لیہ

لیہ :علمائے کرام اور ترویج اسلام

 

حضرت شیخ محمد یوسف المعروف لعل عیسنؒ:


فضل على سمرا

دین متین کی تعلیم و تبلیغ اور انسانیت کی فلاح کے لئے اولیاء کرام اور مشائخ عظام کی عظیم قربانیاں اور خلوص نیت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کی گئی کوششیں محتاج بیان نہیں۔ اللہ کی ان ہستیوں اور برگزیدہ بندوں نے نہ صرف عبادات اور جہاد کئے بلکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ۔ دور دور از کٹھن اور پر خطر سفر بھی اسلام کی سربلندی کے لئے اختیار کئے۔ اولیاء کرام اور بزرگان دین دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچے اور ظلمت کدوں میں دین اسلام کی شمع روشن کی اور آج ان کے مزارات مقدسہ مرجع خلائق ہیں۔ جہاں سے تشنگان رشد و ہدایت فیضیاب ہو رہے ہیں۔ یہ اولیاء کرام کی مساعی جمیلہ کا اثر ہے کہ آج دنیا کے ہر خطہ میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ان نیک اور برگزیدہ ہستیوں (اولیاء کرام میں ایک ولی کامل حضرت شیخ محمد یوسف ہر چینی سے بھی ہیں جو اپنے اصل نام کی بجائے زیادہ تر مخدوم لعل عیسن پر اللہ کے نام سے معروف ہیں ۔ آپ حضرت زکریا ملتانی میے کے خانوادہ کے چشم و چراغ اور سلسلہ سہروردیہ سے منسلک ہیں۔ آپ ولی ابن ولی تھے ۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت بہاؤ الدین ثانی تھا جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور بلند پایہ بزرگ تھے ۔ حضرت شیخ محمد یوسف علیہ نے دینی روحانی ظاہری اور باطنی علوم اپنے والد بزرگوار اور اپنے جلیل القدر استاد حضرت ملوک سندھی سے حاصل کئے ۔ جب حضرت لعل عیسن مین ہے اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لئے اپنے وطن کوٹ کروڑ (موجودہ کروڑ لعل عیسن ) تشریف لائے تو یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت ابتر تھی اور مسلمان اسلام کی نورانی اقدار اور تعلیمات کو تقریبا بھلا چکے تھےمیلہ چوھودیں اور سالانہ عرس مبارک بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوتا ہے۔ جس میں دور دراز سے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اور زائرین شرکت کرتے ہیں ۔ اس موقع پر اونٹوں کی بڑی منڈی کے علاوہ کبڈی اور والی بال فٹ بال اور دیگر مقامی کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں ۔ میلہ عرس مبارک کے تمام تر انتظامات ایم پی اے ملک احمد علی اولکھ اور چیئر مین بلد یہ کروڑ ملک محمد عمر علی کی زیر نگرانی طے پاتے ہیں۔

 

حضرت شاہ شرف بغدادیؒ:


برکت اعوان

خدا کے برگزیدہ بندے ہمیشہ مثل شمع جیتے ہیں اور ان کے مرقد بھی مخلوق خدا کو شمع کی صورت ہی روشنی بخشتے رہتے ہیں ۔ مادیت کے ستائے ہوئے اور دنیا کے آلام و مصائب سے گھبرائے ہوئے درماندہ لوگ اب بھی لیہ شہر کے حضرت شاہ شرف بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے آستانہ مبارک پر ہاتھ پھیلائے ہوئے آتے ہیں اور دین دنیا کی آسودگیاں سمیٹ کر گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ مے بغداد کے رہنے والے تھے اور بلیغ بخارا کی طرف سے آنے والے تجارتی قافلوں کے ہمراہ ہندوستان میں تجارت کی غرض سے تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے قافلہ تجارت کے ہمراہ اپنے وطن واپس جارہے تھے کہ لیہ شہر کے مغرب میں دریائے سندھ کے کنارے پڑاؤ کیا تاکہ کل سویرے دریائے سندھ عبور کر کے وہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں داخل ہو جائیں۔ صبح جب تمام قافلے والے جاگے اور انہوں نے اونٹوں پر اپنا سامان لادنا شروع کیا تو حضرت شاہ شرف بغدادی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا وہ اُونٹ جو انہیں اور ان کے کئی من وزنی قیمتی سامان کو لئے پورے ہندوستان میں پھرتا رہا تھا، اچانک مر گیا ہے۔ آپ کافی دیر تک استغراق کے عالم میں بیٹھے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ زندگی کا اگر مال یہی ہے تو اس چند روزہ زندگی کے لئے اتنی تگ و دو آخر کس کے لئے کی جائے ۔ قافلہ بالکل تیار ہو کر آپ کے انتظار میں رکا ہوا تھا کہ آپ نے اعلان کیا کہ ان کا مال و متاع جس نے بھی اٹھانا ہے وہ اٹھا لے۔ اب وہ یہیں رہیں گے ۔ قافلے کے لوگوں نے آپ کو پیش کش کی کہ آپ اونٹ کی وجہ سے نہ رکیں ان کے پاس کئی فالتو اونٹ ہیں ان میں سے کوئی اونٹ لے لیں مگر آپ نے انکار کر دیا اور قافلہ والوں کو صرف وطن کے نام سلام دے کر روانہ کر دیااور خود وہیں دریا کے کنارے اللہ کی یاد میں مشغول ہو گئے اور زہد و تقوی میں ولایت کے اس درجہ پر فائز ہوئے کہ یہ تھل کا ایک بہت بڑا روحانی سید خانوادہ آپ کا عقیدت مند ہو کر آپ کا مرید ہوا ۔ آپ کی شکل و شبہاہت اور وجاہت و جلالت کو دیکھ کر آپ کو لوگ پیر پٹھان کے نام سے بھی یاد کرتے تھے ۔ آپ کے حسب و نسب کے متعلق کوئی ثقہ روایت نہیں مل سکی۔ نور خدا سے خود کو مثل شمع روشن کرنے والا خدا کا یہ برگزیدہ بندہ ایک عرصہ تک مخلوق خدا میں روشنیاں تقسیم کرتا رہا۔ لیہ میں آپ مینی لیہ کے مستقل قیام کے بعد بیج بخارا کی طرف سے سامان تجارت لے کر آنے والے قافلے آتے ہوئے بھی ادھر سے گزرتے اور آپ کے ہاں پڑاؤ کرتے اور واپسی پر بھی یہ تجارتی قافلے آپ کے پاس پڑاؤ کر کے جاتے ۔ آپ کے اس دنیا سے پردہ پوش ہو جانے کے بعد بھی صدیوں تک یہ تجارتی قافلے اس طرح ہر سال آپ کے روضہ مبارک کے قریب آکر پڑاؤ کرتے اور تجارتی منڈی لگاتے اور پھر یہ منڈی پورے ہندوستان میں نمک کی منڈی کے نام سے مشہور ہوگئی۔ اس وقت ہندوستان میں تجارت زیادہ تر کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی اور موجودہ پاکستان کی مختلف کانوں کا نمک کشتیوں کے ذریعے دریائے سندھ سے لیہ پہنچتا تھا اور لیہ سے یہ نمک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اونٹوں کے ذریعے پہنچتا تھا۔ یہ نمک کی منڈی بھی صدیوں تک چلتی رہی، حتی کہ جب ریل گاڑی اور ٹرک چلنے شروع ہو گئے تو اس نمک منڈی کا سلسلہ بند ہو گیا۔ حضرت شاہ شرف بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی کشف و کرامات کی وجہ سے ہندوؤں کو بھی آپ سے عقیدت ہو گئی تھی۔ وہ لوگ آپ کے مزار مبارک پر حاضری تو نہیں دے سکتے تھے مگر آپ کے مزار کے قریب سے گزرتے ہوئے ہاتھ باندھ کر آپ کے مزار کو سلام ضرور کرتے تھے حتی کہ آپ کے مزار کے بالکل سامنے دریا کے ایک نالہ ہزاری کے اُس پارسناتن دھرمی ہندوؤں نے دیوان ساون مل کے بیٹے کرم فرائن کے زمانہ میں اپنا ایک سنتھان بنا لیا تھا یہاں پر ہندوؤں کے نو جوان اور بوڑھے اپنی مذہبی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اور یہیں سنتھان کی چھت پر کھڑے ہو کر ہند و با دلے اور ان کے چیلے جو آپ میں اللہ سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کے نا پختہ مزار کی طرف ہاتھ باندھ کر پر نام کیا کرتے تھے ۔ آپ مو انا الیہ کا نہ کوئی حسب ضابطہ مجاور ہے اور نہ کوئی متولی ہے کیونکہ آپ اتنے جلالت مآب ہیں کہ آپ نے کبھی بھی اپنے روضہ مبارک پر کسی کو مستقل رہنے نہیں دیا اور جب بھی کسی دنیا دار آدمی نے دنیا داری کی لالچ کے لئے آپ کے روضہ مبارک سے چھٹنے کی کوشش کی آپ نے اپنے کشف و کرامات سے انہیں وہ سبق دیا کہ پھر کسی کو بھی آپ کامجاور بنے کی جرات نہ ہو سکی ۔ آپ کو کبھی کچہ) کا محافظ بھی کہا جاتا ہے۔ روایت کے امینوں نے روایت کی ہے اور تذکرہ نگاروں نے یوں لکھا ہے کہ صحرائے تھل کی طرف سے کچھ یعنی کچھ نشیب کو جانے والا راستہ آپ مینی اللہ کے مزار مبارک کے پاس سے ہو کر گزرتا تھا۔ اس وقت صحرائے تھل میں نہری نظام نہیں تھا۔ لوگ بھوک و افلاس کے مارے ہوئے تھے ان کے مقابلہ پر دریائی علاقہ کچھ نشیب کے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور خوشحال تھے۔ چنانچہ صحرائے تھل سے اکثر لوگ چوری چکاری کی نیت سے کچھ نشیب کی طرف نکل آتے اور وہ جب آپ کے مزار مبارک کے قریب سے گزرنے لگتے تو انہیں کالی بھڑوں کے غول کے غول چمٹ جاتے اور وہ الٹے پاؤں صحرا کی طرف بھاگ جاتے یا پھر بڑی تعداد میں سانپ ان کو گھیر لیتے اور بری نیت سے کچھ کی طرف آنے والے یہ لوگ اپنے ارادے سے باز آ کر واپس صحرا کی طرف بھاگ جاتے ، اس طرح آپ مری ہے آج تک کچھ نشیب کے لوگوں کی پاسبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔ آپ ملی شیر شاہ سوری کے دور میں لیہ میں وارد ہوئے تھے اور چند سالوں کے بعد ہی آپ اس دنیا سے پردہ پوش ہو گئے تھے ۔ آپ کے عقیدت مندوں نے دریا کے کنارے پر ہی آپ کا ایک نا پختہ مزار مبارک تعمیر کر دیا تھا جو آج تک کبھی اور تھل دونوں کے لئے خیر و برکت کا باعث ہے۔ حضرت شاہ شرف بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے کشف و کرامات آپ کی زندگی میں اتنے سرزد نہیں ہوئے جتنے کشف کرامات آپ کی پردہ پوشی کے بعد آپ منہ سے منقول ہیں ۔ آپ کی پردہ پوشی کا ابتدائی دور تھا۔ آپ کے ارد گرد تمام ویرانہ تھا۔ آپ کے مزار پر خوف و دہشت کی وجہ سے بلا ضرورت کوئی شخص نہ جاتا تھا۔ آپ کا مزار مبارک نا پختہ اور اجاڑ تھا ۔ روایت ہے کہ ایک رہزن نے جرات کر کے آپ معنی اللہ کے مزار مبارک سے کپڑا اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی اور وہ وہیں آنکھوں سے اندھا ہو گیا اس نے ہاتھوں سے تلاش کر کے آپ کے مزار مبارک پر دوبارہ غلاف چڑھایا اور رو رو کر معافی کا خواستگار ہوا اور پھر عرصہ دراز تک آپ کے مزار مبارک پر حاضری دیتا رہا اور چوری چکاری سے ہمیشہ کے لئے تائب ہو گیا ۔ آج بھی اس کی اولاد خود کو و چور کہلاتی ہے ۔ ایک مقامی بوڑھی خاتون آپ کے مزار مبارک پر جاروب کشی کرتی تھی اب ان کی اولاد آپ کی جاروب کشی کرتی ہے ۔ ہر سال آپ کا عرس مبارک مہر گل محمد لو ہانچ مرحوم کی اولاد مناتی ہے۔ انگریزوں کے زمانہ میں انگریز افسر اکثر ہندوؤں کے حق میں فیصلہ کرتے آپ میلہ کا مزار مبارک اسی وقت کے کمشنری آفس کے قریب تھا۔ اکثر مسلمان اپنےخلاف ہونے والے فیصلے پر آپ کے مزار مبارک پر آکر فریاد کرتے چنانچہ جب دوسرے دن فیصلہ سنایا جاتا تو ان مسلمانوں کے حق میں ہوتا تھا۔ راقم الحروف کے ایک دوست جو ابھی تک زندہ ہیں انہیں کشف القبور کا سودا سر میں کایا اور انہوں نے حضرت شاہ شرف بغدادی میں لے کے مزار مبارک کو اس کے لئے منتخب کر لیا۔کسی بزرگ سے چلہ کشی کی ترکیب معلوم کر کے چلہ کشی شروع کر دی۔ سات دن چلہ کشی ہونی تھی مگر دوسرے ہی دن آدھی رات کے وقت مزار مبارک کے گڑگڑاہٹ سے ٹوٹنے کی ہیبت ناک آواز آئی اور پھر آپ نے کروٹ بدل کر قبر مبارک سے اپنا وجیہ ہاتھ باہر نکالا ہی تھا کہ ہمارے دوست دہشت زدہ ہو کر چلاتے ہوئے مزار سے بھاگ نکلے اور سر پر پاؤں رکھ کر جو بھاگے تو گھر آ کر گر گئے اور کئی ماہ تک صاحب فراش رہے اور غیر حالت میں رہے ۔ اس وقت کے ایک عامل سید صاحب نے انہیں سہارا دینے کی بڑی کوشش کی مگر ہمارے وہ دوست ابھی تک مجذوبی کیفیت میں ہیں۔ ایک عدالت کا چپڑاسی ابھی تک زندہ ہے۔ اسے ایک ایس ڈی ایم نے ایک نہایت اہم مثل سپرد کی کہ وہ اسے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ دوسرے دن جب ایس ڈی ایم نے مثل طلب کی تو چپڑاسی کے پاس مثل نہیں تھی۔ اس چیڑ اسی کا کہنا ہے کہ اس نے گھر میں جہاں مثل رکھی تھی اس نے اس جگہ کو ادھیڑ ڈالا مگر مثل نہ ملی حتی کہ اسے ملازمت سے فارغ اور پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ چنانچہ اس کی دنیا اندھیر ہوگئی اور وہ اس نیت سے کہ یہاں سے فرار ہو کر علاقہ غیر میں چلا جائے اور باقی زندگی مفرور کی حیثیت سے گزار دے۔ حضرت شاہ شرف بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ آپ میلہ کے مزار کے اندر چلا گیا اور گڑ گڑا کر رویا۔ روتے روتے پریشانی کی وجہ سے اس کی آنکھ لگ گئی کہ اچانک کسی نے جھٹکے سے اٹھایا اور کہا کہ جاؤ تمہاری مثل مل گئی ہے چنانچہ وہ بھاگا بھاگا گھر آیا اور جس الماری کو وہ کئی بار دیکھ چکا تھا اسی الماری میں سامنے مثل پڑی ہوئی تھی ۔ اسی طرح آپ مینیہ کی متعدد کرامات زبان زد خلائق ہیں ۔ آپ مینی یا اللہ کا مزار مبارک لیہ شہر کے مغربی کونے میں دریائے سندھ کے نالہ ہزاری کے کنارے پر ایک بہت پرانے برگد کے سایہ میں واقع ہے اور اب تو آپ ۔ کے مزار مبارک کو پختہ کر دیا گیا ہے اور آپ کا عرس مبارک ہر سال شوال کے مہینہ میں نہایت احترام و عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ آپ روی یا اللہ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے ۔ درماندہ دلوں کے لئے سکون کا باعث ہے۔

حضرت خواجہ غلام حسن سواگؒ:


طاہر لاہوری

عدالت میں قتل کا ایک ملزم کھڑا تھا۔ باریش باشرع پیشانی سے سجدوں کا نور پھوٹ رہا تھا۔ چہرے پر نور ایمان کا نقاب جگمگا رہا تھا۔ عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ عدالت کی کرسی پر ایک ہندو سیشن جج بیٹھا تھا۔ استغاثے کی جانب سے جو تھانیدار پیش ہوا وہ بھی ہندو تھا ۔ اسی عدالت میں ایک ہندو تحصیلدار بھی موجود تھا۔ عدالت کا ریڈر بھی ہندو تھا۔ اتنے میں ہندوؤں نے ایک اور استغاثہ پیش کیا جس پر الزام لگایا گیا تھا کہ یہ شخص جادوگر ہے اور جادو کے زور سے ہندؤں کو مسلمان بنالیتا ہے۔ جب یہ الزامات پڑھ کر سنائے گئے تو ملزم کے نورانی چہرے پر جلال کی شعاعیں دیکنے لگیں، جوش ایمانی کی امواج نے جیسے دل میں ایک طوفان برپا کر دیا ہو ۔ قتل کے اس ملزم نے بڑے جوش اور جذبے سے ایک ایک عدالتی افسر کی جانب باری باری انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، کیا اس کو میں نے مسلمان کیا ہے؟ کیا اس کو میں نے کلمہ پڑھایا ہے جس کی جانب انگشت شہادت اٹھی اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا :
لا اله الا الله محمد رسول الله تمام لوگ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور اس ملزم کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ یرقتل کا ملزم کون تھا ؟ یہ تھے حضرت خواجہ غلام حسن پیر سواگ رحمتہ اللہ علیہ جن کے دست حق پرست پر ہزاروں ہندو اور سکھ مسلمان ہوئے۔ مقدمے کا پس منظر یہ تھا کہ ہندوؤں نے دھو کے سے انہیں نور پور تھل میں دعوت دی یا آپ ویسے ہی کسی کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے ۔ ہندوؤں نے موقع سے فائدہ ۔ نے اٹھا کر آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ قتل کھڑا کر دیا تھا۔

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com