سرور کربلائی نے کہا تھا کہ:
دریا وانگ سفر وچ راہندوں اپنی آپ نظر وچ راہندوں دریا کی تعریف بھی یہی ہے کہ یہ بہت سارے پانی کے ہمراہ سفر میں رہتا ہے اور پھر اپنے آپ کو اپنے محبوب ہسمندر کے سپر د کر دیتا ہے۔ یہی اسکی زندگی ہے اور یہی اسکا کھیل ہے۔
دریا دو علاقوں کے درمیان سرحد کا کام بھی کرتا رہا ہے اور اور دو علاقوں کے درمیان معاشی راستے کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اور دو دلوں کے ملاپ کا سبب بھی بنتا رہا ہے۔ جب لوگ سفر کرنے پر آتے ہیں تو کشتی کے علاوہ، سندھاری اور گھڑنے پر بھی ٹھل ( روانہ ) پڑتے تھے۔ اور جب لوگ سائنسی دور میں داخل ہوئے تو بادبانی کشتیوں سے لیکر، بڑے بڑے جہاز تک بنا لیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دریائی سفر کی اہمیت کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔دریائی زندگی کی اپنی اصطلاحات (Terminalogy) ہے۔ ایسی جگہ جہاں بندہ کھڑا ہو سکے اور پانی بھی اُس کے منہ میں نہ جائے ایسے پانی کو ، ہاتھ ، کہتے ہیں جبکہ وہ جگہ جہاں کھڑا ہونے سے پانی منہ میں جائے یا، سر کے اوپر سے گذرے، ایسی جگہ کو، تار، کہتے ہیں۔ راقم نے اپنی ایک نظم میں کہا کہ: ” آپ کوں مٹاونے ۔۔ کہیں گوں کیا ڈ ساونے ۔۔۔ تار دا یا ہاتھ وا۔ اسی طرح دریا میں انتہائی گہری جگہ کو پتال کہتے ہیں۔ دریا کی وہ جگہ جہاں کشتیاں کنارے آلگتی ہیں، پتن کہلاتا ہے۔ اسے ہم کشتیوں کا اڈہ یا اسٹیشن بھی لے سکتے ہیں۔ یہ جگہ پہنی سے مختلف ہوتی ہے۔ لوگ پتنی کو چھوٹا پین سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پتنی وہ جگہ ہوتی ہے جو دریا کے درمیان میں تو ہوتی ہے مگر یہاں پانی کی گہرائی اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ لوگ کشتی سے اتر کر پیدل چل پڑتے ہیں۔ یوں دریائی زندگی میں چین اور پانی کا تصور آج بھی موجود ہے کہ لوگ اب بھی ان جگہوں کواستعمال کرتے رہتے ہیں۔ زمینی زندگی نے اپنے جوڑوں کے طفیل محو سفر ہے۔ نر مادہ کے جوڑے، زندگی کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ دریائی زندگی میں دریا اور کشتی کا زمادہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ جب کشتی کو دریا میں دریا میں اُتارتے ہیں تو اسکی دریا سے شادی کی جاتی ہے۔ باراتی بہلائے جاتے ہیں ٹھمر تاڑی ، ڈھول اور سہرے، سب اس شادی کی زینت بنتے ہیں۔ باقاعدہ ولیمہ کے طور پر کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیےشادی کا سفر لازم ہے۔ لیہ، دریائے سندھ کے کنارے صدیوں سے آباد ہے۔ یہ سندھ کی تہذیب کا ایک اہم شہر ہے۔ ایک طرف این منارہ سے ٹیکسلا جانے والے لوگ اس شہر سے گذرتے تھے تو دوسری طرف وسط ایشیائی ریاستوں کے تاجر یہاں کے دریائے راستوں کو استعمال کرتے تھے۔ دریائی راستہ دراصل پین“ کہلاتا ہے۔ دریائے سندھ لیہ میں تحصیل کروڑ کے قصبہ دین پور سے ضلع لیہ میں داخل ہوتا ہے۔ ضلع لیہ میں یہ دریا تقریبا 65 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ البتہ اس کی چوڑائی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک زمانے میں اس کی چوڑائی تقریباً 23 کلومیٹر بتائی جاتی ہے۔ لیکن اس کی موجودہ چوڑائی کو دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ یہ دریا کبھی اس قدر چوڑا بھی ہوا کرتا ہے۔ اب اس کی چوڑائی کہیں آٹھ سے دس کلو میٹر تک ہے تو کہیں یہ دریا کو کر دو کلومیٹر تک بھی آگیا ہے۔ ضلع لیہ کی حدود میں درجن بھر پاکن موجود ہیں جو یہاں کی دریائی زندگی کی گہما گہمی کا اظہار یہ ہیں ضلعی حکومت ان پانچوں کی نیلامی کرتی ہے۔ ٹھیکدار بھاری ٹھیکے ادا کرتے ہیں۔ اُن کی آمدن کا ذریعہ وہ کشتیاں ہیں۔ جو مسافروں اور اُن کے سامان کو آر پار لے جاتی ہیں۔ ہم نے ایک دوست خادم حسین کھو کھر کو ایک مرتبہ یہ کام سونپا کہ وہ لیہ کے بچوں کی بابت معلومات جمع کرے۔ انہوں نے لیہ کے کچھ پٹھوں کے بارے ایک مضمون بھی لکھا، جو سو جھل سویل کے شمارہ نمبر 10 میں، اگست 2013ء میں شائع ہوا۔ جولیہ کے ان دریائی راستوں کے بارے میں آپ کو اہم معلومات مہیا کرتا ہے۔ لیہ میں دین پور کے راستے داخل ہونے والا دریائے سندھ ، لیہ کے کم از کم درجن بھر پتوں سے گذرتاہے۔ لیہ کی شمالی سرحد کا پہلا چین، بخارے آلا پن ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا چتین، شینہہ والا کا متن ہے۔ بخارے آلا پین کے بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ شاید لیہ کا قدیم ترین پتن ہے۔ یہ کروڑ کے مغرب میں واقع ہے۔ اسے پار کریں تو بیٹ چنین واقع ہے۔ اس سے آگے انڈس ہائی وے موجود ہے جہاں سے مسافر ملک بھر کا سفر کر سکتے ہیں۔ یوں اگر آپ لیہ میں موجود ہیں تو آپ کو دریائے سندھ عبور کرنے کے لیے یا تو ڈیرہ اسماعیل خان کا پل عبور کرنا پڑتا ہے یا پھر تو نسہ بیراج کا پل۔ لیہ کا دوسرا معروف پتن، پتین سہو والا ( پین فتح خان) ہے۔ سیاب چک سمو والا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایک وقت میں یہ وادی سندھ کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ اسے لیہ کی ہندو برادری کی تجارتی منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس قصبہ نے بین الاقوامی شخصیات کو جنم دیا۔ اسے گوپی چند نارنگ کی جائے پیدائش بھی بتایا جاتا ہے۔ کے۔ ایل۔ گا ہا کا تعلق بھی اسے قصبے سے تھا۔ یہاں کی ہندو برادری، اُس وقت علاقہ کی امیر ترین برادری شمار ہوا کرتی تھی۔ لیہ میں قائم ، ہر جمیں رائے گابا کی سرائے یہاں کا بڑا کارو بار شمار ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس دور کے تقاضوں کے مطابق اس سرائے میں زندگی کی ہر سہولت موجود تھی۔ ہر جیس رائے گا ہا کے ملازم رات کے وقت ریلوے پھاٹک پر اس وقت پوچھی جایا کرتے تھے جب رات کے وقت ملتان یا گندیاں سے ریل گاڑی آیا کرتی تھی۔ یہ ملازم مسافروں کی رہائش کی پیش کش کیا کرتے تھے۔ ہر جھیں رائے گابا ( مالک سرائے ) کی طرف سے یہ پیشکش بھی ہوا کرتی تھی کہ اگر کسی ملازم کے پاس پیسے نہیں تو اسے بھی سرائے میں مفت رہائش اور مفت کھانا ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علاقے کا سب سے اہم اور سب سے بڑا تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔ سہو والا میں نیل اور نمک کی آڑھت بھی ہوا کرتی تھی۔ یہ دونوں چیزیں وسط ایشائی ریاستوں میں مہنگے داموں فروخت ہوا کرتی تھیں۔ یہ علاقہ چونکہ دریا سے زیادہ نزدیک تھا، لہذا یہاں کی زمین بھی بہت زیادہ زرخیز ہوا کرتی تھی۔ خیر یہاں کی زمین تو اب بھی زرخیز ہے۔ مگر دریا نے اس سہو والا کو ملا دیا ہے جو تجارت کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ البتہ موجودہ تاریخ کا ایک اہم ترین نام خورشید ملک ہے۔ آپ ریڈیو پاکستان میں ایک عرصہ تک اپنی خدمات دیتے رہے۔ محترم خورشید ملک صاحب ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ایک ملاقات میں محترم خورشید ملک صاحب ( سابق ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان) نے بتایا کہ اس قصبہ کا اصل نام سا ہو والا ہے، کیونکہ یہاں ہندو ساہوکاروں کی اکثریت ہوا کرتی تھی ۔ قدرت بھی اس قصبہ پر خاص مہربان رہی۔ یہاں کھجور اور آم کے باغات کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہوا کرتی تھی۔ اس قصبہ میں علاقے کے سب سے اہم اور بڑے میلے ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر عیدین کے مواقعے پر یہاں گھڑ سواری، نیزہ بازی گشتی اور دودا کے دنگل ہوا کرتے تھے۔ لوگ ان میلوں میں
اس قدر دلچسپی لیا کرتے تھے کہ وہ عید اپنے گھر کرنے کی بجائے یہاں کیا کرتے تھے۔ شام کو میلہ لگتا تھا اور لوگ خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ” سمو ” یہاں کی ایک قدیمی اور معزز قوم ہے۔ یہ لوگ معلوم تاریخ کے مطابق مسلمان ہیں۔ اور خوشحال لوگ ہیں۔ لہذا ایک یقین یہ بھی ہے کہ یہ قصبہ اس سہو قوم کی نسبت سے سہو والا ہو۔ سا ہو والا کا یہ تاریخی قصبہ 71-1970ء کے سیلابوں سے دریا بُرد ہو گیا۔ یہ قصبہ جب یہاں ختم ہوا تو اس سے تین اہم قصبوں نے جنم لیا۔ وہ قصبے ساہو والا جدید، رانا نگر اور سادات نگر ہیں۔ جی ہاں یہ وہی سادات نگر ہے جسے پروفیسر آغا حسین شاہ کے خاندان نے آباد کیا۔ یہ خاندان یہاں کا محسن و مربی خاندان ہے۔ پروفیسر آغا حسین شاہ کے خاندان نے دریا کے متاثرین بے گھر لوگوں کو کم از کم ایک مربع زمین مفت میں دان کی۔ اب لوگ
مفت میں ملی اس ایک مربع زمین پر آباد ہیں۔ سلام سید خاندان واقعی آپ کو یہی سب کچھ زیبا تھا۔ لیہ کا تیسرا اہم ترین پتن ، پاکن مور جھنگی ، ہے۔ اس سے منسلک اور بھی کئی چین ہیں۔ جو اس پتن کی شاخیں شمار ہوتی ہیں۔ پتن علیانی والا ، پتن کنجال آلا اور پتن چانڈیاں آلا۔ مور دریائے سندھ کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہی وہ قوم ہے جس نے آریاؤں سے مقابلہ کیا تھا۔ یہ زمیں زاد ہیں۔ جو یہاں کے قدیم مقامی باشندے ہیں۔ ان کی کھونپڑیاں عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوا کرتی ہیں۔ یہ دریاؤں کے بھی مور ہیں۔ اس علاقہ کو مور جھنگی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں چھوٹا سا جنگل ہوا کرتا تھا۔ چھوٹے جنگل کو سرائیکی میں جھنگی کہا جاتا ہے۔
چونکہ مور قوم یہاں آباد تھی، اسی نسبت سے یہ علاقہ اور متن مور محنتی کے نام سے مشہور ہے۔ کی پتن کنجال کے نزدیک ایک بستی ، وتی کنجال واقع ہے۔ دریائے سندھ کا یہ سارا علاقہ کچھی کا علاقہ کہلاتا ہے۔ کیونکہ یہ علاقہ دریا کی بغل (کچھ) میں واقع ہے۔ اس بستی نے لیہ کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت ، ڈاکٹر ملک جاوید اقبال کنجال کو جنم دیا۔ دھرتی کے اس غیور بیٹے نے اپنے دور کے ہر چیلنج کو قبول کیا۔ ہر للکار کا جواب دیا اور ہرمیدان میں کامیاب رہا۔ شہر کا یہ معالج ہر شخص کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے۔ دلوں پر راج کرتا ہے اور لوگو میں خوشیاں تقسیم کرتا ہے۔پتن کنجال کے جنوب میں ایک اور پتن، پتن میرانی واقع ہے۔ میرانی یہاں کے حکمران رہے ہیں۔ اس قوم سے سردار غلام فرید خان میرانی یہاں سے ایم این اے اور ایم پی اے بھی رہے ہیں۔ میرانی قوم یہاں کی ایک بڑی قوم ہے جو دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ تھل میں بھی آباد ہے۔ لیہ تونسہ پل بھی پتن میرانی کے قریب بن رہا ہے۔ اس پل کی تعمیر سے لیہ اور دامان کے فاصلے سمٹ جائیں گے۔ اور یہاں کی زندگی زیادہ خوشحال ہو جائے گی۔ اس قوم نے بہت سے نامور لوگ پیدا کیے ہیں۔ خالد خان میرانی کا شمار لیہ کےدانشوروں میں ہوتا ہے۔ خالد خان میرانی ہر تقریب اور ہر اچھے کام کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
چین بھیڈاں والا کا موجودہ نام، پتن جکھڑ والا ہے۔ یہ اس پتن کا جدید نام ہے مگر لوگ اب بھی اسے بیٹ بھیڈ انوالی کی نسبت سے پتن بھیڑ انوالا کہتے ہیں۔ بستی جکھر بھی اس کے قریب واقع ہے۔ یہ ملک نیاز احمد جکھڑ ایم این اے جکھڑ کا آبائی علاقہ ہے۔ یہاں سے ایک انسان دوست شخصیت ملک فضل حسین جکھرہ بھی ہو گذرے ہیں۔ ملک فضل حسین جکھر، لوگوں کے زیادہ قریب ہوا کرتے تھے۔ اُن کی دوستی عام انسانوں سے ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے وہ عام لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ لوگوں نے اُن سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کیا کہ اُس گھر کے ایک بیٹے ملک افتخار جکھر کو تحصیل کونسل لیہ کا چیر مین منتخب کیا۔ضلع لیہ کی تاریخ دریائے سندھ کے ساتھ سفر کرتی رہتی ہے۔ یہاں کے پتمن دریا کے دونوں کناروں پر آباد لوگوں کومل بیٹھنے کا موقعہ میسر کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو پار۔۔ اروار” کے لوگ کہتے ہیں۔ ان پنچوں کے علاوہ یہاں پتن گھالی آلا (لیکن کھو کھر آلا)، تین لانگا (یقین شاہ آلا) زیادہ مشہور ہیں۔ پان کھوکھر آلا اور چکن شاہ آلا کوہ سلیمان کے سامنے واقع ہیں۔ بلوچستان اور مشرق وسطی کے تجارتی قافلے کو سلیمان کے پہاڑی دروں کو عبور کرتے ہوئے لیہ کی حدود میں داخل ہوا کرتے تھے۔اب بھی ثقافتی زندگی، ان بچوں کے طفیل اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ شاعراب بھی پہن پر گیت لکھتے ہیں۔ پتن تے بیڑی، بیڑی اچ پک پھل رنا جھیا۔۔ میل کے دل نہ کھڑوں ، ای پا شمالا منگوں دُعا۔۔۔ لوگ اب بھی پہن پر دیرے لگا لیتے ہیں کہ محبوب نے یہیں سے گذرتا ہے۔ کسی کا دن پکن پر بیٹھے بیٹھے گذر جاتاہے اور پار سے کوئی کشتی بھی محبوب کو لے کر نہیں آتی۔ پان پر لوگوں کی دعائیں رنگ بھی لاتی ہیں اور امیدیں دم بھی توڑ دیتی ہیں۔ یہ یہاں کی زندگی کا ایک نویکلا رنگ ہے۔ پتن کے نزدیک اب بھی جھو کہیں آباد ہیں۔ لوگ شام کو ان جھوکوں پر مل بیٹھتے ہیں۔ برکت اُٹھ گئی ہے، اُن کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتا ہے۔ سیانے بتاتے ہیں کہ ماضی میں جب کوئی شخص ہل چلانے والے کو سلام کرتا تو کہتا، السلام علیکم، ہائی بل ودھے اور وہ جواب میں کہتا و علیکم السلام محمد من نمی بینم دادین در ھے۔ اسی طرح لوگ جہاں کاشت کرتے اس رقبے کے چاروں اطراف کلمہ طیبہ، سورۃ یسین، سورۃ فاتحہ، کسی قریبی درخت سے باندھ دیا کرتے تھے۔ کلام اللہ سے فصل میں برکت آجاتی تھی ۔ لوگ دو کنال سے بھی سال کی گندم جمع کر لیا کرتے تھے۔ لوگ اگر اب بھی اللہ سے رجوع کریں تو فرشتے اب بھی آسمان سے برکتیں لے کر اُتر سکتے ہیں۔ پتن کے ارد گرد کے لوگ مثلاً موہانے، مور، کیہل اور جھیل کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں کبھی کوئی اس طرف بھی دیکھے۔ یہاں پر آباد ایک زمانے کی ریاضتیں محنتیں اور ان تھک کاوشیں، کب رنگ لائیں گی۔ سیدہ سوال ہے جو پہن کے اردگر در بنے والا ہر بوڑھا، جوان اور بچہ پوچھتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ ایک دن ان کی بھی زندگی بدلے گے مگر اُس دن جب شرافت کی ریت چلے گی اور محبت رواج بنے گی۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے