جب سے زمین پر انسان نے ضرورت سے زیادہ مہربانیاں شروع کی ہیں اُسی دن سے اس کا ماحولیاتی نظام دباؤ کا شکار ہونا شروع ہوا ہے اور آج حالات اس قدر سنجیدہ شکل اختیار کر چکے ہیں کہ ماحولیاتی بگاڑ کی بدولت انسانی زندگی متاثر ہونا شروع ہوگئی ہے۔
زمین کے ماحولیاتی نظام کے چار بنیادی عناصر ہیں۔
1۔ پانی
2۔ حیوانات ونباتات
3 کرہ ہوائی
-4 ریگستان و پہاڑ وغیرہ
انسانوں کی بڑھتی آبادی اور غیر ضروری خواہشات و ضروریات نے زمین پر حالات اس قدر بدل دیتے ہیں کہ اب انسان خود بھی چونک گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ماحولیات کے بحران سے گزر رہے تھے مگر اب پاکستان، انڈیا اور چین جیسے ممالک بھی اس کی گرفت میں آرہے ہیں۔ کسی ایک ضلع کا ماحولیاتی جائزہ اور اس میں تبدیلیوں کا جائزہ لینا آسان نہیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کو گلوبل تناظر میں جانچنا اور سمجھنا آسان اور ممکن ہے، اسے چھوٹے لیول پر محسوس کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ مگر اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ سرائیکی علاقہ میں جدیدیت کے موجودہ تصورات سے اُبھرنے والے ماحولیاتی مسائل کی ایک جھلک ضلع لیہ کے بدلتے حالات میں دیکھی جائے۔ لیہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے انوکھی بیت کا مالک ہے اس میں ایک طرف ایک بڑا ریگستان (نقل) ہے، درمیان میں عظیم دریا سندھ بہتا ہے جبکہ دوسرے کنارے کوہ سلیمان ہے۔ پہاڑ، دریا اور ریگستان کا یہ حسین سنگم جو اپنے موسموں کی شدت کے حوالے سے جانا جاتا ہے وہاں اس کے موسم کے ساتھ بدلتے رنگ شعراء، ادبیوں اور ماحولیات کے ماہرین کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے بے تاب کرتے تھے۔ دریائے سندھ کا خیال ذہن میں آتے ہی اس کے وسیع دریائی جنگلات سے پرندوں اور مچھلیوں سے بھرے وسیع سیلابی ٹو بھے، کوہ سلیمان کی رود کو سیاں اور ان سے جنم لینے والی ہریالی اور زرخیزی کی یاد ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ دو سو کلو میٹر سے زیادہ لمبائی اور سوکلو میٹر چوڑائی والا تھل کہ جس میں جنڈ اور جال کے وسیع جنگلات ہوا کرتے تھے ، جہاں جانوروں اور پرندوں کی سینکڑوں قسمیں اپنا بسیرا کیا کرتی تھیں آج اُن کا خیال ذہن میں لائیں اور آج کے تھل ، کھی اور دامان پر نظر ڈالیں تو آنکھیں یقین ہی نہیں کرتیں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہوگا کہ یہاں سینکڑوں میلوں پر پھیلے جنگلات ہوا کرتے ہوں گے۔ سندھ کے پانی میں پچھلی اور پرندوں کی بہتات رہی ہوگی۔ ماضی کے لیہ کے لینڈ سکیپ اور آج کی کیفیت میں نمایاں فرق ہے۔ ماضی کے لیہ کا ماحولیاتی نظام تقل، چھی اور کو سلیمان کے دامن سے دوستی ہوئی رود کو حیوں کے نمکیات سے پر زندگی کے لئے خوشیوں کے پیغام بھرے پانی کی آماجگاہ تھا مگر آج اس کی جیت ہی بدل گئی ہے۔ تھل کے جنگلات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ صرف چوبارہ میں چند کلومیٹر پر مشتمل جال کے جنگلات ماضی کی یادگار کے طور پر موجود ہیں جن میں پرندوں اور جانوروں کا وجود شکاریوں کے مظالم کی نذر ہو گیا ہے۔ تھل کے مقابلے میں چولستان پھر بھی خوش قسمت ہے کہ سرحد پار ہندوستان سے جانور اور پرندے وہاں آہستے ہیں جو شکاریوں کا شکار تو ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی وہاں کے باسی اُن کی چہچہاہٹ اور مستی کا سماں تو دیکھ پاتے ہیں مگر تھل میں تو خوشی کے چند دن بھی پرندوں اور جنگلی جانوروں کو میسر نہیں ۔ ہر طرف زمین الاٹ کروانے کےخواہش مندوں کی بھیڑ ہے جو چراگاہوں اور جنگلات پر قابض ہونے کے انتظار میں ہیں۔ دریائے سندھ پر مختلف ڈیموں کی تعمیر کی بدولت پانی اس قدر کم ہو گیا ہے کہ 20 کلومیٹر تک پھیلا ہوا دریا اب چند کلو میٹر کے بیٹ اور کمزوری گزرگاہوں تک محدود ہو گیا ہے جس میں جنگلات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ پرندوں کے بسیرا کرنے کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں بچی اور نہ جنگلی جانوروں کی افزائش کے امکانات بچے ہیں بلکہ اب تو سردیوں میں آمنے والے پرندے بھی اس طرف کا رخ کرنے سے ہچکچانے لگے ہیں کیونکہ انہیں کھانے کو کچھ نہ کچھ مچھلی تو مل جاتی ہے مگر عارضی بسیرا میر نہیں کہ جہاں شب بسری کرسکیں۔ اس ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کا سب سے پہلا شکار تو جنگلی جانور، دریائی مچھلیاں، کچھوے اور دوسرے حشرات ہوئے ہیں مگر اب انسان کی غیر ضروری پہل کاری خود اُس کے لئے بھی مصائب لا رہی ہے۔ یہ کا زیر زمین پانی نہ صرف کم ہو رہا ہے بلکہ سیوریج کا پانی ندی نالوں میں ڈالے جانے کی بدولت زیر زمین پانی مضر صحت ہو رہا ہے اور اس سے کئی طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں جو انسانوں، درختوں اور باغات کے لئے مصائب لا رہی ہیں ۔ تھل مکمل بدل چکا ہے، ہر طرف انسان اور چھوٹے چھوٹے قصبے زمین پر پھوڑوں کی طرح اُگ رہے ہیں جبکہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، سردی کم ہو رہی ہے اور گرمی بڑھ رہی ہے۔
انسان کی اس سوچ، کہ وہ اشرف المخلوق ہے، نے اسے اس قدر لا پرواہ اور خود غرض بنا دیا ہے کہ اس کے اعمال کی بدولت دوسرے ذی روح، پانی اور پہاڑ وریگستان تباہی کا سامنا کر رہے ہیں جس کے نتیجہ کے طور پر زمین پر موجود ماحولیاتی نظام شکست وریخت کا شکار ہے جس نے بنیادی اخلاقی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ماضی کا یہ اخلاقی تصور کہ ہر وہ کام درست ہے جس سے انسان کو خوشی اور فائدہ حاصل ہو، ایسی ماحولیاتی تباہی کی بنیاد فراہم کر رہا ہے کہ اب انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس اخلاقی ضابطے میں وسعت لائے کہ جس میں تمام زندگی کو شامل کرے بلکہ مناسب یہ ہوگا کہ انسانی کردار کو ماحولیاتی نظام کی تقویت کے حوالے سے جانچا جائے یعنی ہر وہ چیز اچھی ہے جو زمین پر موجود ماحولیاتی نظام کو تقویت فراہم کرے اور ہر وہ انسانی عمل غلط ہے جواس ماحولیاتی نظام کی شکست وریخت کی وجہ بنے۔لیہ کا ماحولیاتی نظام مکمل تباہی کی شکل اختیار کر رہا ہے کہ جس کے جنگلات خاتمے کے قریب ہیں ، تھل کا ریگستان آباد ہو چکا ہے اور دریائے سندھ لاغر ہو چکا ہے ۔ کوہ سلیمان کے پتھروں سے جنم لینے والا دمان کا رود کوھی سسٹم آخری سانسیں لے رہا ہے جبکہ یہاں کے باسیوں کو اس تباہی کا احساس تک نہیں ، وہ اسے زرعی ترقی اور جدیدیت کے حوالے سے خوشی خوشی آگے بڑھا رہے ہیں ۔ کرہ ہوائی، جانوروں، پرندوں، جنگلات، دریا، مچھلیوں اور چٹانوں کے حوالے سے دیکھا جائے تولیہ ماحولیاتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر انسانی مفاد کے حوالے سے بغور جائزہ لیا جائے تب بھی آنے والے سالوں میں یہاں مشکلات میں اضافہ کا رجحان رہے گا کیونکہ تقتل میں زیر زمین پانی کا بحران جنم لے رہا ہے جبکہ جنگلات میں کمی کی بدولت فضائی آلودگی اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی آبادی میں اضافہ کی بدولت پینے کے پانی میں خرابی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے پیٹ کی بیماریوں، فضا میں دھواں و گرد و غبار اور گرمی کی شدت میں اضافہ سانس کی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔ زرعی ادویات کے بے دریغ استعمال نے زندگی علیحدہ اجیرن کر رکھی ہے جبکہ لیہ کا زیر زمین چٹانوں کا نظام بھی انحطاط پذیر ہو رہا ہوگا کیونکہ جہاں ریگستان تھا وہاں زراعت ہو رہی ہے جبکہ جہاں دریا تھا وہ جگہ ریگستان میں بدل رہی ہے اور جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ترقیاتی ایجنڈا کے پرانے انداز فکر کو برقرار رکھنے پر ایک مرتبہ پھر غور کیا جانا چاہئے ۔ ساتھ ہی عوام کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ضروری ہے کہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کے چند بنیادی تقاضے ہیں جن میں کرہ ہوائی ، جنگلات، دوسری زندہ مخلوق، صاف پانی اور زمین کی اوپری سطح کی موجودہ شکل کا برقرار رہنا انتہائی اہم ہیں۔ زمین کے قدرتی ماحولیاتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے سے بڑے مصائب جنم لے سکتے ہیں جو اگر دوسری زندہ مخلوق کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے تو آخر کار انسان بھی ان کا شکار ہو گا۔ لیہ کے باسیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آبادی پر کنٹرول کرتے ہوئے کثرت کے مقابلے میں کوالٹی پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے اردگرد کے ماحول کی مکمل حفاظت کریں۔ دریائے سندھ اور تھل کے جنگلات ان کےلئے خوشی اور خوشحالی کی نوید ہیں ۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے