لیہ

لیہ کے آثار قدیمہ اور ان کی باقیات کا ایک جائزہ

میاں شمشاد حسین سرائی

کائنات کا ذرہ ذرہ فنا پذیر ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج کے ترقی یافتہ دور تک انسان نے مادی طور پر بہت زیادہ ترقی کی زمین سے اڑ کر چاند اور دیگر ستاروں پر کمندیں ڈالیں۔ لیکن کرہ ارض پر اس کی بود و باش اور تمدن کی تاریخ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ زمینی تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ انسان نے بھی اپنی زندگی کو بدل ڈالا۔ غار اور پتھر کے عہد سے لے کر دور حاضر کی جدیدیت تک کا سفر انسان نے ذہنی اور جسمانی مشقت سے حاصل کیا۔ اپنی اسی تہذیبی ترقی کی خاطر جس جگہ پر مقیم ہوا اس نے وہاں بستیاں آباد کیں۔ بنجر ویرانے اور صحراؤں کو آباد کیا ، پہاڑوں کی چوٹیوں پر مکانات تعمیر کیے، دریاؤں میں سے راستے نکالے سمندروں کے دل چیر کر نمودار ہونے والے جزیروں پر آبادی قائم کی۔ کسی تہذیب کی شناسائی کے لیے ہمیں اس کی تاریخ پر محققانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر خطے کو اس کے محل وقوع سے ایک مخصوص شناخت دی ہے اور اس کو انفرادی خوبیوں سے مالا مال کیا ہے۔ جس کے آثار سے ہی ان کی تاریخی قدامت متعین کی جاتی ہے۔ وادی سندھ کا عظیم خطہ یہ تہذیب سندھ کا اہم مرکز رہا ہے، جو حرا اور دریا کے سنگم پر واقع ہے۔ ایک طرف ملک کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا ہے اور دوسری جانب بہت بڑا ریگستان موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ ریگزار تھل شمالاً جنوبا 272 میل اور شرقا غربا 18 سے 90 میں علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور مغربی جانب دریائے سندھ جسے شیر دریا کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے ۔ لیہ شہر کے حفاظتی بند سے لے کر مور جھنگی کے پتن تک تقریبا 25 کلومیٹر شرقا غربا پھیلا ہوا ہے اور ہر سال اپنی
جوانی دکھاتا ہے، جس سے محلہ لیہ کی بیشتر بستیاں دریا برد ہو جاتی ہیں۔آثار قدیمہ کے معدوم ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی دریائے سندھ رہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیںکر تھل کی آبادی ہزاروں سال قبل بھی موجود تھی۔ اس بات کو واقعات سے تقویت ملتی ہے جیسا کہ چینی سیاح ہیون سانگ نے لیہ کو Falana کے نام سے اپنے سفر نامے میں رقم کیا۔معروف محقق و مورخ ابن حنیف کے مطابق ” پہلے پہل ملتان آج سے پانچ ہزار سال قبل اس وقت تو ایک بستی کے طور پر ابھرنا شروع ہوا جب جلیل آباد پٹھیالہ درحمان ڈھیری اور لیہ ایک بستی کے طور پر ابھر چکے تھے۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے لیہ کی تاریخ سات ہزار سال پرانی ہے۔ تھل کے علاقے میں کئی کئی میل تک پھیلے ہوئے ٹھیکرال اور وہاں سے ملنے والے قدیم سکے ، مورتیاں ، سنکھ دھات کی چوڑیاں ہٹی کے ظروف اور اونٹ اور بیل جو کہ کے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق موہنجو داڑو اور ہڑپہ تہذیب سے بھی قدیم ہیں۔ ان شواہد سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ” کلی گل محمد ثوب اور یہ تہذیبی و تمدنی اعتبار سے ہم عصر ہیں۔ جبکہ ہڑپہ کی تہذیب ان کے بعد مربوط ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق 1325ء میں محمد بن تغلق شاہ جب فرمانروا بنا تو اس نے تانبے اور پیتل دھات کے سکے رائج کیے تھل سے ملنے والے سکے بھی تانے اور پیتل دھات کے ملتے ہیں۔ گو یا خیال کیا جا سکتا ہے کہ لیہ میں محمد بن تغلق کا سکہ بھی چلتا رہا ہے۔ (یہ سکے آج بھی لیکھی پرائیویٹ میوزیم نزد جی پی اولیہ میں دیکھے جاسکتے ہیں) ان سکوں کی دریافت ہونے سے بھی یہ کی تہذیبی قدامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیہ میں قدیم قلعوں کی تاریخ: روایت کی جاتی ہے کہ 1398ء میں ہندوستان میں منتشر سلطنتوں کو دیکھتے ہوئے ترکی النسل بادشاہ امیر تیمور ( جسے تیمور لنگ بھی کہا جاتا ہے) نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ اس نے بہت تھوڑے عرصے میں افغانستان اور ایران کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اسی طرح اس نے تھل کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا۔ اور ان علاقوں میں اس نے بے پناہ تباہی مچائی۔ اور یہاں کے معروف ہنر مند معمار اور دولت بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ تھل بھکر ہمنکیرہ ، لیہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور لاہور کے علاقوں کو فتح کیا اور ان علاقوں پر سید خضر خان کو والی مقرر کیا۔ سید خضر خان ایک زیرک اور قابل شخص تھا جس نے ملتان کو اپنا تخت گاہ بنایا۔ اس نے اپنی سلطنت کے استحکام اور محافظت کے لیے کئی انقلابی اقدامات اٹھائے۔ مورخین کا بیان ہے کہ اس نے 1403ء کے لگ بھگ6 لیہ میں قلعے تعمیر کرائے۔ ان قلعوں کا بنیادی مقصد بلوچ حملہ آوروں کے لیے رکاوٹ کھڑی کرنا تھیں۔ لیہ اور اس کے مضافات میں جو قلعے اس نے تعمیر کرائے ان میں قلعہ لیہ، قلعہ نواں کوٹ قلعہ چوبارہ، قلعہ کوٹ سلطان ، قلعہ منکیرہ قابل ذکر ہیں۔ اب جب ان قلعوں کے کھنڈرات میں سے قدیم بت، سکے مٹی کے بیل، اونٹ ملتے ہیں تو ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ تہذیب جسے وادی سندھ کی تہذیب کہتے ہیں۔ یہ بلاشبہ مصری، چینی اور ایرانی تہذیبوں سے کہیں زیادہ قدیم اور ترقی یافتہ تھی۔ ضلع لیہ میں جن قلعوں کے آثار ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
قلعه ليه:
یہ قلعہ پندرہویں صدی میں سید خضر خان والی ملتان نے تعمیر کرایا تھا آج جہاں لیہ کا شہر موجود ہے۔ اور بازار میں ٹھنڈی کھوئی کی مسجد اور بجانب مغرب ڈھلوان پر محلہ اندر کوٹ اور محلہ قاضیاں والہ موجود ہے۔ اسی مقام پر والی ملتان سید خضر خان نے 1403ء میں قلعہ یہ تعمیر کرایا تھا۔ آج بھی یہ جگہ شہر میں ایک بلند اور ٹیلہ نما دکھائی دیتی ہے۔ اس قلعہ میں اپنی فوج کو تربیت دیتا تھا، یہ قلعہ بھی دریائے سندھ کی ظالم لہروں سے محفوظ نہ رہ سکا
اور معدوم ہو گیا۔ لیکن قلعے کی بلندی کے آثار سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہاں قلعہ تھا۔
قلعه نوشهره یہ قلعہ بھی آثار قدیمہ لیہ کے ضمن میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر سے بجانب شمال تقریبا 5 کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قلعہ موجود تھا جسے سید خضر خاں والی ملتان نے تعمیر کرایا تھا۔ اصل میں یہ جگہ لیہ سے کچھ فاصلے پر ایک نے شہر یا قصبے کی تھی جسے نواں شہر یا نوشہرہ کہا جانے لگا۔
ک دریائے سندھ نے اس قلعہ کے نام ونشان بھی نہیں چھوڑے۔ کہا جاتا ہے کہ سکھ شاہی تک یہ قلعہ موجود تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل بھی تاریخ میں میاں عبدالنبی کلہوڑو سرائی کے عہد میں بھی اس قلعے کے موجود ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ رنجیت سنگھ کی تباہ کاریوں میں قلعہ نوشہرہ بھی تباہ ہو گیا اور کچھ باقیات کو سندھ دریا کی لہریں بہا لے گئیں۔ قلعہ کوٹ سلطان : یہ قلعہ بھی خاندان سادات کے بادشاہ سید خضر خان نے تعمیر کرایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق شام مندر کوٹ سلطان کا پرویت اس وقت کے تمام پر ویتوں سے زیادہ امیر تھا۔ لہذا اس کی امارت کی وجہ سے وزیرستان کے علاقوں سے قزاق یہاں آتے اور شب خون مارتے ہوئے یہاں کی ساری دولت سمیٹ کر لے جاتے تھے۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے 1403ء میں یہ قلعہ تعمیر کرایا گیا۔ جسے والی ملتان سلطان حسین انگاہ نے 1470ء میں فتح کیا تو اسے اپنے نام سے منسوب کر دیا۔ اور اس کا نام کوٹ سلطان رکھا جس کا ثبوت لنگھاہ والا چین بھی ہے۔
قلعہ کے ارد گرد فصیل پر ہر وقت چوکیدار پہرہ دیتے تھے۔ قلعے کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ حسن اتفاق سمجھیں بعد میں آنے والے سلطان خان میرانی نامی سردار کی وجہ سے بھی یہ معروف ہوا۔ جو کہ تاریخی مغالطہ ہے۔ قلعہ کوٹ سلطان کے تین بڑے دروازے تھے۔ ایک ملتانی دروازہ، دوسرا د پالی دروازہ اور تیسر ا خضری دروازہ کے نام سے مشہور ہیں۔ جسے بعد میں شیر شاہ سوری نے اپنے نام سے سوری دروازہ رکھا۔۲؎
قلعہ لدھانہ
یہ قلعہ بھی سید خضر خان نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا اور اس میں فوج تعینات کی گئی تھی۔ لدھانہ در اصل سیال قبیلہ کی شاخ ہے۔ یہ قلعہ معروف شاہراہ پر واقع ہے جو کابل کلیہ اور ملتان کو باہم ملاتی تھی۔ قلعہ شیر گڑھ:
یہ بہت قدیم قلعہ ہے جسے شیر خان نامی شخص نے تعمیر کرایا تھا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا بہر حال یہ قلعہ بھی آثار قدیمہ لیہ کا ثبوت ہے۔ جسے بعد میں والئی لیہ و منکیر محمد خان سدوز کی نے مرمت کرایا۔ یہ قلعہ بھی تھل میں تحصیل چوبارہ کے علاقے میں واقع ہے۔
قلعہ چوبارہ:
یہ قلعہ بھی خاندان سادات کے سپوت وائی ملتان سید خضر خان نے مٹی سے تعمیر کرایا۔ یہ قبل از مسیح دور کا قصبہ تھا۔ یہ قلعہ ایک ٹیلہ نما قلعہ تھا جس کے آثار آج بھی دکھائی دیتے ہیں، جسے بعد میں والئی منکیرہ محمد خان سدوزئی نے اپنے دور میں از سر نو تعمیر کرایا تھا اور پھر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے فوجی حکمت عملی کے تحت اس قلعے کو مسمار کر دیا تھا۔ تھانہ چوبارہ کے عقب میں آج بھی اس کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں معروف محقق و مورخ مغفور AGM ریلوے لاہور جناب زبیر شفیع غوری کے بقول چوبارہ اور ہزارہ دو بھائی تھے۔ یہ بات انھوں نے ہمارے بھائی فقیر میاں امداد حسین لکھی سرائی کو موت سے چندن قبل بتائی تھی۔ قلعہ نواں کوٹ :
لیہ کے آثار قدیمہ پر ریسرچ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوبارہ تحصیل سے بجانب شمال تقریبا 18 کلو میٹر کے فاصلے پر قدیمی قصبہ نواں کوٹ کے نام سے ایک قدیمی آبادی نظر آتی ہے۔ جس کی قدامت کا انداز ہ اس قلعہ سے لگایا جا سکتا ہے اس قلعے کو بھی سید خضر خان نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ بھی مٹی کا بنا ہوا تھا اسے بھی رنجیت سنگھ نے تباہ کیا تھا۔ قلعے کے واضح آثار آج بھی دکھائی دیتے ہیں یہ علاقہ بہت قدیم تھا۔ یہاں سے کافی قدیم سکے، بدھ مت کی مورتیاں ، پینچ مارک سکے، بت ہٹی کے ظروف ہٹی کے کوہان والے بیل، اونٹ ملتے ہیں۔ نواں کوٹ سے بجانب شمال تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر چاولہ مگسی والا ، نصرت والا ، دربار مائی ولایت، پتی بدهد، در بار معصوم ، چاہ گولے والا کے ٹھیکر ال ملتے ہیں۔ ( درج بالا آثار قدیمہ سکہ جات، مورتیاں اور بیل و اونٹ جو کہ موہنجو داڑو سے بھی قدیم ہیں۔)
(ہمارے پرائیویٹ میوزیم لکھی ہٹاریکل میوزیم حکیم فقیر میاں الہی بخش لیکھی سرائی ، لیہ میں دیکھے جا
سکتے ہیں۔) قلعہ دیو پال کوٹ کروڑ :ہندوشاہی خاندان کے راجہ دیو پال جو کہ را جاہل کا رشتہ دار تھا۔ آپ نے اپنے جنگیں تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اور بیرونی حملہ آوروں سے نبٹنے کے لیے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر ایک قلعہ قلعہ دیپال تعمیر کرایا۔ یہ قلعہ بہت مضبوط قلعہ تھا جو بعد میں کوٹ دیپال گڑھ اور پھر کوٹ کروڑ کے نام سے موسوم ہوا یہ بہت اہم قلعہ تھا جسے محمود غزنوی نے فتح کر کے قریشی خاندان کی جاگیروں میں دے دیا۔ جس کے آثار آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔پھر چنی والا :تحصیل چوبارہ میں ابتدائی ہر پہ دور کی ہم عصر تہذیب سے تعلق رکھنے والا بھڑ موجود ہے۔ جسے مقامی زبان میں بھر چینی والا ” کہتے ہیں۔ تحقیق اور کھدائی سے ثابت ہوگا کہ اس کے اندر کتنے زمانے دفن ہیں بہر حال اس کو ہم آثار قدیمہ کی ایک نشانی گردانتے ہیں۔بھر لمبراں والا :یہ بھی اونچا ٹھیکرال کا ڈھیر ہے اسے بھی قدیم ترین بھڑ کہا جاتا ہے اور اس کے آثار بھی ابتدائی ہر پائی دور کی یادگار کے ہیں اور اسے لمبراں والا بھر کہا جاتا ہے جو کہ تحقیق طلب کام ہے۔کھوہ لڑے والا :یہ کنواں بھی تحصیل چوبارہ کے مضافات میں موجود ہے جو کہ قدیم ہر پہ دور کی ہم عصر تہذیب سےمماثلت رکھتا ہے اس پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ (راقم الحروف)
سکھے والا برج:یہ برج لاری اڈہ لیہ کے قریب واقع تھا یہ برج میرانی دور حکومت میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جس کے آثار اب منہدم ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی برج تھا۔ پہلے یہ برج ڈیڑھ فٹ لمبی پکی اینٹوں سے تعمیر شدہ تھا۔ یہ شیر شاہ سوری نے ترسیل ڈاک کے نظام کے لیے بہت سی سرا ئیں اور برج بنوائے تھے جہاں پر ڈاک کے ہرکارے آکر ڈاک کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے تھے۔ تقریبا یہ 1445ء سے 1450ء کے درمیان تعمیر کیے گئے۔ ایسے ہی برج شاہ پور دور نہ سید قادر شیر کا ظلمی کے قبرستان کے ساتھ تھے۔ ۴۔آثار قدیمہ کے حوالے سے اہم مندر اور تاریخی مقامات
مزار حضرت سید محمد علی راجن نقوی البخاری : لیہ کے آثار قدیمہ کے تاریخی مقامات میں سے ایک مزار حضرت علی راجن شاہ نقوی البخاری کا ہے ۔ ان کا زمانہ تاریخ کی کتب میں 900 سے 940 ہجری کا ہے۔ برصغیر میں اسلام کی اشاعت انھیں بزرگان دین اور صوفیاء کی وجہ سے ہوئی۔ جن میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ، حضرت بہاؤالدین زکریا، حضرت شاہ شمس تبریز ، بابا بلھے شاہ، حضرت مہر علی شاہ گولڑہ شریف حضرت باہو سلطان، حضرت سخی سرور ، حضرت فرید گنج شکر ، حضرت خواجہ غلام فرید، حضرت شاہ عنایت بخاری ، حضرت سید علی راجن نقوی البخاری کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ آخر الذکر حضرت سید علی راجن شاہ، سید جلال الدین دین اچوی بخاری کی اولاد میں سے ہیں اور ان کاسلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم اور حضرت امام زین العابدین سے ملتا ہے۔ آپ 950ھ میں متولد آپ اُچ شریف سے مراجعت فرما کر کروڑ لعل عیسن کے علاقہ کچھی میں تشریف لائے۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ زمانہ مغل بادشاہ ہمایوں کا تھا۔ آپ نے علی اعلان تبلیغ محمد و آل محمد کی جس سے علاقہ مکی کے لاتعداد خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اور محب اہلبیت بنے۔ آپ کے تین بیٹے سید زین العابدین، حضرت بابا بندھن شاہ بخاری اور حضرت شاہ موسیٰ خوش تھے۔ آپ نے اپنا مزار اپنی زندگی میں خلیہ طرز تعمیر پر بنوایا۔ حضرت قادر شاہ کاٹی آپ کے ہم عصر تھے آپ کی کافی کرامات ہیں، مزار کی تعمیر اور اس پر ملتانی نائل کاشی کاری کا کام دیدنی ہے۔ آج بھی ڈور ڈور سے
مؤرخین اور سیاح آپ کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔ اور اس کو ایک اہم تاریخی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ آپ کا مزار شاہ رکن عالم کے مزار کی طرز پر تعمیر کیا ہے۔ آپ کو سدا بھاگ بھی کہتے ہیں اور چیتر کے مہینے میں 4 جمعے (جمعہ المبارک) دربار پر زائرین کی حاضری ہوتی ہے۔ خصوصا خواتین حاضری دیتی ہیں اور میلے کا سماں ہوتاہے۔ لیہ کے آثار قدیمہ میں آپ کا مزار اہمیت کا حامل ہے۔ مزار حضرت محمد یوسف لعل عیسن :آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر حضرت بہاؤالدین ملتانی سے جاملتا ہے۔ آپ 1545ء میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں کروڑ تشریف لائے ۔ یہ علاقہ قحط سالی کا شکار تھا، دریائے سندھ میں پانی نہ ہونے کے برابر تھا، اہل علاقہ نے آپ سے دعا کی استدعا کی آپ نے دعا فرمائی بارش ہوئی دریا پانی سے بھر گئے اور مچھلیاں بھی زیادہ تعداد میں دریا میں آگئی۔ سرائیکی مثل مشہور ہے:لائن
آیاکبھی بک حصہ پانی دو حصے مچھی ڈو آپ صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے آپ کی وفات 1580ء اور 1590ء کے درمیانی عرصہ میں ہوئی۔ میرانی حکمران غازی خان چہارم اور سردار اسماعیل خان ہوت نے آپ کا مزار شاہ رکن عالم ملتانی کی طرز پر بنوایا۔ آپکے مزار پر ماہ بھادوں کی ۱۴ تاریخ کو سالانہ میلہ” ، "چوڈویں دا میلہ لگتا ہے۔ لیہ کے آثار
قدیمہ میں آپ کا مزار بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ۵۔ مزار حضرت شہید محمد عارف سرائی کلہوڑہ :آپ کا سندھ کے معروف خاندان کا ہوڑہ سے تعلق تھا۔ کلہوڑہ عہد کے آخری فرمانروا میاں عبد النبی سرائی کلہوڑہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ کلہوڑہ دور حکومت سندھ کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ تقریبا کراچی سے کشمیر تک اس حکومت کی عملداری تھی جن کی حکومت میں کافی خاندان شامل تھے جس میں کلیری، منجھن کھوئے، پتافی ، نائچ،تالپور اور لکھی سرائی شامل تھے۔ پندرہویں صدی کے وسط میں اس خاندان کے جد اعلیٰ میاں آدم شاہ تھل میں تشریف لائے ۔ حضرت لعل عیسن کروڑ سے لیہ کے مقام پر ملاقات کی۔ سید محمد جو پوری کی تحریک مہدویہ پر گفت و شنید کی میاں آدم شاہ نے حضرت لعل عیسن سے علاقہ تھل میں تحریک کے احیاء کے لیے مشورہ مانگا تو آپ نے شاہ پور ( موجودہ سرگودھا) کی بستی جمالی بلوچاں کی نشاندہی فرمائی کے وہاں جائیں جمالی بلوچاں میں ایک مادر زاد فقیر رہتا ہے جس کا پورا علاقہ تھل مرید ہے، اس کی معاونت سے تحریک پھیل سکتی ہے۔ چنانچہ آپ وہاں تشریف لےگئے۔ قوم زنگیزہ کے روحانی بزرگ کو جب آپ نے دیکھا تو آپ نے فرمایا یہ تو صرف فقیر نہیں بلکہ ” کان فقراء ہے۔ اسی لقب سے بیڑہ خان زنگیزه کان فقیر کے نام سے معروف ہوا۔ میاں آدم شاہ نے انھیں اپنی تحریک کی غرض و غایت بتائی تحریک کے نیک مقاصد کے تحت کان فقیر نے تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کیا پھر آپ نے اپنے معتقدین کے ساتھ اپنے علاقہ تھل میں تحریک کے دائرے کھولے۔ تاریخ منکیرہ کے مصنف دوست محمد کھوکھر کی تحقیق کے مطابق تھل کی 120 قو میں تحریک میں شامل ہو ئیں۔ اور میاں آدم شاہ اور میاں کان فقیر رکھی سرائی کے ساتھ سندھ مراجعت کر گئیں۔ اتنی بھاری جمعیت سرائیکی زبان بولنے والوں سے تحریک کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ جس سے اہل سندھ نے میاں خان فقیر سرائی کو بھاگ وارڈ اور لیکھ وار“ کا خطاب دیا۔ جس سے وہ لیکھی معروف ہوا سرائیکی زبان بولنے والے ان خاندانوں کی وجہ سے سندھ میں کلہوڑہ حکومت کو استحکام ملا۔ اور تقریب 89 سال انھوں نے حکومت کی دربار میں تالپور اور لکھی خاندان وزیر اعظم مدارالمہام کے عہدوں پر متمکن رہے تھے۔ آخری فرمانروا میاں عبدالنبی سے تالپوروں نے بغاوت کی اور انھیں سندھ بدر کر دیا۔ 1782ء میں جنگ ہالانی میں تالپوروں سے شکست کے بعد خان آف قلات اور راجپوتوں کی امداد کا طلب گار ہوا لیکن کامیاب نہ ہوئے ۔ آخر کا ریکھی خاندان کی معاونت سے قلعہ لیہ، قلعہ گوہر والہ، قلعہ ٹوانہ فتح کئے اور کابل سے سند گورنزلیہ لے کرمیاں عبدالنبی کھیوڑہ کو والی تخت گاہ یہ بنایا جسمیں سپہ سالار میاں پایا لکھی کا اہم کردار ہے ۔ تاریخ لیہ کا بیان ہے کہ ” کابل کے بادشاہ نے 1789ء میں کچھی کی ریاست میاں صاحب کو عنائیت کی تھی۔ وہاں میاں صاحب 1793 تک راج کرتے رہے۔ مگر خرچ زیادہ تھا۔ تین لاکھ روپیہ تین سال کا خراج نہ دے سکے۔ جب میاں صاحب سے بادشاہ نے نواب محمد خان پٹھان ( سدوزئی ) کو یہ ملک واپس لکھ دیا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق معروف مورخ اور جرنلسٹ مرحوم برکت اعوان رقم طراز ہیں کہ افغان اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ محمد خان سدوزئی نے پہلے لیہ کی حکومت کے قلعہ پتل منڈا پر حملہ کیا جو یہ تھل کے صحرا میں واقع تھا۔ بعد ازاں قلعہ محمود کوٹ کو فتح کیا۔ پھر اسکے لشکر نے کچھ دنوں کے بعد یہ شہر کی فصیل کے باہر چاہ ڈیڈو والہ کے ملحق ڈیرے ڈال دیئے۔ میاں عبدالنبی سرائی کو پیغام دیا، لیہ کی حکومت حوالے کر دے لیکن میاں عبدالنبی سرائی نے بغیر جنگ کئے قبضہ دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اگلے دن چاہ ڈیڈ ووالہ کے قریب گھمسان کی جنگ ہوئی صبح سے شروع ہونے والی جنگ میں عصر یک کشتوں کے پھٹنے لگ گئے ۔ تیرہ سو آدمی محمد خان سدوزئی کے مارے گئے۔ عصر کے بعد محمد خان سدوزئی کی حملہ آور فوج میں پسپائی شروع ہوئی اور مغرب سے پہلے محمد خان سدوز کی کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ میاں عبدالنبی سرائی جو کہ خود جنگ کے وقت ایک ساٹھ سالہ بوڑھا حکمران تھا۔ اسکے نونہار نو جوان جنگجو فقیر بیٹے میاں محمد عارف شہید نے محمد خان سدوز کی کی بھگوڑی فوج کا پیچھا کیا۔ دور صحرائی جنگل میں چند خانہ بندوش لہانہ قوم کے لوگ آگ جلائے بیٹھے تھے ۔ میاں محمد عارف سرائی اور انکے ساتھی ان لیا نہ خانہ بدوشوں کو محمد خان سدوزئی کی بھگوڑی فوج کے افغان سپاہی سمجھے۔ اور انھوں نے انھیں اپنے دشمن یاڈا کو سمجھا۔ انھوں نے اپنی کئی بندوقیں تان کر میاں محمد عارف سرائی اور انکے ساتھیوں کی طرف داغ دیں۔ جسمیں میاں عارف اور انکے ہمرکاب جرنیل راجہ کبھی فقیر ( دوم ) موقع پر شہید ہو گئے۔ موضع جال والہ کے قریب محمد خان سدوزئی کوخبر ملی۔ اس نے فوج یکجا کی اور دوبارہ شہر لیہ پر حملہ کیا اور فتح کرلیا۔ میاں عبدالنبی سرائی نے اپنے نیک نوجوان بیٹے محمد عارف شہید اور راجہ کبھی دوم شہید اور ساتھیوں کو دفن کیا۔ اور جمعہ اہل وعیال جودھ پور کے راجہ بھیم سنگھ کے پاس چلا گیا۔ اس طرح سندھ کے کلہوڑا اسرائی کا اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔ ۶۔ (جس پر راجہ یکھی شہید کی اولاد میاں بہاول لیکھی نے 1333 جو بمطابق 1920ء میں شہید محمد عارف کا ہوڑہ سرائی کاعالیشان مزار تعمیر کرایا جو آثار قدیمہ لیہ کی ایک یادگار ہے۔)لیہ میں ہندؤں سکھوں اور انگریزوں کے آثار قدیمہ کی باقیات۔ دھرم سال کوٹ سلطان یا دھرم شالہ کوٹ سلطان لیہ جتنا علم و ادب و ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے عظیم ہے اتناہی قدیم ہے۔ دریائے سندھ کی ظالم طغیانیوں نے اس شہر دانش کو دوبار دریا برد کیا۔ آج کالیہ ہندو دور کی یادگار ہے۔ پورے شہر میں بلکہ اردگرد کے مضافاتی علاقوں میں ہندؤں کی تاریخی یادگاروں کی باقیات موجود ہیں۔ چند ایک کا درج ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔ان میں ایک یادگاریہ کے مضافاتی قصبے کوٹ سلطان میں دھرم سال“ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایکہندوؤں کا معروف مندر تھا۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق کئی ہاتھوں والی طاقتور ” درگا دیوی کی تصویر اور پھر سکھ دور میں یہاں گرونانک کی تصویر میں کنندہ کرائی گئیں۔ یہ اپنے عہد کی خوبصورت عمارت تھی ۔ دھرم شالہ کی عمارت بقول معروف محقق ڈاکٹر طاہر مسعود مہار کوٹ سلطان ساڑھے پانچ سو سال پرانے تخت ملتان کا قدیم قصبہ ہے۔ جو کہ سلطان حسین لنگاہ کے نام کی وجہ سے کوٹ سلطان مشہور ہوا ۔ یہ ہند و زائرین کے لیے انتہائی مقدس تھا۔ کیونکہ لالہ شام جی نے یہاں شام مندر کی بنیاد رکھی ۔ پھر بہت عرصہ بعد اسے مندر بارہ دری کے نام سے شہرت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس مندر کو دھرم شالہ یا دھرم سال“ کا نام دیا گیا۔ اس دھرم سال کی مرمت 1868ء میں مہنت لبائی اور چیلہ بھائی لیوا رام نے کرائی۔ جس کے اخراجات قلید اسن، کشن داس اور میگھراج سنیوں بھائیوں نے برداشت کیے اب یہ لیہ کے آثار قدیمہ کی باقیات میں شمار ہے۔ اور محکمہ تعلیم کے زیر تصرف
ہے۔۔۔

 شمشان بھومی کوٹ سلطان:

یہ ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کرنے کی ، جگہ جسے 1897ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اور سکھا شاہی یادگار
کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ اب اس جگہ سینما کی عمارت ہے۔ ۸؎

شمشان بھومی لیہ:

یہ بھی شہریہ سے کچھ فاصلے پر دریائے لالہ کے نزدیک تعمیر کیگئی تھی ۔ جہان ہندو دھرم کے لوگ مرگ کی آخری رسومات ادا کرتے تھے۔ اور پھر راکھ کو سپر د آب کر دیتے تھے ۔ سکھ دور میں اسکو بھی دوبارہ تعمیر کر دیا گیا۔
اب جس کے نشانات دریا کی بے رحم لہروں کی نذر ہو گئے ہیں۔

گا دیا گنوشالہ:

یہ مندر اور عمارت بھی ہندوؤس کی گائے ماتا کی پوجا کی مقدس جگہ ہے۔ یہ شہر کے حفاظتی بند کے ساتھ آج بھی اسکے آثار موجود ہیں۔ یہ پہلے 4 فرلانگ پیچھے معروف مسلمانوں کی عبادت گاہ نبی کر بلا سے ملحقہ تھا۔ یہاں پر 10 محرم کو تمام شہر کے تعزیہ کے جلوس آتے تھے ۔ اور ہندو وہاں گنوشالہ میں ڈھول اور گا سکے بجاتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوتے تھے۔ اور ہندو مسلم فسادات کا ماحول پیدا ہو گیا۔ نبی کربلا کامتولی سید مظہر امام ملتان کے ناظم دیوان ساون مل کے بیٹے کرم نرائن چند جو کہ (لیہ کا ناظم تھا) کے پاس درخواست گزار ہوا۔ اس نے ہندوؤں کے ڈرسے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اسے اپنے باپ دیوان ساون مل کے پاس ملتان جانے کا مشورہ دیا۔ دیوان ساون مل انصاف پسند اور زیرک حکمران تھا۔ اس نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے امام کی نبی یا نبی کربلا جسکی بنیاد بانی شہر سردار کمال خان میرانی نے رکھی تھی ۔ بانی شہر اور مسلم سوسائٹی کے احترام میں 4 فرلانگ آگے گا ؤشالہ کو منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ۔ آج بھی یہ گاؤ یا گنوشالہ مقام پر موجود ہے۔
معروف دانشور اور محقق پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین کے مطابق تقسیم ہند سے قبل لیہ کے لوگوں کا مذہب اسلام اور ہندومت تھا۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے تھے۔ تاریخی واقعہ ہے کہ نانوں آلہ تھلہ کے پاس گا ؤشالہ پر ہر سال موسیقی ہوتی تھی اور دور دور سے گائیک آیا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ہندو گائیک گھن پت (ملتان) بھی آتا تھا، جو گانے سے پہلے حسینی دوہڑے سناتا تھا۔ اس لیے کوگ اُسے حسینی بھانبڑ بھی کہتے تھے ۔ ہندوؤں کے تہواروں پر مسلمان اور مسلمانوں کے تہواروں پر ہندو نہایت عقیدت واحترام سے آتے تھے یہ رویہ یہاں کے لوگوں کی کائناتی محبت اور رواداری کا ترجمان ہے۔ اےاسی روایت کو میرے والد گرامی میاں غلام حسین دیکھی سرائی یوں بیان فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کے معروف گائیک سری گھن پت پریم مندر نز د دربار شهید محمد عارف کلہوڑہ سرائی“ آیا، اپنے بھجن گا رہا تھا۔ کہ اسکے کانوں پر دربار شہید محمد عارف کے سالانہ مجالس میں پڑھنے والے ذاکر سید شبیر شاہ
( بلبل پنجاب ) کی آواز پڑی۔ تو اس نے اپنی گائیکی روک دی اور کہا کہ سید شبیر شیر شاہ قبلہ مجھ سے زیادہ موسیقی کے راگوں پر عبور رکھتا ہےاور چلو پہلے اُسے سنتے ہیں۔ چنانچہ وہ تمام ہندوؤں سمیت امام بارگا و در بارشہید محمد عارف پر حاضر ہوا۔ ااے مند رمائی ماتاں: موجودہ لیہ دریائے سندھ کی دریا بردی کے بعد ہندو پریڈ کی یادگار ہے۔ جہاں ہندو ازم کے اور آثار حالات کی ستم ظریفی سے معدوم ہو گئے ہیں۔ وہاں آثار قدیمہ کے مئے نشانات میں مائی ماتاں کا مندر بھی اپنا آخری نشان دکھا رہا ہے۔ یہ شہر ریلوے لائن کے مشرقی جانب پر مندر موجود ہے۔ جس کے گرتے گنبد اور مڑی جال کے درختوں میں چھپی باقی ہے ۔ مڑی اس جگہ کو کہا جاتا ہے ۔ جہاں ہند و اپنے مردوں کی راکھ دفن کرتے تھے۔ بقول معروف مورخ و دانشور پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین 1878ء کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق مائی ماتاں کے گردو نواح کو چاہ ما تاں والا کہا جاتا ہے۔ اس جگہ کا مالک باوا اور دواس چیلا با وا کنول داسی قوم فقیر بیرا گی تھا۔ کہا جاتا ہے مائی ما تا ہندو گھرانے کی عورت تھی لیکن رام رام کی بجائے ذکر الہی کیا کرتی تھی ۔ اسکے خاندان والے اسے منع کرتے۔ ایک روز وہ اسے قتل کرنے نکلے۔ وہ حضرت کمو کامل کی پناہ میں آگئی ۔ جنھوں نے اسے دائر و اسلام میں کر دیا اور برگد کے درخت کے نیچے عبادت کرنے اور چیچک کے مریضوں کا علاج کرنے کا ازن دیا۔ مائی ماتا کے پاس چیچک کے مریضوں کو لایا جاتا ایک ہفتہ انکو ایک کمرہ میں رکھا جاتا۔ لوگوں سے ملنے نہ دیا جاتا۔ اور انھیں بفضل تعالیٰ شفا ملتی تھی۔ چرخہ کات کر دھا گے دم کر کے دیتی۔ حکم ربی مریض شفایاب ہوتے ۔ انھیں کالی ماتا بھی کہا جاتا ہے۔ لیہ میں مائی ماتاں کا مندر شہر میں تصوف کی روایت کو تو انا بناتی ہے۔ یہاں کے لوگ دین دھرم کی تفریق سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کا احترام کرنے والے رہے ہیں۔ ۱۲؎
۶۔ مندر سری گاڑھولال : مندر گاڑھولال کی تعمیر 1500 ء یا 1526ء کے درمیانی عرصہ میں ہوئی۔ گا ڑھولال ایک برہمن تھا۔ جو کہ حضرت علی را جن کا معتقد تھا۔ مندر کی تعمیر سیمنٹ اور چونے سے کی گئی ہے۔ یہ لیہ شہر سے تقریباً 25 میل علی راجن شاہ روڈ پر کروڑ لعل عیسن کے علاقہ میں واقع ہے۔ مندر کے اندر بہترین انداز میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصاویر اور راون کی جنگ کی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔ روایت ہے کہ یہ علی راجن شاہ دربار کے پانی کے منکے بھرتا تھا۔ اور زائرین کو پانی پلاتا تھا۔ آج بھی اپنی اچھی حالت میں موجود ہے۔ آج بھی تقسیم ہند کے بعد مسلمان پریمی جوڑے یہاں آتے ہیں۔ اور منتیں مانتے ہیں۔ چیت کے مہینے میں لوگ علی راجن شاہ کی زیارت کو آتے ہیں تو وہ یہاں بھی آتے ہیں۔ آج بھی اس برہمن زادہ گاڑھو لال کے مندر کے نام 121 ایکڑ رقبہ وقف ہے۔ جسے فداحسین نامی شخص نے بیٹے پر لے رکھا ہے۔ ۱۳۔
۷ پریم مندریہ یہ مندر اپنی حیثیت اور تاریخ کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہ مندر در بارشہید محمد عارف کے بجانب جنوب گلی میں واقع تھا۔ جس میں ہندو دھرم کے لوگ اپنی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ اسے 1920ء میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ اور ڈھینگڑاں برادری کی ملکیت تھا۔ یادر ہے کہ ڈھینگراں برادری لیہ کی معروف متمول برادریتھی جو تقسیم ہند کے بعد انڈیا میں پانی پت کے مقام پر جاگزیں ہوئی۔ اسی برادری نے اپنے لیہ کے اس پر یم کا مندر کی فروری 2020ء میں (1920 ء تا 2020 ء ) صد سالہ جشن پانی پت انڈیا میں منایا (بقول پرم ویرڈھینگڑاں ایڈووکیٹ )- قدیمی ڈھینگڈاں محلہ گڑیا نوی محلہ موجودہ ) اور انکے کھوہ (کنویں) لیه شهر چونکہ دو بار در یا سندھ کی بردگی کے بعد اب ہند و طرز تعمیر کا بنایا ہوا شہر موجود ہے۔ یہاں پر تقسیم ہند سے قبل ہندو برادری شہر کی تجارتی اور کاروباری برادری گردانی جاتی تھی۔ ان میں سے ایک برادری ڈھینگراں فیملی کی تھی جو لیہ کے معروف کاروباری اور بزنس مین تھے ۔ جنھوں نے 1947 ء سے قبل اپنی رہائش گاہوں کو ڈبل سٹوری نہایت ہی عمدہ چونے اور سیمنٹ سے تعمیر کر دیا۔ اور انکے دور کے چوبارے اور کوٹھیاں آج بھی پختگی اور فن تعمیر کی اعلی مثالیں ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر اس ویوڈھینگوں کی کوٹھی جو کہ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر قیصر رضوی کو الاٹ ہوئی آجکل انکے بیٹے کیپٹن (ر) ڈاکٹر سید قمر عباس رضوی کی ملکیت ہے۔ فن تعمیر کی شہکار عمارت ہے۔ اسی طرح اس سے ملحقہ شاندار کوٹھی سیٹھ برج لال ڈھینگوں کی تھی ۔ جس کے درو دیوار اور بالا خانوں پر ایسی لکڑی ( چیر دیار ) کا کام قابل دید ہے۔ اور آج بھی 74 سال بعد بھی اپنی فنی پختگی اور کاشی کاری کے شاہکار نمونے ہیں۔ اسی طرح ان ہی برادری سے تعلق رکھنے والے ، گوپال داس ڈھینگراں اور بال کشن ڈھینگراں کے باغات اور کھوہ معروف تھے۔ ان باغات کے ارد گرد بچے گلابوں کی باڑ لگی ہوتی تھی اور باقاعدہ دروازے اور رستے بنے ہوئے تھے۔ جن کے آثار آج بھی پل ہزاری سے نیچے جانے والی سڑک پر گو پال والا کھوں اور بال کشن کھوہ کے دروازوں کے منارے گواہی کے طور پر موجود ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت ایک روایت کے مطابق 1700 ایکٹر پر مشتمل خوبصورت باغات ڈھینگراں فیملی نے چھوڑے ہیں۔ اس ڈھینگڑاں محلہ سے ملحقہ محلہ پہلے والا بھی ہندو دور کی طرز تعمیر کی یادگار ہے۔ جس میں آجکل مہاجرین اور شیخ خاندان رہائش پذیر ہیں۔ ۱۴۔
بنگلہ رائے بہا در تلوک چند (موجودہ ایم سی گرلز ماڈل ہائی سکول لیہ )
لیہ شہر میں امراء ہندوؤں کا تذکرہ قبیل اسکے کر چکے ہیں۔ ہندو دور کی ایک اور قدیم اور آثار قدیمہ کی خوبصورت یادگار عمارت لیہ شہر کے وسط میں صدر بازار کے ساتھ بنگہ رائے بہا در تلوک چند کی کوٹھی ہے۔ رائے بہا در تلوک چند کا شماریہ کے امیر کبیر ہندوؤں میں ہوتا تھا۔ یہ دراصل تحصیل کوٹ ادو کا رہائشی تھا۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں رائے صاحب یہ مقیم ہو گئے۔ اسکالیہ اور اسکے مضافات کوٹ سلطان، احسان پور، دائرہ دین پناہ اور کوٹ ادو میں کافی اثر و رسوخ تھا۔ آپکے دادا لیکھو رام کو گورنر سانگھڑ نے دیوان کا عہدہ دیا تھا۔ تلوک چند نے نائب تحصیلدار سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک 36 برس مختلف عہدوں پر سرکاری ملازمت کی ۔ آپ کلاس ون اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ لیہ میں اس نے ایک وسیع و عریض بنگلہ تعمیر کرایا۔ تقسیم ہند کے وقت اُنکا خاندان انڈیا شفٹ ہو گیا اور یہ بنگلہ سرکاری تحویل میں آ گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد یہاں حکومت پاکستان نے سکول قائم کر دیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس بنگلے میں بہت سے خزانے دفن تھے۔ اور 1980ء کی دہائی تک یہاں سے سونے کی دیگیں برآمد ہوتی رہیں۔ آجکل رائے بہادر تلوک چند ( آئی۔ایس۔ او) کا بنگلہ گورنمنٹ گرلز ماڈل ہائی سکول لیہ سے جانا جاتا ہے۔ اور آج بھی اس بنگلے میں تعمیر شدہ ہال اور عمارات ، کمرہ جات فن تعمیر کے شاہکار گردانے جاتے ہیں۔ ۱۰- آسارام بھر اتری سکول ( موجودہ ایم سی ماڈل بوائز ہائی سکول لیہ ) لیہ شہر کے دل اور وسط میں اس سکول کی ایک شاندار اور یادگاری تاریخ ہے۔ 1901 ء میں فوڈ گرین کے دفتر میں انجمن بھر اتری” نے پرائمری سکول کا آغاز کیا۔ جس کو لالہ اندر بھان ڈھینگراں نے 1923ء میں (دستکاری سکول موجودہ ) اپنی سر پرستی میں لیا۔ اس مکان میں سکول بنا جو در بار شہید محمد عارف کے بالمقابل ایک مشہور ہندو جوتشی کا تھا۔ 1912 کو اس سکول کو مڈل کا درجہ دیا گیا اور اس کو موجودہ ایم سی ہائی سکول نمبر 1 نزد پرانی سبزی منڈی میں منتقل کر دیا۔ انجمن کے متمول ہندوؤں کے باہمی تعاون سے سکول کے اخراجات برداشت کئے جاتے تھے۔ جسکا مہر الا لہ اندر بھان ڈھینگوں کے سر تھا۔ اور انھوں نے 3 مارچ 1924 ء کو اس سکول کا افتتاح کیا۔ اور مکمل اخراجات اپنے ذمہ لیے۔ دو سال بعد 1926ء میں بلڈنگ کی تعمیر مکمل ہو گئی ۔ سکول میں پہلے تعینات ہونے والے ہیڈ ماسٹر لالہ آسارام گھمبیر پہلے ہیڈ ماسٹر تھے۔ جن کا تعلق کروڑ لعل عیسن سے تھا اور وہ قیام پاکستان تک بڑی جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ یہ بلڈنگ شہر کے وسط میں موجودہ امام خانہ حسینہ لیہ کے بالمقابل تعمیر ہوئی۔ اس میں لالہ اندر بھان نے بھر اتری انجمن کے پلیٹ فارم پر بہت خرچ کیا۔ انجمن کے قواعد کے مطابق لا ولد فوت ہونے والے ہندوؤں کی جائیداد بھی اس سکول کی کمیٹی کے نام وقف کر دی جاتی تھی۔

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com