لیہ، دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر سندھ ساگر دو آپ کا ایک معروف شہر ہے۔ عمومی روایات کی روشنی میں غازی خان کے بیٹوں میں سب سے بڑے بیٹے کمال خان نے سولہویں صدی عیسوی کے وسط میں ۱۵۵۰ء کے لگ بھگ اسے آباد کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچ قبائل مختلف وجوہ کی بنیاد پر اپنے آبائی مسکن سے ہجرت کر کے بڑی تعداد میں دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہورہے تھے۔ اس علاقہ میں ان کی آبادکاری دیلی کی مرکزی حکومت کے لیے کسی قدر باعث اطمینان تھی۔ بیرونی حملے کی صورت میں ایک جنگجو قوم کا سلطنت کے دفاع میں دشمن افواج سے برسر پیکار ہونا قدرتی طور پر حکمرانوں کے مفاد میں تھا۔ کچھ یہ بھی کہ ان قبائل کا دار السلطنت کے قریبی علاقوں کی جانب آنے سے گریز بھی دہلی کی حکومت کے لیے خوش آئند قرار پاتا تھا۔ مغل، سوری ، درانی، بلوچ، کلہوڑہ اور سکھ حکمرانوں کے زیر اثر رہنے والا یہ علاقہ اور شہر جب انگریزوں کے زیر نگیں آیا تو اس کی عسکری اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے کمشنری کے مقام پر فائز کیا گیا۔ آنے والے ادوار میں یہ کبھی تحصیل اور کبھی ضلع رہا۔ آج کل اسے ضلعی صدر مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تحصیل کے علاوہ کروڑ لال میسن اور چوبارہ کی دو تحصیلوں میں دریائے سندھ کے کنارے کچے کے ساتھ ساتھ تھل کینال سے سیراب ہونے والا زرعی علاقہ اور صحرا کا ایک بڑا حصہ ضلعی حدود میں شامل ہے۔
اس علاقہ کی تاریخ اور ثقافت کے پس منظر میں کیا جانے والا کام زیادہ نہیں۔ ہم مختلف ڈسٹرکٹ اور تحصیل گزیٹر ز ، اسیسمنٹ رپورٹس کے علاوہ کچھ ہی ایسے مآخذین سے واقف ہیں جو برطانوی عہد کے ابتدائی اور وسطی دور میں مرتب ہوئے اور جو اس موضوع پر بنیادی نوعیت کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ بعد کے ایام میں جو کچھ لکھا گیا اس کا بہت حد تک انحصارا نہیں ابتدائی کاوشوں پر تھا۔
گزیکٹیٹر ز میں موجود مواد کا جائزہ لیا جائے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ لیہ اور اس سے متصل علاقوں کے بارے میں ڈیرہ اسماعیل خان ، جھنگ، میانوالی، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور خود لیہ کے گزیٹیر ز کے مرتبین کی متفقہ رائے میں اگر چہ صحرا کا علاقہ قدیم اشیاء نوادرات اور مساکن ہائے کہن کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی مناسب خیال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ امر تبھی ممکن ہوتا اگر اس علاقہ میں قدیم نوعیت کے کوئی آمار موجود ہوتے۔ یہ خطہ در حقیقت کسی قسم کی قدیم عمارات یا دیگر اثری اہمیت کی اشیاء کا حامل نہیں رہا۔ قرون وسطی اور وہ بھی خاصے بعد کے کچھ مظاہر واں بھچراں کی باؤلی ، لال عیسن کا کروڑ میں مزار ، راجن شاہ کا راجن شاہ اور دین پناہ کا دین پناہ میں مقبرہ ، مزید برآں تھل کے طول و عرض میں کچھ مٹی اور اینٹوں سے بنے برج اور قلعے ہی وہ آثار ہیں جنھیں اس علاقہ کی تعمیراتی میراث قرار دیا جاسکتا ہے۔ میں ساری آرا نقل کرنے کی بجائے محض منتخب عبارات رقم کرنا اس لیے ضروری خیال کرتا ہوں کہ انگریز مصنفین یا مرتبین کی تحریر انھی کے الفاظ میں قارئین کے سامنے آجائے۔
جارج ٹکر کی لینڈ ریونیو سیٹلمنٹ آف دی ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ آف دی پنجاب ۷۹۔ ۱۸۷۲ء
رپورٹ کے مطابق:
"The Thal, …. is admirably suited for the preservation of antiquarian remains, had any such ever existed. The rainfall is small, and it is entirely beyond the reach of inundation. As a fact the Thal is devoid of any such remains, with the exception of a few tombs, the principal of which, those at Karor and Mahomed Rajan, date from the 15th or 16th centuries only.”
۱۹۱۵ء کے میانوالی ڈسٹرکٹ گزیٹیر کے مطابق :
"In the Kacchi tract, of course, such remainsBF7
could not survive the action of river floods, and this tract must, at one time, been much wider than it is now. The Thal, however, is admirably suited for the preservation of antiquarian relics, had any such ever existed, but there are none that date from earlier than the fourteenth century.”
جے پارسن کے مرتب کردہ ۱۹۱۶ ء کے لیہ تحصیل گزیٹیر کے بقول :
"Nothing is known of the early history of the Leiah Tahsil. The Thal if left to a state of nature and without wells would be a desert, and the probability is that in early historic times nearly the whole country was a barren waste. Alexander the Great, according to Arrian, sailed down the Jhelum to its junction with the Indus, while his land forces marched in two bodies on either side of the river. Craterus, who was on the right bank, must have skirted the Sind-Sagar Thal. Alexander seems to have thought nothing of making a fifty miles march across the Bar, through, a country devoid of water to get at some towns on the Ravi; and had there been any inhabited towns of importance on the Thal side, these would certainly have been the subject of a plundering expedition. The absence of all notice of any such expedition affords a presumption that the Thal was then a poorer country than it is now. The general absence of ruins and monuments of antiquarian interest would also tend to prove that the district could never have been the site of a rich and populous Government. In the Kachhi tract, of course, such remains could hardly survive the action of river floods, and at one time, the Kachhi tract must been much wider than it is now. The Thal, however, is admirably suited for the preservation of
emil antiquarian remains, had any such ever
existed; the rainfall is small, and the land is nolloru
entirely beyond the reach of inundation. As a
fact, the Thal is devoid of any such remains, with the exception of a few tombs, the principal of which, those at Karor and Muhammad Rajan, date from the fifteenth or sixteenth centuries only. They are built of
brick, and ornamented with enameled coloured tiles, after the Multan fashion.”
میری ذاتی رائے میں، جس سے اختلاف کا حق صاحبانِ خرد کو حاصل ہے، گزیٹیئر ز کے مرتبین نے
سندھ ساگر دو آب میں شامل دریا کی ساحلی پٹی اور صحرائی علاقے کو تاریخی پس منظر میں احتیاط کے ساتھ دیکھنے کی بجائے محض انتظامی دائرہ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملاحظہ کیا اور غالباً یہی ان کی بنیادی سرکاری ذمہ داری تھی۔ باقی معاملات اور معلومات کے حوالے سے انھوں نے بڑی حد تک مقامی لوگوں کی آراء پر انحصار کیا جو علمی طور پر بہت بلند سطح پر فائز نہیں تھے اور جن کے لیے علاقہ میں موجود چند اہم اور بڑے تعمیراتی نمونوں کے علاوہ اور کوئی شے قابل اعتنا نہ تھی۔ کچھ معاملات بہر طور سرکاری افسران کے اس معاملے کو کسی قدر گہرائی سے دیکھنے کا تقاضا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے انھیں بھی نظر انداز کیا گیا۔ تھل اور مصحرائے تھل سے تشکیل پانے اور صحرا کے وسط میں دریائے سندھ کی قدیم گزرگاہ کی باقیات کا ذکر خود گزیٹنیر زمیں بھی ملتا ہے۔
۱۹۱۲ ء کے تحصیل لیہ کے گزیٹیر کے بقول:
H "The Thai plateau as a whole lies at a much higher level than the other Doabs of the Punjab and it is difficult to see how else it can have been formed than by the action of the Indus, which undoubtedly at one time flowed much farther to the east. The broad level strips or pattis of hard soil, which run down the Thal from north to south, must have been formed by river action, for it is impossible that the drainage from the small catchment area on the Salt Range can ever have been sufficient to affect the country on so large a scale. These pattis are almost certainly the relics of ancient beds of the Indus.
If this hypothesis be correct, almost the whole of the present surface of the Thal must have been deposited by the Indus and left dry when the river changed its course, after which it is no strain on the imagination to perceive how the wind would work it up into dunes and larger sand-hills.”
۱۹۲۹ء کے مظفر گڑھ ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق:
"Except for the strip of country by the river – known as the kachchhi, or armpit – the whole of the rest of the Leiah Tahsil is desert, supporting large flocks of sheep, fewer goats and in the winter large herds of camels. The wells, which are worked almost as much to give water to the flocks as for cultivation, are situated in three long strips of hard level ground running roughly from north-west to southeast. These strips, which are obviously old beds of the Indus, are separated one from the other by low sand-hills. They vary greatly in fertility; that on the east is sterile; the middle one is less desolate; while the westernmost, which lies above the bank of the Indus, is almost everywhere very fertile, and in places is covered with a scattered growth of jand trees.”
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انسانی بستیاں ہمیشہ دریاؤں اور پانی کے ذخائر کے قرب و جوار میں آباد ہوتی رہی ہیں۔ اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کوشش کی جاتی تو یقیناً بہت سے انکشافات ہوتے۔ صحرائے تھل کے طول و عرض میں ملنے والے بڑے اثری ٹیلوں کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیں تولیہ کے نواح میں پیر جگی جیسا اہم اور بڑائیلہ بھی کسی کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کرو اسکا۔ اگر اسی ایک قدیم بستی پر توجہ دی جاتی تو جہاں ابتدائی تاریخ سے تعلق رکھنے والے کئی بنیادی پہلو سامنے آتے ، وہیں تجس کی مزید راہیں بھی ہموار ہوتیں۔ایک اور حوالہ بھی اہم ہے۔ تھل کے مختلف حصوں سے ملنے والے قدیم سکوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ برصغیر کے سکوں میں سب سے قدیم پہنچ مارکڈ سے لے کر انڈوگر یک، انڈو میتھین ، انڈو پارتھین، کشان، ہندو شاہیہ، عہد سلاطین دہلی مغل دور سلطنت اور سکھوں تک کے سکے سامنے آنے کے بعد اس علاقہ میں بعہد ماضی آبادیوں کی موجودگی کے بارے میں شک وشبہ باقی نہیں رہتا۔ اس خاص پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ایک وضاحت اپنے بارے میں بھی کرتا چلوں۔ تھل کی تاریخ سے ابتدائی دلچسپی پیدا ہونے میں سوتر میگس کے ایک خوب صورت سکے نے بھی کردار ادا کیا جو مجھے TDA کالونی یہ میں واقع والد کی سرکاری رہائش گاہ سے بالکل قریب ریت کے ٹیلوں کے درمیان ہماری کرکٹ بیچ سے محق آثار سے ہاتھ آیا۔ میرے لیے یہ ایک حیران کن بات تھی۔ سکہ کی تصویر بنا کر کالج میں اپنے تاریخ کے استاد محمد جمیل صاحب کے توسط سے پنجاب یونیورسٹی، شعبہ تاریخ کے استاد مکرم پر و فیسر محمد اسلم صاحب کو بھیجی گئی (بعد ازاں ایم اے تاریخ کے دوران مجھے بھی ان کی شاگردی کا موقع ملا۔ جب یہ علم ہوا کہ سکہ کشان عہد سے تعلق رکھتا ہے تو گویا آثار قدیمہ سے میری دلچسپی کا دروازہ کھل گیا۔مندرجہ بالا معروضات کو گزیکٹیٹر ز مرتب کرنے والوں پر تنقید خیال نہ کیا جائے ۔ قدیم تاریخ سے متعلق یہ جہتیں محض اس لیے سامنے لائی گئی ہیں کہ ان میں کام کرنے کی گنجائش تھی اور اب بھی ہے۔ ہم سو سال گزرنے کے باوجود ان مرتبین اور مصنفین کی کاوشوں کا عشر عشیر بھی ممکن نہ بنا سکے جن کا بنیادی کام اگر چہ تحقیق نہیں تھا، اس کے باوجود مختلف علاقوں کے جغرافیائی محل وقوع، تاریخ ، اقوام و مذاہب ، نباتاتی وسائل، جنگلی حیات، رسوم و رواج اور زبان وادب وغیرہ کے حوالے سے ان کی کوششیں بہر طور لائق صد تحسین ہیں۔ ان کی بنیاد پر ہمیں چاہئے کہ علم و فن کے میدان میں تجسس اور جستجو سے انکشافات کی نئی عمارتیں تعمیر کریں۔برصغیر کی تاریخ کے دو عمومی اجزاء زمانہ ماقبل تاریخ اور زمانہ تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔ عہد ماقبل تاریخ، برصغیر کے پس منظر میں ، زیادہ تر ، اور عمومی دلچسپی کی حد تک، وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق ہے۔ اس زمانے میں رائج تحریری یا تصویری علامات و نشانات کی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن انھیں پڑھنا اور سمجھنا بد قسمتی سے اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں دریائے سندھ کی وادی میں انسانی معاشرے کے قیام سے لے کر کم و بیش تیرہ سو سال قبل مسیح تک کا زمانہ، عید ماقبل تاریخ کہلاتا ہے۔ زمانہ تاریخ کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کر کے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلا دور آریاؤں کی آمد سے لے کر سندھ پر محمد بن قاسم کی قیادت میں عربوں کی یلغار تک کا احاطہ کرتا ہے۔ قرون وسطی محمد بن قاسم (۱۷۱۲ء) سے لے کر اور نگ زیب عالمگیر کی وفات (۱۷۰۷ء) پر محیط ہیں جبکہ جدید عہد ۱۷۰۷ء سے شروع ہو کر زمانہ حال تک جاری و ساری ہے۔ تھل کے پس منظر میں مروجہ بیانات اور نسلاً بعد نسل چلنے والی روایات سے ہٹ کر میرے خیال میں مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے سکوں کی روشنی میں علاقہ کی تاریخ کو سمجھنا غالباً سب سے آسان اور مستند ذریعہ ہوگا۔ ان کے توسط سے ان زمانوں کا تعین مشکل نہیں جن کے دوران یہ خطہ معاشرتی اور معاشی طور پر متحرک رہا۔ ان جگہوں کو قطعیت کے ساتھ تلاش کرنا جہاں یہ سکے دیکھنے میں آتے ہیں، کسی قدر محنت طلب ہو گا لیکن آج کے دور میں جب باہمی رابطے آسان ہو گئے ہیں، یہ کام اتنا مشکل نہیں رہا جتنا عبد ماضی میں تھا۔ اثری ٹیلوں (Archaeological or Cultural Mounds) سے سکوں کے علاوہ اور بھی بہت سی قدیم اشیا مل سکتی ہیں لیکن ان کی بنیاد پر ترتیب زمانی متعین کرنا اتنا سہل نہیں بتا سکوں کی مدد سے اس کا حتمی اور اک یقینی بنایا جا سکتاہے۔ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ازمنہ قدیم میں دریائے چناب اپنی موجودہ گزرگاہ سے بجانب مغرب آٹھ دس کلو میٹر یا اس سے کم و بیش صحرا کے بلند و بالا ٹیلوں کے ساتھ سے ہو کر گزرتا تھا۔ دریائے سندھ کے بارے میں یہ امر پوری طرح ثابت ہے کہ یہ عظیم دریا اپنے مرکزی اور ذیلی دھاروں سمیت تھل کے درمیان بہتا تھا اور عرصہ دراز رواں دواں رہنے کے بعد بالآخر مغرب کی طرف رخ کرتا گیا۔ صحرائے تھل کی بیشتر ریت اسی کے ذریعے کوہ قراقرم اور کوہستان میں شامل دیر، سوات اور گلگت سے سفر کرتی ہوئی اس علاقے میں جمع ہوتی رہی جسے دریا کے بجانب مغرب ہٹ جانے کے بعد تند ہواؤں نے طول و عرض میں بکھیر دیا۔ صحرا کے مشرق میں دریائے چناب اپنے دو معاونین جہلم اور راوی کے ساتھ بنتا ہے۔ تھل کی اس سمت میں سب سے طویل سفر جہلم ،اس سے کم چناب اور دونوں سے کم راوی کرتا ہے۔ چناب اور جہلم کا سنگم تریموں جب کہ چناب اور جہلم کے مشترکہ پانیوں کا ملاپ راوی سے عبدالحکیم کے نواح میں ہوتا ہے۔ ان دریاؤں کے ساتھ آنے والی ریت اور مٹی زیادہ تر ہمالیہ کے سلسلے سے تعلق رکھتی ہے لیکن صحرائے تھل کی تشکیل میں اس ریت کا حصہ دس فی صد سے بھی قدرے کم ہے۔ مختصر یہ کہ دریائے سندھ اپنی پرانی گزرگاہوں سے بجانب مغرب اور دریائے چناب اپنے قدیم راستے سے مشرق کی جانب ہٹ کر بہتے ہیں۔یہ امر ہمیشہ سے جانا پہچانا ہے کہ زمانہ قدیم کی اجڑی بستیوں کی باقیات عموما در یا دس کی گزرگاہوں کے نواح میں دیکھنے میں آتی ہیں۔ قدرتی طور پر ماضی میں ان گنت بستیاں ان دریاؤں کے قرب و جوار میں بسی ہوں گی۔ ان میں سے کئی کے آثار مجھے صحرا کے مطالعاتی دوروں کے دوران دیکھنے کو ملے۔ بینچ مارکرسکوں سے لے کر جنھیں بالعموم پانچویں اچھٹی صدی قبل مسیح تک کے دور سے متعلق سمجھا جاتا ہے، اگر چہ ان کی مثالیں کسی قدر بعد میں بھی سامنے آتی رہیں، سکھ دور تک کے سکے ان دشت نوردیوں کے نتیجہ میں ہاتھ آئے۔ انڈوگر یک، انڈو سیتھین ، انڈو بیکٹرین، کشان، ہندو شاہیہ، عرب، سلاطین دہلی مغل اور سوری حکمران تو علاقے پر حکومت کرتے تھے، ان کے علاوہ جن علاقوں سے نتھل کی بستیاں اور شہر با ہمی تجارت کی غرض سے رابطوں میں تھے ان کے سکے بھی دیکھنے میں آئے ۔ آثار کی سطح کے مطالعے (Surface Study) کے نتیجے میں ان کا ملنا ان کے مقامی ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ صحرا میں واقع اثری ٹیلے، بھر ٹھیٹر یا ٹھیکر اٹھ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ دریاؤں کے مرکزی اور ذیلی متروک دھاروں کی گزرگاہوں کے ساتھ ، مزید برآں قدیم تالابوں یا ٹوبوں کے نزدیک پرانی اشیاء کامل جانا نہایت معمول کی بات ہے۔ تھل کا ایک عام گڈریا یا چرواھا کسی بھی تلاش کرنے والے کو بیسیوں ایسی جگہوں کا پتہ بتا دے گا۔ ساتھ ہی ان اشیاء کا بھی بتائے گا جو وہاں سے ملتی ہیں یا ملتی رہی ہیں۔ جہاں تک سکوں کا تعلق ہے بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر ضائع ہو جاتے ہیں۔ سونے کے سکوں کا ملمنا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ چاندی کے سکوں کو ڈھال کر زیورات کی شکل دے دی جاتی ہے۔ تانبے کے سکے اونے پونے بیچ دیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں کشتہ سازی میں دلچسپی لینے والے حضرات بھی خرید لیتے ہیں لیکن اس خرید و فروخت کا نتیجہ ایک قدیم شے کا ضائع ہونا ہی نکلتا ہے۔ بہتر ہو اگر ان کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ وضع کر لیا جائے۔ مطالعاتی مقاصد کے تحت ضلعی سطح پر چھوٹے موٹے میوزیم یا مقامی تعلیمی اداروں میں ان کا display تھل کی تاریخ جاننے کے حوالے سے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آثار سے ملنے والی دیگر اشیاء بالخصوص نمائندہ ٹھیکریاں، نیم قیمتی پتھروں، دھات یا مٹی کے منکے ہمٹی کی انسانی یا حیوانی مورتیاں، کسی بھی چیز پر رقم تحریری نمونے، پوجا پاٹ سے جڑی اشیاء ، سیپ کے موتی یا چوڑیاں، معاشرے میں استعمال ہونے والے آلات اور اوزاروں کی باقیات سنبھال کر رکھ لی جائیں تو بہت ہی اعلی قسم کا یہ مواد کئی تحقیقی کاموں کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔صحرا میں آثار کاوی کی غرض سے سروے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات پر میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان کو قدیم آثار کی نشان دہی کرنے کے حوالے سے کسی قدر مدد ضلع اور تحصیل کے دفاتر میں موجود ریو نیوریکارڈ سے بھی مل سکتی ہے۔ بلند و بالا ، واضح طور پر نظر آنے والے بڑے ٹیلوں کو اس ریکارڈ میں خرابہ قدیم کا نام دیا جاتا ہے۔ ان قدیم ٹیلوں کو اسٹیٹ کی ملکیت قرار دیتے ہوئے انھیں یا تو ان کی اصل ساخت میں برقرار رکھا جاتا ہے یا گاؤں کی آبادی اور علاقہ کی مشترکہ ملکیت قرار دے کر کسی فلاحی کام کے لیے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی قدیم ٹیلوں پر بنیادی تعلیمی یا صحت کے مراکز ، یا پھر قبرستان وغیرہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے ٹیلوں کی تعداد بہر حال محدود ہوتی ہے۔ لیہ کے نواح میں پیر جنگی اور لیہ اور جھنگ کی سرحد کے قریب اوچ گل امام، کوٹ بہادر اور پیر عبدالرحمن کے ماؤنڈ ز اس امر کو سمجھنے کے لیے مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ گفتی کی ان جگہوں کے علاوہ سیکٹروں کی تعداد میں وہ مقامات بھی ہیں جن کی اونچائی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ محض سطح پر بکھری لا تعداد ٹھیکریوں اور دوسری قدیم اشیاء کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ریونیو ریکارڈ میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ سیا اسٹیٹ کی ملکیت بھی ہو سکتے ہیں اور بھی مالکان کی بھی۔ ان کو تلاش کرنا زیادہ محنت طلب ہوتا ہے
لیکن آثار کاوی کے ضمن میں دونوں طرح کے مقامات اہم قرار پاتے ہیں۔ ان تھل میں موجود اثری ٹیلوں کی بعیت مستقلاً ایک سی نہیں رہتی۔ تند و تیز ہواؤں کے جھکڑ اور بادوباراں کے طوفان ریت تو ایک طرف ، ٹیلوں کی ساخت اور محل وقوع بدلتے رہتے ہیں۔ ایک سیزن میں جو آبادی ایکڑوں پر محمد انظر آتی ہے عین ممکن ہے اگلے دورے میں کچھ مرلوں تک محدود ہو کر رہ جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قطعی طور پر نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ یہ امر کسی حد تک اذیت کا باعث بنتا ہے۔ لیکن ایک اور معاملہ بھی اس صورت حال سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک آبادی جزوی یا کلی طور پر غائب ہوتی ہے تو ایک بالکل نئی آبادی سامنے آجاتی ہے۔ یہ دلچسپ عمل معمول کی بات ہے اور اس کو ٹوظ رکھ کر ہی نتائج کا استنباط اور جائزوں کا تعین ہو سکتا ہے۔ چولستان یا صحرائے تھر کے برعکس پھل میں چنے کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ صحرا کے بعض حصوں میں ستمبر کے آخری پندرہ دنوں میں ہل چلانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اکتوبر کے اوائل سے تو تھل کے ہر کونے میں کسان زمین کی تیاری اور بوائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ ہل چلانے کے نتیجے میں اثری اہمیت کی تمام کی تمام اشیاء اپنی اصل جگہ سے ہٹ جاتی ہیں۔ آبادی کی مختلف تہیں بھی ترتیب زمانی سے عاری اوپر نیچے یا ادھر ادھر منتقل ہو جاتی ہیں۔ تھل کئی ماہ کے لیے بالکل اور طرح کی ساخت اختیار کر لیتا ہے۔ جولائی ہستمبر، اکتوبر یا ساون بھادوں کے دوران بارشیں اور تیز آندھیاں سطح کو ایک بار پھر قدرتی شکل میں بحال کر دیتی ہیں۔ اثری نیلے بھی پہلی صورت میں واپس آجاتے ہیں۔ اگر چہ قدیم اشیاء با ہم گڈمڈ ہو جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر ان تمام زمانوں کی عکاسی بہر صورت کر رہی ہوتی ہیں جن میں جگہ آباد ہی ہوتی ہے۔ایک اور بات کہنا بھی ضروری ہے۔ تھل میں راستوں اور سمت کا تعین آسان کام نہیں۔ کم و بیش ایک ہی طرح کے ٹیلے، پگڈنڈیاں اور راستے کسی شخص کو بھی بھٹکا سکتے ہیں۔ سو ٹھہرنے کا مکمل اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ صحرا میں سفر کے لیے کسی مقامی گائیڈ کا ساتھ ہونا نہایت ضروری ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء ملنے کا امکان کم کم ہوتا ہے۔ کئی علاقے بہت ہی ویران اور صبر آزما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے کھانے کی کچھ اشیاء مثلاً بسکٹ، چنے ، گڑ اور ان کے علاوہ پانی کی مناسب مقدار کا رکھنا لازم و لزوم ٹھہرتا ہے ۔ صحرا سردیوں میں بھی دوپہر کے وقت خاصا گرم ہو سکتا ہے۔ کشتی اور اونٹ کے سفر کے دوران سر کو لگنے والی مسلسل دھوپ کی طرح ریگستان کی تمازت سے بچاؤ کے لیے کوئی بیٹ ، ٹوپی ، پگڑی یا کپڑا رکھ لیا جائے تو اس مسئلے سے نپٹا جا سکتا ہے۔زمانہ تاریخ کے پس منظر میں لیہ اور جھنگ کی سرحد کے قریب اور ماضی میں لیہ کی جانب بہنے والے دریائے چناب کے حوالے سے ایک انتہائی اہم واقعہ سکندراعظم سے جڑا ہے۔ ایرین کے مطابق دریائے بیاس پر پہنچنے کے بعد مزید پیش قدمی سے فوج کے قطعی انکار کی وجہ سے سکندر اعظم کو بادل نخواستہ واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ دریائے جہلم میں سفر کرتا ہوا اس کا بحری بیڑا جب چناب اور جہلم کے سنگم پر پہنچا تو تند دھاروں کی زد میں آگیا۔ کئی اور کشتیوں کے ساتھ اس پیڑے کو بھی پانی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں سکند رسوار تھا۔ وہ ڈوبنے سے بال بال بچا۔ دریا کے مغربی کنارے پر پہنچا اور کچھ دیر قیام کے بعد شورکوٹ کی جانب بڑھ گیا۔ یونانی مآخذین کے بقول کوئی ایسا قابل ذکر شہر اردگرد نہیں تھا جو اس کی توجہ تسخیر کے حوالے سے اپنی طرف مبذول کرواتا۔ ہاں مقامی لوگوں کے بارے میں ایسی روایات رقم کی گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقہ کسی نہ کسی درجہ میں آباد تھا۔ماقبل تاریخ کا دور بھی کم و بیش قطعیت کے ساتھ نظر انداز کیا گیا۔ دریاؤں کی گزرگاہوں کے ساتھ نظر آنے والے قدیم مساکن کا ذکر تو اگر چہ زمانے کا تعین کیے بغیر بعض آخذ میں موجود ہے لیکن عہد ماقبل تاریخ کے آثار صحرائے تھل میں ملنے کے امکانات کا اظہار میرے علم کے مطابق سب سے پہلے آرل سٹائن نے ۱۹۳۱ء میں براستہ خوشاب، میانوالی جاتے ہوئے اس وقت کیا جب وہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر میانوالی کے نزدیک روکڑی کے بدھ مت کے دور سے تعلق رکھنے والے آثار دیکھنے گئے۔ Archaeological
Reconnaissances in North Western India and South Eastern Iran
میں کیا گیا یہ ذکر بظاہر سرسری سا ہے لیکن اس خاص موضوع کے حوالے سے اس کی اہمیت کے پیش نظر میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسے آپ کے سامنے رکھوں۔ آرل سٹائن کے مطابق :
"On December 20th a motor drive of some 73 miles carried us first along the river to Khushab and then along the northern edge of the Thai to Mianwali, the head-quarters of the district of the same name that stretches from the western extremity of the Salt Range down the left bank of the Indus. …. I had wished to reach Mianwali without more delay, partly in order to collect there information about sites in the now semi-desertic tracts of the Thal down the Indus, which might possibly offer traces of occupation in prehistoric times, and partly in order to be on a main line of railway communication to Karachi in case news were received permitting an early start on our expedition into Persian Makran.”
بد قسمتی سے آرل سٹائن کو حکومت ایران سے اجازت نامہ موصول ہونے پر میانوالی سے پہلے کراچی اور پھر ایرانی مکران کی جانب آثار کاوی کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ نہ تو دوبارہ یہ علاقہ دیکھنے کا موقع انھیں میسر آیا اور نہ کسی اور نے اس رائے پر توجہ دی۔ شاید سٹائن کی اس رائے کی روشنی میں اتنا تو ہوا کہ آرکیالوجی پر بعد میں لکھی جانے والی کچھ تصانیف میں شامل بعض نقشوں میں لیہ کو بھی ایسے مقامات کے ہمراہ دکھایا گیا جہاں ماقبل تاریخ کے آثار موجود تھے۔ البتہ صراحت کے ساتھ لیہ کی حدود میں کسی جگہ کا ذکر نہیں کیا گیا جہاں ایسی باقیات زیر مطالعہ آئی ہوں۔ بہت بعد میں ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والے آرکیالوجی نمبر ۲۹ میں آخر کار جب پنجاب کے کئی علاقوں میں موجود اثری اہمیت کے مقامات کی فہرست سامنے آئی تو چوبارہ اور کوٹ ادو کی حدود میں واقع سات قدیم ٹیلوں، چھینے والا لمبراں والا ، لڈے والا کھوہ ، ناھری والا میہ ، پھکر اٹھ والی پٹی، جھوک ودھائی والی اور سامل ٹو بہ کا ذکر بھی کیا گیا جو بنیادی طور پر کوٹ ڈجی عہد سے تعلق رکھتے تھے۔ ان مقامات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ کبھی شائع نہیں ہوئی ۔ محکمہ کی انتظامی مشکلات یا وسائل کی کمی اس امر میں حائل ہو ئیں یا نہیں کہنا مشکل ہے لیکن نتیجہ خیز
مطالعہ سامنے نہ آسکا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تھل کے صحرا اور لیہ سے میر اقلی رشتہ بہت سی جہتوں کا حامل ہے۔ میرے والد گرامی کی خوشاب، مظفر گڑھ، بھکر اور لیہ میں یہ سلسلہ امور نیز کار تعیناتی ، والدین اور فیملی کے ساتھ گزرے سنہرے دن ، سکول اور کالج کی یادیں، جو ذہن کی قوسوں میں نہ مٹنے والے رنگوں کی صورت آج بھی تازہ ہیں، دوست احباب کی بے لوث محبت اور سب سے بڑھ کر سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت پیر عبداللہ المعروف پیر بارہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف بھی کچھ ہے جس نے لیہ اور صحرائے تھل سے میری نسبت کبھی کمزور نہ ہونے دی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔ اے تاریخ اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم۔اے اردو کرنے کے بعد میں نے تقریباً چوبیس سال کی عمر میں لیکچررشپ کا آغاز کیا۔ اصغر مال کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب، گورنمنٹ کالج مری اور گورنمنٹ سرور شہید کالج گوجر خان میں پڑھانے کے بعدی ایس ایس میں کامیابی کے نتیجہ میں ۱۹۸۷ ء کے اواخر میں پاکستان ریلویز میں ملازم ہو گیا۔ سرکاری امور کے حوالے سے مصروفیت کبھی کم اور کبھی زیادہ رہی۔ ایک وفاقی ادارہ میں ملازمت کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں تعیناتی رہی لیکن کام کے دوران وقت نکال کر اپنے پسندیدہ موضوعات پر کچھ نہ کچھ لکھتارہا اور چند تصانیف شائع بھی ہوئیں۔
تھل کی قدیم تاریخ کے بارے میں جانے کی جستجو اور خواہش بہر طور دل و دماغ میں بسی رہی۔ میں نے تھل میں آثار کا وی کا کام ۱۹۷۹ء میں شروع کیا اور پہلا باقاعدہ سفرالنبی بخش سرائی صاحب جو لیہ کی ایک نامور علمی شخصیت تھے اور مہر اختر وہاب سمرا، جو اس وقت میرے کلاس فیلو تھے اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج لیہ کے پرنسپل رہے، کی معیت میں مسودانا کا کیا۔ بعد ازاں کئی اثری ٹیلے اور ٹھیکراں بھی چھان مارے۔ پوری طرح اور اک نہیں تھا کہ کیا شے کتنی اہم ہے لیکن جس چیز نے ظاہری طور پر متاثر کیا اٹھالی گئی۔ پاکستان کے عہد ماقبل تاریخ کے بارے میں جب میرے افکار میں کسی حد تک پختگی آئی اور خصوصیت سے ڈاکٹر رفیق مغل صاحب سے چولستان کے طول و عرض سے اکٹھی کی جانے والی اشیاء کا پس منظر سمجھنے کا موقع ملا تو کئی نئے سوالات، دوران مطالعہ ملنے والے جوابات کے ساتھ ساتھ ، ذہن میں پیدا ہوئے جن کا جواب حاصل کرنا ضروری تھا۔ ایک معاملہ جوصل طلب تھا تھل میں قدیم دور سے تعلق رکھنے والے آثار کی عدم نشان دہی سے جڑا تھا۔
یہ بات بہر طور علم میں تھی کہ عہد قدیم میں لوگوں نے دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے مشرقی کنارے کی جانب سفر اختیار کیا۔ بدلے ہوئے موسمی حالات، کم بارشیں، سیر وشکار کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی خوراک میں کمی ، جانوروں کے لیے میسر آنے والی نا کافی غذا، کوئی آسمانی آفت یا بیماری، وجہ کوئی بھی رہی ہولوگ دریائے سندھ کے معاونین جہلم ، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے کنارے آباد ہونے شروع ہو گئے۔ اب کا صحرائے چولستان ماقبل تاریخ میں دریائے ہاکڑہ کے پانیوں سے استفادہ کرتا تھا۔ اس کے کنارے سیکڑوں آبادیوں کی باقیات بھی سامنے آچکیں۔ ایسے میں لوگوں نے تھل کے علاقہ میں قیام کیوں نہ کیا بالخصوص ایسی صورت حال میں کہ دریائے سندھ علاقے کے وسط میں اپنی شاخوں سمیت بہتا تھا۔