ضلع لیہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ لیہ کئی ادوار میں بام عروج پر پہنچا اور کئی بار لی دریائے سندھ کے عتاب کا شکار ہوا ، (لیہ شہر کی مکمل تاریخ صدیوں کا سفر از ناصر ملک میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ شہر پہلے قلعہ کے اندر آباد تھا۔ یہ قلعہ یہ پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں سید خضر خان (والي ملتان) نے تعمیر کرایا تھا اور زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ لیہ بارہا صدر مقام رہا ہے۔ مختلف ادوار میں تحصیل ،ضلع اور ڈویژن کے درجے اسے ملے ۔ کمشنر بنگلہ، کمشنر آفس اور انگریز کمشنرز کی قبریں آج بھی ہزاری پل کے قریب خستہ حالت میں موجود ہیں۔ یہاں بہت سی عہد قدیم کی نشانیاں موجود تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی گئیں ۔ کچھ دریائے سندھ کی نذر ہو گئیں۔ شیر شاہ سوری کے عہد میں بنوایا ہوا ” کوس مینارہ اور سید خضر خان (والی ملتان) کا تعمیر ہوا قلعہ لیہ معدوم ہو چکا ہے۔ پل ہزاری کے قریب دومندر، دیوان کرم زائرین کا بنوایا ہوا کالی دیوی کا مندر (پرانی سبزی منڈی کی جگہ پر ) مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں تیار کیا جانے والا دھرم سال ۔ مندر گو سائیں، پریم مندر، ماتامائی کا مندر، گوشالہ اور شمشان بھومی وغیرہ سب یاد ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ کو انگریز دور حکومت میں پنجاب ایکٹ کے تحت 1887ء کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا جبکہ یکم جولائی 1982ء کو اسے ضلع کا درجہ دیا گیا ۔ کروڑ لعل عیسن اور چوبارہ کو تحصیلوں کا درجہ دیا گیا۔ یہ ضلع کے پہلے ڈپٹی کمشنر فیصل حسین میمن تھے ۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع لیہ کی کل آبادی 6,64,000 افراد پر مشتمل تھی اور لیہ شہر کی آبادی51,564 افراد پرمشتمل تھی ۔ جبکہ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع لیہ کی کل آبادی تحصیل سطح پر اس طرح تقسیم کی گئی ہے۔
تحصیل لیہ : 6,23,834 افراد
تحصیل کروڑ 13,84,168 افراد
تحصیل چوبارہ : 1,71,562 افراد
جبکہ لیہ شہر کی کل آبادی تقریباً 76,724 افراد پر مشتمل ہے اور شہر سے منسلک منڈی ٹاؤن کی آبادی 30,026 افراد پرمشتمل ہے۔ اس طرح ضلع لیہ کی اکثریت دیہاتوں میں آباد ہے ۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن انتہائی سادہ ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ جبکہ یہ شہر میں ایک شوگر مل بھی قائم ہے۔ یہاں پر کئی اولیاء کرام کے مزارات ہیں جن میں سے حضرت سخی شاہ حبیب ، حضرت شاہ اشرف بغدادی پی شیخ جلال الدین ہے اور سید جہان شاء اللہ وغیرہ کے مزارات اہم ہیں۔ لوگوں کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے ۔ تاہم دیگر مذاہب میں عیسائی مذہب کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں ۔ جن کی تعداد بہت قلیل ہے۔ یہاں پر زیادہ تر سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ تاہم دیگر زبانوں میں پنجابی ، اُردو اور پشتو زبا نیں بھی بولی جاتی ہے۔
ضلع لیہ کے اہم قصبات
ضلع لیہ کے اہم قصبات درج ذیل ہیں۔
چوک اعظم:
چوک اعظم لیہ کا سب سے اہم تجارتی مرکز ہے اور اپنی منفرد اہمیت کے لحاظ سے تھل کا مرکزی شہر کہلاتا ہے ۔ نہایت بارونق شہر ہے جو دن رات اپنی گہما گہمی کے اعتبار سے تھل کا دل“ کہلاتا ہے ۔ یہ شہر پنجاب کے وسیع تر علاقے تھل میں اہم شہروں کو ملانے والی شاہراہ (ایم ایم روڈ) کے سنگم پر واقع ہے۔ چوک اعظم لیہ شہر سے مشرق کی طرف صرف 26 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر سیاست، تجارت، دینی اور مذہبی اعتبار سے کافی اہم ہے۔
اس کا ابتدائی نام ” چوک خونی تھا۔ 1970ء میں سابق گورنر مشرقی پاکستان محمد اعظم خان نے یہاں آمد پر اس کا نام تبدیل کر کے چوک اعظم رکھا ۔ جبکہ 1983ء میں اس کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی کل آبادی 11,250 افراد پر مشتمل تھی ۔ جبکہ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق چوک اعظم شہر کی کل آبادی 35,583 افراد پرمشتمل ہے۔
کوٹ سلطان:
لیہ سے جنوب کی طرف تقریباً 26 کلومیٹر دور ملتان روڈ پر واقع ہے۔ یہ قصبہ قدیم رواتیوں کا امین ہے اور شروع سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ 1403ء تا 1407ء میں یہاں ایک قلعہ سید خضر خان نے تعمیر کرایا تھا۔ 1970ء کے لگ بھگ یہ قلعہ سلطان حسین لنگاہ نے دریائے سندھ پار سے آنے والے حملہ آوروں کے سد باب کے لیے فتح کیا۔ بعد میں یہ قلعہ اس سلطان حسین لنگاہ کے نام کی نسبت کوٹ سلطان کہلایا ۔ 1550 ء میں شیر شاہ سوری نے لیہ کے ساتھ یہاں کوٹ سلطان میں کوس مینارہ تعمیر کروایا تھا۔ انگریز دور حکومت میں کوٹ سلطان کو 1914ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت اس یو نین کونسل کی کل آبادی 26,909 افرادپر مشتمل ہے۔ کوٹ سلطان کے علاقہ میں تربوز اور خربوزہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور سیزن میں لڑکوں کے ذریعے یہاں سے دوسرے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں۔
پہاڑ پور:
لیہ سے جنوب کی طرف تقریباً 30 کلومیٹر دور کوٹ سلطان سے آگے ضلع لیہ کا آخری شہر پہاڑ پور ملتان روڈ پر واقع ہے۔ روایات کے مطابق اس کی بنیاد 17 ویں صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ اس قصبہ کا قدیمی نام سو یہ پورا تھا ۔ اس قصبہ کے اطراف میں سوہیہ قوم کافی تعداد میں آباد ہے اور اس قوم نے اس قصبہ کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس شہر میں بسنے والے مشہور شخص ” پہاڑ خان کے نام پر اس کا نام پہاڑ پور رکھا گیا۔ پہاڑ پور کو یونین کونسل کا درجہ ایوبی دور میں بنیادی جمہوری نظام کے سلسلہ میں 1966ء میں دیا گیا ۔ 1981ء کی مردم شماری میں اس کی آبادی 16,100 تھی۔ جبکہ موجودہ کل آبادی 126,280 افراد پر دیر مشتمل ہے۔
جمن شاہ:
لیہ سے جنوب کی طرف ملتان روڈ تقریباً 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قدیمی قصبہ ہے۔ اس قصبہ کی وجہ شہرت اور وجہ تسمیہ حضرت جمن شاہ بخاری میم کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ سمرقند بخارہ سے تبلیغ اسلام کی غرض سے یہاں تشریف لائے ۔ ان کا مزار اسی قصبہ میں واقع ہے۔ اس کی آبادی تقریباً9,000 افراد پر مشتمل ہے۔ جمن شاہ کو 1960ء میں یونین کونسل کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اس وقت یو نین کو نسل جمن شاہ 028, 25 افراد پرمشتمل ہے۔
ضلع لیہ میں PTV کی نشریات دکھانے کے لیے جمن شاہ میں TV بوسٹر کام کر رہا ہے ۔ ملک نیاز احمد جکھر MNA کی ذاتی کوششوں سے اس کی فراہمیشن کا آغاز 1994 ء میں اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا۔ اس بوسٹر کی وجہ سے PTV کی نشریات ضلع لیہ میں دیکھی جاتی ہیں۔
پیر جنگی:
پیر جگی ضلع لیہ کا اہم تاریخی قصبہ ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ باور ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا قصبہ چوتھی صدی عیسوی میں معرض وجود میں آیا ۔ 1664ء میں مہلب بن ابی سفیرہ اپنی مختصری فوج کے ساتھ تھل کے علاقہ کو فتح کرتا ہوا آیا ۔ دریائے سندھ کے نزدیک اس علاقہ میں اس نے کچھ عرصہ قیام کیا۔ یہاں اس کے کچھ ساتھیوں کی قبریں بھی موجود ہیں ۔ جنہیں ” پیر اصحاب کی قبروں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 1746ء کے لگ بھگ گڑھ مہاراجہ کے علاقہ سے اپنے ساتھیوں کی معیت میں سید جعفر شاہ بخاری نے محمود خان میرانی پر حملہ کیا اور لیہ کے علاقہ جات پر قبضہ کر لیا۔ جب جعفر شاہ بخاری نے ملتان کی مرکزی حکومت کو زیر مالیہ ادا نہ کیا تو کوڑامل” نے اس پر حملہ کر کے لیہ کی حکومت سید جعفر شاہ بخاری سے چھین کر خود قابض ہو گیا اور سید جعفر شاہ بخاری پیر جنگی” کے مقام پر مقیم ہوئے ۔ وہ ایک نیک اور صالح آدمی تھے ۔ انہوں نے بہت سے غیر مسلموں کو مسلمان کیا ۔ انہوں نے جنگی نامی ایک غیر مسلم عورت کو مسلمان کیا تو اس کے عزیز و اقارب نے اس پر بہت مظالم ڈھائے ۔ لیکن وہ ثابت قدم رہی ۔ اسی نومسلم خاتون کے نام پر اس بستی کا نام”جگی کہلانے لگا ۔ جو بعد ازاں پیر جنگی شریف کہلایا ۔ یہیں سید جعفر شاہ بخاری کا مزار واقع ہے۔ اسی بستی کی وجہ شہرت بخاری خاندان میں کئی پشتوں سے آنے والے نیک اور روحانی طاقتوں کے مالک ولی اللہ ہیں ۔ پیرسید خورشید احمد شاہ بخاری نہ صرف MNA تھے بلکہ نیک صفت و نیک سیرت انسان تھے۔ اس وقت اُن کے فرزند پیر سید تقلین شاہ بخاری .M.N.A ہیں اور پیر سید محمد اقبال شاہ بخاری موجودہ گدی نشین ہیں ۔ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی آبادی تقریباً 3,000 افراد پرمشتمل ہے۔ یہاں سے جمن شاہ ،لدھانہ، پہاڑ پور اور دھوری اڈہ کوسٹر کیں نکلتی ہیں ۔
کروڑ لعل عیسن:
کروڑ لعل عیسن میلی لیہ سے 29 کلومیٹر دور شمال کی طرف یہ بھکر روڈ پر واقع ہے۔ یہ قدیم قصبوں میں ایک مشہور قصبہ ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے شروع ہی سے سر سبز و شاداب رہا ہے ۔ یہاں دریائی کٹاؤ کی وجہ سے قدیمی بستیوں کے نام ونشان نہیں ملتے۔ دوسری بار ا سے راجہ دیو پال نے آباد کیا ۔ اس نے 1870ء میں کابل کے راجہ للہ شاہ کے خاندان کے راجہ دیو پال نے تھل میں حملہ آوروں سے نبٹنے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے مشرقی طرف ایک قلعہ تعمیر کرایا ۔ جو قلعہ دیو پال کے نام سے مشہور ہوا اور اس سے وابستہ شہر کوٹ دیو پال گڑھ، زبان زد عام ہوا۔ بعد میں دیو پال گڑھ سے دیپال گڑھ مشہور ہوا ۔ پورے علاقہ تھل میں قائم راجہ دیو پال کی حکومت کا یہ مرکزی شہر تھا۔ بعد میں جب حضرت محمد یوسف لعل عیسن میں اس لیے یہاں آئے تو کوٹ کروڑ سے کروڑ لعل عیسن کے نام سے یہ شہر موسوم ہوا ۔ انگریز دور حکومت میں یہ ایک اہم شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ 1887ء میں پنجاب ایکٹ کے تحت یہ کے ساتھ اسے بھی میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا ۔ جبکہ یکم جولائی 1982 ء سے ضلع لیہ کی تحصیل کا درجہ حاصل ہوا ۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق کروڑ شہر کی آبادی 1,280 افراد پرمشتمل تھی ۔ جبکہ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 23,971 افراد پر مشتمل ہے۔ اس شہر میں سبزی منڈی، غلہ منڈی، منڈی مویشیاں اور کئی تجارتی مراکز قائم ہیں ۔ جہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز دستیاب ہے۔
7 فتح پور:
فتح پور ضلع لیہ کا اہم تجارتی شہر ہے۔ لیہ سے شمال مشرق کی جانب سے چوک اعظم سے 26 کلومیٹر کے فاصلے پر مشہور ترین شاہراہ (ایم ایم روڈ پر واقع ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں تھل کے علاقہ پر مقرر میرانی خاندان کے دور حکومت میں بلوچ قبیلے کے ایک سردار فتح خان نے اسے آباد کیا اور اسی کے نام سے یہ شہر موسوم ہوا ۔ پاکستان بننے سے قبل یہاں کافی تعداد میں ہندو آباد تھے ۔ یہاں ہندوؤں کا ایک مندر انگریز دور حکومت کے ابتدائی سالوں میں تعمیر کیا گیا ۔ اس مندر کی جگہ اب ہائی سکول قائم ہے)۔ قیام پاکستان کے بعد یہ گاؤں ترقی کرتا ہوا اچھے خاصے شہر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس میں باضابطہ طور پر بازار رفتہ رفتہ تعمیر کیے گئے ۔ آج ضلع لیہ میں بازاروں ، مارکیٹوں اور دکانوں کی ترتیب کے لحاظ سے فتح پور کو ایک انفرادی اہمیت حاصل ہے۔1981ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 7,835 افراد پر مشتمل تھی ۔ جنوری 1983ء میں اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا اور اس کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔
شاہ پور:
شاہ پور دورہٹہ تحصیل کروڑ لعل عیسن کا اہم قصبہ ہے ۔ یہ اپنے جلو میں طویل تاریخی سفر رکھتا ہے۔ اس کے قریب ہی دور یہ واقع ہے۔ دورہ کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی جاتی ہے کہ یہاں دو عدد رہٹ چلا کرتے تھے ۔ جس کی وجہ سے دور ہٹہ اور بعد ازاں دور نہ مشہور ہوا۔ (سرائیکی زبان میں رہٹ کنویں کی چرخی کو کہتے ہیں)۔ مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد میں یہاں حضرت محی الدین المعروف قادر شیر کاظمی (جو سابق وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی کے پیر ہیں اور وہ ہر سال یہاں آ کر حاضری بھی دیتے ہیں) نے ڈیرہ غازیخان سے علیانی ، دستی اور ٹھگیانی قبیلوں کے ہمراہ آکر رہائش اختیار کی۔ انہوں نے یہاں آکر بہت سے غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ ان کا خاندان یہیں آباد ہے اور وسیع رقبوں کا مالک ہے۔ حضرت سید قا در شیر شاہ پریہ کے نام سے اس قصبہ کا نام شاہ پور رکھا گیا۔ ان کا مزار یہاں مرجع خلائق ہے۔
1960ء میں اس قصبہ کو یونین کونسل کا درجہ دیا گیا ۔ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق اس یونین کونسل کی کل آبادی 27,980 افراد پرمشتمل ہے۔
چوبارہ:
چوبارہ چوک اعظم سے مشرقی جانب 28 کلومیٹر دور مرکزی شاہراہ چوک اعظم ، جھنگ روڈ پر واقع ہے۔ تھل کے قدیم ترین قصبوں میں سے ایک ہے اور اپنے اندر طویل تاریخی سفر لیے ہوئے ہے۔ اس کے نواحی علاقوں سے ملنے والی مورتیاں ، سکے اور برتن اس کی قدامت کے گواہ ہیں ۔ خاندان سادات کے پہلے حکمران سید خضر خان نے یہاں مٹی کا قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ جسے بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسمار کرا دیا۔ اب بھی اس قلعہ کے طلبہ سے اس کی ہیئت کا انداز ولگایا جا سکتا ہے۔ روایات میں ہے کہ عہد قدیم میں دو منزلہ مکان کی موجودگی کی وجہ سے اس بستی کا نام چوبارہ معروف ہوا جو تب سے چلا آ رہا ہے ۔ صدر ایوب کے دور میں 1960ء میں اسے یونین کونسل کا درجہ دیا گیا۔ جبکہ یکم جولائی 1982 ء سے ضلع لیہ کی تحصیل کا درجہ حاصل ہوا ۔ اس یونین کونسل کی موجودہ آبادی 22,115 افراد پر مشتمل ہے ۔ جبکہ چوبارہ شہر کی آبادی اس وقت تقریباً 6,000 افراد کے لگ بھگ ہے۔ تحصیل چوبارہ میں انگورہ گوٹ فارم اپنی نوعیت کا علاقے بھرمیں واحد فارم ہے جو بکریوں کی افزائش نسل اور بیماریوں کی روک تھام پر ریسرچ کرتا ہے۔
رفیق آباد:
چوک اعظم سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرقی سمت چوبارہ روڈ پر ایک قصبہ رفیق آباد کے نام سے آباد ہے۔ 1952ء میں پشاور سے رفیق احمد خان (ریٹائر ڈ ڈپٹی رجسٹرار ) یہاں آئے اور انہوں نے آباد کاری کے سلسلے میں رقبہ خریدا۔ جہاں آج رفیق آباد قصبہ آباد ہے۔ یہاں انہوں نے چھوٹا سا کچا مکان بنوایا۔ یہاں پہلے پختہ سڑک نہ تھی۔ انہوں نے اپنے مکان کے سامنے ایک دیوار پر رفیق آباد لکھوا دیا۔ بعد میں جب یہاں سے پختہ سڑک تعمیر ہوئی تو محکمہ ہائی ویز نے اس دیوار پر لکھے ہوئے نام رفیق آباد کو دیکھ کر یہاں اسی نام کا بورڈ ایستادہ کر دیا۔ اس قصبہ نے کم آبادی کے باوجود جلد شہرت حاصل کرلی ۔ یہ تحصیل چوبارہ کی اہم یونین کونسل ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اس یو نین کونسل کی کل آبادی 25,821 افراد پر مشتمل ہے۔
نواں کوٹ:
کم آبادی پر مشتمل صحرائی قصبہ ہے۔ چوبارہ سے شمال کی طرف 18 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں سے براستہ 18 ہزاری جھنگ اور براستہ جمال چھپری ، فتح پور تک سڑکیں بچھی ہوئی ہیں۔ عہد قدیم میں اسے نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے۔ منکیرہ ، بھکر سے براہ راست متصل ہونے کی وجہ سے یہاں قلعہ تعمیر کیا گیا۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے قبل از مسیح آباد ہوا تھا ۔ یہاں سکندر اعظم اور اس سے قبل کے بادشاہوں کے ادوار کے سکے اور مورتیاں دستیاب ہونا اس کی قدامت کا مظہر ہیں۔ نواں کوٹ کو 1960ء میں یونین کونسل کا درجہ دیا گیا۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق یونین کونسل کی کل آبادی 405, 23 افراد پر مشتمل ہے۔
شیر گڑھ:
شیر گڑھ تحصیل چوبارہ میں واقع اہم تاریخی قصبہ ہے ۔ 1983ء میں اسے یونین کونسل کا درجہ دیا گیا۔ قلعہ شیر گڑھ ملتان کی لنگاہ حکومت کے عہد میں شیر خان سردار نے بنوایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں محمد خان سدوز کی کی فوجیں ستایا کرتی تھیں اور دشمنوں کے حملے سے بچاؤ کے لیے اس پر توجہ دیتے ہوئے از سر نو تعمیر کیا گیا۔ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق اس یونین کونسل کی آبادی 24,448 افراد پرمشتمل ہے۔