رب کائنات نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا تو صرف ایک ذات تھی اس کی دلجوئی کے لیے پھر اماں حوا کو پیدا فرمایا ان کی پشت سے نسل آگے بڑھی۔ اب دنیا میں تعداد تقریبا ساڑھے سات ارب تک پہنچ چکی ہے۔ جوں جوں تعداد بڑھتی گئی شناخت کا مسئلہ پیدا ہوتا گیا تو پھر خاندان قبائل اور قومیں وجود میں آئیں۔ دنیا میں ان گنت قبائل اور قومیں اپنی تاریخ رکھتی ہیں، ان میں کئی تو میں اور قبائل رو بہ زوال ہیں اور اپنی شناخت کھو چکی ہیں جبکہ کئی بام عروج پر ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ہم نے قبیلے تمہاری شناخت کے لیے بنائے مگر دانشوروں اور مصنفین نے لا پروائی سے کام لیتے ہوئے قوم قبیلہ اور پیشہ کا فرق محسوس نہیں کیا۔ سبھی کو قوم لکھ دیا جو کہ لاعلمی کی علامت ہے۔ پیشے تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر قبائل اور اقوام کی عمریں لمبی ہوتی ہیں۔قوم ایسی افرادی قوت جس کی زبان رسم و رواج اور خطہ زمین اپنا ہوا سے قوم کہتے ہیں۔ سندھی، پنجابی سرائیکی ، بلوچ ، پٹھان ایک قوم ہیں۔ ملت کے حوالے سے مسلمان، ہندو، عیسائی سکھ وغیرہ۔قبیلہ ابھی اقوم میں سے شناخت کے لیے مختلف ناموں کے ساتھ قبائل وجود میں آئے اکثر نام مادہ چیزوں کے نام پر رکھے گئے جیسے بھٹی ، بھٹہ، اعوان، کھوکھر، اسراء، گورمانی وغیرہ۔انسان جو بھی کام کرتا ہے وہی اس کا پیشہ ہے مثلاً کپڑے بنے والے کو جو لاہا، جو تا بنانے والے کو موچی، بال تراشنے والے کو نائی ،علاج کرنے والے کو ڈاکٹر ، پڑھانے والے کو استاد کہا جاتا ہے۔ ضلع لیہ میں ملک کے دوسرے اضلاع کی طرح بہت سے قبائل آباد ہیں، مگر اکثر قبائل کو قوم کا نام دیا جاتا ہے۔ جو کہ غلط ہے ایک تحقیق کے مطابق تین سو پندرہ قبائل کے لوگ آباد ہیں۔ دوسرے اضلاع سے آنے والے آباد کاروں نے قبائل کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ زیادہ تر قبائل کا تعلق بلوچ، جاٹ اور راجپوتوں سے ہے۔ ان سے آگے ان کی ذیلی شاخوں نے جنم دیا ہے۔ ضلع لیہ میں آباد قبائل کی تفصیل درج ذیل ہے:
آہیں یہ جائوں کی گوت ہے، ان میں مال مویشی پالنے کا شوق با تم موجود ہے، مگر اب مختلف کام کرتے نظر
آتے ہیں۔
اترا لیہ شہر کے گردو نواح میں آباد ہیں مگر تحصیل چوبارہ میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ زراعت اور کاروبار سے
وابستہ ہیں۔
اٹھوال سی اونٹ پالنے اور ان کا علاج معالجہ کرنے کی وجہ سے اٹھوال مشہور ہوئے ۔ زیادہ تحصیل چوبارہ میں آباد
ہیں۔
اجرا چندر بنسی پانڈوں کی اولاد کہلائے جاتے ہیں کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ تحصیل کروڑ اور چوبارہ میں آباد
ہیں۔
اچلانہ سیال خاندان کی اولاد ہے۔ لیہ کے گردو نواح میں آباد ہیں۔ زیادہ جمن شاہ کے تحصیل کے علاقے میں بستے ہیں۔ کاشت کاری کرتے ہیں۔ اعجاز احمد اچلانہ سیاسی سماجی شخصیت ہیں ۔ منظور احمد اچلانہ ان پڑھ ہونے کے باوجود اچھے شاعر تھے۔ ارائیں آریائی سے آرائیں کہلائے جو عرب میں آباد تھے نقل مکانی کر کے یہاں آئے کچھ انھیں آریا نسل سے منسوب کرتے ہیں۔ کاشتکاری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ محمد شفیع میونسپل کمیٹی کے چیئر مین رہ چکے
اروڑہ ہیں تجارت سے بھی وابستہ ہیں۔
ہندو سامراج انھیں شودر کہتا تھا۔ محنت مزدوری کرتے ہیں سکھ قوم سے ان کا تعلق جڑتا ہے۔ لیہ میں
بہت کم تعداد میں بستے ہیں۔
استرانہ: محمد خان سدوزئی کے دور میں شمالی مغربی سرحدی صوبہ اور افغانستان سے یہاں آکر آباد ہوئے ابھی تکپرانی روایت کے پابند ہیں۔ مولا داد خان استرانہ سیاسی سماجی شخصیت ہیں اور پیپلز پارٹی کے جیالا کے
طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
اسراء جائوں کی گوت اسراء سے تعلق رکھتے ہیں۔ اولکھوں کے دور میں لیہ میں آباد ہوئے اور حضرت علی راجن شاہ کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تحصیل کروڑ کے نشیب میں موضع اسراء موجود ہے۔
اسرا نہ یہ بھی جاٹوں کی ایک شاخ ہے۔ تھل کے قدیمی خاندانوں میں ایک ہے۔
اعوان ان کی دو شاخیں منظر عام پر ہیں۔
ا۔علوی اعوان
۲۔ ملک اعوان
لیہ میں بہت سے گھرانے آباد ہیں۔ اس قبیلے میں بہت ہی نام ور شخصیات نے جنم لیا۔ برکت اعوان ایک اپنا مقام و مرتبہ رکھتے تھے۔ صحافت سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر گل عباس اعوان مقامی اعوانوں میں سے ہیں۔ دانشور، ادیب، شاعر ہیں۔ اور لیہ میں گورنمنٹ کامرس کالج کے پرنسپل ہیں۔ اور ڈاکٹر مزمل وند حسین ملک میانوالی سے لیہ آباد ہوئے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے پرنسپل ہیں ، سیاسی سماجی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ شاعر ادیب دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
انصاری:
جب حضرت محمدملی یا تم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو میزبانی کا شرف حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو بخشا جو اس وقت کپڑا بنتے تھے۔ ان کی اولا د انصاری کہلاتی ہے۔ ابھی لیہ شہر میں
انصاری برادر کپڑا بننے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
انگڑا:
کاشتکاری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ تجارت میں سیاسی سماجی اور کاروباری شخصیت ملک کریم بخش اپنا
ایک مقام رکھتے ہیں۔ او جلہ مدتوں سے کاشتکاری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ جس کی وجہ سے جائوں کی گوت کے طور پر مشہور ہیں۔ حالانکہ یہ راج پوتوں کی اولاد ہیں لیہ شہر کے شمال قصبہ کو للہ حاجی شاہ میں کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ اوڈ براہمن انھیں شودر کہتا تھا۔ یہ بڑے محنتی اور جفاکش لوگ ہیں۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح محنت مشقت کرتی ہیں ۔ یہ شہر میں کافی تعداد میں آباد ہیں۔ بشیر احمد اووڈ ایک نام ور شخصیت تھے۔ سیاسی سماجی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اور ان جانوں کی شاخ ہے۔ بہادر ، ہندی ، اور اکھٹر پن کی وجہ سے اور امشہور ہیں۔ لیکن لیہ میں بہت ہی کم تعداد میں آباد ہیں۔
اولکھ:
جائوں کی گوت ہے۔ امرتسر کے علاقہ سے نقل مکانی کر کے لیہ آباد ہوئے۔ ایک موضع اولکھ بھی ہے جو کہ کروڑ کے نشیب اور تھل تک جاتا ہے۔ ملک احمد علی اولکھ نے کئی وزارتوں کے قلم دان سنبھالے
ہیں۔ نہایت ہی شریف النفس انسان ہیں۔
باجوہ:
بنیادی طور پر راج پوت ہیں۔ زیادہ تر کاشتکاری سے وابستہ ہیں ۔ منیر عاطف باجوہ صحافت میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ جن کا قبیلہ باجوہ ہی ہے۔ کئی روزنامے اور ہفتہ روزہ اخبار نکالتے ہیں۔
باگڑی:
ان کا تعلق راجپوتوں سے ہے۔ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ لیہ میں بہت ہی کم تعداد میں آباد ہیں۔
پالکی:
نواح میانوالی سے تھل کے علاقہ میں آباد ہوئے ، اتنی کم تعداد میں ہیں کہ راقم کی نظر سے اوجھل ہیں۔ ہی سندھ سے نقل مکانی کر کے لیہ میں آباد ہوئے۔ زیادہ تحصیل چوبارہ میں آباد ہیں۔ خاصے زمیندار ہیں۔ غلام عباس ہی بڑے معروف ہیں۔ ایم پی اے کے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا۔
بچر :
جائوں کی گوت ہے ، کاشتکاری اور ملازمت سے وابستہ ہیں۔
بریار:
راجپوت بھٹی کی ایک گوت کے طور پر ابھرے۔ بزدار یہ بلوچوں کے رند قبیلے سے ہیں۔ ان کا پیشہ بکریاں چرانا پالنا ہے۔ تونسہ شریف کے قریبی قصبہ بزار سے یہاں آباد ہوئے ۔ ضیاء اللہ خان بزدار اور پروفیسر شفقت بزدار اس قبیلے کی پہچان ہیں۔ اب تو سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بھی بن چکے ہیں۔ لیہ میں کافی تعداد میں آباد ہیں۔
بڑا نہ جائوں کی نسل ہے اور کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ برا بس رائے سے بصرہ وجود میں آیا، راجپوت گوت سے تعلق ہے پہلے بس رائے اور بعد میں بصرہ کہلانےلگے۔
جمھور:
قدیم تھل کی قوم ہے نور پور تجمھور کے بعد لیہ میں اس ذات سے منسوب کافی تعداد میں لوگ آباد ہیں۔ بودلہ اپنا شجرہ نسب حضرت عبدالرحمن بن حضرت ابو بکر سے ملاتے ہیں۔ خود کو قریشی خاندان ظاہر کرتے