صحت کے بغیر ترقی کا حقیقی تصور ممکن نہیں۔ وہ اقوام عالم جنہوں نے صحت کو بدرجہ کمال اولیت دی ہے، دنیادی نقطہ نگاہ سے تعمیر و ترقی میں بہت آگے جا رہی ہیں ۔ عصر حاضر میں نئی دواؤں کی دریافت نے ازالہ مرض اور فروغ صحت کی راہ ہموار کر دی ہے۔ یہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس سے قبل تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال قائم تھا۔ 1982ء میں (ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال) کے آرڈرز ہوئے ۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سنئیر میڈیکل آفیسر اور کئی میڈیکل آفیسرز ان دنوں ہسپتال میں اپنے فرائض بطریق احسن سرانجام دے رہے ہیں ۔ شب و روز بیماریوں کی تشخیص آپریشن، حادثات کے سلسلے میں سٹاف موجود رہتا ہے۔ تحصیل چوبارہ اور کڑور میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ سول ڈسپنسریاں کم اور پرائیوٹ کلینک زیادہ ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبان سرکاری فرائض منصبی کے بعد اپنے پرائیویٹ کلینک پر بھی کام کرتے ہیں۔ علم طب یونان سے چلا لیکن اسے فروغ مسلمانوں کے عہد میں ہوا ۔ اسلامی دور کے عروج میں یہ خوب پھلا پھولا ۔ مدینتہ الحکمت بغداد میں یہ علم پروان چڑھا۔ برصغیر میں آیور ویدک کا رواج تھا ۔ مسلمان اطباء نے معدنیات اور کشتہ جات کو آیور ویدک سے اخذ کیا۔ اس طرح یہ طب ادویات دریافت ہوئیں ۔ یونانی اور آیور ویدک کے حسین امتزاج کے بعد سامنے آئی ۔ اس فن سے نئے امراض اور نئی موجودہ حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں ہیو میو پیتھک ڈاکٹرز کی بھی تعیناتی کا حتمی فیصلہ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال میں طبی ڈسپنسری بھی ہے جہاں حکیم رشید احمد باروی (ماہر شعبہ طب) موجود ہیں۔ اس مقصد کے لئے ۱۹۶۵ء کا بی ایکٹ بھی ہے۔ نیشنل کونسل فارطب و وفاقی وزارت صحت کا قائم شدہ ہے جس کے تحت چار سالہ ڈپلومہ کورس کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے گو ملک بھر میں ۱۸ طبی کا لجز قائم ہیں مگر بد قسمتی سے اس ضلع میں کوئی طبی کالج قائم نہیں ہو سکا البتہ ان دنوں نئے کالج کی تعمیر کے بارے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اب پرائیویٹ سیکٹر میں ایک طبیہ کالج موسوم بہ الھادی طبیہ کالج قائم ہو چکا ہے۔
ضلع لیہ میں بہت سے سرکاری بنیادی مرکز صحت، ڈسپنسریاں ،سوشل ویلفیئر ڈسپنسری، بہود آبادی سنٹر اور نجی سطح پر ہسپتال کلینک قائم ہیں جو بساط بھر عوام الناس کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں اپنی بہترین کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں مگر اس کے باوصف سرکاری سطح پر ان سہولیات کو انتہائی نا کافی قرار دیتے ہوئے خصوصی توجہ کا مرکز سمجھا جانا چاہیے۔ بالخصوص چوک اعظم اور فتح پور کے رورل ہیلتھ کمپلیکس توسیع طلب ہیں۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے