لیہ کو جولائی 1982ء میں ضلع کا درجہ ملا۔ اس میں تحصیل کروڑ لعل عیسن بتحصیل لیہ اور تحصیل چوبارہ شامل ہیں۔ ضلع بھر میں گیم سینکچری صرف تین ہیں جس میں ماچھو پلانٹیشن گیم سینکچری ، عنایت پلانٹیشن گیم سینچری اور راجن شاہ پلانٹیشن گیم سینچری قابل ذکر ہیں۔ گیم سینچری کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ ایسی باؤنڈری جس میں شکار کھیلنے کی ممانعت ہو ۔ باہر کا جانور اندر آ سکے اور نہ اندر کا جانور باہر جاسکے اور نہ قدرتی ماحول اور آب و ہوا میں کسی قسم کی مداخلت ہو سکے۔ گیم ریزرو میں ماسوائے سپیشل پرمٹ کے حامل افراد کے کسی کو شکار کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس ضلع میں تحصیل چوبارہ کا سارا علاقہ گیم ریز رو ہے اور یہاں ہرن اور خرگوش پائے جاتے ہیں جبکہ لومڑی جنگی سور اور سیہہ ضلع کے دیگر علاقوں میں بکثرت ہیں جن کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ پرندوں میں تیتر مقامی پرندہ ہونے کی وجہ سے بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کے تحفظ کیلئے مقامی محکمہ وائلڈ لائف نے اپنی استعداد کے مطابق بہتر اور مثبت اقدامات کیے ہیں۔ شکاری پرندوں میں باز جو کہ مقامی طور پر پایا جاتا ہے جبکہ چورگ سائبر یا روس سے ہجرت کر کے آتا ہے۔ اسی طرح مہاجر موسمی پرندے جن میں مرغابی ، مگھ و دیگر (آبی) پرندے شامل ہیں جبکہ کونج ، تلور اور بیٹر بھی سائیبریا سے موسم سرما میں نقل مکانی کر کے قلیل عرصہ کیلئے پاکستان آتے ہیں۔ ٹھنڈے ماحول اور آب و ہوا کے عادی ہونے کی وجہ سے گرمیوں کی آمد سے قبل واپس چلے جاتے ہیں۔ فاختہ جنگلی کبوتر اور سہرا بھی مقامی پرندے ہیں جو ہر جگہ اڑتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو شکاری گیم سینچری اور گیم ریزرو میں شکار کھیلے گا اسے 5 ہزار روپے جرمانہ اور 2 سال قید کی سزا بھگتنا پڑتی ہے جبکہ ضلع کے باقی مقامات پر مروجہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر شکار کے مرتکب افراد کوکم از کم ایک ہزار روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی طرف سے لائسنس یافتہ شکاریوں کو کئی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ مزید برآں ضلع لیہ سعودی شہزادگان اور شاہی احکام کے شکار کیلئے مخصوص ہے جو ہر سال موسم سرما میں آکر تلور کے شکار کیلئے صرف 2 ماہ کیمپ لگاتے ہیں اور شکار سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آبی پرندوں کیلئے شکار کا موسم 15 اکتوبر سے 30 مارچ تک جبکہ تیتر اور دیگر پرندوں کیلئے 15 نومبر سے 15 فروری تک شکار کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس کیلئے بھی حکومت کی طرف سے با قاعده نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے جس میں مختلف اضلاع کی ایک یا چند تحصیلوں میں تیتر کے شکار کی اجازت ہوتی ہے اور شکار کیلئے کھلے علاقوں میں گزیڈ چھٹی اور جمعہ کا دن مقرر ہے۔ شوٹنگ لائسنس کی سالانہ فیس مبلغ 2 سوروپے جبکہ لائسنس تیتر کی اجراء فیس مبلغ 50 پچاس روپے وصول کی جاتی ہے۔ ضلع لیہ میں کوئی بریڈ نگ سنٹر نہیں ہے ۔ البتہ تیم سینچریوں میں پرندوں اور جانوروں کی بریڈنگ کیلئے مخصوص سیزن کے دوران ان کے انڈوں اور بچوں کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ اسی طرح جنگلی حیات انکے بچوں اور انڈوں کو نقصان پہنچانے اور وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی کرنیوالے شکاریوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ مزید برآں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی طرف سے شکاریوں اور جنگلی حیات کے شائقین افراد کی رہنمائی اور معلومات کیلئے پوسٹر، نقشہ جات اور دیگر مطبوعہ مواد بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ضلع لیہ میں تقریباً ہر ماہ چھ ہزار روپے وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب شکاریوں سے بطور جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ جنگلی حیات کے زیادہ نقصان کی صورت میں جرمانہ کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح لائسنس فیس کو بھی باقاعدگی سے سرکاری خزانہ میں جمع کرا دیا جاتا ہے ۔ جولائی 1982ءسے قبل لیہ کو سب ڈویژن کی حیثیت حاصل تھی جو ضلع مظفر گڑھ سے منسلک تھا ۔ محدود پیمانے پر کام کی وجہ سے معمولی ریونیو خزانہ میں جمع ہوتا تھا۔ یہ کوضلع کا درجہ ملنے پرمحکمہ تحفظ جنگلی حیات کا خود مختار ضلعی دفتر قائم کیا گیا جس کی بدولت آج حکومت کو لاکھوں روپے کی باقاعدہ آمدنی ہورہی ہے۔ مزید برآں عدالتی جرمانے بھی قومی خزانے میں جمع ہورہے ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے دنیا میں کئی طریقے رائج ہیں۔ ایک طریقہ حفاظت کا یہ ہے کہ ہم قانون نافذ کرتے ہیں جو مکمل حل نہیں ہے۔ جنگلی حیات ہمارا قومی ورثہ ہے اسے ہم مکمل تحفظ فراہم کریں اور یہی ہر مہذب قوم کا وطیرہ ہے۔ مزید برآں ہمیں اپنے معاشرہ اور عوام میں جنگلی حیات کا شعور پیدا کیا جائے کہ یہ کیوں ضروری ہے، اگر یہ ختم ہو گئی تو ماحول پر اسکے کیا منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ قدرت نے ہر چیز اور ہر جاندار کا اپنا اپنا دائرہ کار متعین کر رکھا ہے اگر اس میں معمولی غفلت اور کمی پیدا ہو جائے تو متعلقہ ماحول ضرور متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی سال اس شعبہ کو نظر انداز کیا گیا مگر اب تحفظ جنگلی حیات کے بارے میں بچوں اور بوڑھوں کو تعلیم و شعور دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنگلی حیات مرنے سے بچ جائے گی اور یہی ہماری ملکی اور قومی پالیسی کا مدعا ہے۔ پاکستان بھر پور میں قانون تعلیم اور بھائی چارے کے ذریعے جنگلی حیات کا تحفظ ممکن ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کو اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے پھر پور اور مثبت اقدامات کرنے چاہیے۔ اسی طرح دوسرے شکاریوں کے لائسنس نہیں مناسب وصول کی جائے ۔ اگر شکاریوں میں زیادہ لائسنس فیس کی وجہ سے شکار کا شوق کم یا ختم ہو گیا تو غیر قانونی طور پر شکار کر نیوالوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور نیٹنگ سے تیتر ، مرغابی، مگھ ، سرخاب کونج، بھٹ اور چکور وغیرہ کی نسل مکمل طور پر ختم ہو جائے گی متعلقہ محکمہ ( تحفظ جنگلی حیات) اپنی پالیسیوں کو جدید خطوط پر استوار کرے اور محکمانہ کارکردگی کو زیادہ افعال بنانے کے ساتھ ساتھ نایاب جانوروں اور پرندوں کے مکمل تحفظ کیلئے بہتر اقدامات کرے تا کہ آئندہ نسلیں جنگلی حیات کا اثاثہ دیکھ سکیں۔ اور محکمہ تحفظ جنگلی حیات کو چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ نایاب اور قیمتی جانوروں اور پرندوں کی حفاظت پر مرکوز کرے۔ گیم ریزرو میں عام طور پر تیتر شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ میملز بالکل ممنوع ہیں لیکن صرف سور کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح گیدڑ، لومڑی ، چوہا، سیسہ اور جنگلی بلا جس کی قانون میں اجازت ہے شکار کئے جاسکتے ہیں۔ جنگلی حیات کے خاتمے اور کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں ۔
جنگلات کا کم ہونا، ژالہ باری و دیگر قدرتی آفات، کیڑے مار ادویات کا استعمال، جنگلی جانوروں کے باعث جنگلی حیات کے انڈے اور بچوں کا ضیاع آبی ذخیروں میں کمی اور شدید موسمی حالات شامل ہیں۔ اسی طرح ایٹمی تجربات نے بھی قیمتی پرندوں جن میں مرغابی ، مگھ ، سرخاب شامل ہیں کی ہلاکت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے اور وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب شکاریوں سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ پاکستان میں خطرناک حد تک کم ہوتی ہوئی جنگلی حیات کیلئے یہ ضروری ہے کہ ناجائز شکار کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے ورنہ پاکستان قیمتی جنگلی حیات جن میں پاڑا چنگاڑہ کالا ہرن نیل گائے اڑیال برفانی ریچھ گوڑی بکری فیزنٹ برفانی ہرن شامل ہیں سے محروم ہو جائیگا جو قومی ورثے کا سخت نقصان ہوگا۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے