لیہ

لیہ : جنگ چاہ ڈیڈ ووالہ

برکت اعوان

دریائے سندھ کے کنارے اور صحرائے تھل کے دہانے پر واقع لیہ صدیوں سے آباد ہے اور صحرائے تھل لیہ کے ہر ذرہ ریت کے نیچے ایک تاریخ دفن ہے۔قرنوں سے آباد یہ تھل طوفان نوح کے بعد پہلے دریاؤں کی سرزمین ” رہا ہے پھر دلدلوں کی سرزمین اور پھر صحراؤں کی سرزمین قرار پایا ہے۔ بعض تذکرہ نویس تو اس سرزمین کو نوح کے نا فرمان بیٹے کی ماں لئی کا وطن مالوف قرار دیتے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ چینی ترکستان کی ایک قدیم تاریخی قوم "کشان جب وہاں کی ایک طاقتور قوم سے مغلوب ہو کر اور خوفزدہ ہو کر بھاگی تواس کا ٹکراؤ ساکا قوم سے ہوا ہے اور یہ سا کا قوم صحرائے تھل کی حکمران قوم تھی ۔ "کشانوں” نے "سا کا قوم کو کوہ ہندوکش کے شمال کو ہستانوں کی طرف دھکیل دیا اور خود ان علاقوں پر قابض ہو کر حکمران ہو گئی۔ یہ ۷ اق۔م کی بات ہے۔ پھر اس قوم میں کئی حکمران پیدا ہوئے۔ جن میں سے ۷۸ عیسوی میں راجہ اشوک اور کنشک کو بڑی شہرت ملی ۔ یہ بدھ مت سے وابستہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی راجہ اشوک اور کنشک کے سکے صحرائے تھل لیہ میں جگہ جگہ دفینوں کی شکل میں ملتے ہیں اور گوتم بدھ کی پتھر کی مورتیاں اور عام کچے گھڑوں کی ٹھیکریوں پر گوتم بدھ کی شباہتیں کندہ کی ہوئی ملی ہیں ۔ بلکہ یہ تقتل کو اس وقت کے سنگتراشوں کی بستی کہا جاتا ہے جو گوتم بدھ کی تصویریں اور مورتیاں بنانے کے لئے مخصوص تھے۔ صحرائے تھل لیہ میں متعدد اسی بستیاں برآمد ہوئی ہیں جو صرف سنگتراشی کے لئے مخصوص تھیں اوریہاں کے لوگ حضرت گوتم بدھ کی تصویریں بنانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔
۵۰۰ عیسوی میں صحرائے تھل پر رائے خاندان کی حکومت تھی اور یہ بھی بدھ مت کے پیروکار تھے۔ رائے خاندان کے ایک سو میں سالہ دور حکمرانی میں صحرائے تھل میں بدھ مت زوال پذیر ہو گیا اور ہندومت کو عروج ملتا رہا۔ آج بھی ہندو حکمرانوں کے قدیم سکے صحرائے تھل میں پھیلے ہوئے قدیم شہروں کے کھنڈرات سے بکثرت ملتے ہیں۔
صحرائے تھل کے جاٹ برہمنوں سے انتہائی تنگ چنانچہ ۶۲۲ عیسوی میں جب اسلام کی آواز ایران تک پہنچی تو صحرائے تھل کے جاٹ بھی نبی ملی ام آخرالزماں کی قدم بوسی کے لئے صحراؤں، دریاؤں اور پہاڑوں کو عبور کر کے آپ می اید یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قدم بوسی کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے اور پھر ہمیشہ کے لئے وہاں کے ہور ہے اور پھر اسلام کے غازیوں مجاہدوں اور فاتحین کے ساتھ صحرائے تھل کے ان جائوں کی نسلیں اپنے وطن مالوف کولوٹ آئیں جو کبھی اسلام کی روشنی لینے کے لئے عرب کے صحراؤں کی طرف گئی تھیں ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ صحرائے تھل میں رہنے والی قوم مکتی بلوچ دراصل میوی کیس کی نسل ہیں۔ غرض تاریخ صحرائے تھل لیہ کو جب ہم صدیوں کی دھول بنا کر دیکھتے ہیں تو تاریخ کا طالب علم ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ کہیں سکندر مقدونی یہاں تلوار لہراتا نظر آتا ہے تو کہیں مسلمان سلاطین کے گھوڑوں کی دھول اڑتی نظر آتی ہے۔ کہیں اور جابر حکمران اپنے قاہر لشکریوں کے ساتھ مخلوق خدا کو تہ تیغ کر رہے ہیں تو کہیں عادل اور رحم دل حکمران مخلوق خدا کی دل بستگی اور اصلاح احوال میں مصروف ہیں۔ غرضیکہ یہ تقتل اب بھی زمانے کی دست و برد میں ہے اور شکست وریخت کا سلسلہ جاری ہے ۔ صحرائے تھل لیہ اب بھی دلدلوں، صحراؤں اور دریاؤں کی سرزمین ہے۔ جس کے مشرق میں دریائے چناب اور مغرب میں عظیم دریائے سندھ بہتا ہے۔ صحرائے تھل لیہ اپنی روایات اور تہذیب و تمدن کا امین ہے۔ اس عظیم صحرائے تھل میں نہ جانے کتنی تہذیبوں نے جنم لیا اور پھر فنا کے گھاٹ اتر گئیں ۔ صحرائے تھل پر سرائیوں کی حکومت کے خاتمے اور سدوزئیوں کے سر براہ حکومت ہونے کا تاریخی واقعہ پیش خدمت ہے اور چاہ ڈیڈو والا اس تاریخی فیصلے کا میدان جنگ ہے۔ ملتان سے لیہ کی طرف بذریعہ ٹرین آئیں تولیہ کے آؤٹر سگنل سے ذرا آگے مشرق کی طرف دیکھیں تو بالکل لائن کے قریب گھنی اور گنجان آبادی کے درمیان ایک بہت بڑا ( ڈھورا) گڑھا موجود ہے جو گندے پانی سبز کائی اور سبز گھاس سے اٹا ہوا ہے اور اسی گڑھے کے کنارے ایک سفید رنگ کی قبر موجود ہے۔ جو اس تاریخی جنگ کے ایک گمنام سید جرنیل کی قبرہے اور یہی چاہ ڈیڈ والا” کا نواحی علاقہ ہے جو سرائیوں اور سدوزئیوں کا میدان جنگ ہے۔ یہ پر میرانی بلوچوں نے مجموعی طور دو سو سینتیس برس مگر حسب ضابطہ قلعہ اور شہریہ کی تعمیر کر کے ایک سوستاسٹھ برس حکومت کی ہے۔ تا آنکہ ان سے جسکا نیوں نے حکومت بالجبر چھین کر دین کوٹ، منکیر ہ لیہ ، پیتل منڈا اور محمود کوٹ پر قبضہ کر لیا اور تریسٹھ برس تک لیہ پر حکمرانی کرتے رہے۔ جسکانیوں سے سرائیوں نے حکومت چھین لی مگر یہ صرف تین سال تک لیہ پر حکمرانی کر سکے۔تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ سدو ڈو کی پٹھانوں کے دو قبیلے بپا در خیل“ اور ” مندوخیل” حالات زمانہ کا شکار ہو کر مختلف سمتوں میں بٹ گئے ۔ "مندوخیل” غزنی کی طرف چلے گئے جبکہ بہادر خیل” رنگ پور کھیڑیاں میں آکر محنت مزدوری اور ملازمت کرنے لگ گئے ۔ رنگ پور کھیڑیاں تھل کے عظیم صحرا اور دریائے چناب کے سنگم پر واقع ہے۔ غزنی میں رہنے والے مندوخیل پٹھانوں کو کسی خاص خدمت کے صلہ میں ملتان کی حکومت غزنی کی طرف سے عطا ہوئی۔ بہادر خیل پٹھان جو رنگ پور کھیڑیاں میں محنت مزدوری اور نوکری چاکری کرتے تھے کو جب پتہ چلا کہ ان کے ہم قوم ملتان حکومت کی قسمت کے مالک بن گئے ہیں تو وہ رنگ پور کھیڑیاں سے نقل مکانی کر کے ملتان پہنچ گئے ۔ کچھ لوگ اپنے ہم قوم سدوزئی مندوخیل پٹھانوں کے ملازم ہو گئے اور کچھ لوگ محنت مزدوری اور چھوٹا موٹا کام کرنے لگ گئے ۔ رنگ پور کھیٹڑیاں سے آنے والے بہادر خیل سروز کی پٹھانوں میں "یارا خان“ نامی ایک شخص کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام محمد خان تھا۔ یہ گھرانہ انتہائی غریب اور مفلس تھا۔ اچانک یارا خان بیمار ہو کر ملتان میں فوت ہو گیا تو اس کے گھرانے کا تمام بوجھ اس کے نوجوان بیٹے محمد خان بہادر خیل سدوزئی کے کاندھوں پر آپڑا ۔ گھر میں کوئی معقول اثاثہ نہ تھا۔ محمد خان سدوز کی نے گھر کے تھوڑے بہت اثاثے بیچ کر پہلے تو بازار کے تھڑوں پر بیٹھ کر چھوٹی موٹی تجارت کی مگر اس سے اسکے گھر کی گزر بسر نہ ہو سکی۔ چنانچہ اس نے مجبور ہو کر بہاولپور کے نواب بہاول خان کی فوج میں دس روپے ماہوار پر نوکری کرلی۔ مگر اتنی قلیل تنخواہ میں اس کو اور اس کےخاندان کو پیٹ بھر کر روٹی مہیا نہ ہوسکی۔
چنانچہ وہ نواب بہاول خان کی فوج سے استعفیٰ دے کر نواب مظفر خان والی ملتان کی فوج میں ایک سدوزئی کی سفارش پر نہیں روپے ماہوار پر ملازم ہو گیا۔ سدوز کی پٹھان محمد خان سدوز کی کی کامرانیوں کا یہ پہلا زینہ تھا۔ اس کے بعد محمد خان سدوزئی کے کلفت ایام چھٹنے لگے اور اس کی بخت بیداریوں کا دور شروع ہو گیا۔ اس نوجوان پٹھان سے ایسے ایسے کام سرزد ہونے لگے کہ والٹی ملتان نواب مظفر خان سدوزئی نے بہت جلد اسے منصب دار کے عہدے پر ترقی دے کر اس کی تنخواہ ساٹھ روپے ماہوار کر دی۔ ان دنوں غزنی حکومت پر درانی شاہوں کا طنطنہ تھا۔ نواب مظفر خان والی ملتان ہر سال درانی شاہوں کو سلام کرنے کے لئے غزنی جاتا تھا۔ نواب مظفر خان شکل و صورت اور قد و قامت کے لحاظ سے نہ تو خوش رو تھا اور نہ ہی پرکشش قامت کا مالک تھا جبکہ محمد خان سدوز کی اس کا منصب دار انتہائی خوبرو دراز قامت وضع دار اور خوش گفتار تھا۔ ایک دفعہ نواب مظفر خان جب ملتان سے غزنی کے حاکمان کو حسب دستور سلام کرنے گیا تو وہ اپنے ہمراہ اپنے منصب دار ملازم محمد خان سدوز کی کو بھی لے گیا۔ غزنی کے دربار میں جب وہ داخل ہوا تو تمام درباریوں نے خوش وضع اور خوش شکل محمد خان سدوزئی کو نواب مظفر خان والی ماتان سمجھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور تعظیم دی۔ محمد خان سدوز کی خوش گفتار بھی تھا چنانچہ شہنشاہ درانی والی غزنی ملتان کے اس منصب دار محمد خان سدوزئی کی گفتگو سے نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ اسے پسند کیا۔ نواب مظفر خان والی ملتان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک خوف اور وسوسہ پیدا ہوا کہ کہیں شاہان افغان ملتان کی حکومت کی باگ دوڑ اپنے اس پسند کئے گئے نو جوان محمد خان سدوز کی کے ہاتھ میں نہ دیں۔ چنانچہ اس سے اگلے سال جب نواب مظفر خان حسب دستور افغانستان کے شاہ کو سلام کرنے گیا تو وہ اپنے منصب دار خوبرو نو جوان محمد خان سدوزئی کو ہمراہ نہ لے کر گیا۔ شاہ زمان والی افغانستان نے نواب مظفر خان سے ان کے نوجوان منصب دار محمد خان کو اپنے ہمراہ نہ لانے کا سبب پوچھا تو نواب مظفر خان نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ چنانچہ اسی وقت کابل سے ایک آدمی بھیج کر محمد خان سدوز کی منصب دار کو بلوایا گیا۔ شاہ زمان محمد خان سدوز کی سے مل کر بہت متاثر ہوا۔ ان دنوں لیہ پر سرائیوں کی حکومت تھی اور ان کی یہ حکومت دین کوٹ سے لے کر منکیرہ بھکر محمود کوٹ اور پتل منڈ اتھل تک پھیلی ہوئی تھی مگر جسکانیوں سے مسلسل جنگ و جدل اور میرانیوں کی بغاوتوں کی وجہ سے برائیوں کی گرفت لیہ پر کمزور ہورہی تھی۔ میاں عبدالنبی سرائی کلہوڑہ بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس کا بڑا بیٹا فضل علی خان شوقین مزاج ثابت ہوا تھا ان کا چھوٹا بیٹا میاں محمد عارف بجائے حکمرانی کرنے کے ، سرائی مسلک کی پیشوائی کر رہا تھا اور پورے صحرائے تھل میں ان کے مسلک کی پذیرائی ہو رہی تھی۔ سندھ میں کلہوڑا حکمرانوں کا ایک سلسلہ یا ایک محکمہ فقراء کا تھا اور انھیں وہ اختیار حاصل تھا جو آج کے علاقہ مجسٹریٹ کو اختیار حاصل ہوتا ہے اور ان فقراء میں معروف کردار فقیر تا جا بھی فقیر کا ہے۔ یہی لکھی فقیر تاریخ میں سرائی کلہوڑوں کے جرنیل اور ان کے مددگار بھی نظر آتے ہیں۔ چنانچر تیہ میں عبدالنبی کلہوڑہ کے فرزند میاں محمد عارف شہید پہلے کے ہمرکاب بھی ایک فقیر میاں راجہ لکھی کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے جو جنگ چاہ ڈیڈ و والا میں اپنے تین سوسرائیوں کے ہمراہ افغانوں کے ساتھ جنگ کرتا ہوا نظر آتا ہے اور چاہ ڈیڈ والا میں کام آیا۔ میاں عارف شہید کی نسل اور فقیر میاں راجہ لکھی کی نسل اب بھی محلہ عارف شہید جو اللہ اور بڑے ڈاکخانہ کے بالمقابل میاں صاحبان کے کنبہ کے نام سے مشہور ہے اور قیام پذیر ہے۔یہ میں میرانیوں کے دور حکومت میں ایک جات قبیلہ ہونی وارد ہوا تھا جنھوں نے حاکم شہر سے فصیل شہر سے باہر چاہ احداث کر کے کھیتی باڑی کی اجازت مانگی۔ یوں تو یہ ایک جاٹ قبیلہ تھا مگر اس قبیلہ کے بڑے بوڑھے ماں گیری یعنی مسجدوں میں نماز پڑھانے اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ چنانچہ میرانی حاکم نے انھیں چاہ احداث کرنے کی اجازت دے دی تھی اور یہ زمین اس نے انھیں بطور وظیفہ بخش دی۔ چنانچہ اب بھی یہ شہر کے مغرب میں چارہ وظیفی والہ اور شہر کے مشرقی سمت میں جو نیاں والہ جو بعد میں چاہ ڈیڈوالا کے نام سے مشہور ہوا موجود ہیں۔ چاہ وظیفی والہ اور چاہ ڈیڈو والا میں اب بھی جونی قوم آباد ہے اور دونوں چاہات پر اب گھنی آبادیاں ہوگئی ہیں۔ یہ کی فصیل شہر سے کافی دور چاہ جو نیاں والہ پر کہیں سے ایک درویش نے آکر مستقل ڈیرہ لگا لیا تھا اور یہ درویش فقیر فقیر ڈیڈ ڈ” کے نام سے مشہور تھا۔ چنانچہ یہ کنواں بجائے ھو نیاں والا کے چاہ ڈیڈ و والا مشہور ہو گیا۔ ڈیڈ وفقیر یہیں وفات پا گیا۔ اس فقیر کی قبر مسجد جو نیاں والا میں اب تک موجود ہے۔ چاہ ڈیڈ و والا کے قریب سدوزئیوں اور سرائیوں کی جنگ میں ایک گمنام سید جرنیل شہید ہو گئے تھے جنھیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ اکثرلوگ اس سید جرنیل کی قبر کو فقیر ڈیڈو کی قبر سمجھتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔
شاہ زمان والٹی کابل لیہ کے حاکم میاں عبدالنبی سرائی سے رنجش رکھتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ میاں عبدالنبی کلہوڑہ کا بڑا بیٹا فضل علی خان بڑا فضول خرچ ہو گیا تھا اور اپنے تمام علاقہ کی آمدنی جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ کی تھی اپنی فضول خرچیوں پر خرچ کر دیتا تھا۔ اس کی شادی پر میاں عبدالنبی سرائی نے بہت زیادہ خرچ کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ حکومت غزنی کو بر وقت زرنگان نہیں دے سکا تھا۔ جبکہ بعض تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہرات پر حملہ کرنے کے لئے حکومت غزنی نے میاں عبدالنبی سے کمک مانگی تھی لیکن میاں عبدالنبی نے یہ کمک نہ دی۔ جس کی وجہ سے شاہ زمان میاں عبدالنبی سے دل میں رنجش رکھتا تھا۔ چنانچہ شاہ زمان والٹی کا بل نے متاثر ہو کر بطور عنایت اور بخشش کے لیہ اور منکیرہ کی حکومت کا پروانہ ملتان کے خوبر و منصب دار محمد خان سدوزئی کے حوالے کیا اور نواب مظفر خان والی ملتان کو اس کی امداد کرنے اور قصبہ لیہ وہ بھکر دلانے کی تاکید کی۔ نواب مظفر خان کے دل سے ایک بڑا خدشہ دور ہو گیا۔ چنانچہ نواب مظفر خان نے اپنی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ محمد خان سدوزئی کے حوالے کیا۔ چنانچہ افغانوں اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ محمد خان سدوزئی نے پہلے لیہ کی حکومت کے قلعہ پتل منڈا پر حملہ کیا جو یہ تھل کے صحراء میں واقع تھا اور یہ قلعہ اس نے پہلے ہی حملے میں فتح کر لیا بعد ازاں قلعہ محمود کوٹ کو فتح کیا اور پھر اس کے لشکر نے کچھ دنوں کے بعد لیہ شہر کی فصیل کے باہر چاہ ڈیڈ و والہ کے ملحق ڈیرے ڈال دیئے۔ چنانچہ پہلے یہ خالی کر دینے کا نام و پیام ہوتا رہا لیکن میاں عبدالنبی سرائی نے بغیر جنگ کے قبضہ دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اس سے اگلے دن چاہ ڈیڈ و والہ” کے قریب گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں میاں عبدالنبی کی طرف سے سندھیوں کی فوج اور مقامی لوگوں پر مشتمل فوج نے حصہ لیا جبکہ محمد خان کی فوج میں افغانیوں کی فوج اور ملتان کی فوج نے حصہ لیا۔ صبح سورج نکلتے ہی گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اور عصر تک کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ تیرہ سو آدمی محمد خان سدوزئی کے مارے گئے۔ جبکہ ساڑھے سات سو آدمی میاں عبدالنبی کے کھیت رہے۔ عصر کے بعد محمد خان سدوزئی کی حملہ آور فوج میں پسپائی شروع ہوگئی اور مغرب سے پہلے محمد خان سدوز کی کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ میاں عبدالنبی سرائی جو کہ خود اس جنگ کے وقت ایک ساٹھ سالہ بوڑھا حکمران تھا۔ اس کے ہونہار نوجوان جنگجوفقیر بیٹے میاں محمد عارف شہید نے محمد خان سدوزئی کی بھگوڑی فوج کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ رات ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل گیا تھا۔ ڈور صحرائی جنگل میں چند خانہ بدوش لہانہ قوم کے کچھ لوگ آگ جلائے بیٹھے تھے۔ میاں محمد عارف سرائی اور ان کے ساتھی ان لبانہ خانہ بدوشوں کو محمد خان سدوزئی کی بھگوڑی فوج کے افغان سپاہی سمجھے اور انھوں نے اپنے گھوڑے اس طرف سرپٹ دوڑا دیے جبکہ لانہ قوم کے خانہ بدوشوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ کوئی ڈاکولوگ ہیں ۔ جو انھیں لوٹنے کے لئے ان کی طرف آرہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی کئی توڑے دار بندوقیں تان کر میاں محمد عارف سرائی اور ان کے ساتھیوں کی طرف داغ دیں۔ جس سے میاں محمد عارف اور ان کے ہمرکاب جرنیل راجہ بھی فقیر موقع پر شہید ہو گئے ۔ دونوں سرائی مسلک کے پیشوا بھی تھے۔ میاں محمد عارف کے شہید ہونے کی خبر محمد خان سدوز کی اور ان کی بھگوڑی فوج کو بھی ہو گئی۔ چنانچہ موضع جال والہ کے قریب محمد خان سدوزئی کی فوج پھر یکجا ہوئی اور انھوں نے دوبارہ لیہ شہر پر حملہ کر دیا اور چند گھنٹوں میں شہر کو فتح کر لیا۔ محمد خان سدوزئی کے افغان فوجیوں نے محمد عارف شہید کا سر اتارنے کی فرمائش کی مگر محمد خان سدوزئی نے سختی کے ساتھ اس بات سے منع کر دیا۔ میاں عبدالنبی سرائی اپنے نیک اطوار نو جوان بیٹے محمد عارف شہید یا اللہ کو دفن کر کے دوسرے دن بمعہ اہل و عیال اور مال و اسباب کشتیوں کے ذریعے سندھ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں سے وہ بعد ازاں جودھپور کے راجہ بھیم سنگھ کے پاس چلا گیا۔ راجہ بھیم سنگھ نے انھیں زندگی گزارنے کے لئے جاگیر عطا کر دی۔ تاہم میاں عبدالنبی سرائی نے والٹی کابل کو مسلسل عرضداشتیں بھیجیں کہ وہ انھیں لیہ بھکر اور منکیرہ کی مملکت دوبارہ دیں مگر والئی کابل نے ایسا نہ کیا بلکہ ان عرضداشتوں کے عوض انھیں علاقہ راجن پور میں ایک معقول جاگیر عطا کر دی جبکہ میاں عبدالنبی کا بڑا بیٹا فضل علی خان میر نصیر خان بلوچ والی قلات کے پاس پہنچا کہ وہ ان کی امداد کریں تا کہ وہ لیہ پر دوبارہ قبضہ کر سکیں۔ مگر میر نصیر خان وائی قلات نے معذوری کا اظہار کر کے فضل علی خان کو حاجی پور میں ایک جاگیر عطا کر دی جو اب تک فضل علی خان کی اولاد کے پاس ہے اور وہ لوگ حاجی پور اور لیہ میں رہتے ہیں۔ میاں عبدالنبی سرائی کی دوسری اولاد جودھپور میں رہتی تھی جو پاکستان بننے کے بعد پاکستان آگئی اور وہ اس وقت میر پور سندھ کے علاقہ میں رہتی ہے۔ سندھ کے کلہوڑ اسرائی لیہ پر صرف تمین سال حکومت کر سکے اور ان کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔ چاہ ڈیڈ ووالہ کا میدان ان کا آخری معرکہ جنگ تھا البتہ سرائی مسلک پورے صحرائے تھل کی پٹی میں پھیلا ہوا ہے اور لاکھوں عقیدت مند سرائی لوگ اب بھی میاں عارف شہید کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور مزار کے متولیوں کو نذر نیاز دیتے ہیں۔ محمد خان سدوزئی نے لیہ کو فتح کرنے کے بعد کچھ سالوں تک لیہ میں قیام کرنے کے بعد اس نے اپنی حکومت کا مرکز منکیرہ کو بنایا جہاں سے اس نے ڈیرہ اسماعیل خان اور گردو نواح کا علاقہ فتح کر کے اپنی قلمرو میں شامل کر لیا تا ہم چاہ ڈیڈ و والایہ کے آثار اب بھی موجود ہیں جو انیہ میں ہوس و حکمرانی اور اقتدار کی ایک خوفناک جنگ کی یاد دلاتا رہے گا۔ جس میں نہ جانے کتنے خاندانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے اور کتنی صورتیں خاک میں پنہاں ہو کر ہمیشہ کے لئے سکوت ابدی میں گم ہو گئیں۔

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com