لیہ کی ثقافت

سرائیکی وسیب کا نا چھ کلچر یالوک اسمبلیاں (لیہ شہر کے تناظر میں)

پروفیسر نواز صدیقی

جبس اگر حد سے بڑھ جائے تو لوگ لو چلنے کی دعامانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کبھی سرخ آندھی کا تحفہ ملتا ہے تو کبھی کالی آندھی چلتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا موسم گرما اکثر آندھیوں کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ جسٹس کیانی مرحوم کا فرمان ہے کہ جنوبی پنجاب میں صرف ایک آندھی آتی ہے، جو مسلسل پانچ ماہ چلتی رہتی ہے۔ ہر کس و ناقص گردو غبار کی چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کیے پڑا رہتا ہے۔ یہی حال یہاں کے سیاسی موسم کا بھی ہے صدیوں کی غلامی اور پھر غلامی نما آزادی نے سیاسی آندھیوں کا روپ دھار لیا ہے۔ اکثر اوقات لوگوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ” کالا باغ بھی دیکھنے کی نوبت آجاتی ہے۔ غلامی کی طویل اور تاریک رات کے بعد جب شب گزیدہ سحر کا چہرہ دکھائی دے تو احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آتا ہے:
رات جل اٹھتی ہے جب شدت ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں
ان نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جنوبی پنجاب کے باسیوں نے ہماچہ کلچر ایجاد کر لیا ہے، جہاں روز بروز وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے اور سیاسی بھنورے سے نجات کی تدابیر بھی زیر بحث آتی ہیں۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا انداز بھی نرالا ہے، وہ ایک طرف تو حکومتی جبر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور دوسری طرف لفافہ کھر نے اس کے مزاج کو محبوبہ کا مزاج بناڈالا ہے۔ زرد صحافت کے زہریلے اثرات کا مقابلہ بھی ہماچہ کچھر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ملک کے نامور لکھاری جب الفافہ کلچر کا شکار ہو کر عوام شمن قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے لگتے ہیں تو غربت گزیدہ اور گمنام دانشور ہما چوں پر لوگ اسمبلیاں سجا لیتے ہیں۔ یوں زرد صحافت اور قلم کی دہشت گردی کو شکست دینے کا سامان کیا جاتا ہے۔ تمام مخمصوں کا حل تلاش کرنا اور حالات کی یچیدہ گتھیاں سلجھانا لوک اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے۔ تمام سرائیکی وسیب میں ہماچوں کی ایک البیلی دنیا آباد ہے۔ میں نے اس کو لوک اسمبلی کا نام دیا ہے۔ ہما چوں پر لوگ اسمبلیوں کا اجلاس ہر شب بلا ناغہ ہوتا ہے۔ ان لوک اسمبلیوں کے ممبران کا شمار قاتلان شب میں ہوتا ہے۔ دن بھر مشقت کرنا اور رات بھر قومی مسائل پر غور وفکر کرنا قاتلان شب کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان لوک اسمبلیوں نے مقتدر طبقات اور ان کے حاشیہ برادروں کو ہمیشہ شکست فاش دی ہے، اور نئی تاریخ رقم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جدید سروے یا انداز عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں ۔ لوگ اسمبلیاں رائے عامہ کو جس انداز سے متاثر کرتی ہیں ان کا جائزہ لیتا سر دے ٹیموں کے بس میں نہیں ہیں۔ یہ لوگ تو سماج کے سمندر کی صرف بالائی سطح کو دیکھتے رہتے ہیں اس کی گہرائی میں کبھی غوطہ زن نہیں ہوتے :
درون خانہ ہیں ہنگامے کیا کیا
چراغ راہ گزر کو کیا خبر ہے
جب کہ ہماچوں پر بیٹھے ہوئے خاک نشین اور کم ما یا لوگ ہی عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کو گن سکتے ہیں اور وہی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہماچہ در اصل فارسی زبان کا لفظ ہے ، جو ہمہ چہ کی بگڑی ہوئی یا عوامی شکل ہے ۔ اس کے لغوی معنی بنتے ہیں کہ تمام تشریف لائیں تو کیا۔ گویا ایک ہماچہ ماں کی محبت بھری گود کی طرح ہر ایک کے لیے کشادہ ہے۔ ایک ہماچے پر دس بارہ آدمی آسانی سے نشست جما سکتے ہیں بعض اوقات تو ہماچوں کا گرد بھی دریافت کر لیا جاتا ہے۔ اس ہماچے پر تیں بنتیں آدمی کچہری کر سکتے ہیں ہیں۔ کالام میں دریائے سوات کے اندر ہماچے لنگر انداز ہوتے ہیں۔ دریا کا خنک پانی اچھل کود میں مصروف رہتا ہے اور ہماچہ نشینوں کے پاؤں چھوتا ہوا گزر جاتا ہے۔ جیسے خراج عقیدت پیش کر رہا ہو۔ یہ منظر بہت دلفریب ہوتا ہے ۔ بہاولپور میں رفیق ڈورے کا ہماچہ کافی مقبول رہا ہے۔ اسی زمانے میں وہ بہاولپور سے سنگ میل شائع کیا کرتا تھا۔ اسی طرح سیٹھ عبدالرحمن اور علامہ ارشد بھی ہما چ نشین تھے۔ ان کے ہما چوں سے صوبہ بہاولپور کی بھر پور تحریک چلی۔ ڈیرہ غازی خان میں سرائیکی ہوٹل کے ہماچے سرائیکی تاریخ کا مرکز تھے۔ ڈاکٹرنعیم اس لوگ اسمبلی کا کرتا دھرتا تھا۔ شاہین سرائیکی بھی وہاں حاضری دیا کرتا تھا، آج کل اس کی رونق ماند پڑ گئی ہے۔ میں نے اس مضمون میں ہماچہ کلچر کی مربوط تاریخ تومرتب نہیں کی ، البتہ اپنے سروے کے لیے لیہ شہر کو نمونے کے طور پر منتخب کیا ہے۔ کم و بیش اسی قسم کا ماحول سرائیکی وسیب کے ہر شہر اور قصبے میں موجود ہے اور سرائیکی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ مضمون کا آغاز سبز منڈی کے حماچوں سے کیا چاہتا ہوں، جو دن کی معاشی سرگرمیوں کے اختام پر شام پڑتے ہی آباد ہو جاتے ہیں اور رات بھیگنے تک آبادرہتے ہیں تھوڑے سے تصرف کے ساتھ میر کے شعر کو حرف آغاز بناتے ہوئے ابتدا کرتا ہوں: کیوں نہ عاشق کو مفتم جانوں
منڈی والوں میں ایک بچہ ہے یہ اللہ اللہ کیا زمانہ تھا اور کیسے نادر لوگ تھے۔ میر مانا کلاسرہ اور استاد خادم عباس کی جوڑی زندہ و سلامت تھی اور بہار زیست اپنے عروج پر، لالا اسحاق بھی خوب انسان تھے۔ اپنی ذات میں بہ ظاہر دیوانے مگر باطن فراز نے دیکھنے میں بے خبر گردو پیش سے مکمل طور پر باخبر ان کے اندر خدا معلوم کون سا آتش کدہ دھکتا تھا۔ سخت جاڑے میں بھی برقی پنکھے کے نیچے آپنی چٹان کی طرح سینہ تان کر براجمان رہتے تھے۔ ان کے بیٹھنے کا انداز گوتم بدھ سے مشابہ تھا۔ جوش میں آتے تو آہنی الماری سے خوفناک چھر انکال کر ہوا میں لہراتے اور خاموشی سے واپس رکھ دیتے ۔ ان کی واسکٹ کی لا تعداد جیبیں تھیں اور ہر جیب میں مختلف گولیاں پچھدکتی رہتی تھیں ۔ جو نہی کسی دوست نے تکلیف کی شکایت کی وہ جھٹ سے ایک گولی پیش فرما دیتے۔ نیند کی گولیاں ان کے نزدیک ہر بیماری کا مجرب علاج تھیں ۔ ان کا تجربہ کچھ غلط بھی نہیں تھا ذہنی پریشانیوں کے اس پر آشوب دور میں ہر شخص بے خوابی کا شکار ہے۔ آئے روز کے فوجی مارشل لاؤں نے لوگوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ذہنی دباؤ میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ لوگ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ لالا اسحاق معاشرے کی اس عمومی نفسیاتی الجھن سے بخوبی آشنا تھے۔ شاید وہ خود بھی بے خوابی اور اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ مارکیٹ اکانومی کے دور خلفشار میں لالا اسحاق کی واسکٹ دار الشفاء کا کام دیتی تھی۔ وہ گھر جانے سے پہلے ممتاز رسول خان کو ایک یا آدھی گولی تھما دیتے تھے اور اسے کنی کیا کرتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور آمریت میں Study Circle Progressive کو صابر ہوٹل سے رخت سفر
باندھنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایسے میں ہم خیال احباب نے سبز منڈی کا رخ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لالا اسحاق کی آڑھت خرد خانے میں تبدیل ہوگئی خلیل جبران لکھتے ہیں کہ :حکومت پاگل خانے تعمیر کرنے پر خطیر رقم کیوں خرچ کرتی ہے اس طرح تو دیوالیہ ہو جائے گی اسے صرف ایک خرد خانہ تعمیر کرنا چاہیے پھر اسے خرد مندوں کی جیل کا درجہ بھی دے دینا چاہیے ، تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔“
اس کے معنی یہ ہیں کہ سوچ سفر کے مسافروں کو پابند کر دیا جائے تو ہاتی لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ خلیل جبران کا خیال تھا کے تمام تر مزاحمت کے مہرے خردمند ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ آزادی کا تصور دیتے ہیں اور انقلاب کا راستہ بھی ہموار کرتے ہیں۔ ان باشعور لوگوں کو باعزت طور پر خرد خانے میں بند کر دیا جائے تو غلامی کا ساز آسانی سے اپنا سحر انگیز نغمہ غلامی سنا سکے گا۔ چنانچہ لالا اسحاق کی آڑھت پر شام ڈھلتے ہی ترقی پسند دانشوروں پی پی کے کارکنوں اور مارشل لاء کے ڈسے ہوئے سیاسی رہنماؤں کی محفل سجنے لگی۔ عام سیاسی کارکن سے لے کر سردار بہرام خان سیہڑا اور ملک نیاز احمد جکھرہ تک سب لوگ شریک ہونے لگے۔ ایک شب سردار بہرام خان کوئی سیاسی بیان لکھوا رہے تھے اور عنایت اللہ مہار ایڈوکیٹ کا تب بیان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ سردار صاحب کی روانی طبع کے سامنے دریا بھی سجدہ ریز ہونے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ ہر بات کو تفصیلاً بیان کرتے اور جزئیات تک کو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ بہت جلد کا غذات دم توڑ گئے ۔ لالہ اسحاق نے جوش میں آکر اپنا کھاتہ رجسٹر پیش کر دیا رفتہ رفتہ اس قیمتی کھاتہ رجسٹر کے تمام اوراق کھاتہ بہی کی جیب سے نکل کر رپورٹ کے پیٹ میں چلے گئے مگر لالہ اسحاق کی تیوری پر بل نہ آیا وہ حسب دستور سگریٹ کے کش لیتے رہے اورزیر لب مسکراتے رہے۔ بلیل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل استاد خادم عباس اور میر امان اللہ عرف مانا کی جوڑی واللہ قیامت تھی۔ سبز منڈی کے علاوہ شہر بھر میں اس جوڑی کی دھوم تھی۔ وہ خدائی خدمت گار کے نام سے مشہور تھے اگر چہ یہ اصطلاح عبد الغفار خان کے کارکنوں کے لیے مخصوص تھی ۔ تاہم اس بے مثال جوڑی نے اسے اپنا لیا اور ایسا اپنایا کہ مرتے دم تک خدائی خدمت گاروں کا روپ دھارے رکھا۔ دونوں دوست انجمن تاجران کے کرتا دھرتا تھے۔ بلکہ انجمن تاجران ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ ہماچہ شریف کی لوک اسمبلی میں جو کچھ ملے ہوتا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے خدائی خدمت گار حرکت میں آجاتے تھے، نیر اعظم کے طلوع ہونے تک ہر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ۔ کیا شہر اور دیہات یہ خبر سب کو لپیٹ میں لے لیتی ۔ خدائی خدمت گاروں کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ، جبکہ ہماچہ کی آن میں اضافہ ہو جا تا تھا۔ ایک زمانے میں سکو کلاتھ ہاؤس کے مالک جمیل خان صاحب انجمن تاجران کے صدر اور معروف سیاسی کارکن شمسی جنرل سیکریٹری تھے۔ خدا معلوم کیوں خدائی خدمت گاران سے ناراض ہو گئے ۔ معاملہ لوک اسمبلی تک جا پہنچا اور لوگ اسمبلی نے انجمن تاجران کو معزول کرنے کا فیصلہ دے دیا۔ خدائی خدمت گار حرکت میں آگئے۔ بھلا ان کے سامنے کس کی دال گلتی میتھیلی پر سرسوں جمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ انھوں نے ایک ہی وار میں انجمن تاجران کے عہدے داروں کو ڈھیر کر دیا۔ میاں الہی بخش سرائی کے تھا۔ درویش خانے سے محمد عثمان خان کو پکڑ کر میدان میں کھڑا کر دیا گیا۔ وہ انجمن تاجران لیہ کے صدر نامزد ہو گئے۔ کسی کی کیا مجال کے دم مار سکے ۔ خدائی خدمت گاروں کی نامزدگی کو چیلنج کرنا آسمان پر تھوکنے کے مترادف تھا۔ حلف برداری کی تقریب میں ضلعی انتظامیہ نے شرکت کی ۔ احباب نے مرغ پلاؤ اڑایا۔ یوں محمد عثمان خان گڑیانوی حلف یافتہ صدر بن گئے ۔ خدائی خدمت گاروں نے اسے خان اعظم کا خطاب عطا فر مایا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ تاحیات انجمن تاجران کے صدر بنے رہیں گے۔ اسی دور میں ضیاء الحق بھی تاحیات صدر پاکستان رہنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی کیونکہ حیات نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا وہ صدارتی اعزاز کے ساتھ ایک ہوائی حادثے میں جل کر دنیا سے رخصت ہوا اور خلق خدا نے سکھ کا سانس لیا۔ موت نے صدارت کی کرسی کو ایک غاصب سے نجات دلائی مگر خان اعظم سے جیتے جی کرسی صدارت نے بے وفائی کی۔ ایک رات لوک اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ جمہوریت کی آمد آمد ہے اس لیے انجمن تاجران کو بھی خان اعظم کے شکنجے سے آزاد ہونا چاہیے۔ خدمتگاروں نے پینترا بدلا اور One Shop, One Vote کا نعرہ بلند کیا۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول ہوا کہ انجمن تاجران کے دستور میں جوہری تبدیلی کرنا پڑی۔ انتخابات ہوئے اور تاجران کے حقیقی نمائندے سامنے آگئے، خدمت گار اچانک بادشاہ دیر سے بانی جمہوریت بن گئے :بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسےمحترم امان اللہ کل اسرا کے انتقال پر ملال کے بعد استاد خادم عباس بجھے بجھے سے رہنے لگے۔ ایسے میں راقم الحروف کو مونس ہجراں بننے کا اعزاز حاصل ہوا:بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائےاہل کرم دیکھتےہیں لیہ کی تاجر برادری کا فرض ہے کہ وہ خدائی خدمت گاروں کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتی رہے۔ جنوبی پنجاب میں بالعموم اور لیہ شہر میں بالخصوص ہمارے کلچر کی روایت بہت قدیم ہے۔ لیہ میں لالا افضل چا کی کا ہماچہ قدیم روایات کا امین شمار کیا جاتا ہے۔ موجودہ پر ہوٹل اور سابق ملک میڈیکل حال کے سامنے سڑک کے مغربی کنارے ایک چھپر تلے کئی ہماچے اپنا سینا فراخ کیسے عوام کے منتظر رہتے ہیں۔ اس ہماچے پر لیہ شہر کے عظیم سپوت سید نذرحسین MLA ، افضل ملک منظور حسین، شیخ عبدالعزیز، ملک منظور احمد خضر خان بزدار، ملک عبدالرحمن، غلام رسول جنجوعہ، ملک محمد بخش بھٹی، خادم عباس اور عوام کی کثیر تعداد براجمان رہتی۔ یہ سب لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ مگر ان کی روایت ہما چوں کے دل میں ابھی تک دھڑکن بن کر زندہ ہیں۔ اس قدیم ہماچے کے بعد ہماچہ کلچر چوک قصاباں منتقل ہو گیا۔ ایک عرصہ تک چوک قصاباں لیہ کی سیاسی وسماجی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ اس لیے چوک قصاباں کو لیہ کا ” موچی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ سید نذرحسین کے بعد چوک قصاباں کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ماند پڑتی چلی گئیں ۔ اگر چہ چوک قصاباں اب بھی نوجوان رات گئے تک سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن وہ جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا۔ جو قدیم روایات کی امین کہلا سکے۔جدید با چہ کلچر کا آغاز سبزی منڈی لیہ سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کلچر پورے شہر بلکہ ضلع لیہ کا روح رواں بن گیا۔ اس ہا چہ کھر سے مراد وہ سیاسی وسماجی کلچر ہے جو ہنما چوں کی گود میں پرورش پا کر عوامی مزاج اور عوامی امنگوں کی عکاسی کرتا ہے۔۔ پاکستان میں آزادی صحافت کا پہلا قاتل فیلڈ مارشل ایوب خان تھا۔ اس نے ترقی پسند اور معقولیت پرست صحافت کو سولی پر لٹکا دیا۔ پاکستان ٹائمز امروز اور لیل و نہار جیسے اخبارات کو سرکاری تحویل میں لے کر در باری راگ الاپنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج ان اخبارات کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔ آمریت کی کالی دیوی کی چوکھٹ پر صحافت کا یہ پہلا بلیدان تھا۔ اس کے بعد دائیں بازو کی رجعت پسند اخبارات کو قدم جمانے اور پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ اس کی تقلید میں زرد صحافت اور اضافہ کلچر نے جنم لیا۔ جس نے قلم کی دہشتگردی میں ڈھل کر نئے گل کھلائے۔اس قسم کے آسیب زدہ ماحول میں ہماچہ کلچر نے زرد صحافت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہر ہماچے پر کوئی نہ کوئی
با خمیر دانش در تجزیہ کاری کا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتا ہے۔ اس وقت یہ ہماچے لوگ اسمبلیوں کا کام دینے لگتے ہیں ۔ انھیں ہما چوں کی کوکھ سے جنم لینے والی مزاحمتی سوچیں وسیب کی رگ رگ میں سما جاتی ہیں اور پورے سماج کو باشعور بنا کر دم لیتی ہیں۔ استاد خادم عباس کے بعد اس کے بھائی سیٹھ عاشق حسین نے ہماچہ کلچر کو زندہ رکھا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی تحصیل لیہ کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ہماچہ کلچر کے امین بھی ہیں۔ جب سردار بہرام خان بینکنگ کونسل کے حج کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ تو ممتاز رسول خان ایڈوکیٹ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر بن گئے۔ دھوتی اور کرتے ہیں ملبوس شخص سرائیکی وسیب کا نمائندہ اور ہماچہ کلچر کا گرویدہ ثابت ہوا۔ سیاسی تجزیوں کے علاوہ گپ شپ کا ماحول بھی محفل کو زعفران زار بنانے لگا۔ محمود نظامی نے ان کی حمایت نوازی سے متاثر ہو کر انھیں ممتاز رسول خان ہماچے والا کے لقب سے نواز دیا۔ممتاز رسول خان نے شیخ کرم حسین مرحوم اور غلام سرور بودلہ کو ہر قسم کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ان کی کھری گفتگو اور حفظ مراتب سے پاک خوش بیانی پر کوئی قدغن نہ تھی۔شرفاء کو آڑے ہاتھوں لینے میں ان کی مہارت لاجواب تھی۔ بعض اوقات تو یہ دونوں حضرات نام نہاد شرفاء کی پگڑی اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ممتاز رسول خان ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ وہ تحصیل کروڑ اور یہ تحصیل کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ مختصر یہ کہ سبزی منڈی کے ہماچے سیاسی وسماجی سرگرمیوں کا مرکز بنتے چلے گئے۔ ممتاز رسول خان کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے سردار بہرام خان کی وفات کے بعد بینکنگ کونسل کا حج مقرر کر دیا اور پیپلز پارٹی کی صدارت ملک مجید بھٹہ کے حصہ میں آئی۔سیٹھ عاشق حسین نے سبز منڈی کے حماچوں کو آباد ر کھنے کے لیے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہمہ وقت کارکنوں کی خاطر مدارت کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ سردیوں میں آگ کا الاؤ جلا کر کیمپ فائر کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ یہ محفل رات بھیگنے تک گرم رہتی ہے۔ ہا چہ کلچر کے دوسرے ستون یار محمد پہلوان جو اکثر خاموش رہتے ہیں۔ روزانہ حاضر باش افراد میں ملک مجید بھٹہ، سید گزار حسین شاہ ، ملک عزیز آرائیں، تنویر انصاری، قاضی پنوں ، موسی رضا شاہ مرحوم ، یونس کھال ہنیر پراچہ منشی کریم بخش اور رانا امتیاز عرف کا ا وغیرہ معروف ہیں۔ ملک نیاز احمد جکھره روزانه تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر پی پی پی سے روگردانی کے بعد ان کی حاضری برائے نام رہ گئی۔ اسی طرح مہر فضل حسین سمرا کے شمولیت بھی لوٹا کریسی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ سبز منڈی کے یہ ہماچےجمہوریت پسند عوام دوست لوگوں کے لیے مخصوص ہیں ، تاہم محفل میں شمولیت کے لیے کوئی پابندی نہیں ۔ سبز منڈی کے علاوہ پرانا بلوچ اڈا کے گجر ہوٹل پر ہما چوں کی دنیا آباد ہے۔ جو ہر شام آباد ہو جاتی ہے اور رات دھی بیٹھک جمی ، کا سماں پیدا کرتی ہے ہماچوں کی اس بستی میں وقفے وقفے سے غلام سرور بودلہ کے بے ہنگم مگر فلک شگاف قہقہے سکوت شب کو توڑ کر اس کی بلندیوں تک جا پہنچتے ہیں اور پھر گنبد کی صدا کی طرح لالا امیر کے قہقہوں کی شکل میں واپس آتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ہماچہ بستی کہکشاں بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں یوسف حسین شاہ کی ڈانٹ سیٹی کی طرح گونجتی ہے۔ اور پھر خاموش پر اسرار سر گوشیوں سے بغل گیر ہو جاتی ہے۔اس ہوٹل کا ایک ہماچہ عمر فضل حسین سمراء کا قدیم مسکن ہے ۔ جہاں وہ براجمان ہو کر سازشوں کا جال بنتے رہتے تھے اور اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے بلکہ ایجاد کرنے میں مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کی سادگی میں پر کاری چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ وہ بدر ہاؤس میں پناہ گزین ہو گئے وہ گریزان کے لیے بن باعث ثابت ہوا ان کے کچھ وفادار ان کے ساتھ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ راقم الحروف سمیت بے شمار ہماچہ نشین مستقل ہیں جن میں پروفیسر میر اختر وہاب، پروفیسر الا امیر، غلام مصطفی جونی ایڈوکیٹ، عبدالرشید بودلہ ایڈوکیٹ ، خالد نواز صدیقی، میجر فرید اللہ مہر جلیل مقصود خان چانڈیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جب پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا اور اپنا شاندار پروگرام پیش کیا تو راقم الحروف اور میجر فرید اللہ ھو کہ کھا گئے اور سراب سے آس لگا بیٹھے مگر مہ فضل حسین سمرا گرگ باراں دیدہ تھے۔ انھوں نے اس پروگرام کو شاطرانہ چال قرار دے کر مسترد کر دیا۔ وہ ہوائی جہاز کے اغوا کو بھی ایک ڈرامہ قرار دیتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر آمر پہلے پہل سبز باغ دکھاتا ہے۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ رفتہ رفتہ ہماری بند آنکھیں کھلتی چلی گئیں اور میر فضل حسین سمرا کی کھلی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔ وہ جنرل صاحب کی مثالی حکومت کے گن گانے لگے اور اقتدار کے دریا میں اشنان کر کے پوتر کہلائے ۔ انھوں نے الیور کرام دیل کی طرح عرصہ دراز تک دماغ نچوڑا، جب الیکشن 2008ء میں قائد اعظم لیگ نے انھیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تو وہ نواز لیگ میں شامل ہو گئے ،مگر عوام نے اس عذر گناہ کو بدتر از گناہ سمجھ کر انھیں مسترد کر دیا۔ ہما چوں کو کسی کی حمایت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں ان کی آغوش تو ماں کی محبت بھری گود کی طرح سب کے لیے کھلی ہے۔ ان کا تقاضہ یہ ہے کہ بحث ومباحثہ جاری رہے، عوام کا اجتماعی شعور ہمیشہ گئی۔ اسی طرح مہر فضل حسین سمرا کے شمولیت بھی لوٹا کریسی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ سبز منڈی کے یہ ہماچےجمہوریت پسند عوام دوست لوگوں کے لیے مخصوص ہیں ، تاہم محفل میں شمولیت کے لیے کوئی پابندی نہیں ۔ سبز منڈی کے علاوہ پرانا بلوچ اڈا کے گجر ہوٹل پر ہما چوں کی دنیا آباد ہے۔ جو ہر شام آباد ہو جاتی ہے اور رات دھی بیٹھک جمی ، کا سماں پیدا کرتی ہے ہماچوں کی اس بستی میں وقفے وقفے سے غلام سرور بودلہ کے بے ہنگم مگر فلک شگاف قہقہے سکوت شب کو توڑ کر اس کی بلندیوں تک جا پہنچتے ہیں اور پھر گنبد کی صدا کی طرح لالا امیر کے قہقہوں کی شکل میں واپس آتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ہماچہ بستی کہکشاں بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں یوسف حسین شاہ کی ڈانٹ سیٹی کی طرح گونجتی ہے۔ اور پھر خاموش پر اسرار سر گوشیوں سے بغل گیر ہو جاتی ہے۔اس ہوٹل کا ایک ہماچہ عمر فضل حسین سمراء کا قدیم مسکن ہے ۔ جہاں وہ براجمان ہو کر سازشوں کا جال بنتے رہتے تھے اور اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے بلکہ ایجاد کرنے میں مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کی سادگی میں پر کاری چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ وہ بدر ہاؤس میں پناہ گزین ہو گئے وہ گریزان کے لیے بن باعث ثابت ہوا ان کے کچھ وفادار ان کے ساتھ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ راقم الحروف سمیت بے شمار ہماچہ نشین مستقل ہیں جن میں پروفیسر میر اختر وہاب، پروفیسر الا امیر، غلام مصطفی جونی ایڈوکیٹ، عبدالرشید بودلہ ایڈوکیٹ ، خالد نواز صدیقی، میجر فرید اللہ مہر جلیل مقصود خان چانڈیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جب پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا اور اپنا شاندار پروگرام پیش کیا تو راقم الحروف اور میجر فرید اللہ ھو کہ کھا گئے اور سراب سے آس لگا بیٹھے مگر مہ فضل حسین سمرا گرگ باراں دیدہ تھے۔ انھوں نے اس پروگرام کو شاطرانہ چال قرار دے کر مسترد کر دیا۔ وہ ہوائی جہاز کے اغوا کو بھی ایک ڈرامہ قرار دیتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر آمر پہلے پہل سبز باغ دکھاتا ہے۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ رفتہ رفتہ ہماری بند آنکھیں کھلتی چلی گئیں اور میر فضل حسین سمرا کی کھلی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔ وہ جنرل صاحب کی مثالی حکومت کے گن گانے لگے اور اقتدار کے دریا میں اشنان کر کے پوتر کہلائے ۔ انھوں نے الیور کرام دیل کی طرح عرصہ دراز تک دماغ نچوڑا، جب الیکشن 2008ء میں قائد اعظم لیگ نے انھیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تو وہ نواز لیگ میں شامل ہو گئے ،مگر عوام نے اس عذر گناہ کو بدتر از گناہ سمجھ کر انھیں مسترد کر دیا۔ ہما چوں کو کسی کی حمایت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں ان کی آغوش تو ماں کی محبت بھری گود کی طرح سب کے لیے کھلی ہے۔ ان کا تقاضہ یہ ہے کہ بحث ومباحثہ جاری رہے، عوام کا اجتماعی شعور ہمیشہ قابل اعتماد ہوتا ہے، دنیا ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور زمانہ بہترین استاد ہے کوئی آئے تو سہی ذوق تعلیم لے کرہم تو ہر وقت کشادہ ہیں دبستان کی طرح (خیال)ہما چوں کی اس سرسبز و شاداب وادی میں ایک ہما سرچہ کی روح رواں مقصود خان چانڈیہ ہے۔ تعلیم تو واجی ہے مگر تجربہ بہت وسیع ہے۔ موصوف ایک منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں بائیں بازو کی ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں۔ وہ سیاست کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر گوہر مقصود تلاش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ باتوں میں بلا کی کاٹ ہے، اکثر اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کر کے کر کے دم لیتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ میدان عمل میں اکثر نظریہ ضرورت کا شکار ہو جاتے ہیں اور دانشوری دھری کی دھری رہ جاتی ہے مولانا روم نے بجا فرمایا ہے کہ:

علم را برمن
زنی پیارےبود
علم را بر تن زنی مارےبود
اس ہما چہ بستی میں ایک ہماچے بانڈوں کے پرچی بازوں نے ڈیرہ جما رکھا ہے۔ وہ ہر وقت طالع آزمائی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ تمام لوگ پریشان حال ہیں زندگی کی بازی مات کھانے کے بعد بانڈ نگری میں
پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں:
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
انعام کے اعلان والی رات کو چاند رات کہتے ہیں، ان کی اپنی اصطلاحات ہیں اور اپنا فلسفہ۔ دار اصل پر بچی جو بھی قسمت آزمائی کا انوکھا مگر دل فریب جال ہے۔ اس میں خسارے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ سی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان طالب طالع آزماؤں اور مقدر کے سکندروں کی سرزمین ہے۔ راتوں رات ایک سرکاری ملازم ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن جاتا ہے۔ اور بڑے بڑے معتبر سیاست کا ر بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ یا پھر پس دیوار زنداں چلے جاتے ہیں۔ یہاں جدو جہد اور مزاحمت کرنے والوں کو بن باس نصیب ہوتا ہے یا پھر سولی چڑھا دیا جاتا ہے۔ آخر لوگ کب تک جدو جہد اور محنت پر یقین کریں۔ اس ملک میں محنت کش کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، محنت میں عظمت ہے کا فلسفہ صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پر چی جوئے کی گلی میں بھیڑ رہتی ہے، جبکہ محنت کی کوکھ ہمیشہ کے لیے ویران ہو چکی ہے۔ ہر شخص قسمت آزمائی کی فکر میں بلا وجہ دماغ جوڑتا ہے۔ کبھی آکڑے بناتا ہے اور کبھی ٹنڈولے۔ کوئی کسی بابے کی تلاش میں پھرتا ہے تو کوئی کسی ماہر علم نجوم کے جال میں جا پھنستا ہے۔کوئی فرد پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالنے کے لیے آمادہ نہیں۔ جب تک محنت کی عظمت کا بول بالا نہیں ہوگا
قسمت آزمائی جاری رہے گی اور اس کی آڑ میں خانان، کالیہ جیسے لوگ اپنا کاروبار چلاتے رہیں گے۔ ایک ہماچے پر اہل دل افراد کا ڈیرہ ہے، ان کے سرپیچ ملک کریم بخش انگڑ ا صاحب ہیں جبکہ ملک غلام سرور بودلہ صاحب سیکریٹری کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ملک صاحب دیکھنے میں تو باریش بزرگ ہیں مگر صوفی منش اہل دل ہونے میں ان کا کوئی ثانی نہیں وہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ شیریں زباں اور خوش پوش انسان ہیں ، سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ دستر خوان بھی وسیع رکھتے ہیں۔ ان کے گرد نو جوان اس طرح رہتے ہیں، جیسے سرو کے پودے پر

قمریوں کا ہجوم :

عشاق کی اس بستی میں صرت محبت کی زبان بولی اور کبھی جاتی ہے ملک غلام سرور بودلہ صاحب عام طور پر علامتی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ ہمارے اصطبل میں بے شمار گھوڑے ہیں، مگر تمام گھوڑے ترقی پسند اور روشن خیال ہیں۔ گلاب چہروں والے قتل اور گھوڑے جن پر تندرستی فدا ہے۔ یہ گھوڑے آزادی کے متوالے ہیں ، غلامی کی فرسودہ لگام سے برک جاتے ہیں۔ روشن خیالی اور محبت ان کا نصب العین ہے۔ ان کی کلی نفسیات کا علم تو بودلہ صاحب کو ہوگا۔ البتہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ نوجوان ہر سال ویلنٹائن ڈے بڑے
اہتمام سے مناتے ہیں، اس طرح وہ ہر ایک کو محبت کا پیغام دیتے ہیں:
مختصر سی زندگی کم ہے محبت کے لیے
وقت لاتے ہیں کہاں سے لوگ نفرت کے لیے
گجر ہوٹل کی ہماچہ بستی میں ایک ہمہ جہت رومانیت کی دیرینہ روایات کا امین ہے۔ اس ہماچے پر ایک
طرف تو پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب براجمان ہوتے ہیں، جبکہ دوسری طرف صوفی بزرگ اور مہر النجوم خاور
تھلوچی صاحب جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ عقل و دانش اور عشق دوستی کا یہ سنگم بھی خوب ہے۔ پر لطف بات یہ ہے کہ عقل کی اپنے حریف عشق سےکوئی چٹوک نہیں اسی طرح عشق و مستی کو عقل عیار سے عداوت نہیں، اسے آپ عقل کی عیاری بھی قرار دے سکتے ہیں اور عشق کی کشادہ دلی بھی۔ شاید عقل جب دانش کی سرحد میں داخل ہوتی ہے تو عشق سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال خاور تھلوچی اور مہر اختر وہاب کی قربت کا سبب ہے۔ راقم الحروف کے تجزیے جب کوہ کندن اور کاہ بر آمدن ثابت ہوتے ہیں تو روحانی ہماچے کا سہارا لینا پڑتا ہے:
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
میرے مولا
مجھے صاحب
جنون کر
ہما چوں کے اس بحر بے کنار میں ایک جزیرے پر وکلاء کا ڈیرہ ہے۔ سید موسیٰ رضا مرحوم ان وکلاء کے امام تھے، جواب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ اس ہماچے پر غلام مصطفی جوانی ، عبدالرشید بودلہ، عبدالجبار اور یونس کنجال کے علاوہ شاگرد پیشہ وکلاء بھی حاضری دیتے ہیں۔ اکثر و کلاہ ترقی پسند اور روشن خیال ہیں یہ لوگ قانونی موشگافیوں میں الجھے رہتے ہیں اور بال کی کھال اتار کر دم لیتے ہیں، ان حضرات کی قانونی بحث ہم جیسے قانون سے لا علم افراد کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے۔ زمینی حقائق سے ہٹ کر صرف ساری باتیں کرنا غالباً چائے کی پیالی میں طوفان لانے کے مترادف ۔ تاہم یہ تمام وکلاء جمہوریت پسند ہیں اور آمریت کے خلاف پر چار کرتے ہیں۔ عدیم الفرصت ہونے کے باوجود رات گئے تک لاقانونیت کے خلاف جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ اے کاش تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔ اس ہا چہ نگر میں کچھ آزاد پنچھی بھی بسیرا کرتے ہیں۔ سید یوسف حسنین اور پروفیسر لا لا امیر محمد کا شمار آزاد پنچھیوں میں ہوتا ہے۔ سید یوسف حسنین تو کبھی کبھار اڑان بھرتے ہیں اور چند چھتی ہوئی باتیں کرنے کے بعد ایک آدھ قہقہ برساتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں۔ لالا امیر ملک حاضر باش پنچھی ہیں وہ ہر منڈیر پر تھوڑی دیر چہچہاتے ہیں۔ ہر ایک سے ملتے ہیں ہر جگہ قہقہے برساتے ہیں، کبھی کبھار اشکوں کے انمول موتی بھی پیش کرتے ہیں۔ دلوں کے راز اگلوانے میں کہنا مشق شاطر ہیں، ان کا پختہ ایمان ہے کہ ملا بھی رہے میں شکر صبح نہ ہوگا۔ لالا امیر ملک ایک بہترین سامع ہیں، ہر دل عزیز ہیں وہ کسی کے نہ ہونے کے باوجود بھی سب کے دل میں رہتے ہیں۔ مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے ، بھوں پاس قبلہ حاجات چاہیے۔ سردار بابر خان کھیتران خود بھی نوجوان ہیں اس لیے ان کے ڈیرے پر نوجوانوں کا میلہ سا لگا رہتا ہے جبکہ ہم جیسے عمر رسیدہ لوگ یہ کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ نہ چھیڑ اے حکمت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ بابر خان کے ڈیرے پر بھی ہماچے موجود ہیں۔ مگر ہا چہ کلچر کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے انھیں بھی گاہے گا ہے حماچہ گری کا طواف کرنا پڑتا ہے سبب یہ ہے کہ ہماچہ کلچر سرداروں کے ڈیروں پر نہ تو نمو پاتا
ہے اور نہ ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ یہ تو آزاد فضا میں پرورش پاتا ہے ، انگلینڈ کے ہائیڈ پارک کی مانند ہے جہاں نہ
تو کسی کا حکم چلتا ہے اور نہ ہی کسی کی اجارہ داری ہے
دیر نہیں حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں، غالب
بیٹھے ہیں ہم راہگزر پہ کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
لیہ شہر کا محلہ عیدگاہ کہنے کو تو ایک محلہ ہے ،مگر دیکھو تو پورا ایک شہر آباد ہے۔ اس کی تہذیب وثقافت اور رہن سان باقی تمام شہر سے جدا ہے۔ خالص سرائیکی دامانی لیجے میں بولی جاتی ہے۔ بے ترتیب مکانات اور اونچی نیچی گلیاں، غربت اور پسماندگی کا احساس تو دلاتی ہیں، مگر پائل کا ٹھر کا کہیں جلترنگ نہیں بجاتا۔ اس طرح اسلم موڑ جدید و قدیم ثقافت کے ساتھ ساتھ قربت اور خوشحالی کا سنگم بھی ہے۔ یوں تو پوری عید گاہ روڈ ہما چوں سے اٹی پڑی ہے اگر پروفیسر ملک اللہ یار جکھرہ مرحوم کا ہماچہ منفرد ہے۔ اس ہماچے پر پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ، انجینئر فیض رسول ، امجد کلاچی، امین سہیل، ریاض قیصرانی، رفیق ہمراز وغیرہ بیٹھک جماتے ہیں۔ راقم الحروف بھی کبھی شرف زیارت حاصل کر لیتا ہے:
چلو ہم بھی کشفی زیارت تو کر لیں
ہےکہ آبادخانقاہیں ہیں
اس ہماچے نے رفتہ رفتہ دانش کدے کی شکل اختیار کر لی ہے اور جب سے یہ دانش کدہ بنتا ہے عوامیت سے دور تر چلا گیا ہے۔ چند بقراط نما گنجے فرشتے بچ گئے ہیں ۔ جن کے بے بال سروں پر کسی پرندے کا گھونسلہ بھی نہیں۔ ایک زمانے میں عبدالرحمن مانی نے ایک چھپر نما ہوٹل کو ایم این اے ہوٹل کا نام دے رکھا تھا۔ اس کے حمایتیوں پر نوجوان دانشوروں اور روشن خیال احباب کا بسیرا تھا۔ احسن بٹ سلیم گورمانی، فیاض بھٹی ، رفیق لغاری، بیگ صاحب ، ریاض راہی کے علاوہ بے شمار نو جوان سر شام رونق افروز ہوتے اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث جاری رہتی۔ خدا معلوم اسے کس کی نظر بد نے ویران کر ڈالا کہ محفل ہی اجڑ گئی ۔ جہاں پہلے بلبلیں نغمہ سرا رہتی تھیں اب وہاں الو بولتے ہیں یہ بھی عجیب بات ہے کہ مشرقی روایات کے مطابق الو ویرانی کی علامتہے اور لوگ احمق کو الو کہتے ہیں۔ جبکہ مغربی روایات کے مطابق الودانش کی علامت ہے مثلاً an owl As wise as
ہاؤسنگ کالونی لیہ شہر کی رگ جاں ہے، تمام ہمارا چوک اعصابی مرکز ہاؤسنگ کالونی میں کام کرتا ہے جو تمام کالجز اور ہاؤسنگ کالونی کے سر پر سایہ فگن ہے۔ مرکزی شاہراہ کالج روڈ کے نام سے موسوم ہے۔ تقریبا تمام پروفیسر صاحبان کا چیف ایڈیٹر اور لیہ کے صحافیوں کا باوا آدم عبدالحکیم شوق بھی اسی کالونی کا مکین ہے پریس کلب اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بھی اسی کالونی کے پہلو میں آباد ہے۔ ملک غلام حیدر تھند کا قصر سرخ بھی گرلز کالج روڈ پر واقع ہے۔ راقم الحروف کی کیا بھی اس کالونی میں کچھ اس طرح درج ہے جیسے پیدائش کے رجسٹر میں کسی مردے کو غلطی سے درج کر لیا جائے ۔ اگر کوئی نشاندہی کرے تو کلیریکل مسٹیک (منشی کی غلطی ) کہ کر گلو خلاصی کرالی جائے ۔ اس کالونی کی کمرشل مارکیٹ میں نذیر کھو کھر مرحوم کا ہوٹل ہے۔ جس کے پہلو میں ایک وسیع پلاٹ موجود ہے، سردیوں میں احباب اسے میانی بیچ کہتے ہیں اور موسم گرما میں ساحل سمندر بن جاتا ہے۔ اس ہوٹل میں دانشوروں کا ہماچی ترقی پسند سوچ اور معقولیت پسندی کے اعصابی مرکز کے طور پر سر گرم عمل ہے۔ اس کے ہماچے سر شام اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیتے ہیں تو صابر ہوٹل کے قدیم سٹڈی سرکل کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پروفیسر صاحبان وکلا اور ترقی پسند اصحاب روزانہ حاضری دیتے ہیں اور امریکن مسلم کے مطابق چائے چلتی ہے جسے فارسی میں دست خویش وہان خویش بھی کہتے ہیں۔ ان ہما چوں کے معروف دانشور پروفیسر اکرم میرانی ہیں جو متعدد کتب کے مصنف بھی ہیں ان کے علاوہ ڈاکٹر مزمل حسین صاحب قابل ذکر ہیں جو کئی کتب کے مصنف ہیں۔ حمید الفت ملغانی صاحب سرائیکی زبان کے معروف لکھاری ہیں اس کے علاوہ سرائیکی زبان کے معروف شاعر بھی ہیں پروفیسر سید آغا حسین گورنمنٹ ڈگری کالج چوبارہ کے پرنسپل ہیں۔ مگر سلسلہ مریدان باصفا کافی وسیع میخورشید دورانی صاحب E.D.O لٹریسی رہ چکے ہیں اور میرانی صاحب کے سیاسی مرید ہیں۔ ان کے سوالات مکالمات افلاطون سے کم نہیں ہوتے وہ سوالات کے ذریعے اپنی بات منوانے کا منطقی گر استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔ اس ہماچے کو راقم الحروف نے بھی خون جگر سے سینچا ہے، اکثر لوگ شاگرد ہیں مگر دوستوں کی طرح بے تکلف بحث و مباحثہ میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ میاں خدا بخش صاحب ایک معروف استاد ہیں۔ ادارہ طلوع اسلام سے وابستگی ان کی پہچان ہے، دینی امور پر عبور رکھتے ہیں، ان کی روشن خیالی اور روشن ضمیری مستند ہے، وہ فرسودہ سوچ سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ دانش وروں کے اس نظام شمسی میں خالد میرانی اور رانا اعجاز ڈپٹی ڈائر یکٹر انفارمیشن نمایاں ستارے ہیں۔ دونوں صاحب الرائے ہیں اور اپنے تنقیدی خیالات سے مد مقابل کو چاروں شانے چت گرا کر دم لیتے ہیں۔ پروفیسر صحیح مقبول صاحب بھی اس ہماچے کے دیرینہ نمبر ہیں۔ انھیں سیاست سے چنداں دلچسپی نہیں البتہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی انکی کمزوری ہے۔ انگریزی زبان و ادب پر کامل دسترس رکھتے ہیں۔ پروفیسر شبیر نیئر صاحب انگریزی زبان و ادب کے ماہر استاد اور روشن خیال انسان ہیں۔ مذہب گریز باتوں سے بدکتے ہیں قدرے متلون مزاج واقع ہوئے ہیں۔ شاہانہ مزاج کے ساتھ ساتھ نفاست پرست بھی ہیں۔ پروفیسر ظہیر الدین بابر صاحب معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند طلبا تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔ باہر صاحب عملی انسان ہیں اس لیے باتیں کم کرتے ہیں۔ ہماچے کے مالی امور کے انچارج ہیں۔ پروفیسر سبطین خان سرگانی ، ریاضی کے پروفیسر ہیں وہ بھی عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ جن کو ریاضیاتی رنگ میں دیکھتے ہیں اور مثالیت سے ان کا کوئی علاقہ نہیں ۔ ہمارے دیرینہ دوست پروفیسر فقیرمحمد سرگانی صاحب کے فرزند ہیں ، یہی اعزاز ان کے لیے کافی ہے اور پروفیسر ظہور عالم تصویر بھی اس ہماچے کے اہم رکن ہیں ۔ وہ ملک غلام حیدر تھند کے برعکس اپنے نام کے ساتھ ملک کی بجائے مہر لکھواتے ہیں ،سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ آئینی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں روشن خیالی اور ترقی پسند سوچ ان کی پہچان ہے۔ پروفیسر فلک شیر صاحب یوں تو پنجابی نژاد گجر ہیں، مگر خالص سرائیکی زبان کو ڈیرہ جاتی لہجے میں بولنے پر مہارت رکھتے ہیں۔ ہماچہ کو ہمیشہ ماچہ کہتے ہیں۔ جو ڈیرہ غازی خان کا خاص تلفظ ہے۔ ریاضی کے کہنہ مشق استاد ہونے کے سبب حافظہ بہت تیز ہے، وہ ہر ایک واقعہ کی تفصیلات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پوری تصویر آنکھوں کے سامنے قوس قزح کے رنگ بکھیرتی چلی جاتی ہے۔ اگر وہ داستان گو ہوتے تو ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا یا پھر سفر نامہ یا خود نوشت لکھتے تو علی پور کے ایلی کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ۔ اختر اعوان صاحب بھی اس ہماچے کے رکن ہیں، مگر کبھی کبھی ایسے غائب ہو جاتے ہیں، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مگر جب واپس آتے ہیں تو غیر حاضری کے داغ آن واحد میں دھودیتے ہیں۔ اگر میں معروف بزرگ ملک محمد انور کا ذکر نہ کروں تو تمام رام کہانی بے رنگ ہو جائے گی۔ عمر 80 سال سے متجاوز ہے مگر طبیعت میں بلا کی شوخی اور غیر معمولی جس ہے۔ جنسی موضوعات پر کھیل کر بات کرنا ، ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ موصوف رمز و کنایہ کے قائل نہیں ہر موضوع کو جنسی ملبوس پہنا کر رومانی بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ محترم بزرگ قطرے زود رنج بھی ہیں ، مگر جلد ہی بخش کو بلا کر شیر وشکر ہو جاتے ہیں۔ خدا انھیں عمر خضر عطا کرے آمین ۔ پروفیسر طارق مومن صاحب عربی زبان و ادب کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان خطیب بھی ہیں۔ ان کا تعلق مسلک دیو بند سے بہت قریبی ہے۔ اس کے باوجود اعتدال پسند معاشرے کے اہم رکن ہیں۔ ہمارے لیے ان کا اتنا تعاون بھی نغنیمت ہے۔ اس دانش کدے کے گلشن میں رنگا رنگ کے پھول کھلتے ہیں ۔ یہاں کسی کو کسی کے نظریات کی غلامی قبول نہیں۔ دانش تو روشنی کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ جس کی روشنی چاروں طرف پھیل کر آنے والوں کی نوید دیتی ہے۔ اس روشنی کو قید کرنا یا محدود کر نا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ دانشوروں کے اس ہماچے سے معقولیت کی جو کر نہیں پھوٹتی ہیں، وہ پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں مہر فضل حسین جب بھی ملتے ہیں وہ ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ سیانے کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔؟ محترم قارئین! ایک عوام دوست دانش ور کا عقیدہ انسان دوستی ہے وہ ( الخلق عیال اللہ ) کا قائل ہوتا ہے۔ وہ بلا امتیاز سب کی بھلائی چاہتا ہے اس لیے بلا امتیاز سب سے پیار کرتا ہے۔ یہی لیہ کے ہماچہ کلچر کا امتیاز ہے، یہی سرائیکی وسیب کے تمام ہماچہ نشینوں کا کلچر ہے، خدا ان انسان دوست ہماچوں کو ہمیشہ آبا دوشادر کھے آمین۔ ( نوٹ : صدیقی صاحب کا یہ مضمون ان کی کتاب "دشت امکان میں شامل کیا گیا۔)

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com