اندرون فصیل کوٹ سلطان کے قدیم بازار اور گلی محلوں سے جب میں گزرتا ہوں تو سیکڑوں سال پہلے کوٹ سلطان کے ان ہی پر رونق بازار، پر ہجوم گلیوں ، اورمحلوں میں ہنستے کھیلتے بچوں ، ہوٹلوں میں موجود حلقہ یاراں میں خود کو پاتا ہوں۔ کبھی میں گلیوں سے گزرتے گھڑ سواروں کو دیکھتا ہوں تو کبھی قلعہ کی دیواروں سے ٹکراتے جرار لشکروں کی تلواروں کی چھن چھن کی صداسنتا ہوں۔ سرزمین کوٹ سلطان کی مبسوط تاریخ بھی دستیاب نہیں ہے زیادہ تر تاریخ مقامی بزرگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی یا پھر چند ہندی بھاشاؤں ، کچھ کتابوں اور مٹی کی مورتوں سے پر کندہ تحریروں ، گزیٹر آف مظفر گڑھ ڈسٹرکٹ 1929ء ، تاریخ ملتان اور تاریخ ڈیرہ غازیخان سے کوٹ سلطان کی تاریخ کے بارے میں مختصر معلومات ملتی ہیں۔تاریخیں روز روز نہیں لکھی جاتی اس لیے کہ تاریخ کا کام بڑا نازک اور بے حد مشکل ہوتا ہے۔ فن تاریخ ایک ادق فن ہے اس میں بڑے ریاض اور تحقیق و تدقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے یہ مضمون کوٹ سلطان کی تاریخ پر پہلا مضمون ہے۔ جو کہ تاریخ کے مختلف پہلوؤں سے ابھی نامکمل ہے۔ ہاں اتنا
ضرور ہے کہ یہ مضمون آنے والی نسلوں اور مورخین کے لیے نشان راہ ثابت ہوگا۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے میں نے ابتدائی تعلیم مڈل سکول دھرم شالہ کوٹ سلطان سے حاصل کی تھی۔ دھرم شالا کی قدیم و خوبصورت عمارت نے مجھے ابتدائی عمر ہی سے اس قدر متاثر کیا کہ مجھے کوٹ سلطان کی تاریخ سے محبت ہو گئی۔ یہ مضمون میری ذاتی دلچسپی اور ڈاکٹر مزمل حسین صاحب کی تاریخ کوٹ سلطان کے مختلف پہلوؤں سے والہانہ دلچپسی کی وجہ سے مجتمع ہوتا گیا۔ یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوٹ سلطان اپنے نام کوٹ سلطان سے زیادہ قدیم ہے۔ لیکن اس کی تاریخ مستور ہے کوٹ سلطان چونکہ ملتان کی تہذیب و تمدن کا حصہ رہا ہے اس لیے زیادہ عرصہ تخت ملتان کے زیر نگین رہا ہے۔ بیرونی فاتحین و اقوام کے جو اثرات ملتان پر مرتب ہوئے وہی اثرات کوٹ سلطان پر بھی مرتب ہوئے ۔ کوٹ سلطان کا علاقہ شاہانِ مصر، بابل ،شہنشاہ میڈ یا سفید ہن ، شاہان ایران سکندر اعظم، سلوکس، راجہ پورس ، چندر گپت موریا، اشوک چند، سہارس رائے ، راجہ داہر، محمد بن قاسم سلطان غزنوی، سلطان حسین انگاه، نواب محمد خان سدوزئی، دیوان سانول مل دیوان مول راج وغیرہ، فاتحین کے زیر تسلط رہا۔ جنو بی پنجاب کے نقشے پر ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ضلع لیہ میں کوٹ سلطان ساڑھے پانچ سو سال پرانا تخت ملتان کا قدیم قصبہ ہے جو کہ تقریباً 1470ء میں وادی سندھ کے نقشے پر کوٹ سلطان کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ہند و وزائرین کے لیے مقدس تھا۔ کیونکہ لالہ شام جی نے یہاں شام مندر کی بنیاد رکھی یہ شہر بہت عرصے تک شام مندر کی وجہ سے یہ قصبہ شام مندر کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر بہت عرصے تک اس علاقے کو مندر بارہ دری کے نام سے شہرت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس مندر کو دھرم شالہ کا نام دیا گیا۔ راقم الحروف کو ایک تختی ملی ہے جس پر یہ تحریر ہے دھرم شالا کی عمارت کی مرمت 1868ء میں مہنت لہائی اور چیلہ بھائی لیوا رام نے کرائی جس کیا خراجات قلید اس، کشن داس اور معگراج تینوں بھائیوں نے برداشت کیے۔ بھائی سادھو رام جن کے نام پر موضع سادھو رام ہے۔ وہ بھی شام مندر کے منتظم رہے۔ عرصہ دراز سے اب یہ عمارت محکمہ تعلیم کے پاس ہے۔ شام مندر میں موجود ہوتا اور درگا دیوی کے پاؤں میں ہندو پجاری دولت کے ڈھیر لگا دیتے۔ شام مندر کوٹ سلطان کا پروہت اس وقت کے تمام پروہتوں سے زیادہ امیر تھا۔ لہذا اسی عمارت کی وجہ سے وزیرستان کے علاقہ سے قزاق یہاں آتے اور شب خون مارتے ہوئے یہاں کی ساری دولت سمیٹ کر لے جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ ان حالات پر قابو پانے کے لیے 1403ء میں سید خضر خان نے قلعہ تعمیر کرایا تھا جسے بعد میں سلطان حسین لنگاہ نے 1470ء میں فتح کیا تھا۔ یہ قلعہ سلطان لنگاہ کے نام کی نسبت سے کوٹ سلطان کہلایا۔ جس کا ثبوت لنگاہ والا پتن ( گھاٹ ) جو کہ مغربی دائرہ دین پناہ کے شمال اور کوٹ سلطان کے بالمقابل واقع ہے۔ قلعہ کے اردگرد فصیل پر ہر وقت چوکی دار پہرہ دیتے قلعہ کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ بدر پہلوان کا موجودہ گھر قلعہ دار کا گھر تھا۔ بعض بزرگوں کے بقول حضرت شاہ سلطان سے عقیدت کی وجہ سے کوٹ سلطان نام پڑا اور بعض کے مطابق سلطان خان میرانی کی وجہ سے مشہور ہوا جو کہ تاریخی حوالہ نہ ہے۔ قلعہ کوٹ سلطان کے تین بڑے دروازے تھے ایک دروازے کا نام ملتانی دروازہ (جو کہ شہر کے جنوب کی طرف واقع تھا) دوسرے دروازے کا نام دیپالی دروازہ تھا جو کہ شمال کی طرف واقع تھا جبکہ مرکزی دروازہ جو کہ شہر کے مشرق میں واقع تھا خضری در واوزہ کے نام سے مشہور تھا۔ جسے بعد میں شیر شاہ سوری کے دور میں سوری دروازہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کم و بیش ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل اس قدیم شہر کے مغرب میں عظیم دریائے سندھ ( انڈس) جو کہ اپنی خاموش طوفانی لہروں میں مشہور ہے بہ رہا ہے۔ سندھ کا یہ عمل لوگوں کے لیے سوہان روح ہے۔ ہمیں دریا کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دریا کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ہزاروں ایکڑ اراضی نیجر ہے ہیں اور ہم بوند بوند کو ترستے ہیں یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ سندھ کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا تحمل دمان اس کے باس اتنے پیاسے ہیں کہ ان کے اتھرو آنکھوں سے نکلتے ہی اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ دریائے سندھ سے پرے کوہ سلیمان کا سلسلہ افق میں دھند لے بادلوں کی طرح نظر آتا ہے۔ مشرق میں وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھل بادلوں کی آس لیے کب سے تشنہ سورہا ہے۔ عرصہ دراز سے اس صحراء کے سبڑا اک تھلوی اپنے چہرے پہ پیلاہٹیں بجائے میلے بالوں کی لٹیں اپنے دامن پر پھیلائے پیاس بھوک اور مفلسی سے لڑتے آرہے ہیں۔ کوٹ سلطان کے مشرقی مضافاتی علاقے پیر جنگی کو 1664ء میں مہاب بن ابی سفیرہ نے فتح کیا۔ اس کے چند ساتھیوں نے یہاں وفات پائی جن کی قبروں کو پیر اصحاب کی قبروں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کوٹ سلطان کے شمال میں قصبہ جمن شاہ ہے۔ سید جمن شاہ بخاری جو کہ بخارا سے تبلیغ اسلام کے لیے تشریف لائے ، جمن شاہ انہی کے نام سے موسوم ہے۔ جنوب میں پہاڑ پور کے نام سے قصبہ موجود ہے جس کی پہاڑ نامی شخص نے بنیاد رکھی بعد میں پہاڑ خان نامی شخص کے نام پر اس قصبہ کا نام پہاڑ پور مشہور ہوا۔ 1929ء کے گزیٹر کے مطابق دریائے سندھ سے کوٹ سلطان اور مگسن نہریں نکالی گئی تھیں۔ جن میں سے چھ مزید چوٹی چھوٹی نہریں نکالی گئی تھیں ان میں کشن واہ اور طلبہ زیادہ مشہور ہیں۔ لیکن ان کے باوجود بھی تھل کی بیشتر اراضی بنجر ہے۔ کوٹ سلطان کے لوگوں کی زبان اور تہذیب و ثقافت خالص سرائیکی ہے۔ شہر میں پورے دسیب کی ثقافت کے لحاظ سے دو قسم کے لوگ بستے ہیں۔
ا۔
تھلو چڑ
۲۔
بیٹوری
شہر میں سے گزرتی جرنیلی سڑک جی ٹی روڈ پر سے کتنے جرار شکر گزرے جن کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی
بازگشت اب بھی بوڑھے کانوں کو سنائی دیتی ہے۔ تاریخ کی بوڑھی آنکھوں نے اس شاہراہ سے کتنے ان گنت کارواں گزرتے دیکھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام کی برگزیدہ ہستیاں ادھر سے گزریں۔ کچھ تو یہیں پیوند خاک ہوئیں۔ حضرت شاہ سلطان، حضرت شیخ قل احمد، حضرت حیدر شاہ حضرت لعل شاہ ، حضرت عنایت ولایت شاه حضرت تیونه شریف ، اور شیخ قل احمد جو کہ چوتھی صدی عیسوی میں تشریف لائے۔ ان کا کئی صدیوں کو محیط قدیم قبرستان ہنستی کھجیاں شرف دین اور اس میں موجود مسجد جو کہ تقریبا 200 سال قدیم ہے، کوٹ سلطان کی قدامت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ شہر کی قدامت کے تاریخی حوالہ کے لیے دھرم شالہ میں لگی درگا دیوی اور بابا گرو نانک کی تصاویر ہیں۔ سادھ بیلہ کے بارے میں خداداد خان لکھتے ہیں۔ 1544ء میں ہمایوں بادشاہ نے مرزا کامران کی آنکھیں نکلوا کر اسے نابینہ کر دیا تھا۔ مرزا شاہ حسن نے اس کی رہائش کا انتظام سادھ بیلہ میں کیا جو کہ سادھ بیلہ” کے نام سے مشہور ہے۔ اور سادھ بیلہ وہ جگہ جہاں پورے ہندوستان سے ہندومت کے پر چار کے لیے ان کی مذہبی شخصیات یہاں جمع ہوتیں۔ سادھ پہلے کی عمارت آج بھی کوٹ سلطان میں موجود ہے۔ جس پر 1656ء کی تاریخ رقم ہے۔ سادھ پیلے“ کے علاوہ شمشان بھومی کوس مینارہ “ جو کہ دربار حیدر شاہ کے نزد یک موجود تھا۔ آج کل اس کے آثار نہیں ہیں۔ 1550ء میں شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کروایا تھا۔ 1916ء کے گزیٹر اور تاریخ لیہ از نور محمد تھند کے مطابق سندھ کے کلہوڑا اور مبارک خان داؤد پوتر ا کے درمیان دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی ، میاں نورمحمد نے داؤد پوتروں کو شکار پور سے نکال دیا تو وہ لیہ کے حکمران کمال خان میرانی کے پاس چلے آئے ۔ اس نے داؤد پوتروں کو بیٹ دہلی کا علاقہ بطور جاگیر دے دیا ہوگا۔ یہ علاقہ نہ صرف بہترین چراگاہ تھی بلکہ ہرن، پاڑا، جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بہترین شکار گاہ تھی۔ 1884ء کے لگ بھگ قاضی محمد علی نے مدرسہ سلیمانیہ کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں فقیر عبداللہ سائیں جس کے مدرس و اتم رہے۔ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کوٹ سلطان، نہری بنگلہ تھانہ کوٹ سلطان، ریلوے اسٹیشن ہراں حضرت سلیمان تونسوی کوٹ سلطان کی قدیم خوبصورت عمارات ہیں۔ کوٹ سلطان سے ملنے والی زمانہ قدیم کی مٹی کی بنی ہوئی مورتیاں اور ظروف، سکے اور شہنشاہ ایران کی انگوٹھی جس پر 1352ء کندہ ہے لی ہے بھی اس علاقے کی قدامت کا تاریخی حوالہ ہیں۔ اگر محکمہ آثار قدیمہ کوٹ سلطان ایسے قدیم شہر پر تحقیق کرے تو اسے بہت ہی پرانی تہذیب کے باقیات مل سکتے ہیں۔
کوٹ سلطان میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔ اس میں سید ، کھوکھر، قریشی، کھرل ، جوئیہ، درک ہو، جٹ رڈ، وٹو، بھٹہ تنگوانی ، رند، مہار، (مہر)، قاضی ( چانڈیہ )، سرگانی ہو جیہ، اچلانہ دستی، ماچھی، کھرانی، گرمانی، جھیل ، ڈلو، آرائیں، ونجھیر ، منجھوٹھہ ، جھورڑ ، بھاو، پنوار ، زور ، اعوان، گرداں ، کمہار، لوہار پھٹی ، واندر، شیخ ، صدیقی ، گاذرشامل ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی قومیں کوٹ سلطان میں آباد ہیں۔ پلواں قوم کا شمار اس علاقے کی قدیم زمیندار قوموں میں ہوتا تھا۔ کوٹ سلطان کی زیادہ تر اراضی انہی لوگوں کے پاس تھی مگر اب یہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 1929ء کے گزیٹر کے مطابق عبداللہ خان تنگوانی کوٹ سلطان اور سید جند وڈا اشاہ بیٹ دیلی
بکھرا کے ذیلدار رہے ہیں۔ جندو ڈ اشاہ 6 رکنی پنچایتی کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔کیف شکوری مرحوم، ایس ایس پی شوکت ہاشمی (مرحوم) ، رئیس قمر ( مرحوم ) ، سیده فرح بخاری ، رخسانہ غزل ، موسیٰ کلیم ، طاہر مسعود مهار، حبیب مظہر، قاضی راشد محمود، شعیب علی شاہ ، وقار بخاری، اقبال نیم صحرائی ، عطاء محمد عطاء، ملازم حسین سہو، اصغر جام، بشیر خلص، جام ناظر، قادر گورمانی منظور ضارف ، راغب زور، ندیم سوہیہ، سانول گورمانی اور جام جعفر کا شمار وسیب کے نامور شعراء وادباء میں ہوتا ہے۔
طاہر مسعود مہار کی غیر مطبوعہ کتب میں سویر اس وادی سندھ کی تاریخ ” زلال“ اور ”مالکوس اردو شعری مجموعے سنجوگ سرائیکی شعری مجموعہ ” ساربان اور بات نگر اردو ٹیلی ڈرامے مونجھ ، سرائیکی ریڈیائی ڈرامے مستشرکین اور سرائیکی زبان (ایم فل مقالہ) سرائیکی، پنجابی، اردو ؛ لسانی وادبی اشتراکات ( پی ایچ ڈی
مقالہ ) سرائیکی اصناف سخن شامل ہیں۔ موسی کلیم غیر مطبوعہ سرائیکی شعری مجموعے ” جھوکاں جندرے وات‘ اور سمجھ صباحیں ولنا تاں ہے، قاضی راشد کا شعری مجموعہ ابھی صبح سفر ہے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے شخصی خاکوں کا مجموعہ افسانوں جیسے لوگ زیر طبع ہے۔ عطامحمد عطا کا تحقیقی مقالہ برائے ایم فل ‘ڈاکٹر مہر عبدالحق : بابائے سرائیکی شائع ہو چکا ہے۔ نغمه کیف کیف شکوری کی غیر مطبوعہ غزلیات کا مجموعہ ہے۔ حال دھمال ، بھیدوں بھری ازان فیضان رحمت” کے خالق ایس ایس پی شوکت ہاشمی مرحوم ہیں۔ ” ہجر مقدس” ہے ” کاغذ کی تعلی” رئیس قمر کا مطبوعہ کلام ہے۔ جبکہ دست دعا پہ دل غیر مطبوعہ مجموعہ ہے۔ سہ ماہی ”غزل“ طاہر مسعود مہار کی ادارت میں شائع ہوتارہا ہے۔ عابد حسین فاروقی نے کوٹ سلطان میں صحافت کا آغاز کیا۔ تعمیر ادب عبداللہ نظامی کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی اخبار ہے۔ علاوہ ازیں تھل گزٹ بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ ماضی کی وہ نامور شخصیات جن کا مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق تھا۔ ان میں قاضی احمد بخش کھوکھر ، خدا بخش خان تنگوانی محمد بخش خان تنگوانی ، فیض محمد خان منگوانی ، حکیم صوفی غلام نبی با روی، مفتی افتخار الدین حیدر، مفتی ضیاء الدین حیدر، قاضی عبد الکریم ، خدا بخش خان دستی، استاد مہر اللہ وسایا مبار، جام محمد ظفر اللہ ہاروی، قاضی عبدالرحیم ، مولوی اللہ بخش مهار ، سید ذوالفقار علی شاہ ، استاد جام غلام حسین (کوڑے والا ) ، خالد محمود بزمی (ایڈووکیٹ ) ، ڈاکٹر شاہد منصور، چودھری ناظر حسین اور جام غلام محمد نمایاں ہیں۔ موجودہ دور کی سماجی و علمی شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے مگر چند لوگوں کے اسمائے گرامی مہر غلام حسین باروی، پروفیسر ملک بہادر ڈلو، پر وفیسر مسرت لعل بخاری، رؤف کلاسره، محمد افضل طارق ، ملک رفیق احمد سجن خان تنگوانی ، در یزدانی تنگوانی سعید اللہ سرگانی ، ڈاکٹر عبد الغفور جام ، ڈاکٹر سعید احمد باروی ، استاد غلام حسن منجوٹھہ ، قاسم خان تنگوانی ، ڈاکٹر اقبال دستی، نعیم علی شاہ ایڈووکیٹ ، میجر مظہر زور محمد علی خان (ڈپٹی کلکٹر ) ، ڈاکٹر کوثر زور، میجر مظہر زور، میجر محمد علی فاروقی ، میجر اشفاق زبیری، میجر شہزاد گورمانی، میجر فہیم شاہ ، ملک طارق نوید منجوٹھہ اور ڈاکٹر احمد رضا مہار نمایاں ہیں۔ 1874ء میں کوٹ سلطان کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ لیکن 1879ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ پھر
دوبارہ 1914ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1964ء میں وزیر زراعت مغربی پاکستان ملک قادر بخش جکھر نے یونین کونسل ہال کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر قیصر عباس رضوی لیہ نے یہ نظم پڑھی۔
کوٹ سلطان کی عظمت کا ملک کو ہے خیال
پوچھنے آیا ہے کس شوق سے اس کا احوال
ابتدا بال حال سے گو کی ہے مگر دھن ہے یہی
وہ ترقی ہواسے آپ ہی ہو اپنی مثال
کوٹ سلطان کے سیاست پر جکھر، جنگوانی، سید اور اچلانہ خاندانوں کا اثر ورسوخ رہا ہے۔ مگر تنگوانی خاندان کا انگریز دور میں کوٹ سلطان میں اثر ورسوخ رہا ہے۔ انگریز دور میں عبداللہ خان تنگوانی ، حامد خان تنگوانی،خدا بخش تنگوانی ذیلدار رہے۔ خدا بخش منگوانی ضلع کونسل مظفر گڑھ کے چیئر مین بھی رہے ہیں۔ سجن خان تنگوانی ، در یزدانی المعروف جانی خان تنگوانی حسنین خان تنگوانی ضلع کونسل کی سیاست میں سرگرم عمل رہے۔ قاسم خان نگوائی ایڈووکیٹ جو کہ ڈسٹرکٹ باریہ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے، تنگوانی خاندان کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان سیاستدان ہیں جو اپنی ہر دلعزیزی مخلصانہ پن اور عوام دوستی کی بناء پر کوٹ سلطان کی ہر دل عزیز سیاسی شخصیت ہیں۔ ملک قادر بخش جکھرہ ، ملک نیاز احمد جکھڑ، ملک افتخار احمد جکھرہ کا شمار اپنے خاندان کی ممتاز سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ملک نیاز احمد جکھرہ اس علاقہ میں دو مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے اور عوام میں بطور سیاسی لیڈر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ پیر جنگی کے سادات میں سید خورشید احمد شاہ ایم۔ این۔ اے منتخب ہوئے اور انہوں نے خاطر خواہ ترقیاتی کام بھی کروائے۔ ان کے صاحبزادے سید تقلین شاہ بخاری بھی ایم این اے رہے۔ مہر اعجاز احمد اچلانہ کوکوٹ سلطان نہیں بلکہ ضلع لیہ کی سیاست کا اہم ستون شمار کیا جاتا ہے۔ مہر اعجاز احمد اچلانہ اور سجن خان تنگوانی علاقے کے مضبوط ترین سیاسی حریف تصور کیے جاتے ہیں۔ بلدیاتی سطح پر در یزدانی المعروف جانی خان تنگوانی دوبار ناظم اور ضلع کونسل منتخب ہوئے ۔ ڈاکٹر عبدالغفور جام ایک مرتبہ ناظم یونین کونسل کوٹ سلطان منتخب ہوئے ہیں جبکہ جام غلام محمد، غلام رسول سہو، جام ریاض احمد، ماسٹر سلطان احمد ، چیئر مین یونین کونسل کوٹ سلطان منتخب ہو چکے ہیں۔
جہاں تک میرے شہر کے مسائل کا تعلق ہے تو وہ ان گنت ہیں لیکن نہ نظر آنے والے مسائل کچھ یوں ہیں۔ میرے گاؤں کی شام ڈھلے برگد کے تلے بزرگوں کی چوپال کا منتظر یا پوہ پالے کی برفیلی شام میں کسی عزیز، رشتہ دار کی سہل (HUT) میں چولہے کے گرد آگ سیکھنے کا پر خلوص منظر نہیں آتا۔ موسم گرما کی قیمتی دھوپ میں بستی کے بیچ چھاؤں دار ٹاہلی کے نیچے پتھر، کانچ کی گولیاں یا نا ما جمال خان، جی بھٹر ینجا لال خان، پیلی او پیلی ٹیلو کھیلنے والے بچے اب موبائل پر مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ میرے گاؤں کی بچیاں جو بھی صبح سویر ے ” بی اماں” سے قرآن مقدس پڑھنے جارہی ہوتی تھیں۔ اب ڈش اور کیبل دیکھنے اور بناؤ سنگھار میں مصروف رہتی ہیں۔ میرے تھل کا آجڑی (Shepherd) جس کی بنسری کی آواز من کے تار ہلا دیتی تھی۔ اب وہ پاکستانی ثقیل سیاست کا شکار نظر آتا ہے۔ میرے وسیب کے لوگ جو اپنی مہار گفتگو اور مٹھی مالکھی جیسے شیریں جملوں مثلاً شمالا جھوکاں مانڑیں کچا پر وہ ہووی شالا بڈھڑا تھیویں ” شمالا جیویں سے ہر اجنبی کا دل موہ لیا کرتےتھے۔ اب ان کا لہجہ تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ علاقے کے لوگ بھاری اکثریت میں چھوٹے چھوٹے کا شکار ہیں۔ 1929ء کے گزیٹر کے مطابق زیادہ تر اراضی جانوں کے پاس ہے جن کی زبان سرائیکی ہے۔ جو کہ چند خود کفیل ہیں بیشتر اراضی ان لوگوں کے پاس ہے جو دیہاتی نہیں ہیں۔ رسم غلامی اور جاگیر داریت کا تعفن جو استحصالی طبقے کی رگ رگ میں پھیل رہا تھا۔ اب علم کی وجہ سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے لیکن سرمایہ دار، جاگیردار طبقہ اس احساس بیداری سے نالاں نظر آتا ہے۔ کوٹ سلطان لہسن، ہری مرچ، تربوز، خربوزہ اور بان کی بڑی تجارتی منڈی ہے۔ کھجور کے پتوں سےتیار کر وہ ہاتھ کے پنکھے ، چٹائیاں، چھا بیاں، بان اور مونج کا بان کوٹ سلطان کی مشہور مصنوعات ہیں۔ لوک تہواروں میں میلہ بیساکھی جو کہ بارہ تیرہ اپریل کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ جس میں پنجاب بھر کے مشہور پہلوان شرکت کرتے ہیں۔ اس میلے میں بیل دوڑ ، گھڑ دوڑ ، نیزہ بازی ، کبڈی ، دودہ ، اونٹ دوڑ ، ریچھ کتے کی لڑائی، موسیقی موت کا کنواں اور چڑیا گھر جیسے ایٹم شامل ہوتے ہیں۔ جام غلام حسن، بدر پہلوان ، امام بخش مہار، جام عبدالرحمن ، خدا بخش ڈلو ، اکرم ڈلو ، رستم لیہ معراج ڈلوکوٹ سلطان کے مشہور پہلوان ہیں۔ جبکہ اقبال ڈلو، ریاض کھرل اور فیاض کھرل کا شمار پنجاب کے بہترین کبڈی کے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ مرزا محبوب بیگ، سید زاہد علی ( مرحوم ) شیخ قمردین بچے کے مشہور کھلاڑی تھے۔ جبکہ ماسٹر غلام حسن منجولصه ، ماسٹر طفیل لاہوری ، خالد محمود بزمی ، ملک عصمت اللہ منجوٹھہ ، حفیظ اللہ ملکو، جام عمر حیات، الفت عباس بھٹی، رشید بھٹی، قاضی سہیل احمد والی بال کے بہترین کھلاڑی رہے ہیں۔ اور کرکٹ میں میاں عمران مجید، اکرم بلوچ ، عرفان مجید مهر عقیل باروی ، امیر حسین شاہ، طاہر مسعود مهار، طاہر نقاش مفتی ، سید واحد علی شاہ، جام سعید، جام بابر، آصف چشتی اور جام عامر نےکا رہائے نمایاں سر انجام دیے۔ اسی طرح بیڈ منٹن میں خاقان حیدر گورمانی، زبیر قریشی ، کامران صد بلوچ ، عظمت اللہ نجوٹھہ ، طاہر مہار، قاسم خان تنگوانی ، عمر فاروق منجوشخصه ، زاہد خان دستی، قاضی سهیل احمد ، چودھری محمد خالق ، میاں یوسف محبوب، عاطف نعیم نے خوب نام کمایا۔ ہاکی کے بہترین کھلاڑیوں میں پروفیسر جمیل باروی اور چودھری سہیل احمد نمایاں ہیں۔ فن موسیقی میں کوٹ سلطان کے استاد منظور علی خان جنہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں ، استاد مہدی حسن ، استاد جمن خان کے ساتھ فن کا مظاہرہ کیا اور ریڈیو پاکستان کے فرسٹ کلاس فنکار قرار پائے ۔ فرید مشکوری نے بھی سرائیکی گلوکاری میں بڑا نام کمایا۔ شفیع کھیرانی اور حافظ اجمل کھرل کا سرائیکی گیتوں کا ایک ایک والیم مارکیٹ میں آچکا ہے۔ فن خطاطی اور فن مصوری میں مسز سحرش شعیب شاہ ایک ابھرتا ہوا نام ہے۔ جنہوں نے فائن آرٹس میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ عائشہ بخت مہار نے فن مصوری میں نمایاں کام کیا ہے۔ کیلی گرافی میں ڈاکٹر احمد رضا مہار نے خاصا کام کیا ہے۔ سید ذوالفقار علی شاہ (مرحوم) بڑے پائے کے مصور اور خطاط رہے ہیں۔ محمد شفیع کھرل (المعروف کنول الخطاط ) ، فاروق مهار، وقار حسین بخاری ، منظور دستی، جمیل کہو اور ارشاد پل قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹراحمد رضا مہار نے کیلی گرافی کے بہت اعلی فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ڈھول والی پلی جسے 1884ء میں تعمیر کیا گیا تھا، ساحل دریائے سندھ بکھری احمد خان بیٹ کجی اور حفاظتی بند کوٹ سلطان جس کے بارے میں مشہور محاورہ ہے ۔ مفت خورے حضرات بند کی سیر کریں مشہورسیر گاہیں ہیں۔ کوٹ سلطان کے لوگ انتہائی ملنسار اور زندہ دل ہیں۔ اعلی درجے کے مہمان نواز ہیں۔ مذہبی لگاؤ رکھنے والے وسیع القلب لوگ ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو انتہائی پر تپاک طریقے سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ خوشی کے موقعوں سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہو کر محفل کو دو بالا کر دیتے ہیں۔ غمی و مرگ کے مواقع پر بہترین معاون و غمگسار ہوتے ہیں ۔ خوش خوراک و خوش پوشاک ہیں۔ علم سے محبت کرنے والے ہیں۔ اور کھلے گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں شرح خواندگی کے لحاظ سے کوٹ سلطان پاکستان کے کسی بھی علاقے سے کم نہیں۔ کوئی گھر ایسا نھیں جہاں مرد و خواتین زیور تعلیم سےآراستہ نہ ہوں۔میرے خیال میں مجھے نہ تو کوئی ماضی سے عشق ہے اور نہ ہی ماضی سے دور رہنا ہے۔ کیونکہ کسی مورخ نے کہا ہے کہ مورخ کے سامنے پھیلائے ہوئے ماضی کا نظارہ حال کے مسائل میں اتر جانے والی بصیرت سے منور – ہو جائے۔ میرے شہر کی ڈھلتی شام نہایت خوبصورت انداز سے اپنا نظارہ پیش کرتی ہے۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے