لیہ

لیہ کے جل تھل میں شہزادہ نائف کا دربار

ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

لیہ کا جل تھل مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہا۔ میں یہاں قریباً ایک سال بطور اسٹنٹ کمشنر تعینات رہا۔ میں 1979ء کے آخر میں شجاع آباد سے تبدیل ہو کر یہاں آیا تھا۔ اس لحاظ سے بطور اے سی میری یہ دوسری تعیناتی تھی۔ میں 1981ء کے شروع میں یہاں سے تبدیل ہو کر لاہور سول سیکرٹریٹ میں تعینات ہوا۔یہ کے تھل کی خوشبو، چوک اعظم کے سرسبز و شاداب اشجار چو بارہ کا وسیع و عریض صحرا کروڑ لعل عیسن کا پر نور مزار لیہ میں دور دراز کھیتوں میں چرند و پرند ادھر بھی تیتر ادھر بھی تیتر ۔۔۔ یہ سب نظارے اب بھی میری آنکھوں میں جھلملا رہے ہیں۔لیہ میں تعیناتی کے دوران بعض عظیم ہستیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ چوبارہ سے چند کلو میٹر دور نواں کوٹ میں سعودی عرب کے وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز شکار کے سلسلے میں دسمبر 1979ء اور 1980ء میں تشریف لائے ۔ ان کے ہمراہ قریباً 250 سعودی مہمانوں کا قافلہ تھا۔ “ کور کا شکار کھیلنے کے لئے آپ یہاں تشریف لائے تھے ۔ ان کے ہمراہ شہزادہ مسعود بن عبد العزیز بھی تھے ۔ ان دنوں وہ کسی امریکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔ چوبارہ میں ان سعودی مہمانوں کی وجہ سے پورا صحرا دلہن بنا ہوا تھا۔ سرشام جنریٹر چلنا شروع ہو جاتے ۔ سیٹیلائٹ کے ذریعہ ان کا رابطه صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور سعودی حکومت سے ہر وقت رہتا ۔ وسیع و عریض دستر خوان جگمگاتے ہوئے برقی قمقمے، قیمتی قالین، خوبصورت خیمے، بڑے خیمے کے پیچھے بجےہوئے باز جن کی آنکھوں پر چڑے کے کیس بندھے ہوئے تھے اور وہ خوبصورت سٹینڈ ز پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ بعض پرندے تو اتنے قیمتی تھے کہ ان کی مالیت 4 لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ اس لحاظ سے یہ باز کروڑوں روپے کی مالیت کے تھے ۔ ایک شام کمشنر ملتان لیفٹیننٹ کرنل نثار احمد خان اپنے بیٹے فیصل کے ہمراہ وہاں سعودی وزیر داخلہ سے ملنے آئے ۔ دربار میں جو وسیع و عریض خیموں پر مشتمل تھا’ بیٹے نے کمشنر صاحب سے پوچھا۔ ابوا یہ پرندے کون سے ہیں؟ میرے منہ سے باز کا عربی لفظ ثغر نکل گیا۔ سعودی وزیر داخلہ چونک اٹھے اور آپ نے پوچھا یہ شخص کون ہے جس نے لفظ ثغر استعمال کیا ہے۔ میں عربی زبان میں مخاطب ہوا کہ میں شہر لیہ کا قاضی ہوں اسٹنٹ کمشنر کا متبادل لفظ عربی زبان میں نہیں مل سکا لہذا قاضی ہی استعمال کیا ۔ وزیر صاحب بہت خوش ہوئے اور عربی میں ہی پوچھا کہ تم نے عربی زبان کہاں سے سیکھی میں نے عرض کیا گورنمنٹ کالج لاہور سے۔ میں نے اجازت طلب کی اور جاہلی شاعری ( قبل از اسلام کی شاعری ) میں سے حماسہ ابو تمام کے اشعار سنائے ۔ تمام مہمان لطف اندوز ہوئے ۔ اس شام 12 ربیع الاول کامبارک دن تھا۔اکثر ہم شاہی مہانوں کے ساتھ ہی خیمے میں کھانا کھاتے ۔ دستر خوان پر انتہائی عمدہ سعودی کھانے سجے ہوتے مکمل بکرے بھی کر کے دستر خوان پر رکھے جاتے ۔ ہمارے ہمراہ شہزادہ سعود بن عبدالعزیز تھے ۔ وہ بڑے خیمے سے ننگے پاؤں ہی کھانے والے خیمے میں آئے اور کہنے لگے ہمارے ٹیلوں کی خنکی دل کو بھاتی ہے۔ میں نے لیہ کے بارے میں تاثرات پوچھے تو کہنے لگے کہ یہاں کا پانی بہت عمدہ ہے اور شیریں بھی ۔ زمین سرسبز ہے اور درخت بہت خوبصورت اورگھنے ہیں۔
ایک شب مترجم نے بتایا کہ آج وزیر داخلہ سخت پریشان ہیں کیونکہ ان کا ایک انتہائی قیمتی باز اُڑ گیا ہے۔ باز اور تلور کی لڑائی ہوتی ہے۔ بازتکور کو قابو کر لیتا ہے اور اس طرح یہ پُر لطف جنگ شاہی مہمان دیکھتے اور شکار شدہ تلوروں کو منجمد کر کے ساتھ لے جاتے ۔ ہم نے مترجم کے ذریعے اس باز کی عادات پوچھیں تو پتہ چلا کہ وہ اونچی جگہ پر بیٹھتا ہے ۔ پٹواریوں اور گرد اور صاحبان سے کہا کہ باز کو تلاش کرو ۔ اگلے دن ایک پٹواری بھاگتا آیا کہ جناب باز مل گیا ہے ۔ وہ ایک ٹریکٹر پر بیٹھا تھا اور اسے ماہرانہ طریقے سے پکڑ لیا گیا ہے۔ یہ باز بھی قریباً 4 لاکھ کی مالیت کا تھا۔چنانچہ شاہی دربار میں باز کو پیش کر دیا گیا ۔ انتظامیہ کے اہلکار بعض دفعہ ناممکن کاموں کو بھی اپنی محنت ، عقل سے ممکن بنا دیتے ہیں۔ اکثر میری جیپ کو چوک اعظم چوکی والے پولیس اہل کار روک لیتے اور کہتے جناب اسلام آباد کے سفارت خانے اور وزارت خارجہ اسلام آباد سے شاہی مہمانوں کے لئے ایک پیغام بذریعہ سعودی ٹیلی فون وصول ہوا۔ جناب اس پیغام کو وصول فرما کر وزیر صاحب تک پہنچادیں۔ جب ہم وہاں چوبارہ پہنچتے تو مترجم کے ذریعے پیغام بھجواتے ۔ پتہ چلتا کہ یہ پیغام سیٹیلائٹ کے ذریعے بڑی دیر کا براہ راست شاہی مہمانوں تک پہنچ چکا ہے۔ ہم دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے کہ اس جدید دور میں بھی ہم کس قدر پسماندہ ہیں۔ قریبا 2 ہفتوں کے بعد جب شاہی مہمان الوداع ہونے لگے تو میں نے ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ خان محمود الزمان خان (مرحوم) کی اجازت سے عربی میں الوداعی خطبہ سعودی وزیر داخلہ اور دیگر سعودی زعماء کو سنایا ۔ آخری جملہ یہ تھا کہ خدا کرے ہم دوبارہ اس جل تھل میں اس طرح اکٹھے ہوں۔ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز بہت خوش ہوئے اور تین دفعہ انہوں نے فرمایا: شکر 1 شگر اشکراانہوں نے شکریہ ادا کیا اور مجھے اور میرے سٹاف کو انتہائی قیمتی گھڑیاں بھی تحفہ میں دے گئے ۔ قافلہ کو الوداع کرنے کے بعد میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے گفتگو کی اور عرض کیا کہ جناب خطبہ کیسا رہا۔ کہنے لگے تم نے خطبے میں میرا نام تو عزت سے لیا تھا یعنی دو دفعہ خان کا لفظ استعمال کیا ( خان محمود الزمان خان ) لیکن تم نے لفظ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ کی جگہ محافظ مظفر گڑھ استعمال کیا۔ محافظ تو سپاہی کو بھی کہتے ہیں ۔ تم نے یہ لفظ استعمال کر کے تمام مزہ کرکرا کر دیا ۔ پھر ڈپٹی کمشنر صاحب برس پڑے اور فرمانے لگے کیا تم نے اخباروں میں عدالتی اشتہارات نہیں دیکھے لکھا ہوتا ہے دستخط حاکم میں نے عرض کیا کہ حاکم تو گورنر ہوتا ہے آپ گورنر تو نہیں ہیں ۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ کویت میں ڈپٹی کمشنر سے ملتا جلتا ایک ادارہ ہوتا ہے جسے محافظہ کہا جاتا ہے ۔ آپ کے عہدے کو وزیر داخلہ سمجھ گئے ہوں گے اس طرح اپنے بزرگ ڈپٹی کمشنر کو بڑی مشکل سےراضی کیا۔ ان دنوں میرے ساتھی ایک معمر ڈی ایس پی پر بھی عربی زبان کا خاصا اثر ہو گیا ایک دفعہ میں ایک خیمے میں داخل ہوا تو موصوف بڑی روانی سے اپنے اہلکاروں سے عربی بول رہے تھے۔میں بہت خوش بھی ہوا اور متاثر بھی کہ ڈپٹی صاحب پولیس آفیسر ہو کر بھی خاصے اہلِ علم ہیں بلکہ مجھ سے بھی زیادہ عربی زبان میں رواں ہیں۔ میں سنتا رہا اور دل ہی دل میں کہتا رہا کہ سبحان اللہ ! چو بارہ کا یہ جل تھل اور ڈپٹی صاحب کی رواں عربی میں گفتگو ! ماحول کا کیا ز بر دست اثر ہوتا ہے۔ جب وہ عربی بول بول کر تھک گئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ ڈپٹی صاحب آپ کے بارے میں تو آج انکشاف ہوا کہ آپ عربی بڑی روانی سے بول لیتے ہیں ۔ گو میں آپ کی عربی سمجھ تو نہیں سکا بھلا بتا ئیں کہ آپ نے یہ عربی کہاں سے سیکھی ۔ فرمانے لگے کہ قبلہ والد صاحب کافی عرصہ عراق میں رہے ہیں اور میں بھی وہاں ان کے زیر سایہ رہا، وہاں سے میں نے عربی سیکھی۔ ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ میں عربی میں اپنے اہلکاروں کو گالیاں دے رہا تھا۔ میں نے اُف الامان کہہ کر کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔
اُس دوران پاکستان کے مشہور شکاری جهو ر علی خان بھی تشریف لائے اور شاہی مہمانوں سے ملے۔ چیتے اور شیر کے شکار کے قصے سناتے رہے کہ کس طرح انہوں نے بنگلہ دیش میں ان خونخوار جانوروں کا شکار کیا۔ شاری مہمانوں سے ہم کافی متاثر بھی ہوئے ۔ جب مغرب یا عشاء کا وقت ہوتا تو ہم سب با جماعت نماز پڑھتے ، جب کھانے کا وقت ہوتا تو ان کے ہمراہ قالینوں پر بیٹھ کر کھانے کے خیموں میں کھانا کھاتے ۔ مساوات کا ایک اعلیٰ نمونہ دیکھا جو ہمیشہ یادر ہے گا ۔

 

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com