لیہ کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ آریان (Arrian) کے مطابق سکندر اعظم تقریباً 327 قبل مسیح میں جہلم سے نیچے کی طرف دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس کے سنگم کی طرف آبی سفر پر روانہ ہوا جبکہ اس کی بڑی فوجیں دو جتھوں کی شکل میں دریا کے دونوں طرف روانہ ہوئیں ۔ ہو سکتا ہے قراطیروس (Craterus) جو دائیں کنارے پر تھا، موجودہ ضلع لیہ کے کچھ حصوں میں کناروں کے ساتھ ساتھ چلا ہو اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ جہاں تک اس علاقہ کا تعلق ہے اس دور میں اس کے اندر دریاؤں کا راستہ ہی قیاس آرائی کا موضوع ہے۔ ضلع سب سے پہلے سکھوں کے ماتحت متحد ہواضلع مظفر گڑھ کی مجموعی طور پر کوئی مکمل تاریخ نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ یہ ملتان کے گورنر دیوان ساون مل کے ماتحت، سکھوں کے زیر حکومت متحد ہوا۔ تاہم یہاں ہمسایہ حکومتوں کی تاریخ کا ذکر برمحل ہے کیونکہ صرف اسی تاریخ سے ہی ان قبائل، جواب اس ضلع میں آباد ہیں، کی اصل تاریخ اس تواتر سے جس سے انہوں نے اس پر تسلط قائم کیا، معلوم ہوسکتی ہے۔ لہذا ہم عصر تاریخ ممکنہ اختصار کے ساتھ دی جائے گی
ہند و حکمران خاندان:
شروع سے ہی اس ضلع نے سلطنت سندھ کے مقدر کی پیروی کی۔ یہاں کی جات آبادی میں ، پھر سیت پور کے مخدوموں کے قبضے میں اور بعد ازاں بہاولپور کے نوابوں کے قبضے میں آئی۔ ڈیرہ غازی خان کے بالمقابل ضلع کے مغربی وسطی حصے پر ڈیرہ غازی خان کے حکمرانوں کی حکومت تھی۔ پہلے میرانی بلوچوں کی، پھر گجروں اور کلہوڑوں کی پھر مختلف گورنروں کی جو کابل کے درانی بادشاہوں کی طرف سے براہ راست مقرر ہوتے تھے اور آخر میں بہاولپور کے نوابوں کی۔ چناب کے دائیں کنارے پر واقع ملتان کے بالمقابل ضلع کے مشرقی وسطی حصے پر ملتان کے گورنروں کی برائے نام حکومت تھی۔ ضلع کے شمالی حصے بشمول تھل ایک طوائف الملوکی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد منکیرہ کے گورنروں کے محکوم بن گئے ۔ جنہیں مقامی طور پر تھل کے نواب کہا جاتا تھا۔
سیت پور میں پہلی حکومت ، نہر، بلوچ اور مخدوم:
وہ خاندان جس نے سیت پور کی سلطنت کی بنیاد رکھی نہر تھا۔ ۱۴۵۵ء (۸۵۴ھ) میں جب بہلول خان لودھی، جو ملتان کا گورنر رہا تھا، دہلی کا بادشاہ بنا تو اس نے (سندھ کا ) وہ علاقہ جو اس وقت چناب سے اُچ کے مقام پر ملتا تھا اور سلسلہ کوہ سلیمان کے درمیان واقع تھا، جو ہرند اور اُچ کے درمیانی خط کے جنوب کی طرف اور سندھ میں شکار پور کے شمال کی طرف اپنے رشتہ دار اسلام خان لودھی کو عطا کر دیا۔ یہ قطعہ اس علاقے پر مشتمل تھا جواب ضلع کی علی پور تحصیل کا جنوبی حصہ ضلع ڈیرہ غازی کا جنوبی حصہ اور سندھ کا شمالی حصہ بنتا ہے۔ اسلام خاں یا اس کے اخلاف نے نہر کا لقب اختیار کیا۔ اسلام خاں کے پوتوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور علاقے کو اپنے درمیان تقسیم کر لیا۔ موجودہ تحصیل علی پور کے جنوبی حصے جس کا سب سے بڑا شہر اس وقت سیت پور تھا، طاہر خان کے حصے میں آئے۔ اس نے اپنا سکہ وہاں پر قائم کیا اور مر گیا۔ نہر خاندان کی ستائیس نسلیں تھیں۔ نہروں کا آخری فرد بخش خان تھا جو علی پور تحصیل میں چپڑاسیوں کا جمعدار تھا اور جو حکومت سے خاندان کے مزارات کی دیکھ بھال کے صلہ میں ایک معمولی سا وظیفہ حاصل کرتا تھا، اس کے بعد اس ذمہ داری کی حامل بیوہ خواتین تھیں۔ ایک نہر نے اپنی زندگی میں ہی ایک عمدہ مقبرہ تعمیر کرایا۔ جو ابھی تک موجود ہے اس کا نام طاہر خان تھا۔ جونی یا دریا دل، کہلاتا تھا۔ ایک دوسرے شخص نے جس کا نام علی خان تھا علی پور کی بنیاد رکھی۔ نہروں کی کوئی دوسری یادگار باقی نہیں ہے۔پندرھویں صدی کے آخر پر بلوچوں نے پہاڑوں سے نکلنا شروع کر دیا اور انہوں نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر سیت پور سے لے کر تحصیل لیہ میں کوٹ کروڑ تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ ۱۴۸۴ء (۵۸۸۷ ) میں ایک میرانی بلوچ حاجی خان نے ڈیرہ غازی خان کی اور ایک خاندان کی بنیاد رکھی، جس کے حکمران باری باری حاجی خان اور غازی خان کے لقب اختیار کرتے تھے۔ ان سرداروں نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے جنوب سے نہروں کو نکال دیا اور سیت پور کے نہروں پر بہت سخت دباؤ ڈالا۔ سازش نہروں کے اپنے دروازے پر ہی مصروف عمل تھی۔ شیخ راجو جو سیت پور کا مخدوم تھا اور نہروں کی کونسل کا رکن تھا، نے اپنے اقتدار کے لئے علاقے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اس نے نہروں کو بالکل خارج نہیں کیا کیونکہ جب اپنی باری آنے پر بہاولپور کے نوابوں نے اس کا تختہ الٹ دیا تو علاقے کے کچھ حصے ابھی تک نہروں کے قبضے میں تھے تا ہم ضلع کے جنوب میں بہت بڑے حصے پر سیت پور کے مخدوموں کی حکومت تھی بہاولپور کی یورشوں کے شروع ہونے تک شہروں یا مخدوموں کی حکومت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ نہر کچھ لا پرواقسم کے حکمران تھے ۔ انہوں نے اپنے پیچھے طاہر خان کے مقبرے کے علاوہ کوئی تعمیرات عامہ کا کام نہیں چھوڑا۔ اس بارش سے محروم اور سیلابی علاقے میں ایک اچھے حکمران کا معیار یہ ہے کہ اسے نہریں اور حفاظتی پشتے تعمیر کرنے چاہئیں تھے۔ نہروں کا لقب انہیں ان کی غارت گری کی وجہ سے دیا گیا، زبان زد عام کہانیاں ان کی عقل کی کمی کی شہادت دیتی ہیں۔ ایک سردیوں کی رات کو گیدڑ سیت پور کے ارد گردغزارہے تھے ۔ طاہر خان دریادل نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ وہ کیوں غرارہے ہیں۔ وزیر نے جواب دیا کہ سردی کی وجہ سے نہر نے ان کے لئے کپڑے تیار کرنے کا حکم دے دیا۔ اگلی رات کو گیدر دوبارہ غرانے لگے اور نہر نے وزیر سے پوچھا کہ وہ کس لئے غزا ر ہے ہیں۔ وزیر نے جواب دیا وہ آپ کی سخاوت کی وجہ سے آپ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ ان کے برعکس سیت پور کے مخدوم اچھے حکمران تھے۔ اُنہوں نے نہریں گھر دائیں ۔ زراعت کو ترقی دی اور ان میں سے ایک نے ضلع ڈیرہ غازی خان میں راجن پور کے قصبے کی بنیاد رکھی۔
جب بہاولپور کے نواب نے سیت پور پر قبضہ کر لیا :
سیت پور کی تقسیم شدہ اور کمزور ریاست نے پہلی مرتبہ اٹھارویں صدی کے آغاز میں بہاولپور کے نوابوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا۔ انہوں نے اس ضلع کے ایک حصے پر ایک سوسال تک حکومت کی اور یہاں پر اپنے عوامی کاموں اور ایک منظم مالیاتی نظم ونسق متعارف کرانے سے اپنا ایک نقش چھوڑا ۔ بہاولپور کی ریاست کا بانی شکار پور سندھ کے ایک ممتاز شہری ملا مبارک خان کا بیٹا صادق محمد خان تھا۔ نواب صادق محمد خان کو سندھ کے کلہوڑا گورنروں میں پہلے گورنر نورمحمد کلہوڑا کی دشمنی کی بنا پر (جس کی وجہ یقینی طور پر معلوم نہیں ہے ) بھاگنا پڑا۔ صادق محمد خان نے ۱۷۲۷ء (۱۱۴۰ھ ) میں شکار پور کو چھوڑا اور اپنے پیروکاروں کے ایک گروہ کے ساتھ ضلع مظفر گڑھ میں سے ہوتا ہوالیہ تحصیل کی سرحد بیٹ دیکی پہنچا۔ سندھ کی افواج نے میر شاہ داد خان کی زیر قیادت اس کا قریبی تعاقب کیا۔ ایک جھڑپ ہوئی جس میں سندھیوں کو شکست ہوئی ۔ پھر صادق محمد خان نے اُچ کے مخدوموں کے ہاں پناہ لی۔ جنہوں نے اُسے اپنی سفارشات کے ساتھ گورنر ملتان حیات اللہ خان کے ہاں بھیج دیا ۔ حیات اللہ خان نے اسے ستلج کے جنوب میں چوہدری کا ضلع جاگیر میں دے دیا۔ صادق محمد خان نے اپنے آپ کو کاشتکاری کے توسیع کنندہ اور لٹیروں کو دہانے والے کے طور پر نمایاں کر لیا۔ ۱۷۳۹ء (۱۱۵۲ھ ) میں صادق محمد خان نے نادر شاہ کی طرف سے نواب کا خطاب حاصل کیا اور نادر شاہ کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی طوائف الملو کی میں وہ اس علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کی حدود شمال میں ستلج، مشرق میں بریکا نیر تک جنوب میں صوبہ سندھ تک اور مغرب میں دریائے سندھ تک تھیں۔ صادق محمد خان کا جانشین اس کا بیٹا بہاول خان بنا جس نے بہاولپور شہر کی بنیاد رکھی اور جسے بہاول خان اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے جانشین مبارک خان کے عہد میں ہی بہاولپور کے نوابوں نے اپنے آپ کو مستقل طور پر اس ضلع میں مستحکم کیا۔۱۷۵۱ء (۱۱۶۴ھ ) میں مبارک خان نے نہروں سے مڈوالا جو کہ اب چناب کے دائیں کنارے پر شہر سلطان اور علی پور کے درمیان تلج اور چناب کے سنگم کے عین اس پار ایک بڑا سا گاؤں ہے چھین لیا اور اسی سال اس نے بیٹ ڈوما جو کہ سیت پور کے جنوب میں ایک گاؤں اور ایک قطعہ زمین ہے سیت پور کے محذوم شیخ راجو سے چھین لیا۔ بہاول خان ثانی دوسرا نواب تھا۔ ۱۷۸۱ء (۱۱۹۴ ھ ) میں اس نے جتوئی کا پرگنہ سیت پور کے محذوم شیخ راجو سے لے لیا۔ ہندوستانی تاریخیں یہ کہتی ہیں کہ اس نے یہ مستاجری پر لیا تھا۔ لیکن یہ بات بمشکل قابل یقین ہے۔ نواب انتہائی طاقتور تھا اور مخدوم دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے تھے۔ نواب نے پہلے ہی مخدوموں کے علاقے کا ایک حصہ بزور لے لیا تھا اور باقی ماندہ بھی وہ تھوڑے عرصے بعد لینے والا تھا۔ یہ تقریباً ۱۷۹۰ء کے لگ بھگ تھا کہ دریائے سندھ نے اپنے پرانے راستے کو چھوڑ دیا جو اُچ کے قریب چناب سے ملتا تھا اور وہ پاٹ اختیار کر لیا جس پر یہ اب بہتا ہے۔ اس طرح اس ضلع کا جنوبی حصہ بہاولپور کے حملوں کے لئے کھلا تھا اور نواب نے فوراً ہی اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے علی پور شہر سلطان سیت پور اور خیر پور بغیر کسی مزاحمت کے لے لئے۔ غرضیکہ علی پور تحصیل کا بقیہ حصہ نہروں اور سیت پور کے مخدوموں سے لے لیا۔ اس نے مظفر گڑھ تحصیل کا پورا مغربی اور جنوبی حصہ ڈیرہ غازی خان کے حکمرانوں سے لینے کے لئے بھی کاروائی کی۔ فی الحال علی پور تحصیل کو اس کے قبضے میں چھوڑ کر باقی ماندہ حکومتوں کا جو اس ضلع میں قائم تھیں حال بیان کیا جا سکتا ہے۔
دوسری حکومت ڈیرہ غازی خان:
یہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ پندرھویں صدی کے انتقام پر بلوچوں نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر قبضہ کر لیا اور یہ کہ ۱۳۸۴ء میں حاجی خان نے ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ اس کا بیٹا غازی خان تھا اور ۱۷۶۹ء (۱۱۸۳ھ ) تک حاجی خان اور غازی خان باری باری سے حکومت کرتے رہے۔ جہاں تک اس ضلع کا تعلق ہے وہ اچھے حکمران تھے۔ انہوں نے زراعت کی حوصلہ افزائی کی اور نہریں کھودیں ان میں سے ایک نے جسے غازی خان کہا جاتا تھا۔ دریائے سندھ پر تھر تھے کی بنیاد رکھی۔ محمود گجر یوسف نامی شخص کا بیٹا تھا۔ وہ آخری غازی خان کا وزیر بن گیا اور حکومت کو سازشیوں کے ہاتھوں سے بچانے کے بہانے سندھ کے گورنر غلام شاہ کلہوڑا کو دعوت دی جس نے ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا۔ غازی خان کو گرفتار کر لیا اور اسے قیدی بنا کر سندھ لے گیا جہاں وہ مر گیا۔ غلام شاہ نے محمود خان گجر کو اپنے پیچھے ڈیرہ غازی خان کا گورنر بنا دیا۔ اُسے خراسان کے بادشاہوں نے برقرار رکھا اور اس نے ان کی طرف سے نوابی اور جان نصر خان کا لقب حاصل کئے۔ محمود خان گجر نے ۳۰ سال تک حکومت کی اور اس کا جانشین اس کا بھتیجا برخوردار بنا۔ جس کی جگہ خراسان سے براہ راست مقرر کئے جانے والے گورنروں نے لی۔ محمود خان گجر کی اس ضلع میں ایک اچھے حکمران کی شہرت ہے۔ اس نے بہت سی زمین خریدی جو آج تک حکومت کی ملکیت ہے۔ اس نے محمود کوٹ کے قلعے کی تعمیر کی۔ اس ضلع میں شیعہ مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز محمود خان گجر کی وجہ سے ہونے والے کا ہوڑا حملے سے ہوا ہے۔ گجروں کے بعد بہت سے گورنر براه راست خراسان سے بھیجے گئے۔ دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر طوائف الملوکی پھیل گئی۔ جس نے اس علاقے کو ۱۷۹۱ء میں بہاول خان دوم کے حملے کے لئے تیار کیا۔ یہاں مظفر گڑھ کے ڈیرہ غازی خان والے حصے کو اسی جگہ چھوڑا جاتا ہے جہاں سیت پور کو چھوڑا گیا تھا اور ضلع کے اس حصے کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ جو ملتان کے زیر نگین تھا۔ تا ہم چوتھی حکومت کو زیر بحث لاتے ہوئے بلوچوں کی تاریخ کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے گا۔
تیسری حکومت ملتان:
لنگاہ جن کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے۔ ۱۵۲۹ء میں افغانوں کی طرف سے جو برائے نام بایر کی طرف سے نیابت کر رہے تھے نکال دیئے گئے اور اکبر کے دور حکومت میں ملتان کو ایک صوبے کے طور پر دہلی حکومت میں شامل کر لیا گیا۔ ملتان کی ذیلی قسمتوں میں سے آئین اکبری میں جن دو کا ذکر ہے وہ صرف رنگ پور اور سیت پور ہیں اگر چہ عام تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ ضلع کبھی دہلی کے ماتحت رہا ہوگا اور کبھی خراسان کے ان دونوں بادشاہتوں میں سے کسی کا اس کی اندرونی تاریخ پر کوئی اثر نہیں تھا اور مقامی سرداروں نے اپنی عوامی ترقیاں اور اپنی چھوٹی چھوٹی جنگیں مرکزوں کی کسی مداخلت کے بغیر جاری رکھیں۔ وقتا فوقتا دونوں مخالف حریفوں میں سے کوئی ایک دہلی یا کابل کی طرف سے فرمان کشیش حاصل کر کے اپنے مقصد کو تقویت دینے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن پیروکاروں کا مضبوط ہاتھ کسی سند یا فرمان سے زیادہ بہتر سہارا ثابت ہوتا تھا۔ کسی ایسے سردار کے عروج کو بیان کرنے کے ضمن میں جو ایک مستحکم حکومت کے موجود ہونے کی صورت میں پھانسی چڑھ جاتا۔ مقامی مورخوں کا ایک پسندیدہ قول یہ ہے:
اُدھر دتی کی سلطنت میں فتور ادھر شاہان کابل کی نظروں دُور لہذا یہ بہتر ہے کہ جہاں تک ممکن ہو برائے نام مرکزی حکومت پر توجہ دینے سے گریز کیا جائے اور اس کی غیر متعلق تاریخ کو صرف اس حد تک جس حد تک اس کا اس ضلع پر اثر ہے بیان کیا جائے۔ اس اصول کی بنا پر ملتان کی تاریخ کا اس ضلع کی تاریخ سے گاہوں کے وقت سے لے کرملتانی پٹھانوں کے وقت تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ سدوزئی افغانوں کا ایک خاندان تھا اور اس خاندان کی ایک شاخ تھی جس سے کابل کے بادشاہ احمد شاہ تیمور شاہ زمان شاہ اور شاہ شجاع تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کا پہلا شخص جو ہندوستان میں آیا حسین خان تھا۔ جس نے اور نگ زیب کے وقت میں، اس ضلع میں رنگ پور کو بطور جاگیر رکھا۔ زاہد خان اس خاندان کا پہلا شخص تھا جو ملتان کا نواب بنا۔ یہ ۱۷۳۸ء کی بات ہے زاہد خان اور اس کے بیٹے شجاع خان کی تخت نشینی کے درمیانی عرصے میں محض طوائف السلو کی پھیلی رہی، شجاع خان کو ملتان کی حکومت ۱۷۶۷ء میں سونپی گئی۔ اس نے خان گڑھ کے بالمقابل ضلع ملتان میں شجاع آباد کی بنیاد رکھی ۔ اس کے وقت میں بھنگی سکھوں نے ملک کو تاراج کیا اور شجاع خان کو شجاع آباد دھکیلتے ہوئے ملتان پر قبضہ کر لیا۔ آج تک بھنگی سکھوں کے حملے اور ان کے مظالم دریائے چناب کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ رہنے والے کسانوں کے دلوں میں زندہ ہیں، شجاع خان کا جانشین اس کا بیٹا مظفر خان ہوا۔ جو ملتان کو ۷۷۹ او تک واپس نہ لے سکا ۔ جب وہ کابل کے بادشاہ تیمور شاہ جس نے سکھوں کو نکال دیا اور منظفر خان کو نواب کے خطاب کے ساتھ بطور گورنر مقرر کیا’ کے ہاتھوں بحال ہو گیا۔ مظفر خان نے ۱۸۱۸ء تک ملتان پر حکومت کی جب اس کا محاصرہ کر لیا گیا اور یہ سکھوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور نواب اپنے پانچ بیٹوں کے ساتھ قتل ہو گیا۔ مظفر خان کا عہد ایک مسلسل جنگ کا عہد تھا۔ اس کا تعلق اس ضلع سے محض ایک سرکاری گورنر کا تھا اور یہ چیز حیرت انگیز ہے کہ اس نے چناب کے دائیں کنارے کے علاقے میں اس قدر ترقیوں کے لئے وقت پا لیا، اس ضلع میں واقع علاقوں میں جو ملتان سے منسلک تھے، رنگ پور مراد آباد مظفر گڑھ خان گڑھ اور غضنفر گڑھ کے تعلقے شامل تھے۔ مظفر خان نے نہریں کھدوائیں پیٹتے بنوائے اور کاشتکاری کو وسعت دی۔ اس نے اس حصے میں اپنے قبیلے کے بہت سے افراد کو تحکم کیا، جو ایک یاد گار حقیقت رہے گی جب بھی ملتانی پٹھانوں کے عہد کا حوالہ دیا جائے گا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے مظفر گڑھ کے قلعے اور شہر کی بنیاد رکھی۔ اس کی بہن خان بی بی نے خان گڑھ کے قلعے اور قصبے کی جبکہ اس کے بھائی غضنفر خان نے غضنفر گڑھ کے شہر اور قلعہ کی بنیاد رکھی۔
چوتھی حکومت تھل نواب:
چوتھی حکومت اس علاقے پر مشتمل تھی جو اب بڑی حد تک کوٹ ادو تحصیل اور یہ ضلع ہے۔اس علاقے کی تاریخ بھکر، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کی تاریخ سے وابستہ ہے اورعلیحدہ تذکرہ کی متقاضی ہے۔
جب لیہ تحصیل ۱۷۳۹ء تک مغل سلطنت کا حصہ رہی:
یہ تحصیل ۱۷۳۸ء میں نادر شاہ کے حملے تک جب کہ اس علاقے کو عام طور پر تاراج کیا گیا مغل سلطنت کا حصہ رہی ۔ ۱۷۳۹ء میں دریائے سندھ کا مغربی علاقہ شہنشاہ کی طرف سے نادر شاہ کو دے دیا گیا اور اس کی وفات کے بعد احمد شاہ ابدالی کو منتقل ہو گیا۔ احمد شاہ کی افواج نے اس ضلع میں سے متعدد بار مارچ کیا، جس میں دریائے سندھ سے ادھر کا علاقہ باقی پنجاب کے ساتھ ۱۷۵۶ء میں درانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ احمد شاہ کے عہد حکومت کے بیشتر حصے میں کابل حکومت کی طرف سے کوئی باقاعدہ گورنر مقرر نہیں کئے جاتے تھے۔ یہ علاقہ ہوت اور جسکانی سرداروں اور متعدد قریبا خود مختار سرحدی قبائل کے درمیان تقسیم شدہ تھا۔ کبھی کبھار بادشاہ کے سرداروں میں سے کوئی ایک فوج لے کر علاقے میں مارچ کرتا تھا ایک بے قاعدہ اور اکثر طاقت کے ذریعے سے وہ محاصل وصول کرتے ہوئے جس کا غالبا مختلف علاقوں پر تخمینہ لگایا جاتا تھا، لیکن احمد شاہ کے عہد کے اختتام تک علاقے کی اندرونی نظم و نسق کی صورت حال پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی اپنی وفات سے دو یا تین سال پہلے احمد شاہ نے نصرت خاں کو معزول کر دیا جو کہ ڈیرہ کا آخری ہوت حکمران تھا۔ اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے صوبے پر کمال الدین اور کابل سے مقرر کئے جانے والے دیگر گورنرحکومت کرتے رہے کوئی دس سال بعد محمود خاں گجر جس نے ڈیرہ غازی خان کی حکومت میں میرانیوں کی جانشینی کی تھی کے اخلاف کو بھی اسی طرح ہٹایا گیا اور ۱۷۸۶ء میں لیہ کے قدیم جسکانی خاندان کو عبدالنبی سرائی نے نکال باہر کیا جسے یہ علاقے بادشاہ کی طرف سے جاگیر میں عطا کئے گئے تھے۔ صدی کے اختتام پر دریا کے دونوں طرف موجودہ ضلع پر نواب محمد خان سدوزئی کے تحت ایک حکومت کے تحت منظم کیا گیا تاہم آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ قدیم بلوچ قبائل کے تحت اس علاقے کی تاریخ کی تفصیلات کو چھیڑا جائے۔
1469ء میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھنے والے قبائل کی آبادکاری:
دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پہلے بلوچ سرداروں کی آبادکاری کے حوالے تاریخ فرشتہ میں اور ایک فاری مسودہ مترجمہ لیفٹینٹ میںکلیکن میں موجود ہیں۔ موخر الذکر کی طرف سے دیا گیا بیان یہ ہے کہ ۸۷۴ھ (۱۴۹۹ء) میں قطب الدین کے بیٹے سلطان حسین نے ملتان کی حکومت حاصل کر لی۔ اس نے شور (کوٹ)، چنیوٹ (ضلع جھنگ) ، کوٹ کروڑ ( کروڑ لعل عیسن ) اور دین کوٹ ( نزد کالا باغ) کے قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے فوری بعد ایک دودائی بلوچ ملک سہراب اپنے بیٹے اسماعیل خان، فتح خان اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کے ہمراہ پیچ مکر ان سے یہاں پہنچا اور سلطان حسین کی ملازمت میں شامل ہو گیا۔ کیونکہ اس وقت ملتان کے صوبے میں پہاڑی لٹیرے بہت تکلیف رساں ہوتے جا رہے تھے لہذا سلطان حسین ملک سہراب کی بر موقع آمد پر بہت خوش ہوا اور قلعہ کروڑ سے دین کوٹ تک کا علاقہ اس کی تحویل میں دے دیا۔ یہ بات معلوم ہونے پر پیچ مکر ان سے بہت سے بلوچ آکر سلطان کی ملازمت میں شامل ہوتے گئے ۔ دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ ساتھ پڑی ہوئی کاشت شدہ اور بنجر زمینیں بلوچوں کی تحویل میں دے دی گئیں اور شاہی محصول میں اضافہ ہونے لگا۔ ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے قدیم باشندے بیان کرتے ہیں کہ سہراب کی آمد کے بعد حاجی خان اپنے بیٹے غازی خان اپنے بہت سے رشتہ داروں اور قبیلے کے ساتھ کیچ مکران سے آکر سلطان کی ملازمت میں شامل ہو گیا جبکہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کے علاقے ملک سہراب اور حاجی خان کے ہاتھوں میں تھے ۔ ملک سہراب نے ایک ڈیرے کی اسماعیل خان کے نام پر اور حاجی خان نے ایک دوسرے ڈیرے کی غازی خان کے نام پر بنیاد رکھی۔ اس بیان کی تصدیق مورخ فرشتہ بھی کرتا ہے۔
ان بلوچ سرداروں کی شہنشاہ شیر شاہ کی اطاعت ۱۵۴۰ء:
دوبارہ ہم ان سرداروں کے بارے میں ۱۵۴۰ء میں سنتے ہیں۔ اس سال شہنشاہ شیر شاہ نے خوشاب اور بھیرہ کا دورہ کیا (ضلع شاہ پور میں ) اور پنجاب کے جنوب مغربی حصوں کو زیر اطاعت لانے کا اہتمام کیا۔ ان دوسرے سرداروں کے ساتھ جو وہاں نمودار ہوئے اور جنہوں نے اطاعت قبول کی دورائی بلوچ اسماعیل خان، غازی خان اور فتح خان بھی شامل تھے ۔ یہ لوگ غالباً ان آدمیوں کے اخلاف تھے جن کا اوپر ذکر کیا گیا، کیونکہ ان خاندانوں میں یہ رسم تھی کہ وہ ایک مشترک نام رکھ لیتے تھے۔ جس سے وقت کا حکمران سردار ہمیشہ پہچانا جاتا تھا۔ پس ڈیرہ اسماعیل خان کے ہوت ہمیشہ اسماعیل خان کہلاتے تھے جبکہ ڈیرہ غازی خان کے میرانی ہمیشہ حاجی خان اور غازی خان کہلاتے تھے۔ بلوچوں کا ذکر اس وقت کے احوال میں ایک وحشی اور جرات مند قبیلے کے طور پر ملتا ہے۔ جو زیریں پنجاب میں کافی عرصے سے آباد تھے۔ مسٹر فرائر (Fryer) اپنی ضلع ڈیرہ غازی خان کی آباد کاری رپورٹ (Settlement Report) میں ذکر کرتے ہیں کہ غازی خان اول ۱۴۹۴ء میں فوت ہوا جیسا کہ اس کے مزار پر لکھی ہوئی تاریخ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ مذکورہ بالا مسودہ کی تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے اور پندرہویں صدی کے آخری نصف کو ایک ایسے دور کے طور پر متعین کرتی ہے جس میں بلوچوں کی بڑی ہجرت واقع ہوئی۔ یہ چیز بلوچوں کے سرداروں کو اتنا وقت بھی مہیا کرتی ہے کہ وہ ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ کے خوشاب کے دورے تک علاقے کے تسلیم شدہ سردار رہ چکے ہوں، ان بلوچ آباد کاروں کی تاریخ بہت زیادہ ابہام زدہ ہے۔ جو بڑی حد تک مقامی مؤرخوں کی اس عام عادت سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑے قصبوں اور گاؤں کی بنیا درکھنے کو ان ابتدائی آباد کاروں یا ان کے بیٹوں کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں جن کے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کا نام رکھا۔
قدیم تاریخ سے حاصل ہونے والے بنیادی حقائق:
تسلیم شدہ بنیادی حقائق کچھ ایسے لگتے ہیں کہ ابتدائی آباد کار دوسر کردہ خاندانوں میں گروہ بند ہو گئے تھے۔ اسماعیل خاندان اور غازی خاندان غالباً یہ دونوں ایک ہی سلسلہ سے تھے یعنی دودائی بلوچ لیکن دودائی کا نام یکسر غائب ہو جاتا ہے۔ اور مقامی تاریخ میں غازی خان کا قبیلہ میرانی بلوچوں اور اسماعیل خان کا ہوت بلوچوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بلوچوں کے مطابق دودائی جاٹ دراصل ایک مخلوط قبیلہ تھا جو سٹھا ئر ما کے بڑے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جس کی نمائندگی اب لیہ کے سر ما کرتے ہیں ان کے بانی دو دانے ایک بلوچ عورت سے شادی کی۔ یہ قبیلہ بلوچ یورش سے پہلے ڈیرہ غازی خان کا مالک تھا۔ بلوچوں کی طرف سے ضم کر لئے جانے پر بھی اس نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ ڈیرہ غازی خان کے میرانی دورائی تھے۔ اس کے برعکس ہوت خالص النسل بلوچ تھے۔ بلوچ روایت کے مطابق ہوت ان پانچ بڑی شاخوں میں سے جن میں بلوچ بنیادی طور پر تقسیم کئے جاتے ہیں۔ ایک شاخ ہیں یعنی رنڈ لاشاری بہوت کو رائی اور جتوئی جنہوں نے اپنے نام میر جلالان جو سب کا مشترکہ مورث اعلیٰ ہے کے چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے اخذ کئے ۔ لہذا یہ بمشکل ہی دودائی قبیلے کی کوئی شاخ ہو سکتے ہیں۔ لگتا ہے ملتان کے گورنر نے انرکھتے ہوئے اپنے آپ کو ایک لٹیرے سردار کے طور پر منوایا۔ اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک خاصی بڑی تعداد جمع کی اور پانچ سو گھوڑ سواروں کی قیادت کرتے ہوئے ڈیرہ غازی خان کے میرانیوں اور ڈیرہ اسمعیل خان کے ہو توں دونوں سے بغاوت کی، جن کی سرحدوں پر وہ اپنے آپ کو مستحکم کر چکا تھا۔ یہ سولھویں صدی کے آخری نصف میں اکبر کے عہد میں ہوا۔ آخر کار شہنشاہ اکبر نے اس کے خلاف ایک فوج بھیجی۔ وہ قتل ہو گیا اور اس کا جتھہ ٹوٹ گیا۔ تاہم لگتا ہے کہ یہ قبیلہ دوبارہ مجمع ہوا اور سترھویں صدی کے آغاز میں ان کے سردار بلوچ خان نے شہنشاہ سے محمود کوٹ سے لے کر ضلع میانوالی میں کھولہ کے مقام تک کا علاقہ کشیش کے طور پر حاصل کیا۔ تا ہم لگتا ہے جسکانی بخشیش شدہ حصے میں اس حصے کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے جو دریا خان کے شمال میں تھا۔ اس پر اٹھارویں صدی کے اخیر تک ڈیرہ کے ہوتوں کا قبضہ رہا۔ غالباً جسکانیوں نے اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا جو وہ پہلے ہی رکھتے تھے۔ اگر چہ وہ برائے نام ہوتوں اور میرانیوں کی ماتحتی میں تھے۔ اب سے بعد وہ خود مختار تھے اور میرانیوں نے حلقہ لیہ پر اپنا اقتدار بالکل کھو دیا۔ کہا جاتا ہے کہ میرانی حتمی طور پر لیہ سے ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ باہر ہوئے۔ لیہ اور بھکر تحصیلوں کے تمام سر کردہ بلوچ بلوچ خان کی نسل میں سے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ جسکانی مندرانی، عمرانی کندانی سرگانی اور ملیانی ہیں۔ بلوچ خان کے جانشین جسک خان، بھکر خان لنگر خان اور اس کے خاندان کے دوسرے سردار تھے ۔ جن کے کارناموں کے بارے میں مقامی روایات بہت مبالغے سے کام لیتی ہیں۔ سترھویں صدی کے آغاز میں جسکانیوں نے لیہ بھکر اور تھل کے آر پار چناب کی سمت حکومت کی لگتا ہے کہ وہ اُچ کے سیالوں کے ساتھ کم وبیش جنگ کی حالت میں تھے اور وقتاً فوقتاً سکھوں کے ساتھ بھی ان کا واسطہ پڑتا رہا جو اس وقت پنجاب میں ایک طاقت بن رہے تھے۔ بلوچ خان اوندھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جسکانیوں کے مشہور لوگوں میں سے ایک تھا۔ ۱۷۴۶ء میں سکھ لیڈروں جھنڈا سنگھ اور گنڈا سنگھ کے ساتھ جنگ میں مارا گیا۔ اس بات کا امکان ہے۔ اس واقعے کی حقیقی تاریخ کچھ بعد کی ہو اور یہ جھنڈا سنگھ غالبا وہی ہو جس نے ۱۷۷۲ء میں ملتان پر قبضہ کیا لکھم کی سکھوں کی تاریخ ” (History of Sikhs) میں ذکر ہے کہ ۱۷۷۲ء سے لے کر شاہ کابل کے دوبارہ ملتان پر قبضے تک بھنگی سکھ تمام جنوبی پنجاب پر غالب تھے اور لگتا ہے کہ انہوں نے منکیرہ اور ساتھ ہی ساتھ ملتان پر قبضہ کر لیا تھا اور کالا باغ سے نیچے کے علاقے میں محصولات نافذ کرتے رہتے تھے مقامی روایت رنجیت سنگھ کے آخری قبضے سے پہلے منکیرہ پر سکھوں کے قبضے کے خلاف ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوئی مہم محض ایک وقتی حملے سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔ اس دور کی تاریخ بہت دھندلکے میں لپٹی ہوئی ہے اور احوال محض روایت پر مبنی ہونے کی وجہ سے متصادم ہیں۔
فتح خان جسکانی ۱۷۴۶۷۰ء:
فتح خان اپنے باپ بلوچ خان اوندھا کا جانشین ہوا۔ اسکے عہد حکومت کے اختتام کے قریب ڈیرہ اسماعیل خان کا نصرت خان ہوت دریا کو عبور کر کے بھکر آیا اور فتح خان کے بیٹے کو جس کا نام بھی نصرت تھا شکست دی۔ اور اسے قیدی بنا کر اپنے ساتھ ڈیرہ لے گیا۔ حسن خان لشکرانی کو جو فتح خان کا وزیر تھا ڈیرہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن اس نے بہانے بنائے اور نصرت خان جسکانی کی ماں کی طرف سے اپنے بیٹے کی رہائی حاصل کرنے کی کوشش، نصرت خان ہوت کی طرف سے اس کی بے حرمتی پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد نصرت خان رہا ہو گیا لیکن اس بے عزتی پر شرم کی وجہ سے اس نے اور اس کے باپ دونوں نے اپنے آپ کو زہر دے دیا۔ یہ پورا واقعہ ایک بدنامی کا داغ تھا اور کیونکہ نصرت خان ہوت ایک جابر اور رند بادشاہ کے طور پر کمرے کردار کا مالک تھا لہذا احمد شاہ نے جو ان نیم خود مختار صوبوں پر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی خواہش رکھتا تھا، اس بہانے سے فائدہ اٹھایا اور اسے حکومت سے معزول کرنے کے بعد قیدی بنا کر کابل لے گیا۔
وزیر حسن خان السکرانی:
ای دوران حسن خان السکرانی نے سابق سردار فتح خان کے ہوتے حیات خان کے نام پر دریائے سندھ سے ادھر کے علاقے پر حکومت کی تاہم حکومت کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا خواہش مند ہونے کی وجہ سے اس نے حیات خان کو منکیرہ کے قلعے میں اپنی کڑی نگرانی میں رکھا اس کے بعد بھی جب موخر الذکر بلوغت کو پہنچ چکا تھا۔ آخر کار حیات بیچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور ایک جماعت کو اکٹھا کر کے اس نے حسن خان کو شکست دے کر قیدی بنا لیا۔ اس کے جلد ہی بعد حسن خان حیات خان کے کچھ ملازموں کے ہاتھوں جو اس کے مخالف تھے قتل ہو گیا۔ تاہم اب جسکانیوں کی حکومت بہت تیزی سے ختم ہو رہی تھی ۔ سرگانی جو اس وقت ایک مضبوط قبیلہ تھا اور حیات خان کے لاڈ پیار سے بہت بگڑ گیا تھا، حیات خان کی طرف سے تیار کی گئی ایک مہم میں جو اُچ کے ایک نیک نیت شخص گل محمد کے خلاف تھی، جو چناب کے علاقے میں اپنی خود مختاری قائم کرنا چاہتا تھا ناراض ہو گئے ۔ لہذا اپنوں نے دھوکے سے اس پر حملہ کر دیا اور ۱۷۸۷ء میں منکیرہ کے قلعے میں اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد سرگانیوں نے اپنے سردار گولا خان کی سرکردگی میں کچھ عرصے تک محمد خان جو مرحوم حیات خان کا بھائی اور جانشین تھا، کے خلاف استقامت دکھائی۔ آخر کار انہیں جسکانی پارٹی کے ہاتھوں دیوان لدھا رام کی سرکردگی میں شکست ہوئی اور ان کے سردار گولا خان کے اس ایکشن میں قتل ہو جانے پر سرگانیوں نے محمد خان سے صلح کر لی اور انہیں منڈا شیر گڑھ کا علاقہ دے کر جو انہیں جاگیر میں عطا ہوا تھا ان سے گلو خلاصی حاصل کر لی گئی۔
ڈیرہ غازی خان کی ہم عصر تاریخ:
اب دوبارہ ڈیرہ غازی خان کے حالات کی طرف رجوع کرنا چاہیے جس کے سرداروں کا ہمیشہ جسکانی ریاست کے لیہ والے حصے پر خاصا اثر تھا۔ اگر چہ اقتدار نہ تھا ڈیرہ غازی خان کی تاریخ زیادہ تر ٹکڑے ٹکڑے اور باہم متصادم ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے پورے عہد کے دوران (۱۷۴۷۰۷۳ء) پرانا میرانی خاندان درانی بادشاہ اور سندھ کے کلہوڑوں کے مابین کچلا جا رہا تھا اور اس پورے دوران میں محمود خان گجر جو آخری غازی خاندانوں کے ماتحت وزیر تھا اپنے اقتدار کی خاطر دوسرا کھیل کھیل رہا تھا۔ کبھی وہ ایک طرف ہوتا تھا اور کبھی دوسری طرف۔ جب دریائے سندھ کا مغربی علاقہ ۱۷۳۹ء میں نادر شاہ کو سونپ دیا گیا تو اس نے محمود خان کو بطور گورنر مستقل کر دیا اور لگتا ہے کہ احمد شاہ نے بھی جب اس کا ۱۷۴۸ء میں ڈیرہ غازی خان سے گزر ہوا اسے جاری رکھا۔ تا ہم یہ سارا وقت سندھ کے کلہوڑا حکمرانوں نے ملک کی خود مختاری کا دعویٰ کئے رکھا اور اگر چہ خود سندھ برائے نام اس سرزمین کا حصہ تھا جو دہلی کے شہنشاہ کی طرف سے کابل میں شامل کی گئی تھی، ابھی تک کابل کے بادشاہ کا اقتدار ڈیرہ غازی خان پر بھی کمزور اور وقفوں وقفوں سے تھا اور سخت لڑائی کے بغیر سندھ سے محصولات حاصل نہ کئے جاسکے۔ اس وقت کے کلہوڑا شہزادے تھے ۔ نور محمد جسے عام طور پر نور محمد سرائی کہا جاتا ہے اور اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا غلام شاہ۔ یہ وہی نور محمد ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان کے ہوتوں کے خلاف لڑا اور کیپٹن میکری کے مطابق اس نے لیہ اور سندھ ساگر دو آب پر چناب تک حکومت کی ۔ کیپٹن میکنزی کہتا ہے کہ اس نے جسکانیوں کو پیچھے دھکیل دیا اور دریا خان تک قبضہ کر لیا۔ لیکن یہ بیان اس بیان سے مطابقت نہیں رکھتا جو سیح محسوس ہوتا ہے۔ جسکانیوں کا لیہ پر ۱۷۸۷ء تک تسلط رہا۔ جبکہ دریا خان پر ان کا تسلط کبھی نہیں رہا۔ تا ہم یہ بات ممکن لگتی ہے کہ جسکانیوں نے نادرشاہ کے حملے سے پہلے کچھ وقت کے لئے کلہوڑوں کی برتری کو تسلیم کر لیا ہو جو اس وقت عملی طور پر ایک بڑے اور دولت مند صوبے کے خود مختار شہزادے تھے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو شمال کی طرف چھوٹے سرداروں تک بڑھا لیا ہو۔ ڈیرہ غازی خان میں میرانی خاندان کے آخری حکمرانوں اور محمود خان گجر جو اگر چہ اپنے عہدے کے لحاظ سے ان کا وزیر تھا لیکن در حقیقت وہ اپنے ان برائے نام آقاؤں سے زیادہ طاقتور محسوس ہوتا ہے، نے بھی اپنی حکومت کلہوڑوں کی ماتحتی میں قائم رکھی اور اگر چہ موخر الذکر کی حکومت احمد شاہ کی تخت نشینی کے بعد وقفوں وقفوں سے تھی لیکن لگتا ہے جب تک وہ خود سندھ کی حکومت سے نکال باہر نہیں کئے گئے انہوں نے ڈیرہ غازی خان پر اپنا دعوی خستم نہیں کیا ۔ ۱۷۵۸ء میں بادشاہ نے کوڑائل کے تحت ایک فوج بھیجی جس کے ہاتھوں سندھ پارٹی کو ڈیرہ غازی خان شہر کے قریب ایک لڑائی میں شکست ہوئی۔ اس موقع پر میرانی مخالف دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ۔ جنہوں نے ایک دوسرے کی مخالفت کی اور ان میں بہت سے اس واقعہ کے بعد لیہ کے قرب و جوار میں ہجرت کر گئے جہاں وہ ابھی تک خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کوڑا مل بعد میں ملتان کا گورنر بنا اور بادشاہ کے ماتحت اس نے ڈیرہ غازی خان کے میرانیوں اور لیہ کے جسکانیوں پر ایک طرح کا اقتدار چلایا۔ ۱۷۶۹ء میں غلام شاہ کلہوڑا نے دوبارہ ڈیرہ غازی خان پر حملہ کیا اور آخر کار میرانیوں کو وہاں سے دھکیل دیا۔ اس نے محمود خان گجر کو بطور گورنر تعینات کیا اور محمود خان کے بعد اس کا بھتیجا برخوردار جانشین ہوا جو ۱۷۷۹ء میں قتل ہو گیا۔ جب صوبہ، کابل حکومت کی طرف سے براہ راست مقرر کئے جانے والے گورنروں کی ماتحتی میں آگیا۔ مدتوں محمود خان نے اور نہ برخوردار نے لیہ اور دریائے سندھ سے ادھر کے علاقہ پر کوئی اقتدار استعمال کیا۔ وہ خالصتاڈیرہ غازی خان کے گورنر تھے ۔ غلام شاہ نے ۶۹ ۱۷ء میں ڈیرہ غازی خان کو حاصل کیا لیکن ۱۷۷۲ء میں خود کلہوڑے سندھ میں تالپوروں کے ہاتھوں باہر دھکیل دیے گئے۔ اس چیز نے انہیں کلیتہ شاہ کابل کے ہاتھوں میں ڈال دیا اور وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ ضلع ڈیرہ غازی خان میں واپس آگئے۔ جہاں انہیں خاصی جاگیریں عطا کی گئیں۔ اب سے بعد وہ اپنے پرانے نام کلہوڑا کی بجائے سرائی کہلانے لگے۔ اب سرائیوں نے ڈیرہ غازی خان میں اپنے آپ کو مشکل میں پھنسے ہوئے پا کر مسلح پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ کسی نئی
سرزمین کی تلاش شروع کر دی جہاں وہ نئی ریاست کی بنیادرکھ سکیں۔
جسکانی علاقہ اندرونی دھڑے بندی کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا اور پرانی روایت کے ذریعے ڈیرہ غازی خان سے منسلک تھا، بالکل ہی قریب تھا اور اس مقصد کے لئے ہر لحاظ سے موزوں تھا۔ لہذا تیمور شاہ کی طرف سے ایک سند سے لیس ہو کر غلام شاہ کے بھائی عبدالنبی سرائی نے شورش پسند سرگانیوں سے ملی بھگت کی اور ۱۷۸۹ء میں لیہ پر چڑھائی کی ۔ محمد خان جسکانی کو شکست ہوئی۔ وہ ٹوانہ کے علاقے کی طرف اور وہاں سے بہاولپور بھاگ گیا۔ غالباً نواب بہاولپور اسے اپنا علاقہ واپس لینے میں مدد دیتا ، لیکن محمد خان نے بلوچوں والے غرور کے ساتھ نواب کو باز کے شکار کے بارے میں ایک اہم کام جس کے لئے اس نے اسے کہا تھا انجام دینے سے توہین آمیز طریقے سے انکار کر دیا اور ساگر کے بچکانی سردار حسن خان کا دست نگر بن کر اپنے دن پورے کر لیے۔ جسکانی خاندان کے موجودہ جانشینوں کا ذکر سر کردہ خاندانوں پر نوٹس میں کیا جائے گا۔ اس طرح جسکانی سرداروں کی نسل دو سو سال کی حکومت کے بعد ختم ہوئی۔ عبدالنبی سرائی نے لیہ پر صرف تین سال تک حکومت کی۔ بادشاہ کو اسکی ظالمانہ حکومت کے بارے میں شکایات کی گئیں جبکہ محمد خان سدوزئی کے لئے تقرری کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ ملتان کے نواب مظفر خان کا چچا زاد بھائی تھا جس کی نمائندگی میں اس نے بادشاہ کے اطمینان کے مطابق کچھ عرصے تک گورنر کے طور پر بھی کام کیا۔ پس فوری طور پر ایک سند تیار کی گئی جس کی رو سے محمد خان کو نواب اور سندھ ساگر دو آب کلورکوٹ سے لے کر محمود کوٹ تک اور سندھ سے لے کر چناب تک کا گورنر مقرر کیا گیا۔ محمد خان نے ابھی قبضہ حاصل کرنا تھا جو بغیر جنگ کے نہیں ہو سکتا تھا، اس کا مقابلہ عبدالنبی سرائی سے لیہ کے قریب ہوا اور بعد میں ہونے والی لڑائی میں پہلے سرائیوں کو برتری حاصل ہوئی اور نواب کے لوگ بھاگ گئے ۔ خود نواب محمد خان بھی بھاگنے کو تیار تھا یہ کہتے ہوئے کہ بادشاہ بغیر فوج کے کیا کر سکتا ہے؟ لیکن اس کے ایک جمعدار نے روک لیا۔ جس نے کہا بھاگ جانے سے مر جانا بہتر ہے۔ آخر کار اس نے اپنی افواج کے ایک حصے کو اکٹھا کیا اور اسی دوران میں کچھ لبانے بھنگ کے کھیت سے چھتے ہوئے آئے اور سرائیوں پر پیچھے سے حملہ کرتے ہوئے عبدالنبی کے بیٹے محمد عارف جو جنگ کا روح و رواں تھا، کوقتل کر دیا جس کے نتیجے میں سرائیوں نے بددل ہو کر ہتھیار ڈال دیے۔ سرائیوں کو اپنی جائیداد وہاں سے منتقل کرنے کے لئے ایک دن دیا گیا اور وہ کشتی کے ذریعے جنوب میں اپنے علاقے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ اسی دوران تیمور شاہ ۱۷۹۳ء میں فوت ہو چکا تھا۔ اس کا جانشین زمان شاہ ہوا تاہم اس کے استحقاق پر شہزادہ ہمایوں نے جھگڑا کیا ۔ ۱۷۹۴ء میں ہمایوں نے اپنی سلطنت زمان شاہ سے واپس لینے کی دوسری کوشش کی، لیکن اسے شکست ہوئی اور وہ ساگر کی طرف بھاگ گیا۔ جہاں ساگر کے سردار مسوخان مکانی نے اس کی مدد کی اور اس نے اسے دریا پار کرا کے ڈیرہ فتح خان گھاٹ کی طرف پہنچانے کی کوشش کی ۔ وہ یہ پہنچ گیا اور ایک کنویں پر ٹھہرا، جہاں اس کے چند گنوں کے عوض سونے کی ایک اشرفی عطا کرنے پر تجسس پیدا ہوا۔ یہ خبر نواب محمد خان کے کانوں تک پہنچی جو اس وقت اتفاق سے لیہ میں تھا ۔ نواب کو شک گزرا کہ یہ لاز ما شہزادہ ہمایوں ہوگا جس کی گرفتاری کے لئے زمان شاہ کی طرف سے سخت احکامات اور ساتھ ہی ساتھ ان گنت انعامات جاری ہوئے تھے۔ اندریں حالات اس نے کچھ گھڑ سوار لیے اور ہمایوں کا پیچھا کیا، جسے اس نے تھل میں لیہ سے کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر ایک کنویں پر جاگھیرا۔ ہمایوں کے ساتھ کوئی ہیں یا تمہیں گھڑ سوار تھے جنہوں نے جان پر کھیل کر ایک اچھی لڑائی لڑی۔ ہمایوں کا نو جوان بیٹا قتل ہو گیا خود ہمایوں قید ہو گیا اور یہ لایا گیا۔ نواب نے فورا ہمایوں کی گرفتاری کی اطلاع بادشاہ زمان شاہ کو دی جس نے یہ احکامات بھیجے کہ ہمایوں کی آنکھیں نکال لی جائیں اور اس کے ساتھیوں کی انتریاں نکال لی جائیں۔ اس نے نواب کو سر بلند خاں کا خطاب بھی عطا کیا اور پہلے سے موجود سلطنت کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کی حکومت بھی۔ بادشاہ کے احکامات پر لیہ میں عمل درآمد کیا بارک زکی بھی تھا۔ خود ہمایوں نے اپنی بقیہ زندگی قید میں گزاری۔ گیا۔ ہمایوں کے ملازموں میں سے جنہوں نے تکالیف اٹھا ئیں ان میں فتح خان کا ایک بھائی
ڈیرے کا صوبہ جس کا اب محمد خاں گورنر بن گیا تھا کا سلسلہ خانسر سے لے کر ساگر، جس پر ایک مکانی سردار کی حکمرانی تھی کے علاقے تک پھیلا ہوا تھا۔ نواب محمد خان نے اپنا صدر مقام منکیرہ اور بھکر رکھا ہوا تھا اور ڈیرے پر ایک نائب کے ذریعے حکومت کرتا تھا۔
نواب محمد خان کی وفات ۱۸۱۵ء:
نواب محمد خان ۱۸۱۵ء میں وہ فوت ہو گیا۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کا جانشین اس کا داماد حافظ احمد خان بنا۔ محمد خان بلاشبہ عظیم کردار کا آدمی تھا اور اس کی زندگی کے دوران سیکھ لیہ کے علاقے پر حملہ کرنے سے باز رہے۔ اس کی وفات کے فوراً بعد حافظ احمد خان سے خراج کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے انکار پر خان گڑھ اور محمود کوٹ کے قلعوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا اور قرب و جوار کی مسلمان آبادی پر بہت زیادہ ظلم کئے گئے ۔ یہاں تک کہ حافظ احمد خان نے سکھ فوجوں کی واپسی کا خاصی رقم کی ادائیگی کے عوض اہتمام کیا اور اس طرح قلعے راپس لئے اور اس کے ساتھ ٹوٹے ہوئے مال کا کچھ حصہ بھی۔ اس کے بعد سکھ حکومت نے نواب پر ہر قسم کے ظالمانہ مطالبوں سے دباؤ جاری رکھا۔ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ کسی بھی قیمتی گھوڑے کو جس کے بارے میں وہ سن لیتا تھا، قبضے میں لینے کا بڑا شوقین تھا اور اس نے نواب کو بھی اپنے کچھ مخصوص پسندیدہ گھوڑوں کو پیش کرنے پر مجبور کر دیا۔ ۱۸۱۸ ء میں نواب مظفر خان کی طرف سے بہادرانہ مزاحمت کے باوجود ملتان سکھوں کے قبضے میں چلا گیا۔ حافظ احمد خان نے نواب کے بھائی اور اس کے رشتہ داروں کی اس جدو جہد میں مدد نہ کی اور اس کی باری بھی جلد آنے والی تھی۔ ۱۸۲۱ء کے موسم خزاں میں رنجیت سنگھ زیادہ سنجیدہ مسائل سے آزاد ہو گیا اور اس نے اسے زیر کرنے کا عزم کر لیا۔ چنانچہ اس نے ایک فوج کے ساتھ شاہ پور سے ڈیرہ اسماعیل خان کے سامنے دریا کے مخالف سمت میں ایک مقام تک مارچ کیا۔ اس نے آٹھ ہزار آدمیوں کی ایک فوج دریا کے پار بھیجی اور اس پر یہ شہر گورنر دیوان ما تک رائے کی طرف سے ان کے حوالے کر دیا گیا، بھکر الیہ ، خان گڑھ اور موج گڑھ تمام بتدریج بغیر کسی مزاحمت کے سر کر لئے گئے ۔ منکیرہ جو مٹی کی ایک دیوار سے محصور تھا اور اس میں اینٹوں کا بنا ہوا قلعہ بھی تھا جو صحرا کے وسط میں ہونے کی وجہ سے زیادہ محفوظ تھا۔ اب باقی بچ جانے والا واحد قلعہ تھا اور اس کی فتح کے لئے بھی ایک ڈویژن ۱۸ نومبر کو روانہ کر دیا گیا۔ ایک بہادر پر جوش انسان نے سردار خان با دوز کی حافظ احمد خان کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً باہر نکلے اور سکھوں پر حملہ کر دے۔ اس نے کہا ” میدان میں لڑنا شیر کا کام ہے اور بل میں لڑنا لومڑی کا تاہم حافظ احمد خان اس پر آمادہ نہ ہوا اور اس نے محصور ہو کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دی۔ اب سکھوں نے بیلداروں کو فوج کے استعمال کے لئے کچھ کنویں کھودنے پر لگا دیا اور اس دوران میں پانی اونٹوں اور بیلوں پر موج گڑھ سے لانا پڑا۔ ۲۵ نومبر تک کنوئیں تیار ہو گئے اور پھر رنجیت سنگھ اپنی بڑی فوج کے ساتھ منکیرہ منتقل ہو گیا۔ اس جگہ پر بمباری اس کے دس دن بعد بھی جاری رہی لیکن یہ معاصرین کے نقصان کے بغیر نہ تھی۔ آخر کار قلعے کی مسجد کے ایک مینار کے محاصرین کے حملے سے ٹوٹ جانے کے بعد حافظ احمد خان نے اسے ایک بُر اشگون سمجھا اور یہ سوچ کر کہ عزت کی خاطر بہت کچھ کیا جاچکا ہے صلح کی شرائط پیش کر دیں اور اس شرط پر قلعہ حوالے کرنے کی پیشکش کر دی کہ اسلحہ اور جائیداد کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دے دی جائے ۔ ڈیرہ کا شہر اور صوبہ مناسب جاگیر کے ساتھ اسے رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ رنجیت سنگھ نے شرائط قبول کرلیں چنانچہ یہ جگہ ان کے حوالے کر دی گئی۔ نواب کے ساتھ بہت شرافت کا سلوک کیا گیا اور اسے حفاظت میں ڈیرہ بھیجا گیا۔ اب رنجیت سنگھ نے دریائے سندھ سے ادھر کی تحصیلوں کو ساتھ شامل کر لیا۔ یہ تصور نہیں کرنا چاہتے کہ سکھوں کے ماتحت دریائے سندھ سے ادھر کا پورا علاقہ ایک متحدہ حکومت بن گیا تھا۔ اس کا بہت بڑا حصہ جاگیر کی شکل میں رکھا گیا۔ ہر جاگیردار اپنی جاگیر کی حدود میں عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات رکھتا تھا اور وہ اس کاردار سے بالکل خود مختار ہوتا تھا جسے ضلع کا خالصہ حصہ پٹے پر دیا جاتا تھا۔ یہ جاگیردار تقریباً ہمیشہ غیر ر ہائشی ہوتے تھے اور اپنی جاگیروں کا انتظام کرنے کے لئے اپنے گماشتے مقرر کرتے تھے۔ جنہیں حاکم کہا جاتا تھا۔ یہ حاکم کم و بیش ایک دوسرے پر حملہ کرنے اور ان کے مویشی چرانے کے عادی تھے اور علاقہ دیوان ساون مثل کے وقت تک عام طور پر ایک ابتری کی حالت میں تھا۔ یہ جاگیریں زیادہ تر تھل میں تھیں۔ دریائے سندھ سے ادھر کی جاگیریں جو سکھوں کی طرف سے عطا کی گئیں، سوائے ایک یا دو چھوٹے سے گاؤں کے تمام کی تمام اب دوبارہ واپس کر لی گئی ہیں۔
چار حکومتوں کا اتحاد:
چار حکومتوں کی تاریخ اب ایک ایسے نقطہ پر پہنچ گئی ہے جہاں وہ گرنا اور ایک سربراہ کے تحت متحد ہونا شروع ہوتی ہیں۔ یہ عمل ۷۹۰ او اور ۱۸۲۱ء کے درمیان مکمل ہوا۔ بہاول خان ثانی کے لئے دریائے سندھ کے مغرب کی طرف ہٹ جانے اور ان تعلقوں پر قبضہ کر لینے سے جن پر اب تحصیل علی پور مشتمل ہے پورا ضلع کھلا پڑا تھا۔ ضلع کے اس حصے میں جس پر ڈیرہ غازی خانسے حکومت کی جاتی تھی طوائف الملو کی طاری تھی جو محمود خان گجر کی حکومت کے بعد شروع ہوئی ۔ ۱۷۹۰ء اور صدی کے اختتام کے درمیان کے عرصے میں بہاول خان ثانی نے ارائیں بھینچھر کھوڑ ماہر اسیری اور ترنڈ کے تعلقوں پر قبضہ کر لیا جواب مظفر گڑھ تحصیل کے جنوبی اور مغربی حصے ہیں۔ یہ علاقہ اور علی پور تحصیل تھل ہو ابوں کے کبھی شمالی کے مقابلے میں کبھی جنوبی کہلاتے تھے۔ وہ اور اس کے جانشین صادق خان دوم اور بہاول خان سوم علاقے کو ایک مستحکم حکومت کے تحت لائے۔ انہوں نے کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کی اور نہریں کھدوائیں۔ ان کی تخت نشینی اور فوسیدگی کی تاریخیں گورنر بہاول خان سوم کے وقت تک ریکارڈ پر نہیں ہیں جس نے ملتان کے محاصرے میں ایڈورڈز کی مدد کی تھی۔ وہ۱۸۵۲ء میں فوت ہوا ۔
۱۸۱۸ء میں سکھوں نے ملتان پر قبضہ کیا اور ان تعلقوں پر جن پر پہلے مظفر خان حکومت کرتا تھا یعنی رنگ پور مراد آباد مظفر گڑھ خان گڑھ اور غضنفر گڑھ اب سے بعد ملتان کے سکھ گورنروں کا راج قائم ہو گیا۔ ۱۸۱۹ء میں سکھوں نے ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا لیکن بہاول خان کا قبضہ اپنی فتوحات پر برقرار رہا۔ ۱۸۲۱ء میں سکھوں نے منکیرہ پر بھی قبضہ کر لیا جہاں سے اس ضلع کے شمال پر حکومت کی جاتی تھی۔ بہاول خان نے سکھوں کی اطاعت اختیار کرلی اور اس طرح پورا ضلع رنجیت سنگھ کی حکومت کے تحت متحد ہو گیا۔ پھر ایک تقسیم نو عمل میں آئی۔ بہاول خان کی فتوحات کی توثیق کر دی گئی۔ جو اسے مستاجری پر دے دی گئیں جس کے معاوضے کی رقم یقینی طور پر معلوم نہیں رقم ہے۔ ضلع کے شمالی حصوں پر منکیرہ سے حکومت کی جاتی رہی اور مظفر خان کے تعلقوں پر ملتان سے حکومت کی جاتی تھی۔ ملتانی پٹھان علاقے سے بھاگ گئے اور زیادہ تر ڈیرہ اسماعیل خان چلے گئے جو اس وقت تک واپس نہ آئے جب تک کہ برطانوی ۱۸۴۹ء میں یہاں آئے ۔۱۸۲۲ء میں انہوں نے ملتان کے گورنر کے پیش کار دیوان ساون مل کی رسم تخت نشینی ادا کی۔ بھاوا بدن ہزاری اپنے افسر سے لڑ پڑا اور مظفر گڑھ مراد آباد اور غضنفر گڑھ کے تعلقے رنجیت سنگھ کی طرف سے اسے مستاجری پر دے دیئے گئے ۔ بہاول خان وہ رقم ، جس کے عوض اس کا علاقہ اسے مستاجری پر دیا گیا تھا ادا کرنے میں ناکام رہا۔ لاہور سے جنرل وینچورا ( General Ventura) کو ایک فوج کے ساتھ بھیجا گیا اور اس نے بہاولپوریوں کو اس ضلع سے چناب کے پار نکال دیا جو اس وقت سے اس ضلع اور بہاولپور کے درمیان ایک سرحد ہے۔ آخر کار ۱۸۳۷ء میں مظفر گڑھ کےموجودہ ضلع کو دیوان ساول مل کے تحت متحد کیا گیا جو سکھوں کے ماتحت ملتان کا گورنر تھا۔ اگر چہ بہاولپور کے نوابوں کی حکومت میں ضلع کے کچھ حصوں نے خاص مستحکم نظم و نسق دیکھا۔ دیوان ساون بل کی حکومت اس سے پہلے آنے والی حکومتوں میں سب سے بہتر تھی۔ اس کا مقصد وحید دیوان کے لئے دولت جمع کرنا تھا۔ عوامی کاموں کی بجا آوری انصاف کا انتظام اور جان و مال کی حفاظت ثانوی اغراض تھیں اور ان پر صرف اس لئے زور دیا جاتا تھا کیونکہ ان کے بغیر زراعت ترقی نہ کرتی اور محصولات ادا نہ ہوتے۔ اس کے نظام محصولات پر تیسرے باب میں توجہ دی گئی ہے۔ اس کے عہد کے دوران لبانہ آباد کاروں کی ایک بڑی تعداد ضلع میں آباد ہوئی۔ دیوان ساون مثل ۲۹ستمبر ۱۸۴۴ء کو فوت ہوا اور اس کا جانشین اس کا بیٹا مول راج ہوا جس کے بارے میں اس ضلع سے خصوصی طور پر متعلقہ کوئی چیز معلوم نہیں ہے۔
جنگ ملتان ۱۸۴۸ء:
اپریل ۱۸۲۸ء میں لاہور ریذیڈنٹ کے اسٹنٹ سر ہربرٹ ایڈورڈز نے ملتان میں شورش اور دنیس ایکٹیو (Vans Aenew) کے قتل کے بارے میں سنا۔ وہ اس وقت ڈیرہ فتح خان میں تھا۔ وہ فورا دریا عبور کر کے لیہ آیا لیکن مول راج کی بھیجی ہوئی فوج کی پیش قدمی پر پسپا ہو گیا۔ اگلا مہینہ لیہ کے گردونواح میں نقل و حرکت اور جوابی نقل و حرکت میں صرف ہو گیا۔اسی دوران میں ایڈورڈز نے ایک مخلوط فوج تیار کر لی تھی جو زیادہ تر ملتانی پٹھانوں، پانڈا پور استرانوں اور دیگر سرحدی قبائل کے آدمیوں پر مشتمل تھی۔ ۲۱ مئی کو اس نے دین کورٹ لینڈ ( Van Courtland) کی سرکردگی میں فوج سندھ کے دائیں کنارے کے نیچے کی طرف بھیجی ۔ فوج کے ہاتھوں ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کے بارے میں سنا۔ پھر اس نے ملتان کی طرف حرکت شروع کی۔ اپنی مارچ کے دوران اس نے کثیری اور سروزام کی لڑائیاں لڑیں جن میں اس کی سخت جان افواج نے زبر دست بہادری کا مظاہرہ کیا۔ انہیں فوجوں نے جنرل ورش (General Whish) کی سرکردگی میں ملتان کے محاصرے میں حصہ لیا۔ ۲۲ جنوری ۱۸۴۹ء کو ملتان کی فتح پر ایک بہت بڑی تعداد کو فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ تاہم ایڈورڈز کے دستوں میں سے دو ہزار کو سرکاری ملازمت میں برقرار رکھا گیا اور تمام سرکردہ سردار حکومت سے خاص پینشن وصول کرتے رہے۔ ۲۹مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کو برطانوی سلطنت میں ضم کر لیا گیا اور ضلع خان گڑھ اور ضلع لیہ کی طرح موجودہ ضلع پر مشتمل علاقے جو زیادہ تر پہلے ہی برطانوی افسروں کے زیر انتظام تھے وہ رسمی طور پر سلطنت برطانیہ کا حصہ بن گئے۔
۱۸۵۷ء کے واقعات کا مندرجہ ذیل بیان پنجاب بغاوت رپورٹ Punjab) (Mutiny Report میں سے لیا گیا ہے۔ میجر براؤن اس ضلع کے بارے میں رقم طراز ہے خان گڑھ کا ضلع بجز اس خطرے کے جو یورپین لوگوں کو ملتان میں موجود باغی فوجوں کی قربت اور بہاولپور سے لٹیروں کے گروہوں کے ہاتھوں ضلع کے زیریں حصوں پر حملہ کے امکان میں محسوس ہوا کسی قسم کے بُرے اثرات سے محفوظ رہا۔ تا ہم احتیاطی اقدامات ضروری تھے۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر ہینڈرسن (Henderson) نے جیل، کچہری بڑے خزانے اور ضلعی خزانوں کو مضبوط بنایا ۔ تمام انگریزوں کو مسلح کیا اور تمام گھاٹوں پر کڑا پہرا مقرر کیا۔ اس نے لیفٹیننٹ فیرس (Ferris) اسٹنٹ کمشنر کو چناب کے کناروں کے ساتھ ساتھ چوکیوں کا ایک سلسلہ قائم کرنے پر مامور کیا۔ یہ کام پورے طور پر مکمل ہو گیا۔ خود دیہاتیوں نے اس قدر رضا کارانہ طور پر خدمات انجام دیں کہ جلد ہی ۱۰۴ چوکیوں کا ایک حلقہ جو چھیں میل تک پھیلا ہوا تھا، قائم ہو گیا۔ ایک دوسرے موقع پر گھڑ سوار فوج کا ایک سلسلہ چودھویں نیٹو انفینٹری (14th Native Infantry) کے بچے بھیجے حصے کو جو جہلم سے آسکتا تھا اور رکھنے کے لئے چناب سے لے کر سندھ تک ضلع کے ساتھ ساتھ تعینات کر دیا گیا خان گڑھ ڈیرہ غازی خان مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان ایک انٹیلی جنس کا محکمہ بھی منظم کیا گیا۔ ضلع لیہ بھی بہت پرسکون رہا۔ غدر سے متعلقہ جرائم کے سلسلے میں صرف ایک یا دو ہلکی سی سزائیں دی گئیں ۔ ایک موقع پر کیپٹن ہاکن (Captain Hockin) کی سرکردگی میں سترھویں ارریگولر کیولری (17th Irregular Cavalry) کے ایک بازو کی آمد سے خاصی پریشانی پیدا ہو گئی لیکن صورت حال مستحکم رہی۔ جب ستمبر میں کھرل بغاوت کی تحریک شروع ہوئی تو کیپٹن ہاکن نے لیہ میں چالیس آدمی چھوڑتے ہوئے ، جو مشتبہ ہو گئے تھے باغیوں کے خلاف مارچ کیا۔ اس کے مارچ کرنے سے ایک دن پہلے لیہ میں یہ خبر پہنچ گئی کہ پوری نویں اور یگولر کیولری ( sih Irregular Cavalry) نے میانوالی میں بغاوت کر دی ہے۔ کیپٹن فیڈل کہتا ہے ۔ ” میں نےیقینا پہلے یہ سمجھا کہ پورے ملک کو ابھارنے کی کوئی گہری اسکیم تھی کہ نویں اور یگولری کیولری کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سامنے نمودار ہونا تھا اور انتالیسویں نیٹو انفینٹری سے مل کر لیہ آنا تھا، پھر سترھویں لائٹ کیولری کے ایک بازو کو وہاں سے ساتھ ملانا تھا پھر گوگیرہ کی طرف جانا تھا، قبائل کے ساتھ اتحاد کرنا تھا اور پھر ملتان کی طرف مارچ کرنا تھا، جہاں نیٹو انفنٹری کی دو مشتبہ رجمنٹیں تھیں ۔ یہ ممکن اعمل تھا اور یہ ہمیں زیریں پنجاب سے عارضی طور پر محروم کر دیتا ۔ لیکن یہ خوفناک اتصال واقع نہ ہوا۔ یہ خبر ایک مبالغہ آرائی ثابت ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ نویں ارریگولر کیولری کے باغی سب کے سب ستلج سے ادھر کی ریاستوں کے آدمی تھے تعداد میں صرف بتیس تھے اور ایک دلیرانہ لڑائی میں کلی طور پر شکست کھا گئے ۔ جس میں لیہ کے ایکسٹرا اسٹنٹ مسٹر تھامسن خطر ناک طور پر زخمی ہو گئے۔ اس بہت پر جوش چھوٹی سی لڑائی میں اس کا بہادرانہ کردار نمایاں تھا۔
ضلع کی ترکیبی ساخت اور سرحدوں کی تبدیلیاں:
خان گڑھ کے برطانوی ضلع میں مظفر گڑھ اورعلی پور کی موجودہ تحصیلیں اور گڑھ مہاراجہ اور احمد پور کے تعلقے شامل تھے جواب ضلع جھنگ میں ہیں ۔ پہلے خان گڑھ کا نام ضلع کے صدر مقام کے لئے تجویز کیا گیا لیکن ۱۸۵۹ء کے انتقام سے پہلے یہ مظفر گڑھ نقل کر دیا گیا۔ خان گڑھ میں چار پر تھیلیں تھیں ۔ رنگ پور خان گڑھ جس کا صدر مقام مظفر گڑھ میں تھا نچھر اور سیت پور۔ ۱۸۵۹ء میں کوٹ ادو تحصیل لیہ سے علیحدہ کر دی گئی اور اس ضلع میں شامل کر دی گئی۔ اور اس ضلع نے مظفر گڑھ کا نام اختیار کر لیا اور ملتان ڈویژن کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ۱۸۶۱ء میں رنگ پور تحصیل ختم کر دی گئی ۔ گڑھ مہاراجہ اور احمد پور کے تعلقے جھنگ میں شامل کر دیئے گئے اور باقی ماندہ تحصیل کو مظفر گڑھ تحصیل کے ساتھ منسلک کر دیا گیا کیچھ تحصیل ختم کر دی گئی اور اس کے تعلقے مظفرگڑھ میں شامل کر دیئے گئے ۔ سیت پور تحصیل علی پور منتقل کر دی گئی۔
جب ضلع لیہ کی تشکیل کی گئی:
اشتعمال سے پہلے دریائے سندھ سے ادھر کے ٹکڑے کو دیوان ساون مل کی حکومت میں پار کی تحصیلوں پرشتہ شامل کر لیا گیا۔ ضلع کے پہلے انتظام کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع بنوں کی سندھ مشتمل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان بنایا گیا جس کا صدر مقام بنوں تھا۔ دریائے سندھ سے ادھر کی تحصیلیں یعنی میانوالی، بھکر اور لیہ ۱۸۵۹ء تک مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادوائیہ ضلع کی تشکیل کرتی تھیں جس کا صدر مقام لیہ تھا۔ یہ انتظام جو اگر چہ کئی لحاظ سے بعد والے انتظام سے سہل تر تھا۔ ۱۸۶۱ء میں برطرف کر دیا گیا کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی کمشنر کے لئے اتنی لمبی سرحد کی ذمہ داری بہت بھاری کبھی جاتی تھی۔ پھر ان دونوں اضلاع کے شمالی حصوں پر مشتمل ضلع بنوں تشکیل دیا گیا اور جنوبی حصوں پر مشتمل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان۔ ابتدائی ڈویژن طولانی (لمبائی کے رُخ) تھا۔ جس میں دریائے سندھ سرحد تھا۔ نیا ڈویژن عرضی ( چوڑائی کے رُخ) تھا۔ اس طرح کہ سندھ کے دونوں اطراف کے کچھ حصے دونوں اضلاع میں شامل تھے۔ نیا ڈیرہ اسماعیل خان ضلع پانچ تحصیلوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ڈیرہ اسماعیل خان کلاچی اور ٹانک دریائے سندھ کے پار تھیں اور لیہ اور بھکر دریائے سندھ سے ادھر یکم جنوری ۱۸۶۱ء کو قدیم ضلع لیہ کو توڑ کر کمشنری کے صدر دفاترلیہ سے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیئے گئے ۔ جو کہ ایک دور دراز مقام سے ڈویژن کا صدر مقام بن گیا۔ لیہ کی نئی تحصیل میں قدیم منکیرہ تحصیل جو کہ ۱۸۵۳-۵۴ء میں توڑ دی گئی کا جنوبی حصہ شامل تھا۔ جبکہ چوبارہ نواں کوٹ اور موج گڑھ کے تعلق لیہ کو منتقل کر دیئے گئے ۔ پہاڑ پور کا گاؤس ۱۸۶۱ء میں کوٹ ادو تحصیل سے منتقل کیا گیا اور دریا کے کنارے والے گاؤں کی ایک پٹی ۱۸۶۹ء میں سنگھر، تحصیل سے منتقل کی گئی ۔ ۱۸۷۴ء میں سکھانی اور چھ دوسرے گاؤں ضلع ڈیرہ غازی خان کی سنگھر، (موجودہ تونسہ ) تحصیل سے لیہ منتقل کئے گئے۔
ملتانی پٹھان:
برطانوی عہد میں متعارف ہونے والے واحد سیاسی آباد کار ملتانی پٹھان تھے ۔ جنہوں نے واپس آ کر وہ زمینیں دوبارہ حاصل کیں جن سے ۱۸۱۸ء میں سکھوں نکالے گئے تھے۔
بعد کی تاریخ:
ضلع کی بعد کی تاریخ میں کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ لوگ پُر امن اور وفادار رہے ہیں۔ جنگ عظیم ۱۵-۱۹۱۴ء کے دوران کچھ بے چینی پیدا ہوئی اور ڈکیتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جو ان افواہوں کے ساتھ شروع ہوا کہ جرمنوں کی طرف سے حملہ ہونے والا ہے۔ تاہم یہ سیاسی سے زیادہ فرقہ وارانہ اور معاشی تھا کیونکہ ان مسلمانوں نے جو ہندوؤں کے مقروض تھے انہیں کو ٹا، ہندوؤں کی اس ضلع پر معاشی گرفت تھی۔ مسلمان مقروض تھے۔ یہ چیز فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بنتی رہی ۔
آثار قدیمہ کی باقیات اور محفوظ یادگاریں:
اس ضلع میں حقیقی آثار قدیمہ کی دلچسپی کی حامل کوئی جگہیں نہیں ہیں۔ حضرت لعل عیسن کے مزار کی تاریخ تعمیر ۱۴۰۰ ء ہے۔ لیکن یہ محفوظ یاد گار نہیں ہے۔ اسی طرح دائرہ دین پناہ کا مقبرہ ہے۔ ان کے حوالے کہیں اور بھی دیئے گئے ہیں۔ رنجیت سنگھ کے وقت کے مٹی کے قلعے منڈا چوبارہ وغیرہ میں ہیں۔