شادی اور وفات کی رسومات اور متنوع اشیاء سے متعلق تو ہمات، باطل خیالات اور نظریات کے پس منظر اور ان کے وجود میں آنے کی حتمی تاریخ کا تعین آسان نہیں، لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی مشکل نہیں کہ یہ تھل اور اس سے جڑے علاقوں میں زمانہ قدیم سے ہی کسی نہ کسی صورت پائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے برصغیر بالخصوص پنجاب اپنے جغرافیائی خدو خال کے لحاظ سے ہمیشہ سے ہندو پاک میں تجارت یا قبضے کی غرض و غایت سے آنے والے لوگوں اور عوام کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس علاقے پر ہونے والی پہلی لشکر کشی اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غارت گری آریاؤں کے ہاتھ ہوئی جو نہ صرف یہاں کے اصل مکینوں کی ان کے آبائی علاقوں سے ہجرت کا باعث بنے بلکہ ایک طویل عرصے تک وادی سندھ کی زرخیزی سے متاثر ہو کر یہیں قیام پذیر ہو گئے ۔ یہی سرزمین تھی جہاں انھوں نے ابتدائی وید مرتب کیے اور اس طرح برصغیر میں ہندومت کی بنیاد پڑی جو یہاں کا قدیم ترین اور باقاعدہ غیر وہی مذہب قرار دیا جا سکتا ہے۔ان کے طویل عرصے تک قیام نے دریائے سندھ کے کناروں پر رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں ان کے اعتقادات اور نظریات کی ایسی گہری چھاپ لگا دی جو آج بھی بہت سے حوالوں سے اسی طرح قائم دائم ہے جیسے ازمنہ قدیم میں تھی ۔ دریائے سندھ اور چناب کی درمیانی پٹی پنجاب کے پانچ دو آبوں میں سب سے بڑے دو آئے سندھ ساگر کے تقریبا سارے جنوبی حصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ریگستانی پٹی میں بھی ہندو تہذیب و ثقافت کی تاریخ زمانہ قدیم سے لے کر پاک و ہند کی تقسیم تک طویل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قتل میں شادی بیاہ جمل د ولادت ، مرض، مرگ اور دیگر اہم مواقع پر ادا کی جانے والی رسومات میں ہندومت کا خاصا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں یہ اثرات اعتقادی معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے عہد زوال اور پاکستان کے قیام سے پیشتر کے دورانیے میں ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت اور معاشی کمزوری نے بھی ہندوؤں کی رسومات اپنائی جانے کی راہ ہموار کی ہے۔برصغیر میں آمد کے لحاظ سے مسلمان دوسری قوت تھے جو آریاؤں کے برعکس ابتدائی طور پر مکران اور
سندھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے اور جلد ہی ان کا اثر و رسوخ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے لے کر کوہستان نمک اور بعض روایات کے مطابق کشمیر تک پھیل گیا۔
محمد بن قاسم کی آمد کے وقت راجہ داہر کی سلطنت کی حدود شمال میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی شکست کے بعد مسلمانوں کا اثر و نفوذ بھی پہلے پہل انہی علاقوں تک پہنچا جورائے خاندان اور بعد ازاں بیچ اور داہر کی سلطنت میں شامل تھے۔ اس اعتبار سے ہندوؤں کے بعد جن لوگوں سے مقامی آبادی کا واسطہ پڑا وہ عرب تھے ۔ عرب مذہبی اعتبار سے اسلام کے علمبردار تھے اور ان کے اعتقادات اور معاملات میں اسلامی تعلیمات کا عمل دخل کم از کم ابتدائی دور میں خاصا گہرا تھا لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ان کے ہاں بعض ایسے خصائل اور عادات بھی موجود تھیں جو عہد جاہلیت سے ہی عرب معاشرے کا طرہ امتیاز تھیں ۔ مظاہر پرستی ، بتوں کی پوجا کا بہنوں کا اثر ورسوخ ، معاشرتی بے اعتدالیاں اور عصبیت سے جڑی خود نمائی اور خود پرستی قبل از اسلام کے معاشرے میں اپنے عروج پر تھیں۔ ان کی باقیات عربوں کی سرشت میں سرایت کر چکی تھیں اور اس اعتبار سے جہاں جہاں وہ گئے اپنے ساتھ ایسے اعتقادات اور خیالات بھی لے کر گئے جو دین و مذہب کی گرفت کی کمزوری کی صورت میں اجاگر ہو جاتے ہیں۔ تھل میں بسنے والے بھی انکی فکر کی منفی جہتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ اچھائیوں کے ساتھ ساتھ بعض کو تا ہیاں بھی معاشرے میں در آئیں ، اگر چہ دو اقوام کے باہمی اختلاط کی صورت میں ان معاملات کا وقوع پذیر ہونا کسی صورت تعجب خیز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تھل کے باشندوں میں ان معاشروں کی منفی اقدار کے اثرات کے علاوہ معیوب رسم و رواج کا ایک باعث مسلک سے انحراف اور خود ساختہ نظریات کی تقلید بھی ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے جہالت اور کی نہی کے نتیجے میں مذہب کی تعلیمات کے قطعی بر عکس معیوب اور نقصان پہنچانے والی رسوم کو مذہبی سمجھ یا قرار دے کر اختیار کر لیا ہے۔
چھونڑیں توڑنا :
کھارا گانا کے دوران دولہا جس گھڑے سے غسل کرتا ہے غسل کرنے کے بعد اس گھڑے کا سر پوش یا ڈھکن ، جسے مقامی زبان میں چھوڑیں کہتے ہیں، اوندھا کر کے ، کچھ پیسے نیچے رکھ کر کسی سخت جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ کپڑے اور جوتا پہنے کے بعد دولہا اسے اپنے پاؤں سے خوب زور لگا کر توڑتا ہے۔ برتن توڑنے کے اس عمل پر عزیز و اقربا خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور آئے ہوئے مہمان بھی خاصی داد دیتے ہیں۔
دولہا کے ہاتھ میں چھری : سہرا بندی کے بعد دولہا کے ہاتھ میں ایسی چھری دی جاتی ہے جو ایک خوبصورت سرخ رنگ کے کپڑے وغیرہ میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ سہرا بندی کے وقت سے لیکر شام تک دولہا لازمی طور پر اسے اپنے پاس رکھتا ہے۔ اب کہیں کہیں چھری کی جگہ آہنی عصا ہاتھ میں پکڑنے کا بھی رواج شروع ہو گیا ہے۔ چھری اور آہنی عصا ساتھ رکھنے کی غرض فقط ایک ہی بتائی جاتی ہے کہ ہاتھ میں چھری وغیرہ ہو تو جنات اور بھوت حملہ آور نہیں ہوتے ۔ علاوہ از میں اگر کوئی آدمی دو چار کلومیٹر دور کچا گوشت لیکر جارہا ہو تو گوشت میں لوہے کی کوئی چیز یا کوئلہ رکھتے ہیں تا کہ گوشت لے جانے والے کو بھوت اور جنات نہ چمٹ جائیں۔
دولہا اور دلہن پر پیسے، جو اور چاول نچھاور کرنے کی رسم :
شادی کے موقع پر ادا کی جانے والی رسومات میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ جب دلہن والدین کے گھر سے روانہ ہوتی ہے تو گھر کے دروازہ سے نکلنے کے دوران کوئی قریبی رشتہ دار عورت اس کے سر پر جو یا پیسے نچھاور
کرتی ہے۔
مٹھائی نچھاور کرنا:
بعض برادریوں میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ کھارا گانا کے بعد دولہا پر مٹھائی نچھاور کی جاتی ہے ، حالانکہ اس طرح کرنے سے مٹھائی مٹی میں مل کر ضائع ہو جاتی ہے۔ شادی میں شریک لوگوں کو اس نادرست طریقہ سے مٹھائی پیش کرنے کا یہ ایک نا روا طریقہ ہے۔علاوہ ازیں زلف کشائی کے موقع پر بھی مٹھائی کی ہوئی کی جاتی ہے۔ بعض مرتبہ خانقاہوں پر بھی نذرنیاز کی اشیاء خوردنی ایسے جاہلانہ رویے سے تقسیم کی جاتی ہیں۔
دولہا زنان خانہ میں :
دولہا اور بارات جب دلہن کے گھر پہنچتے ہیں تو دولہا ایک دو آدمیوں سمیت زنان خانہ میں چلا جاتا ہے۔ وہاں جتنی خواتین ہوتی ہیں وہ دولہا کو دیکھتی ہیں ۔ خوش دامن نے واجبی طور دولہا کو سونے کی انگوٹھی پیش کرنی ہوتی ہے۔ دولہا ہر تقریب میں اسے پہنا لازمی سمجھتا ہے۔ انگوٹھی گم ہونے یا فروخت کرنے کی صورت میں کچھ سسرالی داماد سے باز پرس بھی کرتے ہیں۔کچھ لوگ خواتین سے سلامی وصول کرتے ہیں اور انکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دولہا کے گھر میں جتنی عورتیں ہوتی ہیں خواہ محرمات ہوں یا غیر محرمات، نوجوان ہوں یا کنواریاں سب کے سر پر دولہا باری باری ہاتھ رکھتا ہے اور وہ کچھ نقدی پیش کرتی ہیں جس کی فہرست بنائی جاتی ہے اور یہ سلامی بھی نیوتا کی طرح قابل واپسی ہوتی ہے۔ عروسی لباس کی حفاظت : عروسی لباس کی بہت حفاظت کی جاتی ہے۔ خصوصا جلنے سے اسے ہر ممکن محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جلنے کی صورت میں بدشگون لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر دلہن کے لباس پر چھوٹی سی چنگاری بھی پڑ جائے تو پھر عمر بھر اس ولہن کا لباس آگ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ دلہن سے عداوت رکھنے والی عورتیں بعض اوقات چوری چھپ کر عروسی لباس جلانے کی کوشش کرتی ہیں تا کہ تازیست اس کا لباس آگ سے محفوظ نہ رہے۔ عروسی لباس اور اوری سوئی کے سامان میں سرخ رنگ کو ترجیح دی جاتی ہے اور سیاہ رنگ سے بدشگون لیا جاتا ہے۔ اگر بھول کر بھی دوری سوئی کی سو، ڈیڑھ سو اشیاء میں ایک چیز سیاہ رنگ کی آجائے تو اسے فورا الگ کر لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دلہن کے بناؤ سنگھار کے وقت ایسی عورت کو قریب نہیں آنے دیا جاتا جو بیوہ ہو چکی ہو یا بانجھ ۔ اس کام کے لیے خوشحال عورت کا تعین نیک فال اور بد حال خاتون کا قریب آنا بدشگون سمجھا جاتا ہے۔
رونمائی اور دلہن کے محاسن و نقائص بیان کرنا: شب زفاف کے بعد رونمائی کی تقبیح رسم ادا ہوتی ہے۔ دلہن پلنگ یا چار پائی پر کپڑا اوڑھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ دولہا اور دلہن کے سب رشتہ دار محارم اور غیر محارم عورتیں ، مرد اپنے یا پرائے سب کے سب باری باری دلہن کا چہرہ دیکھتے ہیں اور دلہن کو کچھ نقدی دیتے ہیں۔ اسے منہ دکھاوی کہتے ہیں۔ بعد ازاں دلہن اپنے رخ سےنقاب ہٹا لیتی ہے۔جو عورتیں دلہن کا چہرہ دیکھ کر واپس جاتی ہیں وہ اپنے خاوند سے دلہن کا حسن و جمال خوب بیان کرتی ہیں۔ اگر دلہن بدصورت ہو تو پھر اس کے عیب نقص و بد صورتی بیان کی جاتی ہے۔
وفات سے متعلق رسومات:
میت پر استعمال ہونے والی اشیاء سے پر ہیز کرنا: کچھ لوگ میت سے مس ہونے والی تمام اشیاء سے پر ہیز کرتے ہیں، انھیں ضائع کر دیتے ہیں اور ان سے بدشگون لیتے ہیں۔ میت کو جن برتنوں سے غسل دیا جاتا ہے انھیں بعد میں استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ توڑ دیتے ہیں۔ میت کے بدن سے میں ہونے والے صابن کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ میت کے جو کپڑے اتارے جاتے ہیں انھیں ایک گڑھے میں دفن کرنا شنید میں آیا ہے۔ میت کو جس جگہ غسل دیا جاتا ہے وہاں پر تین رات تک چراغ جلایا جاتا ہے۔ جس جگہ میت کو غسل دیا جاتا ہے وہاں پر اگر کوئی موٹی مکھی نظر آئے تو میت کی روح سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر میت کی آنکھیں کھلی رہیں؟ وفات کے بعد فوری طور پر جو کام کرنے کے ہوتے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ میت کی آنکھیں بند کی جائیں۔ اگر دیر بعد یہ عمل کیا جائے تو جیسے دیگر اعضاء کا درست مقامات پر رکھنا دشوار ہوتا ہے مثلاً منہ کا بند کرنا ایسے ہی کھلی آنکھوں کو بند کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ حقیقت امر کے برعکس میت کی آنکھیں بند نہ کرنے والے اپنی کوتاہی پر یہ کہہ کر پردہ ڈالتے ہیں کہ چونکہ وفات کے وقت میت کا بیٹا یا باپ وغیرہ سفر میں تھے اس لیے ان کے انتظار میں میت کی آنکھیں کھلی رہیں۔
اوچھاڑ:
میت کو کفن مستون پہنانے کے بعد رشتہ دار اور دوست احباب میت پر اس کے قد کے برابر یکے بعد دیگرے قیمتی لنگی یا سفید کپڑا اور اگر میت عورت کی ہو تو پھر رنگین کپڑے ڈالنے شروع کر دیتے ہیں جنہیں مقامی زبان میں اوچھاڑ” کہتے ہیں۔ سات او چھاڑ تو میت پر ڈالنے روا سمجھتے جاتے ہیں جبکہ سات سے زائد کی صورت میں انھیں میت کے سرہانے رکھ دیا جاتا ہے۔ بعض احباب نقدی کی صورت میں بھی اوچھاڑ دیتے ہیں۔ نقدی کی صورت میں اوچھاڑ دینے کا رواج ختم قل خوانی کے بعد ہوتا ہے۔ اوچھاڑ دینے والوں کا نام و پتہ تفصیل کے ساتھ لکھلیا جاتا ہے تا کہ ان کے ہاں وقوع پذیر ہونے والے کسی ایسے موقع پر متوفی کے ورثا یہ قرض ادا کر سکیں۔ ہمارے یہاں (تھل میں) اوچھاڑ، نیو تہ اور سلامی کی طرح قرض کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کئی بار تنازع کی صورت میں اوچھاڑ دینے والے قبل از وقت اپنا قرض ( اوچھاڑ ) مانگ لیتے ہیں۔
میت کو دفن کر کے واپس آنے والوں کے آگے پانی کا دائرہ :
میت کے اہل خانہ جب میت دفنانے والی خالی چار پائی اور کھدائی کے آلات لے کر واپس آتے ہیں تو بعض صورتوں میں کوئی آدمی پانی کا لوٹا لیکر ان کے آگے نیم دائرہ کی شکل میں پانی گراتا ہے۔ سب آنے والے اسی دائرہ سے گزر کر میت کے گھر آتے ہیں۔بھاجی مقامی زبان میں سالن کو ”بھائی“ کہا جاتا ہے۔ بھاجی کا ایک مرادی معنی بھی ہے ۔ بعض براور یوں میں ختم قل خوانی کے بعد کاغذ قلم لیکر تعزیت کرنے والوں سے نقدی کی صورت میں نیوتا کی مثل وصولی کر کے لکھنے کا رواج بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ زیادہ رش ہونے کی صورت میں مختلف مقامات پر تین چار آدمی ” بھاجی وصول کرنے اور لکھنے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اس عمل کی یوں تحسین بھی شنید میں آتی ہے کہ قل خوانی پر جتنا خرچ ہوا ہے اتنا وصول بھی ہو گیا۔ گویا ان کے نزدیک یہ بچت والا کام ہے۔ جتنے لوگ پیسے دیکر جاتے ہیں ان کے نام ، ولدیت اور قوم اس لیے قلمبند کی جاتی ہیں کہ ان کے ہاں جب قل خوانی ہو تو یہ رقم واپس جا کر انھیں دی جائے۔ فوتیدگی اور شادی کے موقع پر جن لوگوں سے ایسا لین دین ہوتا ہے ان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے
بھاجی ، جانجی کے بھرا ہیں۔
پہلی عید سوگ میں گزارنا:
بعض مقامات پر رواج ہے کہ جس گھر میں فوتیدگی ہو جائے اس گھر والے آنے والی پہلی عید نہیں مناتے ۔ عید کے دن نیا یا صاف ستھرا اچھا لباس نہیں پہنتے ، نہ اچھا کھانا پکاتے ہیں اور نہ عورتیں زیب وزینت کرتی ہیں بلکہ مکمل گھر سوگ مناتا ہے۔نیز کچھ لوگ شعبان المعظم کو سوگ والا چاند کہتے ہیں ۔ اس ماہ سے قبل ہونے والی وفات کو خواہ چھ ماہ کیوں نہ گزر گئے ہوں، اس گھر میں جا کر پھر تعزیت کرتے ہیں۔
توہمات
عامتہ الناس میں ناخواندگی اور ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے مختلف اشیاء، ایام ، تاریخوں اور مہینوں سے بے بنیا داور نا درست فالیس اخذ کرنے ، بدشگونی مراد لینے اور وہم پرستی میں مبتلا ہونے کی ایک طویل فہرست ہے۔
کچھ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے: سفر پر روانہ ہونے والے آدمی کو پیچھے سے آواز دینا اور بلا نانا کامی کی فال سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی کے روانہ ہونے کے بعد گھر والوں کو اس سے متعلقہ کوئی اہم کام یاد آ جائے تو حتی المقدور اسے بلانے سے گریز کرتے ہیں اور ان کے بلانے پر روانہ ہونے والا بھی ناراض ہوتا ہے کہ مجھے پیچھے سے کیوں بلایا ہے۔ جس کام کے لیے میں جارہا تھا ، اب نہیں ہوگا۔ کسی کام کے لیے روانہ ہونے کے بعد راستہ میں جو شخص مل جائے ، کام کا انجام اس آدمی پر تھوپ دیتے ہیں۔ اگر کام نہ ہو تو اس شخص کو خوست (عقرب) کہتے ہیں اور رکاوٹ اس کے ذمہ لگاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو کچھ آدمیوں کو محلہ والے نامزد کر دیتے ہیں کہ فلاں فلاں آدمی سے اگر ملاقات ہو جائے تو کسی صورت میں بھی کامیابی نہیں ہوتی خواہ وہ بیچارے کتنے ہی نمازی ، پرہیز گار اور راست باز ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کام پر جانے والا اپنے کرتوت پر نظر نہیں رکھتا۔ روانہ ہونے والے آدمی کی حجام سے ملاقات ہو جائے تو بد شگونی سمجھتے ہیں۔ جھنگ کے بعض علاقوں میں رہائش پذیر لوگ علی اصبح کمہار سے ملاقات ہونے پر ناکامی کا شگون لیتے ہیں۔اگر کسی گھر میں مسلسل حادثات اور نقصانات واقع ہوں تو کہتے ہیں فلاں بھائی کی جب سے شادی ہوئی ہے اور اس کی بیوی نے ہمارے صحن میں قدم رکھا ہے نقصانات ہی نقصانات ہورہے ہیں۔ یہی نحوست ہے اور کوئی وجہ نہیں۔ اگر کسی بچہ کی ولادت کے قریب اسکی ماں یا باپ فوت ہو جائے تو اس بچہ کو ٹھوست سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر نو جوان میاں بیوی میں سے ایک فوت ہو جائے تو زندہ کو کوست اور بدبخت کہتے ہیں۔ زیادہ تر دوسری بیوی یا دوسرے خاوند کی موت پر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کی پہلی بیوی بھی فوت ہو گئی اور دوسری شادی کی تو پھر دوسری بیوی بھی فوت ہو گئی ہے لہذا فلاں آدمی منحوس ہے اور دو بار بیوہ ہونے والی خاتون کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ دو کا نمدار علی الصبح پہلے گاہک کو ادھار پر سودا د ینا بد فالی رکھتے ہیں کہ اگر پہلا گا ہک ادھار پر سودا لے گیا تو سارا دن یہی حشر ہوگا۔ نیز اگر پہلا گا ہک خالی چلا جائے تو پھر بھی یہی بدشگون لیتے ہیں کہ آج سارا دن کا یک خالی جائیں گے۔ اس لیے بعض دفعہ علی اصبح مناسب ریٹ پر اشیا مل جاتی ہیں۔ کسی اہم کام کا قبل از وقت نتیجه معلوم کرنے کے لیے سانس روک کر زم زمین پر بلا شمار مسلسل لکیریں کھینچی جاتی ہیں۔ پھر تین تین لکیروں کو کاٹا جاتا ہے۔ آخر پر اگر لکیریں نہ بھلیں تو کام کا انجام بکھیر نہ ہونے کی فال لی جاتی ہے۔ اگر ایک، دو لکیریں بچ جائیں تو پھر کام بغیر ہونے کا شگون لیا جاتا ہے۔ صبح سویرے اگر کسی انسان سے یکے بعد دیگرے کچھ نقصان ہو جائے تو پھر سارا دن نقصان میں گزرنے کی فال لی جاتی ہے۔
مریض کی دوائی اگر گر کر ضائع ہو جائے تو جلد شفایابی کی امید کی جاتی ہے۔ دوران سفر برلب سڑک خانقاہ کے گلہ میں نذرانہ نہ ڈالنے سے حادثہ یا کوئی نقصان در پیش آنے کی بد فال لی جاتی ہے۔ مغرب کے وقت ایک گھر والے دوسرے گھر میں نمک دینا اچھا نہیں سمجھتے۔ نیز فروختہ جانور شام کے وقت خریدار کو سپرد کرنا بخت روانہ کرنا گمان کیا جاتا ہے۔۱۲ اگر کسی آدمی کو کوئی کام راس نہ آئے اور کوشش بسیار کے باوجود بھی ناکامی ہو تو پھر اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوتے ہیں کہ ابھی تک میری خوش قسمتی کا ستارہ گرداب اور بھنور میں ہے، جب تک وہاں سے نہیں نکلے گا اس وقت تک نا کامی میرے ساتھ رہے گی۔۱۳ اگر شاہراہ پر ایک ہی جگہ مسلسل حادثات واقع ہوں تو اس جگہ سے متعلق مختلف انواع کے تو ہمات جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: یہ جگہ بھاری ہے۔ب۔ زیر سڑک کسی بزرگ کا مزار ہے۔ ج – یہ جگہ منحوس ہے ۔۱۳ اگر کسی شخص کے جانوروں میں مرگ واقع ہو جائے اور ایک ہی قسم کے جانور مسلسل مرنے لگیں تو کہا جاتا ہے فلاں قسم کے جانور مثلا بکریاں یا بھینسیں ہمارے ہاں زندہ نہیں رہتیں۔ اس خاص قسم کے جانورہمیں راس نہیں آتے ۔ کے عدد کو بہت نا موافق اور نحس سمجھا جاتا ہے۔ مقامی زبان میں تین کو کڑی“ کہتے ہیں۔ اگر کسی کام میں تیسرا چاند نظر آنے والا ہو تو چاند کے نظر آنے سے قبل کام کا اختتام کر دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر دیہات میں چہلم کے سلسلہ میں اگر ایک مہینہ میں مرگ واقع ہو جائے تو دوسرے مہینہ کی آخری تاریخوں میں چہلم کی تقریب منعقد کر دی جاتی ہے خواہ دن مکمل نہ ہوں۔ منع کرنے پر کہا جاتا ہے ترائے چن چنگے نہیں ہوندے تین چاند (مہینے ) اچھے نہیں ہوتے۔ باپ کی زندگی میں اگر بیٹا اسکی دستار سر پر باندھے تو باپ کی قبیل از وقت وفات کا شگون لیا جاتا ہے۔ اس لیے عورتیں بیوہ ہونے کے خوف سے بیٹے کو خاوند کی دستار نہیں باندھنے دیتیں ، جبکہ دیگر لباس اور جو تا استعمال کرنے سے شگون نہیں لیا جاتا۔ ۱۷ فوتیدگی والے گھر سے تعزیت کر کے واپس آنے والے کسی خوشی والے گھر میں مبارک باد دینے کے لیے آئیں تو انتہائی بدشگون خیال کیا جاتا ہے۔
ماه صفر محرم : ماہ صفر اور محرم سے متعلق لوگوں کے ہاں بے پناہ تو ہمات الفوخیالات اور بدشگونیاں پائی جاتی ہیں۔ ماہ صفر کو بہت بھاری مصائب اترنے اور فتنے برپا ہونے کا مہینہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس ماہ میں شادی بیاہ، نیا کام کرنا اور سفر پر جانا راس نہیں آتا۔ ان تو ہمات پر اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ماہ صفر میں کسی شادی یا اسی نوعیت کی تقریب میں حادثہ پیش آجائے تو کہتے ہیں ماہ صفر کی وجہ سے فلاں حادثہ پیش آیا ہے۔ اگر کسی اور مہینہ میں تقریب کرتے تو اتنا خسارہ اور نقصان نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ ماہ صفر میں تقریب سعید کے موقع پر اگر مرگ واقع ہو جائے تو وفات کا اصل موجب ماہ صفر کو سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں تھل کی حدود کی باہری ایک مثال دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی۔ ہندوستان کے ایک محلہ شیش گراں میں صفر کی ۱۳ تاریخ کو علی الصبح مٹی کے تمام برتن اس وہم سے توڑ دیے جاتے ہیں کہ ان میں بلائیں اترتی ہیں۔ برتنوں کو توڑ پھوڑ کر بلائیں ٹالی جاتی ہیں۔ نیز کچھ لوگ صفر کے پہلے ۱۳ دنوں کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور کچھ فقط ۱۳ تاریخ کو تیرہ تیزی سمجھتے ہیں۔ جن کے نزدیک مکمل ۳ دن تیرہ تیزی کے ہیں انکے ہاں تصور ہے کہ صفر کے پہلے ۱۳ دنوں میں برتن احتیاط سے رکھنے اور اٹھانے چاہئیں اگر ایک بھی ٹوٹ گیا تو تیرہ ٹوٹ جائیں گے۔ محرم الحرام سے متعلق صفر سے بھی زائد خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ ماہ محرم کے پہلے عشرہ میں نئے مکانات تعمیر کرنا، بوسیدہ مکانوں کی لپائی کرنا اور نیا لباس زیب تن کرنا روا نہیں سمجھا جاتا۔
ساتوں روز :
ہر علاقہ میں ہفتہ کے کسی نہ کسی دن کو منحوس ، بھاری اور نا کامی کا دن خیال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بدھ کے
دن کو بھاری گمان کرتے ہیں اور اس دن کام پر جانا یا نیا کام کرنا اچھا نہیں سمجھتے۔ اتوار سے متعلق کہاوت ہے ۔ ” آڈت وار نہ ٹہیں پار۔۔۔ متاں جیتیں ہار یعنی اتوار کے دن بطرف مغرب ( کچھی والے لوگ سندھ دریا کے پار ) نہ جائیں ورنہ شکست ہوگی۔ جھنگ میں کہاوت ہے سنوار نہ شپ پار یعنی سوموار کے دن دریا (چناب) کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ غرضیکہ ہفتہ کے ساتوں دنوں سے متعلق ہر علاقہ میں ملتے جلتے احمقانہ وہم و خیال پائے جاتے ہیں۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے