یہ ضلع بننے سے پہلے کمشنری کے مقام پر بھی فائز رہا۔ یہ ضلع میانوالی ، ڈیرہ اسماعیل خان اور مظفر گڑھ کے ساتھ جڑا رہا لیکن تعلیم اور علم و ادب کے حوالے سے ہمیشہ نمایاں ترین ہے۔ یہاں پر بھر اتری ماڈل ہائی سکول ، چندرائن سکول، چوبارہ کروڑ اور کوٹ سلطان کے ایسے سکولز بھی ہیں جو اپنے قیام سے لے کر اب تک درس و تدریس کی عظیم روایات اور قدروں کے امین ہیں۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج 1958ء میں اس وقت قائم ہوا، جب صرف ملتان، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور میں کالجز موجود تھے۔ شاید ان کالجز کے علاوہ سرائیکی بیلٹ میں اور کوئی کالج موجود نہ تھا۔ 1958ء میں اس کالج کا آغاز عارضی طور پر موجودہ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول کے ہاسٹل میں ہوا۔ اس کالج کے ایک سابق طالب علم سرور باجوہ نے اس کالج کے آغاز کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ سنایا ہے: 1958ء کے ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں لیہ کے زیرو پوائنٹ (مشہدی ہوٹل کے باہر کرسی پر بیٹھا درمیانی عمر کا سوٹڈ بوٹڈ شخص آنے جانے والوں کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔ وہ نجانے کن سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر لیہ کا ایک سماجی کردار لالہ محمد حسین خواص خیل ان کے پاس آیا اور ان سے ان کی بے چینی کا سبب دریافت کیا۔ یہ سوٹڈ بوٹڈ شخص میاں محمود صاحب تھے۔ میاں صاحب نے انھیں بتایا کہ حکومت وقت نے لیہ میں کالج کھولنے کی منظوری دے دی ہے اور وہ الیہ کالج کا پرنسپل ہے۔ کالج کی عمارت کے لیے ایم سی ہائی سکول کا بورڈ نگ الاٹ ہوا ہے مگر سکول کا سربراہ یہ عمارت دینے کو تیار نہیں ہے اور اگر یہ عمارت نہ ملی تو کالج کی اجازت منسوخ ہو جائے گی۔ لالہ محمد حسین ایک مجلسی اور بہادر انسان تھا۔ اس نے پورے تیقن کے ساتھ سرائیکی میں کہا، نہ سئیں ! اساں قبضہ اج ای گھنسوں ۔“بس پھر اسی رات لالہ محمد حسین ، مہر غلام حسین سمرا، یار محمد کلو وغیرہ نے ہوٹل کے تالے توڑ کر کالج کے تالے لگا دیے اور اگلی صبح لالہ محمد حسین کی قیادت میں پرنسپل صاحب کے باڈی گارڈز کے طور پر کالج کی مذکورہ بلڈنگ لینے میں کامیاب ہو گئے ۔ اس طرح 15 ستمبر 1958ء کو میاں محمود احمد نے کالج کے بانی پر نسپل کے طور پر چارج سنبھال لیا اور کالج کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پرنسپل کے جانثاروں میں چاچا مینار کی اور لالہ محمد حسین نمایاں تھے۔ ان کی وفاداری کو دیکھتے ہوئے پرنسپل نے چاچا مینارتی کو نائب قاصد اور لالہ محمد حسین کو الیکٹریشن مقرر کر
دیا۔1958ء سے 2021ء تک یہ عظیم درس گاہ 63 بہاریں دیکھ چکی ہے۔ یادر ہے کہ کالج کا آغاز انٹر کلاسز سے ہوا۔ 1968ء میں نئی عمارت بننے پر اسے نئے کیمپس میں شفٹ کر دیا گیا۔ اس کا موجودہ محل وقوع اس طرح سے ہے۔ مشرق میں ہاؤسنگ کالونی، مغرب میں لیہ مائنر، شمال میں ٹیکنالوجی کالج اور جنوب میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے۔ آغاز میں اس کالج کا رقبہ پچاس ایکڑ سے زیادہ تھا۔ لیکن سیاسی اور ذاتی مفادات کے پیش نظر قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کا بہت سارقبہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کو دے دیا گیا۔ اب یہ کالج 134ایکڑ پر محیط ہے۔ اس کالج کو 1973ء میں ڈگری کالج کا درجہ ملا۔ پہلے پہل یہاں آرٹس کی کلاسز ہوتی تھیں۔ بعد ازاں سائنس کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ 1990ء میں حکومت پنجاب نے ایم اے (انگلش ) کی کلاسز کا اجازت نامہ جاری کر کے علمی اعتبار سے کالج کو علاقے کی ایک بڑی درس گاہ بنا دیا۔ 1997ء میں ایم۔اے (اسلامیات) اور ایم ۔ اے (اردو) کی کلاسز کا اجرا ہوا۔ جس کے لیے ایک شاندار بلاک تعمیر ہوا۔ ستمبر 2000ءسے ایم۔ اے کی کلاسز نئے بلاک میں لگ رہی ہیں۔ہر دور میں لیہ کے جملہ سیاست دانوں نے لیہ میں معیاری تعلیم کے لیے مخلصانہ کوششیں کیں ۔ 2006ء میں حکومت پنجاب نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے کالج ہذا میں ایم ۔ ایس سی (فزکس اور ریاضی ) کی کلاسز کے اجرا کا نوٹیفیکیشن جاری کیا اور منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی۔ کالج میں ایم۔ ایس سی بلاک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ ایم۔ ایس سی (فزکس) اور ایم ۔ ایس سی (ریاضی) کی کلاسز کا اجرا یکم ستمبر 2007ء سے ہو چکا ہے۔ ایم۔ اے ایم۔ ایس سی کی کلاسز کی وجہ سے حکومت پنجاب نے اس درس گاہ کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دے دیا۔ سال 10-2009ء کے دوران میں مرکزی لائبریری ( محترمہ بے نظیر بھٹو لائبریری کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز ہوا جو کہ فروری 2012ء میں پایہ تکمیل کوپہنچا۔ اب کالج لائبریری نئی عمارت میں منتقل ہو چکی ہے جس کے باہر ‘باب دانش، تعمیر کیا گیا ہے۔ 2019ء میں کالج ہذا میں بی۔ ایس کلاسز کے چھ ڈسپلن ( کیمسٹری ، فزکس، بیالوجی ، میتھ ، اردو اور انگریزی) کا اجراء ہوا اور پھر بعد میں 2020ء میں بی۔ ایس (اسلامیات) کا اجرا ہوا اور امید ہے کہ 2021 ء میں بی ایس ( آئی ٹی) کی کلاسز کی اجازت بھی دے دی جائے گی۔ بی۔ ایس کلاسز کی وجہ سے موجودہ حکومت نے اس کا لج کا نام گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کی جگہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج رکھ دیا ہے۔ جس وقت ہم کالج کی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اس میں کئی نامور مقرر جیسے عبدالرحمان مانی، ڈاکٹر گلزار صراطی، فیاض بھٹی ، عطیہ یاسمین ، نعمان اشتیاق وغیرہ نے ملکی سطح پر شہرت پائی۔ سپورٹس میں ظہیر الدین بابر عبدالحمید اعوان ، شیخ نیاز ، سرور باجوہ، مہر نور محمد نوری، خالد خان چانڈیہ، سید مقبل نقوی ، گلفام لودھی قابل ذکر نام ہیں۔ 60-1958 ء مہر نوری کالج کے بیسٹ اتھلیٹ رہے اور بلال خان 65-1964ء کے بیسٹ اتھلیٹ تھے۔ اسی طرح آفتاب چیمہ اور مہر قلندر بھی کالج کے بہترین کھلاڑی رہے۔
اس کالج کی یہ خوش بختی رہی ہے کہ یہاں نامور ماہر تعلیم بطور اساتذہ کام کرتے رہے ہیں جن میں سے چند کے اسمائے گرامی اس طرح سے ہیں: پروفیسر علامہ عبدالعزیز، پروفیسر ملک الہی بخش جکھر، ، ڈاکٹر خیال امروہوی، پروفیسر غلام محمد خان، پروفیسر حفیظ الرحمان خان، پروفیسر فقیر محمد خان سرگانی، پروفیسر اکرم میرانی،
پروفیسر نواز صدیقی، پروفیسر ظفر حسین ظفر، پروفیسر سعید احمد، پروفیسر محمود ہمایوں، پروفیسر شہباز نقوی، ڈاکٹر ظفر عالم ظفری، ڈاکٹر مزمل حسین، پروفیسر ظہور عالم تھند ، ڈاکٹر افتخار بیگ، ڈاکٹر شعیب عقیق ، ڈاکٹر حمید الفت ملغانی، پروفیسر آغا حسین شاہ اور سبطین خان سرگانی۔ اس طرح اس کالج کے نامور طلبا میں ملک منظور جوتہ، پروفیسر ریاض راہی، ڈاکٹر اجمل نیازی، جعفر بلوچ، ملک نیاز احمد جکھرہ ، غلام حیدرتمند ، ملک سلطان محمود ہنجرا، روؤف کلاسراء جنرل عبد العزیز طارق میرانی ، ڈاکٹر اشولال، ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال ، ڈاکٹر رمضان سمرا، ڈاکٹر ذیشان مرزا، ڈاکٹر بلال واندر، افتخار بابر خان کھتران، زبیر شفیع غوری، لیفٹینٹ جنرل رانا محمد فہیم، جسٹس شہباز رضوی ، خورشید ملک اور عابد انوار علوی کے نام شامل ہیں۔ کالج کے سربراہان جو کہ تعداد میں چھپیں ہیں، ان میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کالج کے نصابی ، ہم نصابی اور ادارہ ہذا کو ایک گلستان بنا دیا۔ ان لوگوں میں سید زاہد حسین کاظمی، غلام محمد خان اور ڈاکٹر مزمل حسین کے نام سر فہرست ہیں۔ بطور خاص ڈاکٹر مزمل حسین نے ایک نئے ویژن، نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ کالج ہذا کے نصابی اور ہم نصابی ماحول کو سازگار بنایا۔ لیہ کی اہم شخصیات جنھوں نےمختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات پیش کی ہیں، ان کے نام پر یادگاریں بنوائی ہیں۔ ان میں گلستان ڈاکٹر خیال امروہوی، خیابان پروفیسر نو از صدیقی ، ڈاکٹر مہر عبدالحق بلاک ظہیر الدین بابر بلاک، ملک الہی بخش جکھڑ بلاک، پروفیسر غلام محمد خان بلاک گلستان نیم لیہ ، خورشید ملک بلاک ، خیابان میاں الہی بخش سرائی، اشولال فقیر ریسرچ کارنر وغیرہ کے علاوہ ڈائیورسٹی پارک جس میں ایک منفرد اور اچھوتے سلوگن ایک منٹ ایک ہزار پودے کے تحت کالج ہذا میں پودے لگائے گئے۔ وال آف فیم ( دیوار شہرت ) ایک اور منفرد آئیڈیا ہے۔ جس پر کالج ہذا سے فارغ التحصیل ان شخصیات کے نام درج ہیں جنھوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی۔ کالج ہذا کے کتب خانہ کو نمایاں کرنے کے لیے ”باب دانش تعمیر کیا گیا ہے۔ کالج میں پہلی مرتبہ سائیکل اور کار اسٹینڈ کے لیے ایک وسیع و عریض شیڈ بنایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے میں سہولت ملی ہے۔ کالج کے سبزہ زاروں کو مزید حسن بخشنے کے لیے ٹوہ والز بنائے گئے، نیا گر اس لگا یا گیا، سیکڑوں گلاب لگائے گئے اور کالج کے گیٹ پر دیدہ زیب کلمہ طیبہ اور خوش آمدید کا بورڈ آویزاں کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کالج میں آنے والوں کے دل و دماغ پر ایک خوشگوار تاثر ثبت ہوتا ہے۔ اسی طرح کالج کی ایک دیوار پر درود پاک لکھوا کر محمد مربی کے ساتھ اپنے عشق اور وابستگی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ پرنسپل آفس فیکلٹی لاؤنج اور دیگر کئی ذیلی دفاتر کی پائلنگ کرائی گئی ہے۔ کلاس رومز کے پردے اور دیگر سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ ملٹی میڈ یا خریدا گیا اور سائنس لیبارٹریز میں سائنس سے متعلقہ ضروری اشیاء اور تصاویر ڈسپلے کی گئی ہیں۔ ایک این جی او سے عطیہ لے کر واشنگ سٹینڈ بنایا گیا۔ جس سے کرونا کے بچاؤ کے سامان پیدا ہوئے ۔ ہر مذہبی اور قومی تہواروں کو باقاعدگی سے منایا گیا اور طلباء وطالبات کے لیے تفریحی اور مطالعاتی ٹور بھی کرائے گئے۔ متعلقہ محکموں کو بار بار یاد دہانی کرا کے کالج کے مختلف بلاک کی چھتوں کو مرمت کرایا گیا۔ پوری عمارت کو وائٹ واش کرایا گیا اور کمزور عمارت کو سہارا دینے کے لیے پانچھ پروٹیکشن ” کرائی گئی ہے۔ جگہ جگہ شکتی بجلی کی تاروں کو نئے سرے سے تبدیل کیا گیا اور روزانہ کی بنیاد پر صفائی کا انتظام کیا گیا۔ دفتر اور ڈیپارٹمنٹس کے لیے نیا فرنیچر خریدا گیا۔ ٹھنڈے پانی کے لیے الیکٹرک کولر لگوائے گئے۔ کالج میں موجود پلے گراؤنڈ زکولیہ کے معروف اتھلیٹ ظہور احمد خان ( او سپین) کا نام دے کر خوبصورت گیٹ لگوایا گیا ہے اور ان گراؤنڈ ز کو سٹیڈیم کاعنوان دیا گیا ہے۔