لیہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور صحرائے تھل کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ دریائی اور صحرائی تہذیب کے امتزاج سے مزین یہ ایک قدیم شہر ہے۔ ماضی میں یہ تحصیل، ضلع اور ڈویژن رہا۔ آغاز ہی سے یہاں کی غالب اکثریت مسلمان تھی۔ 1911ء کی مردم شماری کے مطابق لیہ میں ہندو آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھے اور یہ پیشہ کے اعتبار سے زیادہ تر دکاندار، آڑھتی اور دستکار تھے ۔ یہاں کی اس ہندو آبادی میں کئی ایسے نامور لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ اور پورے برصغیر میں لیہ کی پہچان اور وجہ شہرت ہے۔ ان مشاہیر میں موتی لال (مشہور وکیل) ، سیٹھ برج لال مشہور کاروباری شخصیت انھوں نے علاقے میں بہت سی سرا ئیں اور رفاعی ادارے قائم کیے ) ، جیسا رام (مشہور کانگریسی رہنما تھے ) اس علاقے کے یہ پہلے ہندو کانگریسی رہنما تھے جنہوں نے آزادی ہند کی جدو جہد میں گرفتاری پیش کی۔ ڈاکٹر داس ڈھینگوا ( نامور معالج ) ہر جس کا بارائے (انھوں نے براتھری ہائی سکول کے سامنے سرائے گا ہا کے نام سے ایک ایسی سرائے قائم کی جس میں ہندؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے لیے الگ الگ عبادت گا ہیں، کچن اور ہائش گا ہیں تھیں) روایت ہے کہ سرائے کے نزدیک ایک چوک (مشہدی چوک) میں رات کے وقت ان کے ملازمین لائن میں کھڑے رہتے اور باہر سے آنے والے مسافروں کو عزت و احترام کے ساتھ سرائے میں لے آتے اور ان کے لیے یہاں پر مفت قیام و طعام کا بندوبست ہوتا۔ آسارام ( مشہور ماہر تعلیم ) ، رام داس نوا ( ادیب اور نثر نگار )، ہرکشن لعل لالہ ( معروف ماہر اقتصادیات، انھوں نے برصغیر میں بیمہ کمپنی اور بنک قائم کیا، آپ انگریز کی کابینہ میں بطور وزیر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ) اور کے۔ ایل۔ گابا (1899 ءتا 1981 ء ) ( معروف وکیل، کالم نگار سیاستدان اور ادیب تھے۔ آپ کے خاندان کا تعلق لیہ سے تھا)۔ آپ کےخاندان کی سرزمین لیہ کے لیے بے پناہ تعلیمی اور سماجی خدمات ہیں۔ بعد میں آپ ہندو مذہب چھوڑ کر احمد یوں کی لاہوری جماعت میں شامل ہو گئے اور کنہیا لعل (کے ایل) سے خالد لطیف بن گئے۔ اسی طرح سرائیکی اور اردومعروف شاعر مہندر پرتاب چاند ہیں اور ڈی لیٹ گوپی چند نارنگ ماہر لسانیات دہلی کا تعلق کروڑلیہ سے ہے۔ تاریخ اور روایت سے پتا چلتا ہے کہ یہاں کے مسلمان اور ہندو اپنے اپنے مذہب اور دھرم سے ماورا ایک سماجی رشتوں میں جڑے ہوئے تھے۔ ثقافتی اور مذہبی تہواروں کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ شب برات ، عیدین، یوم عاشورہ، بیساکھی اور اولیاء کرام کے عرس اکٹھے منائے جاتے تھے۔ یہاں کے خوشحال ہندؤں نے عقائد اور اپنے نظریات سے بالا تر ہو کر رفاعی اور فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جن کی بڑی مثال ہر جس گابا کی سرائے اور ڈھینگرا خاندان کا قائم کیا ہوا بھر اتھری ہائی سکول ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے لالہ ہزاری اور ڈھول آلہ پلی فطرت کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے کھجوروں اور آموں کے باغ لگائے۔ اسی طرح عوامی تفریح کے لیے نانو آلہ تھلہ کے نام سے ایک خوبصورت گھاٹ تعمیر کیا جہاں پر عورتوں اور مردوں کے لیے نہانے کے لیے الگ الگ جگہ مخصوص تھیں اور مائی ماتا کے مندر کے ساتھ ایک خوبصورت سرائے بنائی گئی جہاں پر ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے لوگ آکر قیام کرتے اور روحانی سکون پاتے۔ اس دھرتی اور اس دھرتی کے لوگوں کے ساتھ خیر خواہی رکھنے والے یہ ہند و قیام پاکستان کے بعد جب یہاں سے بھارت چلے گئے تو وہاں پر بھی انھوں نے لیہ کو بھلایا نہیں اور آج بھی بھارت کے مختلف شہروں خصوصا پانی پت میں لیہ کے نام پرتعلیمی، کاروباری اور سماجی اداروں کی بنیاد میں رکھی۔ جس سے ان کی اس شہر کے ساتھ محبت کا پتا چلتا ہے۔ لیکن ہمارا رویہ دیکھئے کہ یہاں پر مٹھی بھر رہ جانے والے ہندوؤریاست کی مذہبی اور سماجی جبر کی وجہ سے اس شہر میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیہ کی کثیر آبادی ان سے اتنی لا پروا ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس شہر کو علمی ادبی اور سماجی شعور دینے والے یہ لوگ کتنی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیہ میں ہندو سماجی اور معاشی طور پر ایک موثر کمیونٹی تھی ۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے لیہ میں کافی بڑی شہری اور زرعی جائیداد چھوڑی لیکن اس کا ایک قلیل حصہ بھی ان درماندہ اور یہاں پر پیچھے رہ جانے والے ہندوؤں کو نہیں ملا جنہوں نے ماں دھرتی کو گلے لگاتے ہوئے خود کو ہمیشہ کے لیے بطور اقلیت بنالیا۔ اور اپنے ہی شہر میں غریب الغربا بن کر رہ گئے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ لیہ کے ارد گرد کے قصبوں میں ہندؤں کی درجنوں عبادت گاہیں تھیں لیکن ان میں آج کوئی بھی اپنی اصل حالت میں قائم نہیں ۔ جہاں پر باقی ماندہ ہندو پوجاپاٹ کر سکیں۔ لیہ میں رہ جانے والے موجود ہند و آبادی پرمشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ جہاں یہ رہائش پذیر ہیں۔ ان ہندوؤں کے ساتھ ہمارا رویہ مناسب نہیں ہے۔ جس سے ہماری دوغلی اور منافقانہ سوچ کا پتا چلتا ہے کہ ہم ریاستی سطح پر تو سرکاری الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نیز سکولوں کے نصاب میں تو اقلیتوں کے حقوق اور رواداری کی بات کرتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ہمارا سماجی اور مذہبی رو یہ اقلیتوں کے بارے میں مناسب نہیں۔ بالخصوص پاکستان میں ہندو اقلیت کے بارے میں ہماری سوچ زیادہ انتہا پسندانہ ہے۔ آج تک کسی بھی ہندو تہوار کے حوالے سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام نشر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ایسی بحث سامنے آئی ہے۔ جس میں ہندو اقلیت کے مسائل پر بات کی گئی ہو۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے