لیہ

لیہ میں مائی ماتا کا مندر

ڈاکٹر مزمل حسین

لیہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے صحرائے تھل کا ایک اہم شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تہذیب کے قدیم مراکز کسی نہ کسی دریا کے کنارے قائم رہے ہیں۔ یہ بھی انہی دریائی تہذیبیوں کی ایک مثال ہے جو اپنی تاریخ میں بہت سے درخشاں آثار و نشان رکھتا ہے۔ ان آثار میں بالخصوص اولیائے کرام کی خانقاہیں، ان کے قائم کیے ہوئے علمی و دینی ادارے، بسائے گئے تکیے، تخلیق کیے گئے فرمودات ، کلام اور ان سے وابستہ تہذیبی و ثقافتی روایات ہمارا عظیم تاریخی ورثه ہیں۔ اس ضلع میں تقریباً 30 کے لگ بھنگ اولیائے کرام کی خانقاہیں موجودہ ہیں جو اس بات کی غمازی ہیں کہ ان میں ابدی نیند سوئی وہ برگزیدہ اور مبارک ہستیاں ہیں جو ماضی میں راہ راست سے بھٹکی اور تاریکیوں میں گم عوام کو انسان دوستی علم اور روحانی تجلیوں سے نوازتی رہی ہیں اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ لیہ میں روحانی اور تہذیبی سلسلے کی ایک تو انا روایت موجود رہی ہے۔ یہ میں موجود انہی مزاروں میں ایک مزار مائی مات کا بھی ہے جسے بوجوہ مورخین لیہ نے اپنے مطالعہ کا حصہ نہیں بنایا اور اہل اقتدار نے بھی کبھی اس کی خستگی ، تباہی اور مٹتے ہوئے آثار کی جانب توجہ نہیں دی۔ مائی ماتا کا مزار شیخ جلال الدین المعروف، شیخ جلو لی کے قبرستان کے شمال ، حضرت کموں کامل چھین لینے کے مزار اور ریلوے لائن کے مشرق اور لیہ مائنر کے مغرب میں واقع ہے۔ ارد گرد کھیت اور آبادی ہے۔ بغل میں مندر اور مڑی ہے۔ (مڑی اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں ہندواپنے بزرگوں کی راکھ دفناتے ہیں ) اس مندر کی نسبت سے مائی ماتا کے مزار کو مزار کی بجائے مائی ماتا کا مندر کہا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لیہ کی کثیر آبادی بھی اس بات سے واقف نہیں کہ یہاں پر ایک بزرگ خاتون کا مزار موجود ہے جہاں پر ماضی قدیم سے لوگ جسمانی امراض سے شفاء اور روحانی فیض پاتے آرہے ہیں۔ وہاں پر موجود مزار کی متولی خورشید مائی نے بتایا ہے کہ عرصہ دراز سے مائی ماتا اسے بشارتیں دیتی چلی آرہی ہیں کہ اس کے مزار کے مٹتے آثار کو بچایا جائے اور وہ مائی ماتا کا یہ پیغام ہر آنے جانے والے کو دے رہی تھیں لیکن کسی صاحب حیثیت نے اس جانب توجہ نہیں کی۔

مائی ما تا کون تھیں؟ کہاں کی باسی تھیں؟ ان کا مذہب کیا تھا :


یہ تمام حقائق صرف سینہ گزٹ اور روایات کی صورت میں موجود ہیں ۔ کسی ٹھوس تحریر میں اس کے شواہد نہیں ملتے ۔ 1878ء کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق مائی ماتا کے گردو نواح کو چاه ما تا والا کہا جاتا تھا۔ اس جگہ کے مالک باوا اور وو اس چیلا با وا کنول داس قوم فقیر بیراگی تھا۔ 1921ء کے بندوبست کے مطابق ملکیت کا یہ سلسلہ باوا امرد اس چیلا تلو که داس تک پہنچتا ہے۔ اس جگہ سے لوگوں کی عقیدت دیکھتے ہوئے اس وقت کی حکومت نے سارے کھوہ کالگان تا قیامت معاف کر دیا تھا۔ اس مزار پر ایک سرائے اور مندر بھی تھا۔ مندر اور سرائے کے آثار آج تک موجود ہیں۔ یہ مندر ہندوؤں اور مسلمانوں کی آپس میں مذہبی رواداری کی غمازی بھی کرتا ہے کیونکہ یہاں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی آیا کرتے تھے۔ اور اس بات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ مذہب اور دھرم سے بالا تر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا پسند کرتے تھے۔ مائی ماتا سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس بنیادی مآخذ صرف روایات کی شکل میں موجود ہیں۔ مزار کی متولی سمیت کئی بزرگوں سے مکالمے کیے گئے جنہوں نے متفقہ طور پر بتایا کہ مائی ما تا شیخ جلال الدین ، حضرت کموں کامل ہی ہے اور حضرت اشرف بغدادی مولے کی ہم عصر تھیں۔ وہ لیہ کے ایک ہندو گھرانے ( تقریباً 1600ء) میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی زبان پر رام رام کی بجائے ذکر الہی کا ور درہتا تھا۔ ان کے خاندان کو یہ بات پسند نی تھی ، وہ انہیں ایسا کرنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے لیکن عشق الہی سے سرشار وہ اپنی دھن میں مگن رہیں۔ آخر ایک روز وہ انہیں قتل کرنے کیلئے آگے بڑھے تو انہوں نے حضرت شیخ جلال الدین اس لیے بعض لوگوں کے نزدیک حضرت کموں کامل مہ) کے پاس پناہ لی۔ انہوں نے انہیں دائرہ اسلام میں داخل کیا اور مزار کی جگہ موجود ہو ہر ( برگد کے درخت کے نیچے ڈیرہ ڈالنے عبادت کرنے اور چیچک کے مریضوں کا روحانی علاج کرنے کا اذن دیا ( ان دنوں علاقے میں چیچک کی وبا پھیلی تھی ، جس سے لوگ لقمہ اجل بنتے جا رہے تھے اس بیماری کا یہاں پر دیسی علاج فقط یہ تھا کہ مریض کو کم از کم ایک ہفتے کے لیے کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا، اور اس پر یہ پابندی ہوتی تھی کہ وہ لوگوں سے سامنا کرنے حتی کہ ان کی آواز تک سننے سے بھی پر ہیز کرے۔ مائی ماتا کی وجہ سے کمروں میں بند مریض باہر آگئے اور بفضل تعالیٰ شفا یاب ہونے لگے۔ چیچک یا جلدی امراض میں مبتلا مریض آج بھی اس مزار پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں کی متولی سے دم لے کر شفا پاتے ہیں) لہذا مائی ماتا نے نہیں اپنا ڈیرہ ڈالا اور سارا دن چرمحمد کاتی رہتیں اور چیچک کے مریضوں کوسوت کا دھاگہ دم کر کے عطا کرتیں اور حکم ربی سے مریض شفا پاتا۔ ایک دن کوئی نا محرم آیا اور اس نے مائی ماتا کی طرف بُری نگاہ ڈالی اور دست درازی کی کوشش کی ، آپ نے اپنی عصمت کے تحفظ کیلئے خدا کو پکارا، خدا کے حکم سے زمین شق ہوگئی اور آپ وہیں پر غائب ہو گئیں، اسی جگہ مائی ماتا کی قبر بنائی گئی اور اوپر ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا گیا جو آج آپ کا مزار ہے، کہتے ہیں کہ جب آپ زمین میں غائب ہو ئیں تو آپ کے دوپٹے کا ایک پہلو باہر رہ گیا تھا۔ مائی ماتا کا اصل نام بھی پردہ اخفا میں ہے، البتہ ان کو کالی ماتا بھی کہا جاتا ہے، اس حوالے سے دو روایات ہیں ایک یہ کہ ان کا رنگ کالا تھا اس لیے انہیں کالی ماتا کہا جاتا تھا، دوسری روایت یہ کہ مقامی زبان میں چیچک کو کالی ماتا کہا جاتا ہے۔ اسی رعایت سے ان کا نام کالی ماتا بھی ہے۔ لیکن یہ بات مستند اور مسلم ہے کہ ان کا نام چیچک کے علاج کے حوالے سے اتنا پڑا کیونکہ مقامی زبان میں "ماتا جسم پر نکلے دانوں کو کہا جاتا ہے۔ مزار کے ساتھ موجود سرائے کا ایک کمرہ اپنی خستگی کے باوجود قائم ہے۔ اس کا منقش دروازہ مزار کے گرد مختصری گیلری پر لگائے گئے لکڑی کے فریم پر نقش و نگار اور مزار کے دروازے کی محراب اپنے باطن میں صدیوں کے شب و روز کے حالات وواقعات کو سمیٹے ہوئے اپنے عہد کے اہل ہنر کی فنکارانہ صناعی کی عکاس ہے۔ ہر صاحب نظر اور صاحب ذوق اس مزار کے مٹتے آثار پر اشکبارہے۔ شاید اس مزار کا جرم، مندر کی ہمسائیگی اور اس کے مکین کا عورت ہوتا ہے کہ یہاں پر بھی میل شاؤنزم کے سفلی جذبات اپنا کام دکھا گئے ہیں۔ اگر یہ مزار کسی مرد بزرگ کا ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔
لیہ میں مائی ماتا کا یہ مندر اور اپنے ماضی کے حالات و واقعات کے حوالے سے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس شہر میں تصوف کی روایت نہایت تو انا رہی ہے اور یہاں کے لوگ دین دھرم کی تفریق سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کا احترام کرنے والے رہے ہیں۔

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com