انسانی تمدن کی تاریخ بے حد دلچسپ ہے۔ انسان نے دنیا کے تقریباً ہر خطے میں اپنی ضروریات کے مطابق بستیاں آباد کیں، بنجر زمینوں کو سرسبز بنا دیا، پہاڑوں پر شہر بسائے دریاؤں کے دل چیرے ساحلوں کے ساتھ تاریخی عمارتیں تعمیر کیں نت نئے تمدن پیدا کئے اور علوم وفنون اور ہنر کاری سے بیش قیمت تہذیبی ورثوں کو وجود بخشا۔لیہ بھی قدیم انسانی تاریخ کا ایسا ہی حصہ ہے جو ہر دور میں زندہ اور تابندہ رہا اور آج بھی زندگی سے بھر پور ہے۔ محبتوں اور خلوص کی یہ سرزمین وفاداری اور وسیع المشربی کا افسانوی علاقہ ہے جہاں کی شاعری میں چھپی۔ ہجر و وصال کی داستانوں میں کونجوں کی دل گداز صدائیں اور کر لائیں، حسن و جمال میں قلوپطرہ کے خدو خال اور ذہانت میں فکر یونان کی مہکار شامل ہے۔ یہاں کی موسیقی سے دلوں کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں اور یہاں کی ثقافت مانگے کی نہیں
بلکہ مقامی سرمایہ ہے۔ قدیم دور میں سلطان حسن لنگاہ مہمان کے حاکم تھے ۔ انہوں نے کچھ علاقے مقامی بلوچ قبائل کو دے دیے تھے۔ لیہ ڈسٹرکٹ گزیٹر کے مطابق میرانی بلوچ خاندان نے اس علاقے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ اسی خاندان کے کمال خان میرانی نے ۱۵۵۰ء میں شہریہ کو آباد کیا، لیکن یہ شہر کمال خان کے نام سے منسوب نہ ہو سکا بلکہ اس علاقے کی مخصوص نباتات لئیاں“ کی مناسبت اور اس کے یہاں کثرت سے استعمال کے باعث اس شہر کا نام لیہ پڑ گیا۔ لیہ نے راجہ داہر محمد بن قاسم بلوچ قبائل، احمد شاہ ابدالی رنجیت سنگھ اور برطانوی سامراج کا دور دیکھا ہے اور پھر تحریک پاکستان میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
لیہ کے شمال میں ضلع میانوالی اور بھکر، جنوب میں ضلع مظفر گڑھ اور کوٹ ادو کے صنعتی شہر مشرق میں جھنگ اور مغرب میں ڈیرہ غازی خان اور فورٹ منرو سے گھرا ہوا ہے۔ ضلع لیہ میں کیہ شہر، کروڑ اور چوبارہ شامل ہیں۔ لیہ کو ضلعی حیثیت بہت پہلے برطانوی عہد میں بھی دی گئی تھی۔ اس وقت اس ضلع میں میانوالی اور خوشاب کے علاقے بھی شامل تھے۔ بعد میں اس کی ضلعی حیثیت ختم کر دی گئی۔ 1982ء میں لیہ کو دوبارہ ضلع بنا دیا گیا ۔ ضلع کا کل رقبہ ۲۴۲۸ مربع میل ہے۔ ضلع کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ شہر کی آبادی کم از کم تین لاکھ ہے۔ لیہ ڈیرہ غازی خان سے ۱۳۲ کلومیٹر، ملتان سے ۷۷ کلومیٹر اور لاہور سے براستہ جھنگ ۳۷۲ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لیہ سے بسوں اور ویگنوں کے ذریعہ ملتان، ڈیرہ غازی خان کروڑ چوک اعظم کوٹ سلطان کے لئے ہر وقت سفر کیا جا سکتا ہے۔ بسوں کا اڈہ شہر سے تین کلو میٹر دور ہے جبکہ دیکھوں کے اڈے شہر کے قلب میں واقع ہیں۔ لیہ ریلوے اسٹیشن شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ ریلوے لائن شہر کے درمیان سے گزرتی ہے اور شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ ریلوے لائن کی مغربی سمت قدیم تہ اور مشرقی جانب جدید لیہ آباد ہے۔ شہر کے اندر آمد و رفت کے لئے تانگے ، رکشے اور ڈالے استعمال ہوتے ہیں۔ شہر سے نزدیک ترین ہوائی اڈہ ملتان کا ہے۔
ضلع لیہ کا زیادہ حصہ ریتا ہے جسے تھل کہتے ہیں۔ اس کا بڑا حصہ غیر آباد ہے۔ بقیہ حصہ نشیبی دریائی میدان پر مشتمل ہے جہاں فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ۔ لیہ میں ایک ہی نہر ہے جو تھل نہر کہلاتی ہے۔ اس نہر کے ذریعے پانی مختلف علاقوں میں پہنچایا گیا ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ یہ والے دوسرے پیشوں کے مقابلے میں زراعت کو اپنانا زیادہ پسند کرتے ہیں، یوں تو بہت سے شہری سرکاری اداروں، شکر کے کارخانوں اور تجارت کے پیشے سے بھی وابستہ ہیں۔ مرغبانی، ماہی پروری دنبہ پروری اور بھیٹر بکریوں کی افزائش کے کاروبار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ متحمل نہر ضلع میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ سے نکالی گئی ہے۔ یہ نہر سارا سال رواں رہتی ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق مزید ایک نہر گریز تقل“ کے نام سے نکالی جارہی ہےجو میانوالی، بھکر سے ہوتی ہوئی نواں کوٹ کے راستے ضلع لیہ میں داخل ہوگی۔ لیہ میں پہلے درختوں کی کی تھی۔ اب یہ صورت نہیں ہے۔ یہاں کی آب و ہوا گرم و خشک ہے۔ موسم گرما میں تند و تیز آندھیاں چلتی ہیں ۔ بارش یوں تو بہت کم ہوتی ہے لیکن جب ہوتی ہے تو جل تھل ایک ہو جاتا ہے۔ فروری تا اپریل موسم بہار رہتا ہے۔ یہ کسانوں کے میلوں اور شادی بیاہ کے لئے مخصوص موسم ہے۔ لیہ کے نہری علاقوں میں آم مالٹا کینو اور لیموں کے باغات ہیں۔ آم اور کھجور میں یہاں کی خاص سوغات ہیں۔ اجناس میں گندم گوار، چنا، گنا، کپاس اور سبزیوں کی پیداوار ہوتی ہے۔
لیہ میں طلباء و طالبات کے متعدد تعلیمی ادارے علم کی جوت جگائے ہوئے ہیں ان تعلیمی اداروں میں گورنمنٹ ماڈل اسکول گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، کمرشل کالج، پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کی جدید عمارتیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ لیہ اسکول میں انگریزی ذریعہ تعلیم رائج ہے۔ طالبات کے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی قائم ہیں۔ مجموعی طور پر شہر میں پچاس ساٹھ ہزار طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ برس لیہ گریجویٹ کالج میں ایم اے بلاک تقریباً ۴۰ لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا ہے۔ یہاں ایم اے انگریزی کی کلاسیں جاری اور ایم اے اردو کی کلاسوں کا جلد آغاز ہونے والا ہے۔
تشنگان علم کے لئے کتب خانہ اشرفیہ کتب خانه مدرسه العلوم، علامہ اقبال میموریل لائبریری، ڈاکٹر ذوالفقار علی لائبریری، شمع لائبریری کتب خانہ مدرسہ نعمانیہ لیکھی لائبریری الرائد سینٹر اور بلد یہ لائبریری چشم براہ رہتے ہیں۔
لیہ کے مقامی اخبارات میں روز نامہ اور نوائے حق، پاسبان تھل اور ہفت روزہ صبح پاکستان کہ عنقریب یہ کسی بھی دور ہو جائے گی۔ قابل ذکر ہیں۔ یہ کلب ان دنوں زیر تعمیر ہے۔ لیہ میں طباعت کی سہولتیں بہت کم ہیں توقع ہے لیہ علمی اور ادبی اعتبار سے ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جو آج کل نہرو یونیورسٹی دہلی میں صدر شعبہ زبان اردو ہیں۔ یہ گورنمنٹ ہائی اسکول کے لائق طالب علم رہ چکے ہیں ۔ معروف ماہر تعلیم عبداللہ نیاز مرحو اور ڈاکٹر مہرعبدالحق بھی الیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہی بخش سرائی لیہ کی تاریخ پر سند سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس پانچ ہزار برس قدیم نوادرات کا عظیمنخزانہ موجود ہے۔ ایک نوجوان مؤلف نور محمد نے اولیائے لیہ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ آج کل و ولیہ کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کے مشہور کھلاڑی عامر ملک اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ ریشماں کا تعلق بھی لیہ سے ہے۔
صنعتی میدان میں بھی یہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں لیہ شوگر ملز کے نام سے شکر سازی کا ایک بڑا قدیم کارخانہ قائم ہے۔ کپاس بلینے کے تین کارخانے اور گتہ بنانے کی ایک فیکٹری بھی کام کر رہی ہے۔ قالین بانی دریاں اور کھیں بنانے کے ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ لیہ ابتدا ہی سے دستکاری اور ہاتھی دانت کی صنعت کے سلسلے میں مشہور ہے۔ یہاں بننے والی کھجور کے پتوں کی مصنوعات مثلاً ٹوکریاں بان، جائے نماز چٹائیاں اور دوستی سیکھے لیہ کی خصوصین سوغات کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیہ ٹیکسٹائل ملز کا منصوبہ زیر غور ہے۔ امراض کے خلاف جدو جہد میں ضلعی سطح پر ہسپتال بھر پور انداز میں حصہ لے رہا ہے۔ دیہی ہیلتھ سنٹر بھی قائم ہیں۔ ضلع بھر میں بھی ڈاکٹروں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ ہے۔ لیہ کے شہری خوش شکل صحت مند وجیہہ خوش لباس اور ملنسار ہوتے ہیں۔ دھوتی یا شلوار پسند کرتے ہیں۔ تا ہم بہت سے شہری پتلون قمیص کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہر میں سرائیکی، ملتانی، پنجابی اور اردوزبانیں بولی جاتی ہیں۔ بروہی، سندھی اور بلوچی زبانیں بولنے والے بھی مل جاتے ہیں۔ لیہ کے شہری جدید رہن سہن کے مقابلے میں روایتی طرز زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں عام پاکستانی کھانوں کے علاوہ بھی اور ثوبت بہت مقبول ہیں۔ بیجی دنبہ کی ران سے تیار ہوتی ہے جبکہ لذیز شور بے میں نان بھگو کر کھایا جائے تو ثوبت” کہلاتا ہے۔ یہاں کے لوگ مذہبی رجحانات کے حامل ہیں شہر کی مساجد پانچوں نمازوں کے اوقات میں آباد دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کی اہم مساجد میں مسجد کر نال والی نوری مسجد مسجد قادر آباد مسجد اللہ والی مسجد شیخاں والی جامع مسجد مدینہ العلوم قدیمی امامیہ مسجد شامل ہیں۔ یہ شہر کا طرز تعمیر قدیم وجدید عمارتوں سے عبارت ہے۔ چھوٹی اینٹوں کے قدیم انداز کے مکانات کی تعداد خاصی ہے جو قیام پاکستان کے قبل کے طرز تعمیر کے عکاس ہیں۔ تاہم جدید قسم کے مکانات بھی بنائے گئے ہیں۔ شہر کے مشہور محلوں میں پہلے والا، جکھڑ والا بستی بھونگ، شیخاں والہ قاضی والا گڑیا نوی والا ، سرائی محلہ محلہ کر بلا محلہ شاہ لطیف شامل ہیں۔ جدید آبادیوں میںن ہاؤسنگ کالونی (فیز نمبر ۲) ٹی ڈی اے کالونی منظور آباد حافظ آباد رحمن آباد جناح کالونی، پانچ مرحلہ سکیم آفیسرز کالونی قابل ذکر ہیں۔
شہروں کی رونق ان کے بازاروں کے دم سے ہوتی ہے۔ یہ شہر کو بھی رونق بخشنے میں یہاں کے بازاروں کا بڑا عمل دخل ہے۔ شہر کے مرکز کو چوبارہ روڈ ملاتی ہے۔ ملک کے تمام بڑے بینکوں کی شاخیں اور اہم کاروباری مراکز اسی سڑک پر واقع ہیں۔ چوبارہ روڈ سے متصل ایک بازار ہے جسے صدر بازار کہا جاتا ہے۔ اس میں کپڑے، برتنوں، مٹھائیوں، مشروبات، میوئے سبزیوں اور کریانہ کی دکانیں ہیں۔ صدر بازار سے کئی دوسرے چھوٹے بازاروں کے راستے نکلتے ہیں۔ ان میں موتی بازار بینی بازار شمالی دروازه بازار صرافه بازار شامل ہیں ۔ چوک قصاباں کپڑا رنگنے والوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ صدر بازار میں دھوپ سے بچاؤ کے لئے سائبان تعمیر کیا گیا ہے۔ صدر بازار مرکزی کاروبار کے لئے مخصوص ہے۔ عید گاہ چوک میں آفتاب شاہ مارکیٹ ہاؤسنگ کالونی شاپنگ سنٹر اور علی مارکیٹ شہر کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔
شہر کی قدیم عمارتوں میں سرائے گا با مشکھنے والا برج گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول قابل ذکر ہیں جبکہ جدید عمارتوں میں گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول گورنمنٹ پوسٹ گریجوٹ کا لج ، خواتین کا انٹر کالج، پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ’ کمرشل کالج، ڈی سی کمپلیکس (جہاں ضلعی دفاتر واقع ہیں) جنرل پوسٹ آفس اور کنال گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس بھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ نیہ کے شہری عوامی کھیلوں کے شوقین ہیں۔ ان میں اونٹ ریچھ اور کتوں کی لڑائی ، خرگوش اور کتوں کی دوڑ مرغ بازی تیتر بازی اور بٹیر بازی زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ بیلوں کے سالانہ میلے منعقد ہوتے ہیں۔ کبڈی یہاں کا مقبول کھیل ہے۔ تا ہم ہا کی کرکٹ ٹینس، فٹ بال، والی بال نیز درون خانہ کھیل مثلا بلیر و کیرم وغیرہ بھی رائج ہیں۔ فیصل تحسین پارک اور ویرا سٹیڈیم عوامی کھیلوں کے لئے مخصوص ہے۔ دیر اسٹیڈیم مشہور شاعر مصطفیٰ زیدی مرحوم نے اس وقت تعمیر کر دیا تھا جب وہ یہاں ایس ڈی ایم تھے۔ اس سٹیڈیم کو ان کی اہلیہ ویرا کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ویرا سٹیڈیم میں ضلع کی سطح کے سالانہ اولسیک ٹورنامنٹ منعقد ہوتے ہیں جو ہفتوں جاری رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ اگست اور تمبر میں کرکٹ اور فٹ بال کے فلڈ لائٹ ٹورنا منٹ (رات میں کھیلے جانے والے کھیل ) منعقد ہوتے ہیں جن میں ملک بھر سے آنے والی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ موسم گرما میں تیہ کے زندہ دل شہری کنک منانے کے لیے لیہ سے بیس کلو میٹر دور مشرق میں ٹیل انڈس جاتے ہیں۔ ٹیل انڈس یعنی دریائے سندھ کی دم یا آخری حصہ در اصل یہ نہر کی ایک شاخ ہے جو شمال کی سمت ہیڈ تا تار سے نکلتی ہے۔ بارہ فٹ چوڑی اور آٹھ یا نوفٹ گہری یہ نہر پکنک کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد آم دیگر لوازمات اور موسیقی کے سامان کے ساتھ ٹیل انڈس جاتی ہے۔ سرسبز درختوں تلے تفریح مناتی ہے اور پیرا کی سے لطف اندوز ہوتی ہے اس پورے عمل کو سرائیکی زبان میں سانونی” کہتے ہیں۔ شہر میں سینما گھروں کی تعداد تین ہے۔ لیہ کو پہلی بار دیکھنے کے بعد دو قسم کے تاثر ابھرتے ہیں۔ پہلا تاثر تو یہ ہے کہ لیہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے اور قدیم تاریخی اعتبار سے تین سو اقوام کا سنگم ہے۔ چنانچہ ان کی لسانی اور ثقافتی زندگی کا مظہر ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ شہر اردو پنجابی، بلوچی بولنے والوں اور وزیرستانی اور سرحد کے آباد کاروں کی وجہ سے مخلوط زندگی کے بھر پور اثرات لئے ہوئے ہے۔ یہاں آج بھی اونٹوں پر بیٹھ کر چلنے والی باراتیں قدیم ثقافتی ورثہ کی علامت ہیں۔ ساتھ ہی چمکتی دمکتی کاریں، رکشے اور دیگر جدید وسائل لیہ میں بڑے شہروں سے دوری یا پسماندگی کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ خصوصا گرمیوں میں لیہ رات بھر برقی روشنیوں میں دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ جگہ جگہ نوجوانوں کی ہنستی بولتی ٹولیاں، خوش گپیوں اور خورد و نوش میں مصروف دکھائی دیتی ہیں ۔ گویا یہ دن سے زیادہ رات کو پر رونق ہو جاتا ہے۔
یہاں جدید موسیقی کے مقابلے میں لوک داستانوں پر مبنی سندھی اور سرائیکی گیتوں کی تانیں زیادہ سنائی دیتی ہیں ۔ رات گئے جب شہر کی رونقیں ماند پڑنے لگتی ہیں تو شب کی تاریکی شہر کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور پھر جب اذان سحر کے بعد صحرا کی خنک ہوا چلنے لگتی ہے تو آلودگی سے پاک یہ ہوا ذہنوں میں آسودگی اور روحوں میں سرشاری کی کیفیت پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے