال تک کروڑ کو مرکز بنا کر اعلائے کلمتہ اللہ کا فرض ادا کرتے رہے۔ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتان ، حضرت مخدوم رشید حقانی یہیں پیدا ہوئے۔ یہیں تعلیم وتربیت حاصل کی ۔ شہاب الدین غوری کی درخواست پر قریشی خاندان بعد ازاں تعلیم و تبلیغ کے ذریعے سے قرامعلی اثرات کے خاتمہ کے لیے ملتان تشریف لے گئے ۔ اس دوران بہت سے بزرگان تبلیغ کے فرض کی ادائیگی کے لیے تشریف لاتے رہے لیکن ان کے حالات زندگی اور خدمات پر ابھی پردہ پڑا ہوا ہے وقت کے ساتھ ساتھ سرزمین لیہ تھل بزرگان دین کے روحانی و باطنی تصرف کی بدولت اسلام کی روشنی سے منور ہوتی رہی۔ ان اکابرین کے مزارات علاقہ بھر میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ عوام آج بھی ان سے والہانہ انداز میں عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ عقیدت و محبت کبھی بلاوجہ نہیں ہوا کرتی۔ ان بزرگان دین نے ایک روحانی فضا پیدا کی جو کہ تغییرات زمانہ کے ساتھ ساتھ آج کے اس مادی دور میں بھی قائم ہے۔ ان میں سے چند بزرگان کے نام درج ذیل ہیں۔
حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی, حضرت عنایت شاہ بخاری,حضرت قل احمد نوری حضوری,حضرت راجن شاہ بخاری,حضرت محمد یوسف شاہ لعل عیسن,حضرت سخی شاہ حبیب,حضرت جعفر شاہ بخاری پیر جنگی, پیران پیر چھتر فتح پور,حضرت حافظ حسن علی گیلانی لالہ زار,حضرت شیخ جلو,حضرت قادر شیر کاظمی,حضرت جمن شاہ بخاری, حضرت غلام حسن سواگ ۱۲ حضرت عارف شہید کلہوڑہاله,حضرت پیر بارو آپ کا سلسلہ نسب حضرت غوث اعظم عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے۔
باشندے:
سرزمین لیہ کے لوگ سچائی اور ایمانداری کا مجسمہ ہیں ۔ مہمان نواز اور گھر آئے کی عزت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اکثر اوقات خاندانی دشمنیاں صرف اس بات پر ختم ہو جاتی ہیں کہ کوئی ایک فریق دوسرے کے دروازے پر جا کر اپنی غلطی تسلیم کر کے معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں قتل تک معاف کر دیے جاتےہیں لیکن گھر آئے کو خالی بھیجنا باعث ذلت سمجھا جاتا ہے۔ مرد عام طور پر چھ فٹ قد اور اچھی صحت کے مالک ہیں۔
قدیمی لباس:
کرتہ، تجد، بگڑی یہاں کا قدیمی لباس رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل تک کوئی فرد نگے سر ہو کر آبادی کے نزدیک بھی نہیں آتا تھا۔ عورتیں بھی اکثر کرتہ تہجد پہنتی تھیں اور سر پر ایک بڑی چادر رکھتی تھیں۔ برقعے کا رواج بہت کم تھا۔ صرف سادات اور قریشی خاندان کی عورتیں برقعہ پہنتی تھیں۔
غذاء:
ماضی میں گندم کی کمی کے باعث جوار، باجرہ مکئی شلغم اور ساگ بطور غذا استعمال ہوتے تھے۔ یعنی ناشتہ دیہات میں عام طور پر رات کی بچی ہوئی روٹی کو مکھن سے تر کر کے کھایا جاتا تھا ا – نهران: یادی کے ساتھ سردیوں کے موسم میں شلغم کا حلوہ ( بھتی) پکائی جاتی تھی جو صبح اس کے ساتھ ـ
ناشتہ کیا جاتا:
ڈوپره دو پہر کا کھانا دوران کام کاج کھایا جاتا جو صرف روٹی کولسی یا ساگ کے ساتھ کھایا جاتا۔ ۔ پچھا ئیں دو پہر کو کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کام پر جانے سے پہلے روٹی کھائی جاتی جو پودینہ یا سبز دھنیا کی چٹنی بنا کر اس کے ساتھ کھائی جاتی۔
رات کا کھانا:
کام کاج سے فارغ ہو کر بوقت نماز عشا روٹی دودھ ، ساگ یا سالن کے ساتھ کھائی جاتی۔ ضلع لیہ میں آخریت ، زراعت پیشہ اقوام رہائش پذیر ہے جوز راعت پیشہ کھیتی باری کا کام کرتی ہیں یا لوگ بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ و مال مویشی چراتے ہیں۔ جو غیر زراعت پیشہ اقوام ہیں وہ تجارت یا محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ پیشہ ورانہ کام کر کے گزر اوقات کرتے ہیں۔ چند ایک بڑے زمینداروں کے علاوہ اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
نوٹ: اس مضمون کے مندرجات کی حیثیت ، ہم کی گئی معلومات کی صحت اور پروف خانی کی تمام تر ذمہ داری صاحب مضمون پر عائد ہے۔ ادارتی بورڈ قطع ذمہ دار نہیں۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے