یہ ضلع مظفر گڑھ کی ایک اہم تحصیل ہے۔ اگر چہ اب یہ سمٹ کر ایک سب ڈویژن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اگر ماضی کے پردے اٹھائے جائیں تو فوجی اعتبار سے ایک اہم مقام ہونے کی وجہ سے لیہ اس سے پہلے ضلع کمشنری اور ایک زمانہ میں صوبہ رہ چکا ہے۔لفظ کیہ کے اصل ماخذ کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن مقامی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ ”لیاں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جب اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس وقت یہ دریا کے کنارے پر تھا اور یہاں "لیاں” نام کی جھاڑیاں بڑی کثرت سے پائی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام اس سے منسوب کیا گیا جو بگڑتے بگڑتے یا کہہ سکتے ہیں سنورتے سنورتے لیہ کی صورت اختیار کر گیا۔ ڈاکٹر راقب بلوچ نے اپنی ” تاریخ بلوچاں میں عجیب و غریب تحقیق اور دلائل دینے کے بعد کہا ہے کہ اس شہر کا نام حضرت نوح علیہ السلام کی زوجہ کے نام پر رکھا گیا جن کا نام لیہ تھا۔ یہ خیال بعید از قیاس ہے اور جو دلائل ڈاکٹر صاحب نے دیئے ہیں اُن پر کسی اور وقت قلم اٹھا کر ان کو آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ لیہ کی تاریخ کا با قاعدہ آغاز سولھویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے ۔ جب ۱۵۵۰ء میں کمال خیاں نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ اس وقت اسے غازی خان کی حکومت میں صوبہ کی حیثیت حاصل تھی اس زمانے کے متعلق تاریخ کی کڑیوں میں ربط مفقود ہے۔ سکندراعظم کے زمانے کے مشہور سردار سائپریس و دریا کی دائیں جانب فوج کے ایک حصے کو ساتھ لیے دریا کے ساتھ ساتھ چلا۔در یا اگر چہ اس جگہ سے دور بہتا تھا لیکن اس قسم کے نشانات ملتے ہیں جن سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ۳۲۷ ق م میں دریا تھل کے بالکل ساتھ بہتا تھا۔ گویا اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکندر کی فوج اس علاقہ سے گزری۔
سکندر اعظم ( ۳۲۷ ق م) اور کمال خان (۱۵۵۰ء) کے ادوار کی درمیانی کڑیاں ملانے کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ تھل میں سے درمیانی عرصہ سے متعلق آثار کو تلاش کرنا بڑا محنت طلب کام ہے۔ لیہ کی سیاسی تاریخ سے قبل میں یہاں آنے والے قبائل کے بارے میں کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ان لوگوں نے براہ راست یہاں کی تاریخ پر اثرات مرتب کئے ۔ یہ تمام علاقہ تقریباً باہر سے آنے والے قبائل کی وجہ سے آباد ہوا۔ جاٹ اور بلوچ وغیرہ جنوب کی طرف سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ تقریباً ۱۵ ویں صدی کے شروع میں جاٹ قوم کے مختلف قبائل جن میں کھو کھر اور چینہ وغیرہ شامل تھے، ملتان اور بہاول پور کی طرف سے آئے اور آہستہ آہستہ میانوالی تک کی درمیانی وادی میں پھیل گئے ۔ ان کے بعد یہاں بلوچ آئے ۔ جنوب کی طرف سے آنے والی اس قوم کی زیادہ تر نوعیت فوجی طرز کی تھی وہ بڑے بڑے سرداروں کی قیادت میں یہاں آئے اور چھوٹی چھوٹی کئی لڑائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ تھل کلاں اور کوٹ آبادی زیادہ تھی ۔ سلطان کے تھل میں ان کی آبادی جانوں کی نسبت بہت کم تھی ۔ لیکن کوٹ سلطان میں ان کی تحصیل لیہ ۱۷۳۸ء تک، جب نادر شاہ نے یہاں حملہ کیا مغل سلطنت کا حصہ رہی۔ اس کا زیادہ تر علاقہ غیر آباد تھا ۔ ۱۷۳۹ء میں دریائے سندھ کا مغربی حصہ نادر شاہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ موت کے بعد یہ علاقہ احمد شاہ ابدالی کے زیرنگیں آ گیا ۔ احمد شاہ کی فوجوں نے ایک دفعہ پھر ۱۷۵۶ء میں پنجاب پر فوج کشی کی اور دوسرے علاقوں کے ساتھ اس علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت کے زیادہ تر دورانیہ میں اس علاقہ پر کابل کی حکومت کی طرف سے گورز مقرر نہیں کئے گئے ۔ یہ علاقہ جات اور جسکانی سرداروں کے درمیان تقسیم رہا اور وہ ان علاقوں میں تقریبا خود مختار حیثیت رکھتے تھے لیکن آخری دور میں اس علاقہ میں گورنروں کا تقرر با قاعدہ طور پر کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ضروری ہے کہ پندھرویں صدی عیسوی اور احمد شاہ ابدالی کے درمیانی دور کے بارے میں وضاحت کے ساتھ پڑھ لیں۔تاریخ فرشتہ میں ابوالقاسم فرشتہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ بلوچ سردار آباد ہوئے اور یہ بات ایک فارسی دستاویز سے بھی ثابت ہوئی جس کا ترجمہ لیفٹینٹ میککن نے کیا ہے ۔ اس دستاویز کے مطابق ۸۷۴ ھ بمطابق ۱۴۶۹ء میں سلطان حسین بن قطب الدین نے ملتان کی حکومت حاصل کر لی اور شور کوٹ کوٹ کروڑ اور دین کوٹ پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ملک سہراب خاں نے دورائی بلوچ کے بیٹے اسمعیل خان اور فتح خان کے ساتھ آکر سلطان حسین کی خدمت میں حاضری دی اور نوکری اختیار کر لی ۔ اس زمانہ میں پہاڑی ڈاکو سلطنت کے لئے مصیبت بنے ہوئے تھے ۔ سلطان نے سہراب خان کو خوش آمدید کہا اور قلعہ کروڑ سے لے کر قلعہ دین کوٹ تک اس کو عطا کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حاجی خاں اپنے بیٹے غازی خاں اور قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ان کے پاس آیا اور شاہی نوکری اختیار کرلی۔ اس طرح سے سلطنت کا پہاڑی علاقہ محفوظ ہو گیا اور شاہی ریونیو میں بھی اضافہ ہوتا شروع ہو گیا ۔ اسی زمانہ میں ملک سہراب خاں نے اپنے بیٹے اسماعیل خان کے نام پر ڈیرہ اسماعیل خاں اور ملک حاجی خاں نے اپنے بیٹے غازی خان کے نام پر ڈیرہ غازیخان کی بنیادرکھی۔شیر شاہ سوری کے زمانہ میں بلوچ سرداروں کے متعلق ہم ایک بار پھر سنتے ہیں ۔ جب ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ سوری نے خوشاب اور بھیرہ کا دورہ کیا ، اس وقت بلوچ سرداروں، غازی خان، اسماعیل خان اور فتح خان نے بھی حکومت ہند کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ یہ لوگ اسی خاندان سے متعلق ہیں، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس وقت تک یہ لوگ خاصی اہمیت اختیار کر چکے تھے اور علاقہ میں ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے ۔ گویا بلوچ اس علاقہ میں دو ممتاز خاندانوں کی قیادت میں آئے ۔ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ اسماعیل خاں اور غازی خان دونوں خاندان دودائی بلوچ تھے۔ لیکن بعد میں یہ نام تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے اور مقامی تاریخ میں غازی خان کے قبیلے کو میرانی بلوچ اور اسماعیل خان کے قبیلے کو ہوت بلوچ کہا جاتا ہے۔ ہوتوں نے ڈیرہ اسماعیل خان پر تقریبا ۷۷۰ اوتک متواتر حکومت کی۔ ان کے آخری حکمران نصرت خان کو احمد شاہ ابدالی نے بر طرف کر دیا اور قیدی بنا کر کابل لے گیا۔
لیہ کا علاقہ غازی خاں حکومت میں شامل تھا۔ خیال ہے کہ آگے کا علاقہ اسماعیل خان کو عطا کیا گیا تھا ۔۱۵۵۰ء میں غازی خان کے چار بیٹوں نے کوٹ ادو کوٹ سلطان لیہ اور نوشہرہ کی بنیاد رکھی ۔ کمال خاں جس نے لیہ کی بنیاد رکھی ، سب سے بڑا تھا۔ غازی حکومت میں لیہ کو صوبہ کی حیثیت حاصل تھی ۔ مرکز سے دوری کی وجہ سے اس علاقہ کے دفاع پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جاتی تھی۔ اس وجہ سے جسکانیوں کو طاقت پکڑنے کا موقع مل گیا اور داؤدخاں نے ایک ڈاکو کی حیثیت اختیار کر کے لیہ اور کروڑ کے درمیان جنگل کو مسکن بنا کر کشکوری کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا اور مصیبت کھڑی کر دی۔ یہ دور وہ تھا جب سلطنت دہلی کے تخت پر شہنشاہ اکبر رونق افروز تھا۔ اس نے ایک فوج ان کے خلاف بھیجی ۔ جس نے ان لوگوں کا قلع قمع کر دیا۔ لیکن سترھویں صدی کے آغاز ہی میں یہ لوگ پھر اکٹھے ہو گئے ۔ شہنشاہ کی طرف سے انہیں ایک خاص علاقہ گرانٹ کے طور پر عطا کر دیا گیا تھا اور اس طرح میرانیوں نے اپنا اثر ورسوخ اور قبضہ مکمل طور پر اس علاقہ پر کھو دیا۔ خیال ہے کہ ۱۶۲۰ء میں میرانی یہاں سے چلے گئے ۔ بلوچوں کے سرکردہ خاندان مثلاً جسکانی، ملندارانی کندرانی سروانی اور میانی وغیرہ سب یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بلوچ خان کی اولاد میں سے ہیں۔ اس علاقہ پر ان کا قبضہ آخری دور تک رہا اور اس دوران میں انہیں اپنی بقاء کے لئے مختلف لڑائیاں بھی لڑنا پڑیں۔ دوسری طرف سندھ کے کلہوڑا حکمران اس علاقہ پر حکومت کا دعویٰ کرتے تھے ۔ اگر چہ سندھ بھی اس علاقے کا حصہ تھا جو کابل کے حکمرانوں نے دہلی کے حکمرانوں سے حاصل کیا تھا لیکن سندھ پر ان کی گرفت مضبوط نہیں تھی اور کلہوڑا خاندان تقریبا خود مختارہی تھا۔ ریونیو بغیر لڑائی کے کابل کی حکومت کو ادا کرتے تھے۔ وقتا فوقتا وہ ڈیرہ غازی خان کی حکومت پر اپنا حق ملکیت جناتے اور حملے کرتے رہتے تھے ۔ ۱۷۵۸ء میں نادر شاہ نے ایک فوج کو ڈائل کی قیادت میں بھیجی ۔ سندھی فوج نے آپس کے انتشار کے باعث شکست کھائی ۔ ادھر ڈیرہ غازی خان میں میرانیوں میں بھی پھوٹ پڑ چکی تھی اور خاصی بڑی تعداد ڈیرہ غازی خان چھوڑ کر دوسری جگہوں پر آباد ہو گئے تھے ۔ اس وجہ سے ۱۷۶۹ء میں غلام شاہ کلہوڑا نے حملہ کیا اور میرانیوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا ۔ باقی ماندہ امراء کا عدم اعتماد دراصل میرانیوں کی شکست کا باعث بنا۔ غلام شاہ نے ۱۷۲۰ء میں ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کیا تھا۔ لیکن ۱۷۷۲ء میں انہیں تالپوروں سے شکست ہوئی ۔ نتیجہ کے طور پر وہ کابل کے حکمرانوں کے رحم و کرم پر آپڑے اور انہیں ڈیرہ غازیخان سے دستبردار ہونا پڑا۔ جہاں ان کی بڑی جاگیریں موجود تھیں اور اس کے بعد اسی وجہ سے انہیں کلہوڑا کی بجائے سرائی کہا جانے لگا۔ سرائی اس کے بعد ایک دفعہ پھر ایک بڑی فوج کے ہمراہ نئی ریاست کی بنیا د رکھنے کے لیے نکلے لیہ پر اس وقت جسکانیوں کی حکومت تھی جو اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکی تھی۔ عبدالنبی سرائی جو کہ غلام شاہ کا بھائی تھا۔ اس علاقہ میں داخل ہوا اور شورش پسند سرگانیوں کے ساتھ مل کر اس نے ۱۷۸۹ء میں لیہ پر حملہ کر کے محمد خاں جسکانی کو شکست دی اور لیہ کی حکومت حاصل کر لی۔ اس طرح جسکانیوں کی حکومت اس علاقہ میں تقریباً دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی۔ بالآ خرختم ہو گئی۔ عبدالنبی سرائی کی حکومت بھی تین سال سے زیادہ نہ چل سکی۔ اس کے خلاف شکایتیں بھیجی گئیں۔ جس میں اس کی سختی اور ظلم کے خلاف فریاد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس کی جگہ محمد خاں سدوزئی کو حکمران بنایا جائے جو کہ مظفر خان کا چازاد بھائی تھا۔ نتیجا محمد خاں سروز کی کو حکمران بنا دیا گیا مگر محمد خاں جانتا تھا کہ عبدالنبی سرائی سے معرکہ آرائی ہوئے بغیر قبضہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس کا مقابلہ عبد النبی سرائی سے لیہ کے قریب ہوا۔ عبدالنبی کے حامی خوب لڑے اور محمد خاں کی فوج کو شکست کے آثار نظر آنے لگے مگر اُنہوں نے غداروں کی مدد سے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ راجہ فقیر لکھی دوم اور اس کے ہمراہ سید بہت بے جگری سے لڑے مگر میدان جنگ میں کام آئے۔ شاہ عارف جو عبدالنبی سرائی کے بیٹے تھے بھی اسی جنگ میں واصل بحق ہوئے وہ لڑائی کے روح رواں تھے ان کی وفات کے بعد سرائیوں نے حوصلے ہار دیئے ۔ محمد خاں نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ ایک دن کے اندر اندر اپنے مال و منال کو ساتھ لے کر اس علاقہ کو چھوڑ دیں۔ ادھر کابل میں تیمور شاہ ۱۷۹۳ء میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد زمان شاہ حکمران ہوا لیکن شہزادہ ہمایوں کے ساتھ تخت نشین کے مسئلہ پر جھگڑا ہوا اہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ راہ فرار اختیار کر گیا۔ ہمایوں لیہ تک آیا۔ وہ ایک کنویں پر رکا جہاں اس نے گنوں کے عوض طلائی اشرفی عطاء کی۔ قدرتی طور پر وہاں اس امر پر ہیجان پیدا ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع نواب محمد خاں تک پہنچی جو اس وقت لیہ میں مقیم تھا۔ زمان شاہ نے ہمایوں کی گرفتاری کے لئے انعام واکرام کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ وہ فوج کے ساتھ نکلا ۔ ہمایوں کا جوان لڑکا اس لڑائی میں مارا گیا ۔ ہمایوں کو قیدی بنا لیا گیا اور اس کی اطلاع زمان شاہ کو دی گئی اس کے جوابی احکامات کی تعمیل میں ہمایوں کی آنکھیں نکال لی گئیں ۔ نواب محمد خان کو ڈیرہ اسماعیل خان کی اضافی حکومت اور سر بلند کا خطاب دیا گیا ۔ ہمایوں نے باقی زندگی قید میں گزاری۔ نواب محمد خاں نے ایک مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی ۔ اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر منگیر و اور بھکر کو بنایا جس وقت تک زندہ رہا اس نے اپنی حکومت کی طرف کسی کو میلی نظروں سے نہ دیکھنے دیا۔ اس زمانہ میں سکھ قوت پکڑ رہے تھے لیکن رنجیت سنگھ کو نواب کی زندگی میں اس کی سلطنت پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ نواب محمد خاں کی وفات کے بعد معاملہ مختلف ہو گیا جب حافظ احمد خاں تخت پر بیٹھا ۔ سکھوں نے پہلے تو لوٹ مار مچا کر اور کچھ قلعے قبضہ میں لے کر اسے خراج دینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بعد میں، جیسا کہ ہوتا ہے اس کی نیت خراب ہو گئی۔ ۱۸۱۸ء میں سکھوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا۔ ۱۸۲۱ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب اس کا معاملہ بھی صاف کر دیا جائے ۔ آخری مقابلہ منکیرہ میں ہوا نو دس دن کے محاصرہ کے بعد سکھوں نے یہ قلعہ کچھ شرائط کے ساتھ فتح کر لیا۔ نواب کو عزت کے ساتھ ڈیرہ کی طرف مال و متاع ساتھ لے کر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ۱۸۳۷ء میں گورنر ملتان دیوان ساون مل جو ایک دور اندیش اور قابل گورنر تھا، کی زیرنگرانی زراعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ اس کا پہلا بندوبست با قاعدہ طور پر کیا گیا۔ اُدھر سکھوں کے تعلقات انگریزوں سے بھی کچھ اچھے نہ رہے تھے ہنگامے کا آغا ز نواب کی موت سے ہوا اور انگریزوں نے ملتان پر حملہ کر دیا ۔ ۲۲ جنوری ۱۸۴۹ء میں یہ قبضہ مکمل ہو گیا ۔ ۲۹ مارچ ۱۸۴۹ء میں پنجاب کا الحاق ہوا اور اس طرح یہ سارا علاقہ انگریزوں کے قبضہ میں آ گیا۔ لیہ میں بھی کوئی خاص لڑائی اس وقت نہ ہوئی۔ جھڑپوں کے بعد انگریزوں کو اس علاقہ کا کنٹرول حاصل ہو گیا۔ لیہ کی حدود میں مختلف اوقات میں ردو بدل ہوتا رہا۔ کرنل راس لیہ ڈویژن کا پہلا کمشنر تھا۔ جو کہ ۱۸۵۰ء میں یہاں متعین ہوا اور تمبر ۱۸۵۷ء تک یہاں ہی رہا۔ وہ اپنے مرنے تک یہاں رہا۔ اس کی قبر مقامی انگریزوں کے قبرستان میں موجود ہے۔ اگر چہ اب لوح مزار کے بھی نشانات نہیں ملتے۔ میجر پولک نے بھی کچھ عرصہ قائم مقام کمشنر کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے بعد میجر براؤن اس کی جگہ آیا جو ۱۸۸ء تک یہاں رہا۔ پر ان ضلع لیہ مندرجہ ذیل ڈپٹی کمشنر کے ماتحت رہا۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے