لیہ : فوک لور، علاقائی کھیل اور دستکاریاں
تحریر: پروفیسر طاہر مسعود مهار صدر شعبہ سرائیکی کالج ہذا
فوک لور سینه به سینہ منتقل ہونے والی روایات ہیں جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جیسے رسم و رواج، لوک کہانیاں، موسموں کے گیت فصل کاٹنے کے گیت ، پیلھوں چنتی دو شیزاؤں کے بول، چرواہوں کے گیت لوریاں، مٹی کے برتن، لکڑی کی مصنوعات، چھا، دلوژن، صوفی شعراء کی شاعری، بزرگوں کے مزاروں پر تقریبات ، لوک تماشے، فصیل پر برتنوں کا سجانا، گھروں اور چھتوں کا لیپنا، کشیدہ کاری ، لوک دستکاریاں، خوشی کی تقریبات میں ناچنا ، بگڑ وسمی ، سہرے گانا، بزرگوں کی دعائیں (شالا جھوکاں ونیں ، شالا بڈھڑا تھیویں صحت دی بادشاہی ہووی وغیرہ سب ہماری لوک ریت کا حصہ ہیں جسے تہذیب و تمدن اور ثقافت کے محققین نے فوک لور کا نام دیا ہے۔ فوک لور کو سمجھنے کے لیے آب و ہوا، معاشی و معاشرتی حالات، جغرافیائی ماحول، بود و باش اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی معلومات ہیں۔ بعض ماہرین ثقافت اسے Verbal Art ، کچھ زندگی کا قرینہ اور بعض ماہرین اسے تو ہمات کہتے ہیں مگر زیادہ تر محققین اسے Orally Transmitted Literature and Art سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا ادب اور آرٹ ) کہتے ہیں۔
لیہ میں Folk Loric Traditions کا اجتماعی شعور موجود ہے کیونکہ فوک لور کا کوئی با قاعدہ نصاب نہیں ہے جسے پڑھا جائے بلکہ یہ تو خودرو بیل (لوط بوٹی) کی طرح لوگوں کے ماضی و حال سے چمٹا ہوا ہے۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے، وہ ہمارے وسیب کی روایات کا حصہ ہے اور یہی فوک لور ہے۔ جب تک لیہ کے لوگ زندہ ہیں، جب تک لیہ کا تھل بیٹ آباد ہے، تولیہ کا فوک اور بھی زندہ ہے۔ لیہ کے رسم و رواج بھی زندہ ہیں کیونکہ فوک اور بھی وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتا ہے۔
علاقائی کھیل:
کھیل ہماری ویبی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ کھیل ، تفریح، ورزش، ثبت معاشرتی رویوں اور صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مشکل حالات کو بہتر انداز سے سنوارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں کھیل نوجوانوں میں Sports Man Spirit پیدا کرتے ہیں۔ کھیلوں سے دماغ فرحت اور تازگی محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیلوں میں روٹیوں کے درمیان محنت مشقت کے ساتھ کھیل کو جیتنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے نیز اصولوں پر کار بند رہ کر عوامی تقاضوں کے ہم آہنگ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ جیتنے والے اپنے اعزاز کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ اور ہارنے والے اعزاز حاصل کرنے کی طلب میں سخت ریاضت سے گزرتے ہیں۔ یوں کھلاڑی کھیلوں کے ذریعے زندگی کے کٹھن اور صبر آزما مراحل کو آسانی کے ساتھ طے کرنے کے فن سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کھیل انسان کو دنیا و مافیا کے جھمیلوں لغویات ، آزاد خیالی اور منفی سرگرمیوں سے بچا کر اعلیٰ قسم کی تفریح اور نوجوانوں میں ذوق و شوق پیدا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کھیل کسی بھی خطے کی ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو اس دور پرفتن میں کسی عبادت سے کم نہیں۔ لیہ کے علاقائی کھیلوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
کشتی (من):
لیہ میں فن کشتی کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ ماضی میں کوئی قصبہ ایسا نہیں جہاں اکھاڑہ نہ ہو۔ لیہ میں فن پہلوانی کے حوالے سے بہت سے پہلوان مشہور ہوئے۔ یہ پہلوان اکھاڑوں میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ، ڈنٹر پہیلتے ، ڈھیلے توڑتے ، کالی مارتے ، جسم پر سرسوں کے تیل کی مالش کرتے ، گھوٹا ملتے، ان اکھاڑوں میں لیہ کے پہلوانوں کی صحت دیدنی تھی۔ کشتی کے ماہرین نے فن پہلوانی کی تین دفیں بتائی ہیں۔ پہلی دف کوٹ“ کہلاتی ہے۔ دوسری ” کالو کی دف اور تیسری "نورا” کہلاتی ہے۔ پہلوانوں کو سکھائے جانے والے داؤ پیچ کی تعداد تین سو ساٹھ ہے اور ان کے تین سو ساٹھ دفاعی تو ڑ ہیں۔ پہلوان دوران کشتی مختلف داؤ پیچ مثلاً پکڑ دھکا، جھاڑ ، دستی، دنبی رکھیں، باہر لی، اندر لی، لانگھڑی چھٹی ، ڈھاک، دھوبی پٹا، کمر پیچ، کچھان، کلا زنگ، پھر نیاں ، لپیٹ قیچی ، پچھاڑ وغیرہ کے ذریعے اپنے حریف کو مات دیتے ہیں۔
کبڈی:
لیہ کا معروف کھیل ہے۔ لیہ کے میلوں ٹھیلوں ، بیساکھی اور دوسرے تہواروں پر یہ کھیل شوق سے کھیلاجاتا ہے۔ لیہ کے بہت سے زور آور کھلاڑیوں نے اس کھیل میں نام پیدا کیا۔ کریم بخش ڈلو، اقبال ڈلو ، مشتاق دار، بہادر خان، ریاض کھرل، فیاض کھرل، اقبال گجر، نکا مکانی وغیرہ اس کھیل کے نامور کھلاڑی ہیں۔ اس کھیل میں حملہ،آور کو ساہی یا مارو کہا جاتا ہے جبکہ دفاعی کھلاڑی کو ڈا کی یا جا بھی کہا جاتا ہے
دودا:
یہ سرائیکی وسیب کے جوانوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اس میں پھرتی ، طاقت اور ذہانت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ دودے میں کھلاڑیوں کے جوڑے بنائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کھلاڑی آگے کو بھاگتا ہے اور دو اس کے پیچھے اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران آگے والا کھلاڑی دونوں کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کے سینے پر ہاتھ کا تلو الگا کر تیزی سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ وہ کھلاڑی اسے پکڑ نہ سکے۔ اگر وہ بیچ کر نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو جیت جاتا ہے۔ اگر پکڑا جائے تو اس صورت میں وہ ہار جاتا ہے۔
وینی پا کسنی:
یہ جوانوں کی زور آزمائی اور داؤ بیچ کا کھیل ہے۔ ایک کھلاڑی کسی جگہ پر کھڑا ہو جاتا ہے یا بیٹھ جاتا ہے۔ دوسرا کھلاڑی بھی اس کے مقابل بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر اپنی پوری طاقت سے پہلے کھلاڑی کی کلائی کو پکڑنا ہے۔ جس کی کلائی پکڑی گئی ہو وہ اپنے دائیں ہاتھ سے اس پکڑنے والے کی پکڑ کو کمزور کر کے اپنا بازو چھڑوالیتاہے۔ اگر وہ اپنا بازو چھڑ والے تو وہ جیت جاتا ہے اور اگر نہ چھڑوا سکے تو ہار جاتا ہے۔
وہ چاوان:
یہ کھیل بھی طاقت کا مظاہرے والا کھیل ہے۔ اس میں طاقت ور جو ان حصہ لیتے ہیں۔ یہ کھیل میلے، اور وسانی جیسے تہواروں پر کھیلا جاتا ہے۔ اس میں کسی وزنی پتھر کو اُٹھا کر مخصوص مقام پر لے جایا جاتا ہے۔ بعض اوقات وزنی لکڑی کی لٹھ اور وزنی بوری کو بھی اٹھانے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
آلیاں بھنوالیاں :
سرائیکی وسیب کا قدیم علاقائی کھیل ہے۔ اس کھیل میں دو کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑتے ہیں۔ ایک کا دایاں ہاتھ دوسرے کے بائیں ہاتھ میں اور بایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے گھومتے ہیں۔ اس قدر تیز گھومنے سے چکر آنے لگتے ہیں اور جب زیادہ سرچکرانے لگے تو کھیل بندہو جاتا ہے۔ کھلاڑی جب گھوم رہے ہوتے ہیں اس کھیل میں کھلاڑیوں کا خاص طریقے سے انتخاب ہوتا ہے۔ آخری کھلاڑی چور بنتا ہے اور اسے میٹی (باری) دینی پڑتی ہے۔ میٹی دینے والا آنکھوں پر پٹی باند ھے اس وقت تک میدان میں کھڑا رہتا ہے جب تک سب کھلاڑی چھپ نہ جائیں۔ چھپنے والے کھلاڑیوں میں سے ایک ٹیلوں کی آواز نکالتا ہے اور میٹی دینے والا کھلاڑی آنکھوں سے پٹی اتار کر چھپنے والے کھلاڑیوں کو ڈھونڈنے لگتا ہے۔ جو کھلاڑی پکڑا جاتا ہے پھر وہ میٹی دیتا ہے۔ اس طرح میدان میں ٹیلوئیلو کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور کھیل اس طرح جاری رہتا ہے۔ 8 ماما جمال خان یہ بچوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اس میں بچوں کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔ بچے دائرے میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اور گھومتے رہتے ہیں۔ ایک بچہ بلند آواز میں کہتا ہے ماما جمال خان جبکہ کھیل میں شریک دوسرے بچے جوابا کہتے ہیں جی بھیجا لال خان ۔۔۔ اور دائرے میں گھومتے ہوئے یہ بول بولتے
ہیں:
ماما جمال خان
جی بھنجا لال خان
سیڈی گھوڑی آٹ کھاوے بات کھاوے
ست کنالیاں پانی ہوے
جھڑ کدی آوے
بھڑ کدی آوے
توتی نغارا
اور ساتھ ہی دو بچے دائرہ توڑ دیتے ہیں اور لنغ نغ نغ” کہتے ہوئے دوسرے بچوں کی بغل میں سے گزرتے ہوئے چلتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دو کھلاڑیوں کے سوا باقی بچوں کے ہاتھ سینے پر بندھ جاتے ہیں اور وہ بچے منہ گھٹنوں میں دے کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دو بڑے بچے ان کے سروں پر تھپڑ مارتے ہیں۔ جس بچے کو تھپڑ لگتا ہے، وہ تھپڑ مارنے والے کو پہچان لے تو ٹھیک ورنہ سب کھلاڑی اسے تھپڑ مارتے ہیں۔ اگر بچہ مارنے والے کو پہچان لے تو اسے معافی دی جاتی ہے اور جسے سزا دی جاتی ہے۔ اسے سزا کے وقت یہ بول کہے جاتے ہیں:
خدین
کال ہوئی جیڈ اٹھلا
خدین ایک بڑا دائرہ تقریبا ایک ضرب ایک کا ہوتا ہے۔ جس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے گڑھے (پل) ہوتے ہیں۔ یہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان پلوں میں کپڑے کی بنی ہوئی گوڑھی ( گیند) سما جاتی ہے۔ ایک کھلاڑی خدین سے تقریبا دس فٹ کے فاصلے سے گوڑھی کو خدین کی طرف پھینکتا ہے۔ باقی کھلاڑی اپنی اپنی پلوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ گوڑھی اگر خدین میں چلی جائے تو پھینکنے والا اس گوڑھی کو اٹھا کر دوسروں کو مارنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے اپنے پلوں پر کھڑے کھلاڑی بھاگ جاتے ہیں۔ کھلاڑی گوڑھی اٹھا کر بھاگتے کھلاڑیوں کو مارتا ہے۔ جس کو گوڑھی لگ جائے ، اسے گھوڑی بنا پڑتا ہے اور گوڑھی مارنے والا اس کی پشت پر سوار ہو جاتا ہے۔ پھر گھوڑی بنا کھلاڑی گوڑھی کو خدین کی طرف لڑھکاتا ہے۔ اگر گوڑھی خدین میں چلی جائے تو پہلے کی طرح کھلاڑی بھاگتے ہیں۔ اگر گوڑھی کسی اور کھلاڑی کے پل میں چلی جائے تو وہ گھوڑی بنے کھلاڑی پر سوار ہو جائے گا۔ اس طرح یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
کوکلا چھپک کو کلا چھپا کی:
یہ کھیل لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں مقبول ہے۔ اس کھیل کے سرائیکی وسیب میں مختلف نام ہیں۔ کر اڑ اوٹ ، گنگا، دال چنا، ڈھنگ لال چٹاں کو کلا چھپک، دال چٹے دی وغیرہ ۔۔۔ اس کھیل میں کھلاڑی سر جھکا کر دائرے کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں مگر اپنے دماغ کو حاضر رکھتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے ہاتھ میں بل دیا ہوا کپڑا ہوتا ہے جسے کر اڑ اوٹ کہا جاتا ہے۔ وہ کھلاڑیوں کے عقب میں دائرے میں گھومتے ہوئے کسی ایک کھلاڑی کے پیچھے کپڑا رکھ دیتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے: کو کلا چھپک جمعرات آئی اے
جیہڑا اگوں پچھوں ڈیکھے اوندی شامت آئی اے
بعض سرائیکی علاقوں میں یہ بول اس طرح بھی بولے جاتے ہیں:
دال منگیں دی
دال چنیں دی
یا یہ بول بھی ادا کیے جاتے ہیں:
ڈھگ لال چنڑاں
شو باز چڑاں
کھلاڑی اپنے پیچھے پڑا ہوا کپڑا دیکھتا ہے اور اسے اٹھا کر رکھنے والے کھلاڑی کو مارنا شروع کر دیتا ہے جب تک کہ وہ اس کی خالی جگہ پر بیٹھ نہ جائے ۔ اگر کھلاڑی اپنے پیچھے پڑا ہوا کپڑا نہ دیکھ سکے، اور کپڑا رکھنے والا کھلاڑی چکر لگا کر اسی جگہ پر آجائے اور کپڑا اٹھالے تو وہ اس کھلاڑی کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کے پیچھے کپڑا پڑا ہوتا ہے، مارکھانے والا کھلاڑی بھاگ کر چکر لگاتا ہے اور اپنی خالی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس دوران مارنے والا کھلاڑی اسے اس وقت تک مارتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی جگہ بیٹھ نہیں جاتا۔
کیکلی :
ک کلی کلیرن دی بعض یہ بول بھی بولتے ہیں:
نک میڈے ویران دی
ال کی کلی کلیر دی — پگ ویرے ویردی
یہ کھیل لڑکیاں خاص کر موسم بہار یا چاندنی راتوں میں کھیلتی ہیں۔ دو دولڑ کیاں ایک دوسرے کے ہاتھ
پکڑ کر اور پاؤں ملا کر گھومتی ہیں۔ یہ کھیل بھی آلیاں بھوالیاں جیسا ہے۔ صرف بولوں کا فرق ہے۔ اس میں ہار جیت نہیں ہوتی۔ اس کھیل کو چیکل مینگل ” پر گھساون بھی کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کھیل میں پنجوں کے
بل دائرے میں دوڑنا اور گھومنا ہوتا ہے۔ – شیدن / پھیکری مار اس کھیل کو پھیکری کے ذریعے کھیلا جاتا ہے۔ ویسے ہی جیسے اڈ کھڈ اور تیزاں کھیلے جاتے ہیں۔ پہلے خانے میں پھیکری ڈال کر ایک ٹانگ سے داخل ہو کر پاؤں سے اس بھیکری کو باہر دھکیلتے ہیں۔ نا نی میں پہنچ کر ایک ایک پاؤں نا نی میں رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ اس کے کسی خانے میں پھیکری نہ ہو۔ اگر پھیکری مقررہ خانے کے باہر دوسرے کسی خانے میں چلی جائے تو کھلاڑی کی باری ختم ہو جاتی ہے۔ دریا میں پہنچنے کے بعد جب سارے مراحل طے ہو جاتے ہیں تو کھلاڑی پھیکری کو سر کے اوپر سے پیچھے کی طرف پھینکتا ہے۔ جس خانے میں پھیکری کرتی ہے وہ اس کا ہو جاتا ہے۔ یوں یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے