لیہ

لیہ : کوٹلہ حاجی شاہ میں میلہ

نسیم الیہ

میلے زندہ قوموں کی زندہ علامتیں ہوتے ہیں۔ میلے ٹھیلے ثقافتی ریلے تہذہبی و ثقافتی ہنگائے دول دمامے چہل پہل رونقیں، علاقائی کھیلیں، دھریں، جھمر، ویلیں تماشے مصری بتاشے جانے ایک میلے میں کیا کیا جشن برپا ہوتے ہیں۔ کہیں گھڑ دوڑ کہیں کبڈی کہیں کشتی، کہیں مشاعرے کہیں راگ رنگ کی محفلیں، کہیں تقاریر و مواعظ حسنہ کہیں دکانیں، کہیں اذانیں ، کہیں مہمانی میز بانی کہیں تیمارداری کہیں گرم بازار کہیں گاہکوں کی بھر مار کہیں ریکارڈنگ کی یلغار غرض کہ تاحد نظر زندگی کی ایک لہر رواں دواں دکھائی دیتی ہے اور گرم جوش انسانوں کا ایک بے کراں سمندر موجزن ہو کر ہر سمت ہر طرف اپنے مدوجزر کا انقلابی مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ خاص میلے کی مقصدیت میلے میں شریک ہونے والے شہری اور دیہاتی پر واضح ہو سکتی ہے۔ حکومتی سطح پر کسی بڑے ادارے کی جانب سے میلے کا انعقاد آمدنی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ میلے کی اس آمدنی سے ادارہ ، شہری یا دیہی بہبود پر دن کھول کر خرچ کرتا ہے اور سماجی و معاشرتی مسائل حل کر کے پل سڑکیں، روشنی ‘پانی ‘مدر سے ہسپتال ڈسپنسریاں وغیرہ تعمیر کر کے عوام کو سہولتیں میسر کرتا ہے۔ یہ قومی وملی اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اس طرح کے ہر سال پاکستان میں کتنے ہی میلے منعقد کیے جاتے ہیں اور کتنے ہی جشن بپا ہوتے رہتے ہیں ۔ جشن اور میلے زندگی کے لئے اشد ناگزیر اور اہمیت کے حامل ہیں اور تقریبات کی ضمانت ہیں۔ اگر میلے اور جشن نہ ہوں تو زندگی گھٹن کی نذر ہو جائے اور سکون و طمانیت ، تہنیت وانبساط کے دریچے نہ کھل سکیں، تازہ ہوا کے لئے یہ دریچے کھلنا بہت ضروری ہے۔ تازہ ہوا کے جھونکے زندگی کو تازہ دم رکھتے ہیں اور موسم کا نکھارنی توانائی نئی تازگی بخشتا ہے ان سدا بہار میلوں کی اہمیت سے انکار کفر ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے لیہ میں ایک عدیم النظیر اور فقید المثال میلہ کوٹلہ حاجی شاہ میں اس دھوم سے بپا ہوا کہ گزشتہ سال کے التواء کا ازالہ ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر ضلع لیہ سرفراز الحق بیگ نے اس
میلے کا افتتاح کیا۔ جب کہ مہمانِ خصوصی اصغر علی گجر ایم پی اے اور محمد اکبر نوانی تھے ۔ ڈسٹرکٹ کونسل لیہ کا یہ میلہ اپنی انفرادیت اور اہمیت کے لحاظ سے بہت ہی یکتا اور اکائی کا حامل تھا، جس میں تنوع اور رنگا رنگ پروگرام ترتیب دئیے گئے اور لیہ کی اہمیت کو ایک تاریخی حیثیت سے منوایا گیا لیکن افسوس کہ ادبی پروگرام اور مشاعرے کا آئٹم اس دفعہ فراموشی کی نذر ہو گیا۔ حالانکہ علاقائی تہذیب و ثقافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس بہت بڑے میلے سے اراکین ڈسٹرکٹ کونسل اور سیاسی زعما بالخصوص سرائیکی مشاعرے کے انعقاد میں ممد ثابت ہوتے جس میں
معروف مقامی و مہمان شعراء کو مدعو کیا جاتا کیونکہ سرائیکی مشاعرے کے انعقاد سے میلے کی افادیت دو بالا اور رونق دو آتشہ  ہو جاتی۔

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com