لیہ

تاریخ لیہ اور ہمارے سادہ لوح مورخین

نسیم لیہ

اس دور میں جہاں انسان نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے وہاں پر جھوٹ کے شعبے میں بھی بڑی ترقی سے ہمکنار رہا ہے۔ پہلے دور میں تاریخ بچے واقعات اور ترتیب وار ادوار پر مشتمل ہوتی تھی اور اب جھوٹے حالات پر بنی تاریخ نے ایسا ہر بونگ مچایا ہے کہ جھوٹا تاریخ نگار اس سلیقے یا شائستگی سے جھوٹ بولتا ہے کہ اس کھلے جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ہمارے لیہ کے مبالغہ آرا تاریخ دانوں نے کبھی اولیاء کے نام پر پلندے گھڑے، کبھی چشتیوں اور گوسفندیوں کو اللہ کا ولی قرار دیا اور کبھی واقعات کو توڑ موڑ کر اس من گھڑت انداز میں پیش کیا کہ تاریخ کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ یہ صرف ہمارے اس لاوارث شہر لیہ کی مٹی سے جنم لینے والے سادہ لوح تاریخ دانوں کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے اپنی سادہ لوحی پر اکتفا کر کے من گھڑت واقعات سے تاریخ کو مزین کرنے کی کوشش کی ۔ جہاں سے بھی کوئی ایسی ویسی روایت ہاتھ آئی، اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر اپنی طرز نگاری کو چمکا نا شروع کر دیا۔ میں لیہ کے بارے میں ایسے من گھڑت واقعات سن کر یا پڑھ کر اس قدر نادم ہوا کہ پہلے جی چاہا کہ خودکشی کرلوں پھر خیال آیا کہ دوسروں کے جرم کی سزا میں کیوں بھگتوں؟ وہ خود کیوں نہ عوامی عدالت میں پیش ہو کر اپنے خلاف اپنے جھوٹ کی سزا سماعت کریں۔ لہذا میں اس محاذ کے ہر اول دستے کا پہلا مجاہد اعظم ہوں جو صرف قلم کی حرمت کا علم بلند کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آج کے لیہ اور گذشتہ بیالیس برس کے لیہ میں بہت بڑا فرق اور متیاز ہے۔یہ تفاوت و بسیار اس صورت میں سامنے آسکتا ہے، جب کوئی مجاہد قلم دونوں کا تقابلی مطالعہ کر کے اس انداز کا موازنہ پیش کرے کہ لیہ کی دونوں شکلیں اور دونوں تصویر میں سامنے آکر خود بول اٹھیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کون سا ہے؟ میں اپنے لیہ کے گذشتہ دور کا محاکمہ ۱۵۴۷ء سے ۱۹۴۷ء یعنی پانچ صدی پہلے کا اس ترتیب استدلال سے کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخی شواہد نکھر کر سامنے آسکیں بلکہ تاریخ کا وہ تھوڑا ساحصہ جس میں آپ بھی شعوری طور پر شامل رہے ہوں، واضح ہو کر اپنی دلالت خود پیش کرے۔ آج سے کم و بیش پانچ صدی پہلے کالیہ جس کی بنیاد ہمارے سادہ لوح مورخین کے مطابق کسی میرانی بلوچ نے ڈالی ، صریحاً بے بنیاد ہے۔ گزیٹر یا معارف سرائیکی نے غلط تحقیق سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے جو ناقابل تسلیم ہے۔ قدیم ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ نشیب لوہانچ اور تھل جنڈی کا تمام رقبہ کو پانچ اور سمر ا خاندانوں پر محیط ہے۔ حکومت برطانیہ کی بخشی ہوئی تمام جاگیروں کا وارث ہی سمرا اور لو پانچ خاندان ہے۔ وہاں میرانی قبیلے کا کوئی میرانی بلوچ ریکارڈ کے مطابق کسی ایک قطعہ زمین کا وارث نظر نہیں آتا بلکہ لیہ سے کوسوں دور ایک چھوٹی سی بستی میرانی کا نام ضرور آتا ہے۔ جس کا تعلق لیہ سے اور نہ لیہ کے کسی خطہ زمین سے ہے۔ تاریخ فرشتہ گزیٹر کامعاون سرائیکی کے دعوے کے مطابق لیہ کا بانی اسی میرانی خاندان کا کوئی فرد ہے۔ اگر واقعی اس کے گھرانے کے چند افراد اور کچھ نقوش یا وہ خود بہ نفس نفیس نہیں آباد ہوئے تو پھر ریکارڈ میں اس کا باقاعدہ اندراج ہوتا لیکن اس کا دھندلا سا اک نشان بھی تاریخ کیہ کے شواہد و استدلال میں دکھائی نہیں دیتا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ لیہ کا بانی میرانی خاندان کا کوئی فرد نہیں بلکہ ریکارڈ کے مطابق سمرا اور لو پانچ ہی اس کے جائز وارث ہیں۔ چونکہ ہندو مسلم تاریخ ثقافت اور ہندو مسلم مخلوط سماج صدیوں سے اس دھرتی پر اپنی اپنی روایت کے مطابق زندگی بسر کرتا چلا آ رہا ہے، اس لیے ہندو سماج کے نقوش برہنہ آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ دریائے اباسین کے ایک حصے کا نام لالہ سے موسوم ہے جہاں گردوارے دھوبی گھاٹ سرائے انگریزوں کی قبریں پوجاپاٹ کے مندر ہندووں کی وہ آباد اور سیراب زمینیں جو ان کے بعد مہاجرین اور تارکین وطن کو الاٹ ہوئیں۔ آج بھی موجود ہیں۔ حتی کہ گا ؤ شالا اپنی اسی مکانیت اور اسی شناخت سے ہندو دور کی یاد تازہ کر رہا ہے اور پھر ہندو لالوں مہاراجوں کے محلے گلیاں، جاگیریں، جائدادیں، زمینیں اورمکانات اور ان مکانات میں چھپے ہوئے خزائن بدستور اسی سج دھج سے ہاتھ کی لکیروں کی طرح بول رہے ہیں۔ یہ تمام تاریخ لیہ کا وہ اہم حصہ ہیں جنہیں ہم فراموش کر کے اپنی درسگا ہیں، اپنی مساجدا اپنے مزارات اور اپنی رسومات و روایات کو آگے لا کر تاریخ کا وہ حصہ حذف کر دیتے ہیں جن سے مل کر تاریخ مکمل ہوتی ہے اور تاریخ کا ایک ذہن بنتا ہے۔ اب اس لیے میری نظر میں تاریخ لیہ کے اس ڈھب کا مؤرخ آج تک یہاں پیدا ہی نہیں ہوا جو اس انداز فکر سے سوچے اور اس زاویہ نظر سے دیکھ کر اپنے دور کی تہذیب و ثقافت کا جائزہ لے سکے ۔ ہمارے سادہ لوح مؤرخین نے آج تک اس انداز سے لیہ کی تاریخ کے خدو خال نکھارنے کی کوشش نہیں فرمائی اور نہ انہوں نے اپنی تصانیف یا تحریروں میں ہندومسلم مخلوط تہذیبی دور اور اس کے کارناموں کی فہرست گنوائی ہے۔ تاریخ لیہ کے چند اہم باب جو اولیاء حکماء علماء اطباء حفاظ یا ادب و موسیقی پر مشتمل ہیں جستہ جستہ میں نے ان پر قلم اٹھایا اور اس دور کو اجاگر کرنے کی سعی کی جو تدریجا نوائے وقت ملتان میں شائع ہوئے اور آج بھی میں یہی چاہتا ہوں کہ گذشتہ ادوار کے مناظر میں لیہ کے خدوخال سامنے لاؤں تا کہ سرائیکی کلچر کی ہندو مسلم روایت کو تاریخ کے میزان میں رکھ کر دیکھا جا سکے ورنہ تاریخ لیہ سے انصاف ناممکن ہے۔ ان ادوار کی سماجی ومعاشی اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پہچان اور مکمل تذکرے کے بغیر تاریخ ایک ایسے ادھورے پن میں اٹک کر رہ جائے گی کہ بات آگے نہیں آسکے گی اور ہم اس مواز نے اور تقابلی مطالعہ سے محروم ہو کر حقائق کا چہرہ مسخ کر بیٹھیں گے ۔ جس کا نتیجہ بقول قتیل یہ نکلے گا کہ:
جھوٹی تسلیوں میں گزاری تمام عمر
آئینہ آئینے کو دکھاتا رہا ہوں میں
اگر ہم اسی طرح صرف میرانی اور لو پانچ یا سمرا کے گرد ہالہ بنتے رہے تو پھر ہماری تاریخ کتیہ ان کھرے اور بچے واقعات سے محروم ہو جائے گی۔ جو مورخ کے قلم کی آبرو کہلاتے ہیں بقول خود
تاریخ رو که صرف محبت کے جرم پر
مزدورکو پہاڑ سے ٹکرا دیا گیا
مؤرخین کی ستم ظریفی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ کسی نے اس علاقہ کو طوفان نوح کا مرکز قرار دیا اور کسی نے یہ بڑہانکی کہ شہزادہ ہمایوں کی آنکھیں اسی علاقہ میں نکالی گئیں اور کسی نے یہ کہا کہ دختران کربلا کی زبان یہاں کی سرائیکی زبان تھی گویا جتنے منہ اتنی باتیں ۔در اصل یہ تمام کو تا ہی تجس اور نقص مطالعہ یا ضعف تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جس کو جو بات پسند آئی، اس نے تحقیق و استدلال اور حوالوں کے بغیر وہی لکھ ماری۔ مورخین کا یہ رویہ نہایت بے
رحمانہ ہے۔تاریخ کلیہ کے سادہ لوح مورخین حضرات سے میری التجا یہی ہے کہ وہ تحقیق وشواہد میں اس وقت تک ہاتھ نہ ڈالیں جب تک کوئی محکم حوالہ اور مہر تصدیق ثبت نہ ہو ورنہ اس تاریخ کا حشر بھی لاوارث الیہ کی عاقبت کی طرح عبرتناک نکلے گا۔ میرا دعویٰ ہے کہ تاریخ کا ایک اپنا مزاج ہوتا ہے جس سے واقعات کی ترتیب اس کا ایک ذہن تیار کرتی ہے۔ اس ذہن کے زیر اثر رہ کر تاریخ کا قاری مطالعہ سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اگر واقعات کی کڑیاں مربوط نہ ہوں تو قاری ان واقعات کی بے ربطی سے ایسی ٹھوکر کھا جائے گا کہ سفر کے آخر تک اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے تاریخ میں اپنی پسند و نا پسند کے واقعات کا دخل مؤرخ کی بد نیتی پر مبنی ہے۔ تاریخ کئیہ کی کڑیاں بھی اسی طرح واقعات سے یقیناً جڑی ہوئی ہیں۔ مورخ کا یہ حق نہیں کہ ان واقعات کو ذاتی پسند سے تبدیل کر کے اپنی طرف سے جھوٹ کا وہ حصہ شامل کر دے جودلائل و شواہد اور حوالوں سے عاری ہو۔ ۱۹۴۷ء تک ہندو مسلم مخلوط معاشرت نے جو معروضی حالات ہمارے سامنے رکھتے ہیں وہ تاریخ کیہ کے اہم باب ہیں۔ اس کے بعد اس مخلوط معاشرت کا در بند ہونے سے انقلاب کا ایک اور دور بیچہ کھلتا نظر آتا ہے جس کی فضا الگ موسم جدا ہوا اور روشنی کا مزاج علیحدہ صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ مہاجرین کے کیمپ ہندوؤں کے مکانوں اور زمینوں کی الاٹ منٹ انتقال مکانی پرانی روایات کی اکھاڑ بچھاڑ ۔ تاریخ ایک نئے موڑ کا آغاز کرتی ہوئی اور ایک ایسی نئی کروٹ لیتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہم تاریخ کی پہلی کڑیاں جن سے ٹوٹنے کی آواز میں سن کر ایک نئے سفر میں گامزن نظر آنے لگتے ہیں۔۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد کا یہ سفیر جانکاہ ہماری کسی اور منزل مراد کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاریخ خلیہ کا یہ انقلابی سنگم ہماری دو مسلم تہذیبوں کا سنگم ہے۔ زبان و ثقافت کی یہ اچانک تبدیلی اپنا ایک اثر پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مہاجر و انصار کی یہ دوا ہم کڑیاں تاریخ کی پہلی کڑیوں کو توڑتی ہوئی ہمارے ایک ایسے مثالی تشخص کی جھنکار میں تبدیل ہو کر ہماری مسلم ریاست کی پہچان کا اعلان کرتی سنائی دیتی ہے۔ یہاں ہمارے قاری کو تاریخ لیہ کا یہ جائزہ ضرور لینا ہوگا کہ یہ تاریخ کن کن راستوں سے گذر کر، کیا کیا موڑ کاٹ کر اور کون کون سے پل عبور کر کے ہم تک اپنے واقعات کی بو جھل اور بھاری بھر کم گٹھڑی اٹھائے پہنچی ہے۔ اب ان تمام کڑیوں کو مربوط کرنے کے لیے تاریخ لیہ کے مورخ کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کی فضا کو ہموار رکھے اور تدریجی واقعات کی کھوج میں خود کو بھٹکانے کے بجائے ان منزلوں کی نشاندہی کرتا چلا جائے۔ جو راسخ و جامع حوالوں کی روشنی میں آج تک اپنے چہروں کے واضح نشانات کا اعلان کر رہی ہے لیکن افسوس کہ ہماری تاریخ خفیہ کے سادہ لوح مؤرخ یہ کام سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔ بقول خود: ہائے کس کرب سے دم توڑ رہی ہے تاریخ در اصل تاریخ واقعات کا ہاتھ تھام کر اس وقت تک سفر کرنا نہیں چاہتی جب تک مؤرخ کا عصائے قلم اس کا سہارا نہ بنے۔ تاریخ کبھی آنکھ بند کر کے نہیں چلتی ۔ تاریخ نہ بہری نہ اندھی اور نہ ہی گونگی ہے ۔ یہ مؤرخین کے سلوک تحریر پر موقوف ہے کہ وہ بچے اور کھرے لفظوں کی باگ ادھرکو موڑ دے جہاں سچ کے قافلے ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں۔ تاریخ لیہ کے واقعات اور حقائق بھی ایک ایسے مورخ کے انتظار میں ہیں جو ہر دور کی تصویر خدو خال اپنی تائید میں خود بول اٹھیں ۔ اس تناظر میں کھینچ کر سامنے لائے جہاں تہذیبی رنگوں کا انعکاس اس انداز سے ہو کہ ماضی کے آؤ تاریخ لیہ کے خدو خال کی تلاش اپنے اس تناظر میں کریں۔ جہاں کی تہذیبی و ثقافتی صدیاں تاریخ کے حصار میں اپنے اس تنوع سے مقید ہو کر اپنی ماضی کی عمارت میں ڈھلناچاہتے ہیں ۔ یہاں کی ہندو اکثریت، ہندو خاندان اور اس کی تہذیبی روایات گوت اور ذاتیں اور اس کے ساتھ انسانی رویوں کی تاریخی اہمیت و حیثیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ پنڈت برہمن، چارئےراجپوت ڈھینگڑے اور نارنگ تاریخ لیہ کا مثالی حصہ ہیں۔ دیگر روایتوں کی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ لیہ کی بنیا در کھنے والا لہیات رام چاولہ ہے لیکن اس روایت کو میں اس لیے ثقہ بند ہیں کہ سکتا کہ یہ کسی تاریخی حوالے سے بات نہیں کہی گئی لیکن اس کے راوی لیہ کی ایک مقتدر اور مصدقہ شخصیت سائیں حکیم میاں الہی بخش سیکھی کے چچا بزرگوار سائیں میاں فقیر اللہ بخش لکھی مرحوم و مغفور سابق جز وقتی لائبریرین بلد یہ لیہ تھے جن کی ذات گرامی پر جھوٹ کا شائبہ تک بہتان اور کفر کے مترادف ہے۔ اس لیے میں اس جامع روایت کو تاریخ کا ایک رخ تو مان سکتا ہوں لیکن کسی تاریخی حوالے کے طور پر تسلیم کرنے سے اس وقت تک قاصر ہوں جب تک کوئی دیگر شواہد اس بات کی تائید پر آمادہ نہ ہوں۔ یہ واقعہ ہے کہ یہاں کے ہندوؤں نے مسلمانوں سے کہیں زیادہ انسان دوست کارنامے سرانجام دیئے۔ درس گاہیں، سکول سرائے پل، تالاب وغیرہ تعمیر کر کے انسانی خدمات کی داغ بیل ڈالی کہ آج نصف صدی گزرنے کے باوجود تاریخ کے اوراق رقم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کے بعد ان کی پوجا پاٹ کے مندروں کا انتظام و انصرام گھی کے دیوں کی بہاریں، مندرو اسپاں دیوداسیاں، پرارتھنا، گیان دھان رشی منی کی سندر کھائیں، جنتر منترا د یوالی دوسرے اور بنت جیسا کبھی کے رنگا رنگ جشن پریم مندر کی انفرائی دایات اور دیوداسی راجکماری کی پریم مندر پر راجدھانی ، ایسی منہ بولتی سچائیاں ہیں جن کا آنکھوں دیکھا حال میں اور میرا دور ہی اپنی زبان حال سے بتا سکتے ہیں۔ نقرئی ماضی کے یہ پارینہ قصے ہماری مقامی ثقافت کے وہ اہم حصے ہیں جو تاریخ نیہ کا زریں باب ہیں۔ تاریخ یہ میری طرح لنگڑی نہیں جو بغل میں جیسا کھیاں دبا کر دوسروں کے سہارے چل کر منزل سے دور تھک کر سستانے کے بعد ہمارے سادہ لوح مؤرخین کے من گھڑت واقعات پر ماتم کرنے بیٹھ جائے۔ ہر جس رائے گا بانے مہمانوں کے لیے ایک بسیط و عریض سرائے تعمیر کر کے انسانی جذبوں کی تکمیل کی۔ وہ سرائے آج امام خانہ حسینیہ لیہ میں تبدیل ہو کر سامانہ کے حسینیوں کی عزاداری کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ برج لعل ڈھینگہ ڈال کی تعمیر کردہ اب دریا گا ؤشالہ کی بلند بام عمارت، جسے موسیقی کا گوالیار کہنا غلط نہ ہوگا، اس میں دسہرے کے تہوار پر گھن پت سہگل جیسے معروف و ممتازموسیقار یہاں آ کر اپنی گائیکی کا جادو جگاتے اور فن موسیقی کا ایسا فسوں پھونکتے کہ یہ گاؤشالہ در بابر اکبری کا منظر پیش کرتا دکھائی دیتا۔ جودھا بائی کے شوہر نامدار اکبر کے اندر کا ہند و درباری جیسے ٹھاٹھ کا راگ الاپتا ہوا سامنے آجاتا۔ غرض یہ کہ دریا کنارے دھوبی گھاٹ مندر اور خوبرو آج بھی اس دور کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ دریائے سندھ کا چھوٹا سا حصہ لالہ ہو یا پھر ہزاری باغ ہوں یا سم سم کا بنگلہ، یہ سب اس جیتی جاگتی صدیوں کے انمٹ نقوش ہیں جن کا آج بھی تاریخی تشخص بدستور قائم ہے۔ دسہرے کا وہ دلکش منظر آج بھی آنکھوں میں تیرتا دکھائی دیتا ہے۔ رام چھن، رادن سیتا اور لنکا کے جلانے کا سارا دلچسپ کھیل آج بھی آنکھوں کے سامنے اسی تازگی کےساتھ رقص کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ہر چند تاریخ لیہ کی یہ اٹل حقیقتیں بھولی بسری کہانیوں کا روپ دھار چکی ہیں لیکن یہ تاریخ وہ زندہ کے وہ زندہ پائندہ کردار ہیں جن سے ہندو سماج کی تہذیبی شکلیں لیہ کے انگ انگ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو تعلیمی درسگاہیں بھر اتری ہائی سکول لیہ اور سماجی سکول عقب مزار شہید محمد عارف ایسی با رونق درسگاہیں تھیں کہ دور دراز سے ہندو بچے ہیں آکر تعلیم سے آراستہ ہوتے لیکن افسوس کہ سماجی سکول تو تادیر قائم نہ رہ سکا البتہ بھر اتری ہائی سکول اب تک اسی بیج در صبح کے ساتھ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول کے نام پر تعلیم کی خوشبولٹا رہا ہے۔ لالہ آسارام ہیڈ ماسٹر کے عہد زریں میں یہ سکول بڑی ترقی سے ہمکنار تھا۔ یہاں لیہ کی مشہور صنعت، ہاتھی دانت کا کام، سکول کے بچوں کو سکھایا جاتا تھا۔ جب کہ ان دنوں فٹ بال کے معروف و ہو نہار پیٹر منگھو رام کی ہاتھی دانت کی دکان لیہ کی ہنر کاری اور صنعت کا منہ بولتا مرکز شمار ہوتی تھی جس میں ہمارے (مسلمان چوڑی گر) بھی کام سیکھتے سکھاتے تھے ۔ ہندوؤں کے جانے کے بعد بھر اتری ہائی سکول لیہ کی بہت بڑی جائیداد تحفظ نہ ہونے کے باعث مال غنیمت سمجھ کر لوگوں کی نذر کر دی گویا سکول کی قیمتی پراپرٹی ہندوؤں کی طرح رائیگاں چلی گئی۔ ہمارے مسلمان تو مشرقی پاکستان کے اتنے بڑے حصے کو نہ سنبھال سکے ، وہ اس پراپرٹی کو کس طرح سلامتی سے اپنی تحویل میں رکھ سکتے تھے۔ تاریخ لیہ کے یہ تلخ حقائق ہمارے سادہ لوح مؤرخین کی بیبا کی اظہار کے محتاج ہیں لیکن افسوس کہ آج تک نہ ان واقعات کو کوئی سپرد قلم کر سکا اور نہ کسی کو حقائق کے انکشاف کی توفیق حاصل ہوئی کہ وہ تاریخ تیہ کے ان واقعات کو منظر عام پر لا کر تاریخ کے منہ میں زبان دے سکے۔مجھے ایک مدت تک اس احساس نے بے چین رکھا بالآ خر میں نے عزم بالجزم کر لیا کہ تاریخ کنیہ کے وہ حقائق پارے میں ہی یکجا کر کے اس تہذیبی ورثے کی تلاش میں واقعات کے گھنے جنگل میں مارا مارا پھروں گا اور ہندو سماج کی جنم پتری مکمل کر کے تاریخ کا چہرہ نکھارنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کروں گا۔ لا اله الا الجاد
اب کے تو یوں ہوا ہے کہ آندھی کے ہاتھ سے
گلشن کے بات بات کی ترتیب دی گئی
کتنے بتوں کو دل میں بسایا گیا نسیم
کعبہ میں سومنات کی ترغیب دی گئی
مجھے یاد ہے کہ ۳۹ – ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لیہ میں اس دور کے گورنر پنجاب سر سکندر حیات خان کی معیت میں سر چھوٹو رام اپنے گلابی رنگ کے بڑے پگڑ اور اپنے چھوٹے قد و قامت کے ساتھ سود خور ہندو بنیے کے خلاف جب تقریر کو اٹھے تو سود خور ہندو بنیا ذ ہنیت کی قلعی کھولتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کیا کہ ہندو کی سود خور ذہنیت اور سود کی اندیشہ ناک چالوں سے بچیں اور نہ سود خور ہندو تمہیں مقروض کر کے تمہاری خون پسینے کی کمائی اور محنت سے اکٹھی کی ہوئی پائی پائی سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دے گا اور تم مفلوک الحال ہو کر رہ جاؤ گے۔ یہ تو سچ ہے کہ ہندو کی تجارت کا انحصار سود پر ہی تھا۔ اگر رات کے کسی حصے میں اٹھ کر کوئی غریب مزدور کسی ہندو کی دہلیز تک پہنچ جاتا اور اپنی لڑکی کے ہاتھ پہلے کرنے کی غرض سے بھاری قرض لینا چاہتا تو وہ ہندو بہت خوش ہو کر اسے خالی لوٹانے کی بجائے اس کی جھولی سکوں سے بھر دیتا اور پھر وہ مقروض تمام عمر سود دیتا اور مرجاتا لیکن اصل زر ( موڑی) وہیں کی وہیں رہتی ۔ بہر حال یہ تو ہندو دور کی ہندو ذہنیت کا قصہ ہے لیکن آج کے ہمارے مسلمان تاجر اور مسلمان سرمایہ دار بھی اپنے غریب مسلمانوں کا خون اس سود خور ہندو کی طرح چوس رہے ہیں اور اسی ہندو ذہنیت یا ہندو پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ حتی کہ نصف صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی بنک کاری کا سارا نظام اسی ہندو ذہنیت کے ارد گرد گھوم رہا ہے اور بینکاری کے سودی نظام کے زیر اثر چل رہا ہے۔ امیر اپنی سرمایہ داری اور سود خوری سے امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب سودی قرضے کی لپیٹ میں جس طرح پہلے تھا، سو اب ہے ۔ حتی کہ اب ہماری زکوۃ کا نظام بھی سود خور بینکاری نظام کےحوالے سے ہے۔ غرض یہ کہ تاریخی ختنہ کو ماضی کے جھرو کے میں جھانکنے سے تاریخ کا ایک محیر العقول اور دیدہ زیب باب سامنے آ جاتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہم اپنی مخلوط معاشرت کے اس تصور کو کھو بیٹھے جو عہد پارینہ کا جزولاینفک ہے۔ آئے ! آج ہم نصف صدی پیچھے کی طرف نگاہ ڈالیں اور تاریخیہ کے وہ خوشگوار نقش تلاش کریں جنہیں ہمارے اجداد نے کندہ کیا اور ہمیں اپنے سگے پیارے اور انسانی رشتوں کی ہلکی ہلکی اور بھینی بھینی کی خوشبو آج بھی مہکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کیا خبر ہمارا انسانی رویوں کا یہی احساس موانست ہماری بازیافت کا خاموش ذریعہ ثابت ہو اور ہم ایک بار پھر بھارت کو مشرف بہ اسلام کر کے گنگا جمنی تہذیب کو آپ سندھ سے غسل دے سکیں۔بنی آدم اعضائے یک دیگر اند(اقبال)

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com