مملکت خداداد پاکستان میں تین بڑے صحراء تھر تھل اور چولستان ہیں۔ علاقہ تھل صدیوں سے ایک ویران ریگستان پر مشتمل تھا۔ اس وسیع و عریض علاقہ کی تعمیر و ترقی کی خاطر سندھ ساگر دو آب ایکٹ 1912ء کی شکل میں زمینداران تقل اور گورنمنٹ پنجاب کے مابین رضامندی سے یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ گورنمنٹ ایک مقررہ عرصہ کے اندر تھل کینال جاری کرنے کا بندوبست کرے گی اور زمینداران اس کے عوض رقبہ زیر آمدہ نہر کا 3/4 حصہ گورنمنٹ کے حوالے کرینگے مگر جنگ عظیم اول اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر گورنمنٹ پنجاب مقررہ میعاد کے اندر نہر لانے سے
قاصر رہی حتی کہ سندھ ساگر دو آب ایکٹ سال 1932ء میں ختم ہو گیا۔
اعلان آزادی کے بعد پاکستان معرض وجود میں آنے پر پاک پنجاب گورنمنٹ کو جب مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ در پیش ہوا تو پھر اس سنگین صورتحال کے پیش نظر کثیر رقبہ کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر گورنمنٹ کو اس علاقہ کی طرف توجہ مبذول کرنی پڑی کہ کن ذرائع سے یہ رقبہ کی کمی پوری کی جانی ممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر تھل ڈیویلپمنٹ ایکٹ 1949ءمنظور ہوا اور ایک نیم خود مختار ادارہ TDA وجود میں آیا تا کہ مہاجرین کی آبادکاری کا کام جلد نمٹایا جا سکے اور گنجان آباد اضلاع سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جاسکے ۔ اس پیش رفت میں حصول اراضی کا آغاز ابتدائی نوٹیفکیشن مورخہ 4-04-1951 سے ہوا اور آخری نوٹیفکیشن سال 1955 میں جاری ہوا ۔ اس دوران گورنمنٹنپنجاب نے بذریعہ پریس نوٹ سال 1954 ء اعلان کیا کہ جن مالکان کا رقبہ اندر حدود نہر ( تقل کینال) آیا ہے ان مالکان کو درج ذیل مراعات کے ساتھ رقبہ دیا جائے گا ۔ اس طریقہ کار کو مارجل فارمولا ( Marginal Formula) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو ابتداء سے تاہنوز قابل عمل رہا۔ تفصیل فارمولا رقبہ حق واپسی حق مالکان درج ذیل ہے۔
1 15 ایکٹر کے مالکان کو سالم رقبہ واپس کیا جائے گا۔ TDA کو کوئی رقبہ نہیں ملے گا۔ 2 16 ایکڑ سے 100 ایکڑ تک کے مالکان کو نصف 1/2 حصہ واپس ہو گا مگر ایسے مالکان کو کم از کم 115 ایکڑ ضرور واپس کرنا ہوگا۔ جن کا نصف حصہ حصول کرنے سے پندرہ ایکڑ سے کم رہ جاتا ہو۔ 3 100 ایکڑ سے زائد رقبہ کے مالکان کو ایک چوتھائی 1/4 حصہ رقبہ واپس ہوگا ۔ مگر ان مالکان کو کم از کم 150 ایکڑ رقبہ ضرور واپس دینا ہو گا جن کا 3/4 حصہ رقبہ حصول کرنے
سے باقی 150 ایکڑ سے کم رہ جاتا ہو۔اس کے علاوہ رقبہ ملکیتی ادنی ، مزروعہ ربیع 1951ء بھی فارمولہ کٹوتی سے مستثنی رہے گا۔ یعنی ایسے رقبہ جات سے محکمہ TDA کو کوئی رقبہ نہیں ملے گا۔
اس فارمولا کی روشنی میں عملہ ترقیاتی ادارہ تھل نے ریکارڈ ایڈ جسٹمنٹ کی تیاری کا کام شروع کر دیا۔ سال 55-1954 میں ایل او اور اے ایل او صاحبان کی تعیناتی ہوئی اور زیر سر پرستی چیئر مین TDA اور زیر نگرانی .C صاحبان ریکارڈ ترتیب دیا گیا۔ ان کا غذات کی بنیاد پر تقسیم کے کام کا آغاز ہوا جو ابتدائی الائمنٹ سال 55-1954ء کہلاتی ہے۔ ابھی یہ تقسیم پایہ تکمیل کو نہ پہنچی تھی کہ اس دوران ترمیمی ایکٹ 1955ء منظور ہوا جس میں رقبہ واپسی مالکان کا جدید فارمولا قائم ہوا ۔ جو مندرجہ پریس نوٹ 1954ء کے بالکل برعکس تھا اور کئی مشکلات کا باعث بنا۔ نتیجتاً مالکان اور محکمہ TDA کے درمیان خاصی الجھن اور مقدمہ بازی کا باعث بنا۔ اس فارمولا کو سلیب سسٹم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان ہر دو فارمولہ جات کے تضاد میں 1955ء کے بعد مالکان تھل اور محکمہ TDA کے درمیان معاملات عدالتوں میں زیر سماعت ہوئے جبکہ اس دوران ریکارڈ ایڈ جسٹمنٹ مطابق مارخیل فارمولا مندرجہ پریس سال 1954ء تیار ہو چکا تھا۔ اس ریکارڈ کی روشنی میں دوبارہEACO صاحبان کی نگرانی میں کام ایڈ جسٹمنٹ سال 1960ء میں شروع کیا گیا جو سال 1964-65ء میں ختم ہوا۔ اس عرصہ میں حسب ضابطہ امثلہ ایڈ جسٹمنٹ اور فردات تقسیم چک دار مکمل کی گئیں۔ گویا کسی حد تک کام ایڈ جسٹمنٹ یا یہ تکمیل کو پہنچایا گیا۔
اس دوران کنفرمیشن ایڈ جسٹمنٹ کا مسئلہ زیر بحث آیا کہ EACO صاحبان کے پاس کنفرمیشن کے اختیارات نہ تھے بلکہ صرف ایسا افسر کنفرمیشن کا مجاز تھا جو TDA بورڈ کا ممبر ہو۔ TDA بورڈ ، چیئر مین C.O TDA اور D.C صاحبان سرگودھا، میانوالی ، مظفر گڑھ پر مشتمل تھا۔ اس لحاظ سے کنفرمیشن سال 1959ء 1966 ء جو EACO صاحبان نے کی ہوئی تھیں، کو قانونی الاٹمنٹ تسلیم نہ کیا گیا۔ چنانچہ C.O صاحب جو TDA بورڈ کا نمبر تھا’ نے سال 70-1969ء میں تجاویز امثلہ ایڈ جسٹمنٹ کو کنفرم کرنا شروع کیا لیکن اس دوران سال 1970ء میں محکمہ TDA ختم کیا جا کر افسران TDA چیئر مین اور C.O صاحبان کے عہدے ختم کر دیئے گئے اور محکمہ TDA کو ایڈمنسٹریٹر TDA (چیف سیکرٹری) پنجاب ، : ” کی نگرانی میں دے دیا گیا اور کنٹرول DC صاحبان کے سپرد ہوا۔ ایڈمنسٹریٹر TDA نے بذریعہ نوٹیفکیشن ایڈ جسٹمنٹ کے اختیارات EACO صاحبان جو ہر آباد، بھکر، لیہ اور AC صاحبان جو ہر آباد، بھکر، الیہ اور کوٹ ادو کو تفویض کیے تا کہ یہ دیرینہ الجھاؤ ختم ہو کر کاغذات ایڈ جسٹمنٹ کی تکمیل ہو سکے اور ساتھ ہی اس علاقہ کا بندوبست بھی شروع کرنے کا حکم صادر ہوا۔ paetکام ایڈ جسٹمنٹ درج ذیل اعداد و شمار پر مشتمل تھا ۔ نام ضلع تعداد مواضعات تعداد مالکان تعد ا در قبر اندر حصہ TDA حصہ مالکان لیہ حدود آبپاش 127699312712691548262 20525ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ محکمہ TDA نے اپنے تصرف میں 271269 ایکڑ رقبہ ستعمال کرنا تھا جبکہ 1276993 ایکٹر کی ایڈ جسٹمنٹ بحق مالکان کی جاتی تھی۔
ایڈ جسٹمنٹ میں پریس نوٹ سال 1954ء کی تعمیل فارمولا کٹوتی کی حد تک تو درست طور پر کی گئی لیکن اس پریس نوٹ مذکورہ کی اس ہدایت کو نظر انداز کیا گیا جن مالکان سے محکمہ نے 1/2حصہ یا 3/4 حصہ کٹوتی کیا ہے انہیں ایڈ جسٹمنٹ میں چوائس دی گئی ہے۔ یعنی مالکان کو پسند کا رقبہ ایڈجسٹمنٹ میں دیا جائے مگر ایسا نہ کیا گیا بلکہ محکمہ TDA نے اپنا حصہ رقبہ تعداد 1271269 ایکٹر مالکان کی حق رسی بذریعہ ایڈ جسٹمنٹ سے قبل مختلف سکیم ہائے میں استعمال کرایا اور مالکان تا ہنوز اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ اگر مالکان کی ایڈ جسٹمنٹ تقسیم رقبہ زیر حکیم سے پہلے کر دی جاتی تو آج اس قدر مقدمہ بازی کا سیلاب نہ آتا جو محکمہ TDA کی بدنامی کا باعث بنا ہوا ہے۔ چونکہ ایڈ جسٹمنٹ کے ساتھ بندوبست بھی ہو رہا تھا۔ بندوبست کا ریکارڈ تیار ہونے سے قبل جس قدر رقبہ کی ایڈ جسٹمنٹ بحق مالکان کنفرم کی جا چکی تھیں، ان مالکان کو خانہ ملکیت میں بطور مالک درج کیا گیا اور ہدایت بندو بست کے پیش نظر جن مالکان کی ایڈ جسٹمنٹ بعد تیاری کا غذات ہندو بست ہوئی ان کو بذریعہ انتقال قائمی ملکیت ریکارڈ زیر کار میں قائم کیا جا رہا ہے۔ بہر صورت جس قدر رقبہ کی ایڈ جسٹمنٹ ہو چکی تھی ان کا عملدرآمد بندوبست کے ریکارڈ میں کیا جا کر کاغذات بندوبست تصدیق ہو کر داخل تحصیل ہو چکے ہیں۔ اب مشاہدے میں آیا ہے کہ مفہوم و اہمیت سے نا واقف عملہ کچھ تغیر و تبدل سے کام لے کر روشن ماضی کو سیاہ مستقبل میں بدلنے پر محرک ہیں ۔ جن کا سد باب لازمی ہے۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے