لیہ

ضلع لیہ : غازی خان کی جرات مندانہ داستان

برکت اعوان

تاریخ تہذیب و تمدن کا آئینہ بھی ہے اور قوموں کے عروج و زوال کی داستان بھی۔ فطرتاً انسان کو اپنے ماضی سے لگاؤ رہا ہے اور ماضی ایک ایسا منظر ہے کہ انسان ارتقائی منزلوں کی طرف چلتے چلتے بھی ان گزرے ہوئے ماضی کے راستوں کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے، جو دہ چھوڑآیا ہے۔ گویا انسان کا ہر گز رالحہ اس کی متاع عزیز ہے۔
صحرائے تھل تاریخی ورثہ سے مالا مال ہے۔ صحرائے تھل کے ہر ذرہ ریت کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ ایک داستان ہے۔ صحرائے تھل کی تاریخ میں رواداری کا ایک واقعہ اس طرحبمذکور ہے۔ غازی خان کو تخنت کامل سے ایک حکم نامہ ملا کہ انھیں شکایت موصول ہوئی ہے کہ لیہ کے صحراؤں میں ایک بلوچ قبیلہ جسکانی نے پیشہ رہزنی و قزاقی اختیار کر رکھا ہے۔ داؤد خان جسکانی اس قبیلہ کا سردار ہے اور وہ کوہ سلیمان کی طرف سے آنے والے تاجروں اور قافلوں کو لوٹ لیتا ہے۔ اس وقت کوہ سلیمان کے راستے بلخ، بخارا غزنی اور متعدد ملکوں کی طرف سے سامان تجارت لانے والے تاجر یا ہندوستان آنے والے لوگوں کے قافلے سفر کی مسافت کم کرنے کے لئے معروف راستوں کی بجائے درہ سنگ سوراخ یا کوہ سلیمان کے متعدد دوسرے گم نام دروں کے راستے کوہ سلیمان کو عبور کرتے پھر دریائے اباسین یعنی دریائے سندھ کو بھکر، بہل اور دائرہ دین پناہ کے مقام سے عبور کرتے۔ کیونکہ ہر سہ مقامات پر دریائے سندھ کا پاٹ کم ہو جاتا تھا اور پھر وہ صحرائے تھل کے مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے دریائے چناب پر پہنچ جاتے تھے۔ اس طرح وہ اصل مسافت کی بجائے کم مسافت طے کر کے ہندوستان میں داخل ہو جاتے تھے۔ لیہ تھل کے لق و دق اور بے آب و گیاہ صحرا کے وسط میں داؤد خان جسکانی نے اپنے قبیلے کے ہمراہ قلعہ موج گڑھ میں رہائش اختیار کر رکھی تھی اور وہ صحرا سے گزرنے والے قافلوں اور چھوٹی آبادیوں کو لوٹ رہا تھا اور خلق خدا کو آزار پہنچارہا تھا۔ اس کی اطلاع جب حاکم کا بل کو پہنچی تو حاکم کابل نے ڈیرہ غازی خان کے حاکم غازی خان کو صحرا کے قزاق داؤد خان جسکانی کا سر قلم کرنے اور اس کے قبیلہ کو تہ تیغ کرنے کا حکم بھجوایا۔ چنانچہ غازیخان بلوچ ایک لشکر جرار کے ساتھ صحرائی قزاق کا سر قلم کرنے اور اس کے قبیلہ کو تہ تیغ کرنے دریائے سندھ کے کنارے اس پار کوہ سلیمان کے دامن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا تھل کے صحراؤں کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر صحرائی قزاق داؤد خان جسکانی کو بھی اطلاع مل گئی کہ غازی خان بلوچ اس کا سر قلم کرنے اور اس کے قبیلہ کو تہ تیغ کرنے کے لئے ایک بھاری لشکر کے ساتھ ڈیرہ غازی خان سے صحرا کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ داؤد خان جسکانی نے بھی اپنے قزاقوں کو تیار ہونے کا حکم دیا کہ وہ صحرائی قزاقانہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔ صحرائی قزاقانہ جنگ یہ تھی کہ مخالف پر رات کو شب خون مارڈا سے نقصان پہنچاؤ اور پھر ٹیلوں میں گم ہو جاؤ دن میں بھی دھو کے سے دشمن پر حملہ کروا سے نقصان پہنچاؤ۔ غازی خان بلوچ والی ڈیرہ غازی خان اپنے لشکر کے ہمراہ منزلیں طے کرتا ہوا ” راجن شاہ کے بالمقابل دریائے سندھ کے اس پار آ کر ٹھہر گیا۔ اگلے روز اس نے دریائے سندھ کو پار کر کے صحرائی قزاقوں پر حملہ کرنا تھا۔ جبکہ ادھر سے صحرائی قزاق داؤد خان جسکانی بھی اپنے قزاقوں کو لے کر غازی خان کے لشکر سے پانچ کوس دور ادھر صحرا کے ٹیلوں میں آ کر ٹھہر گیا اور پھر رات کے وقت غازی خان کے لشکر کا اندازہ کرنے کے لئے داؤد خان جسکانی تن تنہا اپنے سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار ہو کر دریائے سندھ کے کنارے پہنچ گیا اور دور سے غازی خان کے لشکر کو دیکھنے لگا۔ چاندنی رات کھلی ہوئی تھی ۔ غازی خان کا لشکر تاحد نگاہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ غازیخان کے لشکر کو دیکھنے کے بعد قزاق داؤد خان جسکانی نے اچانک ایک ارادے اور عزم کے ساتھ اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا اور غازی خان کے لشکر سے دور دریا کے اس پار جا اترا۔ گھوڑے کو ایک پوشیدہ جگہ باندھ کر وہ چھپتا چھپا ت غازی خان کے خیمے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ مومی شمع جل رہی تھی اور مردانہ وجاہت کا پیکر غازی خان بار یک چادر اوڑھے مسہری پر محو استراحت تھا۔ داؤد خان جسکانی بڑی دیر تک غازی خان کی وجاہت سے متاثر ہو کر اسے دیکھتا رہا اور پھر اس نے ایک ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے غازی خان کی چادر کو اس کے پاؤں کی طرف سے پکڑ کر آہستہ سے سر کا یا تو غازی خان کی آنکھ کھل گئی اور اس نے حیران کن نظروں سے داؤد خان جسکانی کو دیکھا شجاعت اور تہور سے پر ایک خوبصورت بلوچ چہرہ اس کے سامنے تھا۔ داؤد خان جسکانی نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا غازی خان ! جس داؤد خان جسکانی کا سر قلم کرنے کے لئے آئے ہو میں وہی داؤد خان جسکانی ہوں میں خود تمہارے پاس آ گیا ہوں کہ کل کو جب تم نے حملہ کر کے میر اسر قلم کرنا ہے تو میں خود کیوں نہ پیش ہو جاؤں لیکن میں بلوچ ہوں اور بلوچوں کی طرح اپنا سر دینا چاہتا ہوں اس لئے تم اٹھو وہ آبخورہ پڑا ہے اس سے پانی پیو اور پھر اپنی تلوار اٹھاؤ لیکن داؤد خان جسکانی کی اس جرات نے اسے حیران کر دیا تھا۔ غازی خان نے اپنی تلوار کی دھار کو جانچا اور پھر وہ اپنی مسہری پر بیٹھ گیا اور داؤد خان جسکانی سے مخاطب ہوا کہ تمہیں جب معلوم ہو چکا تھا کہ میں تمہارا سر قلم کرنے کے لئے لشکر کے ساتھ پہنچ گیا ہوں اور میں تمہارا سر قلم کر کے لے جاؤں گا اور تمہارے سر کا دشمن ہوں تم خود یہاں تک کیوں چلے آئے اور پھر جب میں سورہا تھا تو تم نے اپنا دشمن جانتے ہوئے بھی کوئی گزند کیوں نہ پہنچایا ؟ داؤد خان جسکانی نے کہا بلوچ سردار! میں یہ سوچ کر آیا ہوں کہ کل بھی آپ نے میرا سر قلم کرنا ہے میں آپ کے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے خود آ گیا ہوں اور آپ پر وار اس لئے نہیں کیا کہ بلوچ ہوں، بیمار ضعیف بچہ عورت اور سوئے ہوئے دشمن پر وار کرنا ہماری بہادرانہ روایات کے خلاف ہے۔ بڑی گہری سوچ سے نکل کر غازی خان نے داؤد خان جسکانی کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا کہ میں بھی بلوچ ہوں، بہادر قوم کا فرد ہوں اور بہادروں کی قدر کرنا میری روایات میں شامل ہے اور اپنے گھر آئے ہوئے دشمن پر حملہ کرنا اور تمہارے جیسے بہادر دشمن پر حملہ کرنا میری بہادرانہ روایات کے برخلاف ہے جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا اور تمہارا سر قلم کرنا موقوف کیا۔ داؤد خان جسکانی نے اپنی تلوار غازی خان کے قدموں میں ڈال دی اور کہا سردار آج کے بعد قزاقی ہم بھی نہیں کریں گے کھیتی باڑی کر کے اپنا پیٹ پالیں گے آپ تک کبھی کوئی شکایت نہ پہنچے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کروڑ لعل عیسن سے لے کر لیہ تک دریائے سندھ کے کنارے جسکانی قبائل آباد ہیں اور ان کا پیشہ زراعت ہے۔

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com