نسل انسانی کی بقا اور اس کی سالمیت میں پانی کا اہم کردار رہا ہے ۔ زراعت، کھیتی باڑی کرہ ارض پر انسان کے وجود کے ضامن ہیں۔ دونوں کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں ۔ ہماری بنیادی ضرورت پانی اور زراعت کا کلیدی کردار ہے۔ زمین شروع ہی سے پانی کی مرہون منت رہی ہے۔ قدیمی یعنی پتھر کے دور میں انسانی زندگی اور زراعت دریاؤں ، ندی نالوں اور چشموں کے قرب و جوار تک محدود رہی چونکہ انسانی فکر محدود اور جدید ذرائع آبپاشی نہیں تھے ۔ انسانی سوچوں کے دائرے بڑھے۔ زیر زمین آبی ذخائر دریافت کیے۔ بہتے پانیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر زراعت کو دور دور تک پھیلا دیا گیا۔ زراعت کے پھیلاؤ اور ترقی کے باوجود موجودہ صدی میں بھی بہت سے دور افتادہ اور پس ماندہ علاقے ایسے ہیں جہاں نہ دریاؤں کا پانی ہے اور نہ زیر زمین آبی ذخائر ۔ اس وقت ایک سروے کے مطابق وطن عزیز کا کل رقبہ تقریباً 47.22 ملین ایکٹر ہے جس میں 39.25 ملین ایکٹر زیر کاشت ہے جو کل رقبے کا %83 ہے 7.97 ملین ایکٹر زیر کاشت نہیں ہے۔ بعض صحرائی علاقے تھل زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور کسان ہماری زراعت کی جان ہیں ۔ ہمارا مستقبل صنعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ زراعت سے وابستہ ہے۔ کامیاب زراعت کا دارو مدار کاشت کاروں کی محنت اور فراہم کی جانے والی سہولتوں پر ہے۔ دوسرے ناگزیر عوامل کے علاوہ فصلوں کے لیے پانی کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے۔ فصلوں کی روئیدگی اور نشو و نما کے لئے پانی کی مطلوبہ مقدار کی بروقت فراہمی کی انتہائی ضرورت ہے۔ پانی کی اہمیت کا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے جن پر ہرقسم کی زندگی کا دارو مدار ہے تقریباً %95 تک پانی ہی سے نشو و نما پاتے اور پروان چڑھتے ہیں۔
زرعی بینک کا کردار:
زرعی ترقیاتی بینک ابتدائی تحقیق کے بعد اس نکتے پر پہنچا ہے کہ کاشتکار قرضے کا حقدار ہے۔ آسان قسطوں میں کھاؤ پیچ وغیرہ کے لیے قرضہ جاری کرتا ہے۔ زرعی منصوبہ بندی کے سلسلے میں ہر کاشتکار مطلوبہ پیداوار میں اضافے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ مقاصد حاصل کرنے کے بعد مروجہ بینک کے قوانین وضوابط کے تحت قرضہ کی واپسی ہوتی ہے۔ کاشتکار برادری کی بروقت مالی امدادمیں زرعی بینک کا کردار نمایاں ہے۔ تقل منصوبہ اصلاح آب پاشی 1981ءحکومت پاکستان نے آبپاشی کھالوں اور ناہموار کھیتوں میں ضائع ہونے والے بیش قیمت پانی کے تدارک کے لیے سال 77-1976ء میں منصو بے اصلاح آبپاشی کو بطور پائلٹ پروجیکٹ متعارف کرایا جو اپنی گونا گوں خوبیوں اور اعلی کارکردگی کی بنا پر تھوڑے ہی عرصے میں پنجاب کی سات تحصیلوں سے نکل کر اب پورے صوبے کی بشمول لیہ تمام تحصیلوں میں سرگرم عمل ہے۔ ذرائع آبپاشی کی اصلاح اور بہتری کے لیے مارچ ۱۹۸۸ء تک ایک کروڑ انتالیس لاکھ روپے خرچ کیے۔ سال ۸۸ – ۱۹۸۷ء کے دوران محکمہ نے تقریباً ۱۰۰ نہری کھال مکمل کیے ۔ نکہ جات اور پلیاں بھی نصب کی گئیں ۔ محکمہ ہر مالی سال میں کھالہ جات کی پختگی کرتا رہا ہے۔ پختہ کھال کی تعمیر اور پلستر میں سیمنٹ اور ریت کا تناسب ایک اور تین رکھا گیا ہے۔ خرچ شدہ میٹریل %25 حصہ کھال کی تعمیر کے دو سال بعد 10 شمشاہی اقساط میں حصہ داران کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
پاسکو:
گندم کی کٹائی کے بعد پاسکوفیلڈ میں ہزاروں ٹن گندم اپنے خصوصی مراکز (چوک اعظم، فتح پورا کروڑا نیہ ) میں سٹور پیج کرتی ہے۔ محکمہ خوراک ضرورت سے زائد غلہ اگر ضلع کے باہر لے جانے پر پابندی نہ ہو تو علاقائی فلور ملوں کو فراہم کرنے کے علاوہ صوبائی حکومت کی ہدایت پر دیگراضلاع کو بھی بھیجتا ہے۔ محکمہ کی خرید تقریباً ۹۵ ہزارٹن سے زائد ہے جو گندم کا ہدف مقرر ہے۔
فصلات:
خاص زرعی پیدوار گندم، کپاس، چنے، گنا، دالیں، جوار کی جو اسی سبزیاں گوارا باجرہ اور مونگ پھلی ہیں۔ اس ضلع کی پیدواری صلاحیت اتنی ہے کہ خوراک کے سلسلے میں خود کفیل ہے۔ اگر آسمانی آفات سے فصلیں محفوظ ہوں تو علاقائی فصلات کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتاہے۔ دریائے سندھ میں ہر سال سیلاب آنے کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوتی ہیںیا سکو نے ضلع لیہ سال میں ۹۴-۱۹۹۳ء کے لئے ۲۳ ہزار مراکز برائے خریداری گندم قائم کیے تھے جہاں پر مقامی زمینداروں اور کاروباری حضرات کو مقامی بنکوں کے ذریعے بر وقت ادائیگی کی جاتی رہی تاکہ باردانہ کی فراہمی میں بھی کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔