لیہ

لیہ کی عظیم قدیم درس گاہ بھر اتری یا بھر ادھرمی

فقیر میاں امداد حسین لیکھی سرائی بلوچ

لیہ کی عظیم قدیم درس گاہ بھر اتری یا بھر ادھرمی

موجودہ گورنمنٹ ماڈل (ایم ہی) ہائی اسکول پر ایک طائرانہ نظر
نوع بشر میں صرف کر خونِ جگر

ورنہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور تو کچھ بھی نہیں

ہم اپنے لہو سے صحرا کو نکھتیں دیں گے

چمن میں بیٹھ کے کون بہاروں کا انتظار کرے

نام دنیا میں رہے فیض کے اسباب بنا

پل بنا، حوض بنا، مسجد و تالاب بنا

مشہور فارسی ضرب المثل ہے ہر کہ خدمت کردارو مخدوم شد ترجمہ:
” جس نے خدمت کی وہ سردار بنا“

بھراتری انجمن اسکول موجودہ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول میں نصب بورڈوں کے مطابق اسکول ہذا کا ماضی شاندار روایات کا متحمل رہا ہے۔ 1901ء میں فوڈ گرین کے موجودہ دفتر میں بھر اتری انجمن نے پرائمری اسکول کا اجراء کیا۔ حافظ ، شاعر، در بار شهید محمد عارف الہاشمی ، عباس کلہوڑہ شہادت ۱۷۹۳ء اور خان کمرشل کالج لیہ کی شمالی جانب تھا نہ سٹی لیہ کے مین گیٹ کے سامنے جانب مشرق والی سڑک پر واقع ہے، جہاں مشہور ہندو جوتشی سری شیو ناتھ شرما کا مکان تھا۔ جس کی دیوار پر آج بھی دو ہاتھ کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ اس سے متصل ، دیہہ درواز ه ۱۹۳۸ ء وومن دستکاری اسکول جس میں ایک کمرہ پر اندر بھان ڈھینگرہ ۱۹۲۳ء درج تھا۔ یہ حال ہی میں بھر اتری ہائی اسکول کی زمینوں کی طرح یہ بھی سنگین غفلت محکمہ اوقاف اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ان کے کتنے بھی اُتر چکے ہیں۔ سرائیکی کتب خانه ۱۹۵۲ء ۱۹۸۵ء میرے والد صاحب بزرگوار ، مورخ و محقق تاریخ لیہ و سندھ
مغفور طبیب حاذق مخدوم فقیر میاں الہی بخش لیکھی سرائی رنگیزه بلورچ میں موجود پرانے ڈائریوں اوروز ناچوں میں بھی چند پرانی تصاویر و معلومات موجود ہیں اور ۱۹۱۲ء کو پرائمری اسکول کو مڈل کا درجہ دے دیا گیا۔ اور سابقہ پرائمری سکول نمبرا کی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ ( موجودہ بوائز ہائی سکول ایم سی نمبر ایسے بازار نزد پرانا سبزی چوک لیہ ) جسے مندر والا سکول بھی کہتے ہیں اور قتیل والا سکول بھی جو سبزی چوک میں ہے۔ راقم آخم نے 1991ء میں پانچویں بورڈ کا امتحان یہاں دیا تھا اور سارے پیپرز ایک ہی دن میں لیے گئے ۔ انجمن ہذا کے متمول ہندوؤں نے باہمی تعاون سے اسکول کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے لا ولد فوت ہونے والے افراد کی جائیداد اسکول کی انجمن کے نام وقف کر دی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اسکول کو ہائی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک عظیم اور مخلص محب وطن لالہ اندر بھان ڈھینگرو ۱۸۷۸ تا ۱۹۳۵ء ( ڈونر ) نے اسکول کی بلڈنگ کے اخراجات برداشت کیے اور ۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو افتتاح کیا گیا۔ اور موجودہ ایم سی ہائی ماڈل ہائی سکول لیہ بالتقابل مرکزی امام بارگاه حسینیه (سابقہ سرائے دھرم شالہ ہر جس رائے گا بہ ۱۹۰۴ء A. D)۔ تقریباً ۲ سال کے بعد ۱۹۲۶ء میں عمارت کی تکمیل ہوئی اور اسکول میں ہائی کلاس کا اجراء ہوا۔ کروڑ لعل عیسن کے رہنے والے لالہ آسارام گھمبیر اسکول کے سب سے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور قیام پاکستان تک وہی کام کرتے رہے۔ انجمن منیجر لیلا رام تھے۔ اندر بھان دھینگڑہ کی دو بیواؤں نے پچیس ہزار روپے دیگر ہوسٹل تعمیر کروایا۔اُس دور کے مشہور بزرگ سرائیکی زبان کے سکالر جناب مہر ڈاکٹر عبد الحق آتش سمرا مرحوم لیہ مدفون ملتان اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت ” جو ہم پہ گزری اور ۱۶ ستمبر ۱۹۹۶ ء روز نامہ ” جنگ "جمعہ میگزین لاہور کو ایک یادگار انٹرویو دیا ۔ یادر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا ہے۔ آپ ۴۶ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ اس میں سے چند احوال کا ذکر دیکھئے ۔ دھرم فنڈ اقتصادی عدم توازن ہندوؤں میں بھی تھا لیکن وہ کسی کو فاقے کی نوبت تک نہیں جانے دیتے تھے۔ مشترکہ فنڈ قائم کیا ہوا تھا۔ اس کا پیسہ مفاد عامہ اور پنچائتوں کے کام آتا تھا۔ لالہ لیلا رام جو بھر اتری انجمن اندر بھان دھینگڑہ کے منیجر تھے کی سر براہی میں ایک وفد شمر اصاحبان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وفد میں چودھری سیٹھ اور دوسرے بڑے لوگ شامل تھے۔ لہذا مہر صاحبان کی رگِ سخاوت پھڑ کی اور انہوں نے چار مربعے شہری زمین کے اسکول کو عطا کر دیئے۔ لیکن یہ بات راقم آئم نے لیہ سے جانے والے رشی لال دھینگروہ کے بیٹے وکیل پرم دیر دھینگاہ سے پوچھی تو انہوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں۔ جو ۱۳ دسمبر ۲۰۱۸ء کو لاہور گوردوارہ ڈیرہ صاحب سمادھی مہاراجہ رنجیت سنگھ میں ۲ گھنٹوں کی گپ شپ کے دوران بتائی تھی ۔ میرے ہمراہ میرے محسن ماسٹر نعیم افغانی صاحب تھے۔ لیہ کی مٹی کی تاثیر ومحبت دیکھیے انڈیا سے آئے ہوئے ۱۲ اہندوؤں اور سکھوں میں سے سب سے زیادہ ملاقاتی جن کی تعداد ۲۰ کے قریب بنتی ہے پرم ویر دھینگڑہ سے ملنے آئے تھے۔ دھینگڑہ صاحب نے ہمیں بھی تحائف سے بھی نوازا تھا۔ بقول ان کے سب سے آخر میں دھینگڑہ فیملی نے لیہ کو خیر باد کیا۔ اسکول کی زمین جو آجکل B/TDA-123 میں ہے ۱۴۳۰۰ایکڑ ہے اور شہری ۱۵۰ یکڑ بحوالہ ہفت روزہ بشارت مظفر گڑھ (۲۶ جولائی ۱۹۶۲ ء ) میں کوائف لیہ ماخوذ از کوہستان ہندوؤں کا مترو کہ اسکول ۱۵۰ مر بعے سے لگ بھگ غیر منقولہ جائیداد رکھتا تھا۔ ہفتہ روزہ بشارت مظفر گڑھ ۸ دسمبر ۱۹۶۰ء کے مطاق اسکول ہذا کے ۱۴۲ مربعہ ہائے زمین، کئی مکان، کئی دوکانیں جو تقریبا تین کروڑ مالیت کی ہیں۔ انفورسمنٹ پولیس نے پوشیدہ جائیداد کا سراغ لگالیا ہے ملزموں کے خلاف تفتیش شروع کر دی ہے۔ مختلف قد آور شخصیات نے اس پر تفصیلاً لکھا ہے۔ جن میں انجم صحرائی ، خضر کلاسرہ ، فرید اللہ چودھری، شیخ علاؤالدین MPA لاہور، دیگر افراد اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس کے لیے آواز اُٹھائی ہے۔ لالہ سیٹھا ندر بھان دھینگوں نے عمارت کا سارا خرچ اپنے ذمہ لیا۔ ہائی اسکول سے پرائمری جماعتیں الگ کر دی گئیں اور میونسپل کمیٹی کی تحویل میں دے دی گئیں۔ اسکول کا نام اندر بھان ڈھینگدہ بھر اتری ہائی سکول رکھا گیا۔ (اب سکول ہذا کا کلیم بھارت کے شہر پانی پت (صوبہ ہریانہ ) میں لے کر لیہ بھر اتری یو نیورسٹی آف پانی پت رکھا گیا ہے۔ )انتظامیہ نے پرائمری کلاسز کے اخراجات کی بچت سے سائنس لیبارٹری ، کلاس لائبریری اور ریڈنگ روم کا اجراء کر دیا۔ اب یہ مکمل بلکہ مثالی ہائی اسکول تھا۔ میرے گھر سے بمشکل پچاس قدموں کے فاصلے پر ہوگا۔ بس یوں سمجھئے کہ گوئے یار سے نکلے تو عوئے دار چلے ! اسکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر جو کروڑ لعل عیسن کے رہنے والے تھے لالہ آسارام گھمبیر نے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر لالہ ٹبلرام کوسرٹیفکیٹ دیا اور کہا کہ مہر صاحب کے بچے کو داخل کر دو کالو رام چپڑاسی مجھے چھٹی جماعت کے کمرے میں لے گیا۔ کلاس بھاری بھر کم تھی ۔ پچاس کے لگ بھگ طلبہ ہونگے۔ لیکن میرے علاوہ مسلمان طلبہ دوہی تھے۔ ایک رب نواز، دوسرا ریٹائر ڈ اور مکمل ٹیچر گورنمنٹ ہائی اسکول ملتان سے آنے والے سید محمد شاہ کا بیٹا کرم حسین شاہ ، کلاس کا مانیٹر لال بخش، بیج کا بیٹا صبغت اللہ دربار حضرت سخی سرور ڈیرہ غازی خان سے آیا یتیم طالب علم غلام علی، ڈیرہ اسماعیل خان سے یا مانیٹر منوہر لال ، ہنس راج وائرلیس سائنٹسٹ، کوٹ سلطان کے غلام محمد صاحب، لالہ اندر بھان دھنگیڑہ بھراتری ، یا بھر ادھرمی بنیادی طور پر ہندواسکول تھا۔ مسلمان طلبہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اسکول کی کل تعداد ۳۵۰ سے زائد تھی لیکن ہم مسلمان طلبا گلے چار سالوں میں بھی چھ سات سے زائد نہ ہو سکے۔ جب تک سید محمد شاہ صاحب سٹاف کے ممبر نہیں بنے تھے ۔ ہم مسلمان طلبہ ایک طرف کھڑے رہتے ۔ جبکہ ہندو طلبہ قطار میں بنا کر مارننگ اسمبلی میں اکٹھے ہو کر پرارتھنا کرتے جو گایتری پر چم ہوتی اوم۔ بھور۔ بھوہ۔ سواہ۔ تت – سوتر ور نیم ۔۔۔۔ اوم شانتی شانتی۔ اگر ہیڈ ماسٹر یا کسی باہر سے آنے والے مہمان کو خطاب کرنا ہوتا تو طلبہ زمین پر بیٹھ جاتے ، اساتذہ کھڑے رہتے پھر خطاب کے ختم ہو جانے پر اپنی اپنی کلاس کو لے کر کمروں میں چلے جاتے ۔ سید محمد شاہ صاحب کے تشریف لانے کے بعد ہم چھ سات مسلمان لڑکوں کی دُعا علیحدہ ہونے لگی۔ یہ سب ۱۹۲۶ء میں اس اسکول کا خصوصی معائنہ کرنے والے گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی کی خصوصی گرانٹ کا ثمرہ تھا۔ چنانچہ اس مصلحت کے تحت ریٹائر ٹیچر سید محمد شاہ کو سٹاف میں رکھ لیا گیا۔ اس مدرسے میں چھٹی سے لے کر دسویں تک میں پانچ سال پڑھتارہا ہوں لیکن کسی ایک دن بھی میں نے کسی لڑکے کو یا کسی اُستاذ کو مذہبی پر چار کرتے ، سیاسی گفتگو کرتے یا دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی کرتے نہیں پایا۔ یہ لوگ اپنے ہیروز کی تعریف تو بڑھ چڑھ کر کرتے تھے۔ لیکن کسی کے خلاف زبان درازی نہیں کرتے تھے۔ سب سے بڑی خوبی جو میں نے یہاں دیکھی بلکہ سیکھی ہے وہ نظم وضبط با قاعدگی اور وقت کی قدر کرتا ہے۔ ہر کام طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا تھا۔ مارکٹائی ، چھیڑ چھاڑ اور شور وغل کا کہیں نام تیک نہیں تھا۔ کوئی کلاس ایک لمحے کے لیے فارغ نہیں رہتی تھی۔ اساتذہ چھٹی پر جاتے تو ان کا ٹائم ٹیبل حاضر اساتذہ میں تقسیم کر دیا جاتا ۔ شدید ضرورت کے وقت اسکول کا کلرک بھی کلاسوں میں آجاتا ۔ خود ہیڈ ماسٹر صاحب ڈیوٹی سنبھال لیتے ۔ (یہاں پر دلچسپ اور عجیب و غریب بات کا ذکر یاد آیا۔ بقول اُستاد نعیم افغانی صاحب یہ شہر کے مضافات کے ایک سکول کا نرالا طریقہ دیکھا کہ چھٹی پر گئے اساتذہ کی کلاس کو ان پڑھ چپڑاسی کنٹرول کرتے پائے گئے مگر تعلیم یافتہ اساتذہ اپنے فارغ پیریڈ کو انجوائے کرتے رہے۔ یہ اس سے پہلے ایسا انتظام نہ کبھی دیکھا نہ عنا گیا۔) اساتذہ کرام میں انگلش کے اُستاد لدھا رام، انگریزی کے استاد کرم چند و همینگوہ محلہ کبیر پورہ، استاذ سمی محمد بخش ، انگلش کے اُستاد لالہ کیلاش چندر، لالہ حسو رام، تاریخ لیہ کے مصنف مہر نورمحمد تھمند (مرحوم) صفحہ نمبر ۲۲۲ کے مطابق ۱۸۶۹ء میں کوٹ سلطان میں بھی ایک اسکول قائم ہوا تھا۔ گورنمنٹ ماڈل ہائر سیکنڈری اسکول لیہ جسکی بنیاد ۱۸۹۶ء کی ہے۔ وہاں کے اساتذہ گرامی جن میں نامور شاعر، مصنف اُستاد جہاں، گولڈ میڈلسٹ ایم ۔ اے فارسی ، راجہ محمد عبد اللہ نیاز صاحب (مرحوم) لیہ، عامل مولوی اُستاذ مرید حسین ڈوگر آف شاہ پور دورہ لیہ، ہیڈ ماسٹر قاضی محمد اسلام صاحب سکول ہذا کے کامیاب ہیڈ ماسٹر رہے، محترم غلام محمد جوانی صاحب، سرسید قفل قاضی عبد الرحمن سیل نے رحمان آباد میں پرائیویٹ اسکول کھولا تھا۔ مولوی مشتاق محمد افغان داخلی، جن کی عربی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بعد کے اساتذہ اور طلبا میں لیہ کی بار ایسوسی ایشن کے صدر لالہ مصطفی جونی کے والد محترم اللہ داد جونی اور پڑدادا استادمحمد سلیمان جونی صاحب، استاد غلام محمد جو نی صاحب ، ہری چند انگریزی کے استاد، کھلند ارام کے والد صاحب ودیا ساگر ، گوپی چند نارنگ کے چھادیال چند سیکنڈ ہیڈ ماسٹر، ہیڈ ماسٹر شاعر سنیل قریشی، مسٹر کے ایل گابا ( محمد لطیف) ، سردار ہرنام سنگھ، گوپی چند نارنگ (ماہر لسانیات) شیخ نور حسین ،ریاض انور وکیل کے والد الحاج فقیر اللہ بخش ہیڈ ماسٹر رہے ہیں۔ والد بزرگوار فقیر میاں الہی بخش لکھی سرائی مغفور اپنی ڈائریوں میں لکھتے ہیں کہ لیہ سے ہندوؤں کی پہلی ترین ۱۹۴۷۔۱۱۔۱۱ کو روانہ ہوئی تھی۔ دوسری ٹرین ۱۹۴۷-۱۱-۱۳ کو روانہ ہوئی تھی۔ ٹرین میں بیٹھے ایک پنڈت ہر سوت نے بندہ کو ہدیتا چند کتابیں اور نسخے دیئے۔ اس وقت کے ہمارے کلاس فیلوز اور دوستوں میں فٹبال کے کھلاڑی رادھے شام، شانوں لال ، شام داس دمینگو، بہاری لال دھینگرو ، پھول چند دهمینگورہ، ریٹائرڈ ریلوے گارڈ سد و رام دھینگره ، اسٹیشن ماسٹر لاله گیان چند دهمینگرده،اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرسیت رام، تولا رام، کوٹو رام، لالہ بالکن و ھینگڑہ اور اس کا بیٹا جنگل دیش ایکسین ۱۹۸۵ء میں لیہ آئے تھے ، یہ شہر کا لمبا اور گورا چٹا آدمی تھا۔ سیٹھ برج لال دھینگڑہ جسکا کئی مصنوعات کا بڑا کارخانہ لیہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے تھا ، ( موجودہ جگہ سن رائز پبلک سکول لیہ ) اس کی مترو کہ کوٹھی سید ناظم حسین رضوی اور سید حیدر شاہ رضوی کہ حصہ میں آئی ہے۔ جس کی دیواروں میں لوہے کی تجوریاں لگی ہیں، آپ پریذیڈنٹ آئی۔ بی انسٹی ٹیوٹ پانی پت ۱۹۷۷ء تک رہے۔ وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر سوم نا تھے دھینگڑہ، سری رام دھینگاہ ، لیدار ناتھ پر بھا کر مگھی رام کامرہ، انند پورٹرسٹ ٹیری چندرائن جمن شاہ ، پروفیسر مہندر پرتاب چاند آف کروڑ لعل عیسن ۱۹۳۵ء تا ۲۰۲۰ء پروفیسر اودھے بھانو انس آف دائرہ دین پناہ (کوٹ ادو ) ۱۹۲۶ء تا ۲۰۱۹ ء سوسن لال کا مرہ، موتی رام کا مرہ، چندر پرکاش بستی نوشہر والیہ نارائن داس، پنڈت سورج داس جن کے والد سنسکرت کے اُستاذ تھے، پنڈت کھلند ارام ، آیشی رام یہ دونوں گنگارام کے بیٹے تھے اس کا چھوٹا بھائی سیوا رام ۱۹۵۴ء میں لیہ میں منت والا تعزیہ دینے امام خانه حسینیہ لنگاہ والا حلہ شیخا نوالہ آیا تھا، واپس انڈیا جاتے وقت لیہ ریلوے اسٹیشن کے باہر سے تبر کالیہ کی مٹی لے گیا۔ اور کہا کے تمام دوستوں کو چنکی چنکی دوں گا ، ۱۹۵۹ء میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان مرحوم جب لیہ ریلوے اسٹیشن سے لیہ بھر اتری ہائی اسکول تشریف لائے تو اسٹیشن سے لے کر اسکول تک کے راستے میں قالین بچھایا گیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن لیہ پر مسافروں کی چھاؤں کے لیے بنایا گیا۔ شیڈ جنرل ایوب صاحب مرحوم کا مرہون منت ہے۔ جناب اللہ بخش شجاع اور ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا جیسی شخصیات نے اس اسکول سے تعلیم پائی۔ قیام پاکستان کے بعد سکول ہذا الا وارث ہو گیا۔ اس کے اثاثے لوٹ لیے گئے تو چند علم دوست افراد نے ایک انجمن اسلامیہ یہ بنائی۔ جس کے تحت یہ سکول چلتا رہا مگر درست طور پر نہ چل سکا اور بالآخر ۱۹۵۲ء میں میونسپل بورڈ مظفر گڑھ نے اپنی تحویل میں لے کر اس کا نام ایم بی بھر اتری ہائی سکول لیہ رکھا۔ غالباً ۱۹۶۲ء میں میونسپل کمیٹی لیہ نے اس کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا نام ایم سی ہائی سکول رکھا۔ہیڈ ماسٹر سید ابن علی نے نمایاں کارنامے سر انجام دیے۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد ایم عبدالکریم قریشی اور شجاع صاحب کی خدمات گورنمنٹ سے مستعار لی گئیں۔ محمد اقبال خان اور جناب محفوظ اسلم خان بالترتیب تقریباً تین سال اور سوا دو سال کا عرصہ ہیڈ ماسٹر کے فرائض بہ احسن طریق سے سرانجام دیتے رہے۔ جناب محفوظ اسلم صاحب کے تبادلہ کے بعد اسکول ہذا کے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ایم عبدالکریم فاروقی عرصہ تقریباً پونے دو سال بطور انچارج کے کام کرتے رہے۔ جولائی ۱۹۷۲ ء یا ۱۹۷۵ ء میں جناب چودھری محمد شفیع اسکول ہذا کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ عوامی حکومت نے تعلیمی اصلاحات کے تحت سکول ہذا کو صوبائی گورنمنٹ کی تحویل مورخہ یکم جولائی ۱۹۷۵ء سے لے لیا گیا۔ بعد ازاں جناب اللہ بخش لو دھر اصاحب ( مرحوم) اور جناب خادم حسین بھٹی صاحب ( مرحوم) نے اسکول ہذا کے تعلیمی اور تعمیراتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خاص طور پر خادم حسین بھٹی صاحب جو ۱۹۹۵ ء سے ۲۰۰۱ ء تک اسکول ہذا کے بطور ہیڈ ماسٹر تعینات رہے۔ دسویں جماعت کے بلاک کی تعمیر اور خاص طور پر اسکول کی تمام خوبصورت روشوں کی تعمیر کا منصوبہ انہی کی خدمات کی یادگاریں ہیں۔ اسی طرح جناب چودھری محمد سلیم صاحب کے دور میں اسکول ہذا نے انٹر سکول سپورٹس مقابلہ اقبال میں چیف منسٹر کپ ۲۰۰۵ء پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے 850000 (آٹھ لاکھ پچاس ہزار روپے) کا بڑا انعام جیتا ۔ جو اسکول ہذا کے اساتذہ اور طلبا کی دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں گہری دلچسپیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس خطیر رقم سے کھلاڑیوں کو انعامات سے نوازا گیا اور خاص طور پر اسکول ہذا کے بڑے ہال کی مرمت اور تزین و آرائش کئے جانے پر خرچ کر کے اسکول کی خوبصورتی اور دلکشی میں مزید اضافہ کیا گیا۔ حال ہی میں جناب شرافت علی بسرا صاحب بطور سینئر ہیڈ ماسٹر ۲۰۱۵-۰۵-۲۱ کو اسکول ہذا کا چارج سنبھالا توتعلیمی تعمیراتی کام کے حوالے سے بہت ہی انقلابی اور ہنگامی بنیادوں پر نئے جوش و جذبے سے مختلف منصوبے شروع کیے جنکی بدولت اساتذہ طلباء اور عام شہریوں نے بھر پور پذیرائی کی۔ نے شروع کئے جانے والے منصوبوں میں نئے پانچ کمروں کی تعمیر، خوبصورت اور نایاب اقسام کے مختلف پھول دار پودے جدید طرز کا چائلڈ فرینڈلی روم ، دلکش اور نئے ڈیزائن کا مین گیٹ کی تعمیر کے ساتھ ہیڈ ماسٹر کے دفتر تک خوبصورت پھولوں اور گملوں سے مزین دو رویہ سڑک کی تعمیر کا منصوبہ اور اسی طرح اساتذہ، طلبا اور والدین وغیرہ کی جمالیاتی جس کی تسکین اور اضافہ کے لیے مختلف اقسام کی پینٹنگز اور فواروں کی تعمیر شامل ہے۔ جناب بسرا صاحب کے ان سرگرمیوں اور دلچسپیوں کی بدولت پورے اسکول کے ماحولیاتی تعلیمی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں اور نظم وضبط کے حوالے سے نمایاں اور مثالی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو ئیں ۱۴ اگست ۲۰۱۵ء کے گرا سینڈ لنگٹن میں اسکول کے ہونہار طالب علم چودھری محمد اشفاق ایم ۔ بی۔ اے لیہ نے اسکول سیورج سکول ڈبل اور دور و یہ میٹل روڈ منصوبے کا اعلان کیا۔ مزید یہ کہ اسکول کو ماڈل کا درجہ دلوانے میں اسکول کے ہونہار طالب علم پیر سید تقلین شاه بخاری ایم این اے لیہ کی کاوشیں ہیں۔ ضلع ناظم سردار شہاب الدین خان سید صاحب نے ایم۔ایم ۔ آر کا افتتاح کیا، سردار افتخار علی بابر خان کھتر ان صاحب نے فزکس لیب 8 لاکھ کی لاگت سے بنوائی ،لیہ کے دیگر مہربانوں نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ اور سکول ہذا کی مین عمارت کے ۱۶ مخروطی میناروں کے جنوبی جانب انگلش کا لفظ B ( یعنی بھر اتری) لکھا پایا گیا۔ ان کے اوپری سروں پر لکڑی سے خوبصورت گنبد بنائے گئے ہیں۔ اسکول کے ہال اور کمرے انتہائی کشادہ اور مضبوط دیواروں پر مشتمل ہے۔ پرانے ہال اور کمروں میں ساگوان کی لکڑی کی بنی کڑیاں ، دروازے اور الماریاں شیشے سے مزین اپنی چمک کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور عظمت رفتہ کا پتہ دیتی ہیں۔ عمارت کے چاروں اطراف میں برآمدے ہیں، اور اسکول کے چار عدد تاریخی کہتے ہیں جن پر مختلف سالوں کی کار کردگی قبل قیام پاکستان لکھی ہوئی ہیں جو تین زبانوں ہندی، اُردو اور انگریزی میں درج ہیں۔ اسکول ہال کی دیوار پر بانی (اندر بھان دھینگرا) کی صدی پہ تھی جو چونا سے برابر کر دی گئی ہے۔ضلع لیہ میں جتنی بھی پرانی عمارات موجود ہیں ان کے گرد ایسے ہی چاروں اطراف میں برآمدے بنے ہوئے ہیں جن میں دھرم سال سرائے ہر جس رائے گا بہ ۱۹۰۴ء ( موجودہ مرکزی امام بارگاہ حسینیہ رجسٹر ڈلیہ)، پرانی کچہری موجودہ گورنمنٹ اسلامیہ گرلز ہائی اسکول نزد دفتر میونسپل کمیٹی ، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سابقہ کوٹھی رائے بہادر تلوک چند، سرکلر روڈ، پرانی تھل اسپتال موجودہ تحصیل ہیڈ کوارٹر تھل ہسپتال لیہ کے چند کمرے جن پر 1941 COSAIN-BHUSHAN LAL WARD کوشن بھوشن لال وارڈ ۱۹۴۱ء درج ہے۔ جو انھوں نے لیہ کی عوام کے لیے خیراتی بنوائے تھے۔ ان میں اکثر عمارات کی بیرونی اینٹیں کی اور اندرونی اینٹیں کچی ہیں۔ ہندوستان میں لیہ برادری اخبار نکالنے والے بانی اور مشہور شخصیات لالہ ہرکشن لال ۱۸۶۴ء تا ۷ ۱۹۳ ، شرعی حکم چند روهینگدہ اور ان کی ٹیم جن میں بزرگ لالہ غیشی ، رشی رام آف پانی پت والد ( پرم دیر دھینگروه ایڈووکیٹ پانی پت آف انڈیا جو آج کل وہاں پر موجود بھر اتری ایجوکیشنل سوسائٹی کے وائس پریزیڈنٹ ہیں)، بزرگ مشری رام کشن گندھیر صاحب، ڈاکٹر سو بھراج جھنگ صاحب صدر یہ برادری پانی پت انڈیا، حکیم ہریش چندر ناگ پال اندرا بازار پانی پت ، چچا ڈاکٹر منوہر لال صاحب آرگنائزر جنرل سیکرٹری لیہ برادری پانی پت نے وہاں پر بھی کئی علمی درس گا ہیں اور ڈسپنسریاں بنائیں ہیں۔
محترم و مکرم اور معروف ادیب، ۱۷ کتابوں کے مصنف ، جناب محترم ملک مزمل حسین صاحب پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ضلع لیہ شہر ، آپ نے کالج ہذا میں کئی مثالی ، قابل رشک اور انقلابی اقدامات کئے اور ان کی نگاہ لطف و کرم سے تعلیم و تربیت کی کئی اسکیمیں کامیابی سے جاری ہیں۔لیہ کی معروف علمی و ادبی شخصیات کے نام سے کالج ہذا میں کئی گوشے اور روشیں انکے نام کیے۔ جو آپکی علم وادب سے بھر پور دلچسپی و دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں آپکی کتاب پر درج استاذ شیخ ابراہیم ذوق کا شعر آپ پر ہی صادق آتا ہے۔رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com