رسم و رواج کسی بھی قوم اور اس کی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اور قومیں اپنی رسومات سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔ ضلع لیہ میں اکثریت سرائیکی قوم آباد ہے۔ اس لیے یہاں سرائیکی رسومات ہی رائج ہیں۔ اگر کوئی رسم اقلیت والوں کی ہو بھی تو وہ بھی اس میں ضم ہو گئی ہیں۔ سرائیکی قوم کی رسومات بہت پرانی ہیں اور رچ ہیں۔ شادی بیاہ کی رسمیں ہوں ، پیدائش کی رسمیں ، مرگ کی رسومات ، بارش برسانے کی رسومات، بارش روکنے کی رسومات ، ژالہ باری روکنے کی رسومات، بند ہوا چلانے کی رسومات ، آندھی روکنے کی رسومات ، نیا مکان بنانے کی رسومات، ان کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ کئی ہزار سال پرانی رسومات ابھی تک اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں۔ کیونکہ یہ سرائیکی رسومات ہیں۔ اسی لیے ان کے نام بھی سرائیکی میں ہیں۔ کچھ لوگوں نے ان کے نام اردو یا کسی اور زبان میں بدلنے کی کوششیں کی ہیں مگر دوسروں زبانوں میں یہ اجنبی لگتے ہیں۔ شادی کی رسمیں
شادی کی رسمیں جب لڑکا یا لڑ کی کسی گھر میں پیدا ہوتی ہے، تو برادری والے مبارک دینے کے لیے آتے ہیں۔ اسی دن اکثر قریبی رشتہ دار کہ دیتے ہیں، جیسے پھوپھی ، نانی، مامی، چی وغیرہ کہ یہ بچی میں اپنے گھر لے جاؤں گی اسے میں اپنی بیٹی بناؤں گی۔ اگر لڑ کا ہو تو پھر کہہ دیتی ہیں کہ میں اسے اپنا بیٹا بناؤں گی۔ اکثر رشتے عورتیں ہی طے کرتی ہیں، اسی دن سے رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پہلے لوگوں کے رویے اتنے اچھے ہوتے تھے۔ چاہے درمیان میں جتنے جھگڑے چھیڑے ہو جاتے مگر رشتوں پر کوئی آنچ نہ آتی۔ اکثر رشتے قوم برادری میں کیے جاتے۔ ہاں اگر قوم برادری میں کوئی معقول رشتہ نظر نہ آتا۔ تو پھر دوسری برادری میں کیا جاتا۔ دوسری برادری میں رشتہ لڑکا یا لڑکی کے جوان ہونے پر طے ہوتا ۔ اکثر وٹہ سٹہ کا رواج تھا۔ بعض اوقات پیسے بھی لیے اور دیے جاتےجسے ”ارتھ“ کہا جاتا تھا۔ وٹہ سٹہ یا ارتھ نہ ہونے کی صورت میں دھیا ، پتر یا ہونا پڑتا۔ یعنی لڑکے والے اپنی شادی کا خرچہ بھی برداشت کرتے اور لڑکی والوں کا خرچہ بھی۔ لیکن اب یہ رواج تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ خاندانی سسٹم اب بڑی تیزی سے ٹوٹ رہا ہے، اسی وجہ سے اب قوم برادری کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اب لڑکی اور لڑکے کے معیار کو مد نظر رکھ کر رشتہ طے کیا جاتا ہے۔ پہلے اتنازیادہ جہیز نہیں دیا جاتا تھا۔ مگر اب جہیز زیادہ سے زیادہ دیا جاتا ہے۔ تا کہ قوم برادری وسیب علاقہ میں وقار بلند ہو۔ پہلے چھوٹی عمر میں لڑکا یا لڑ کی کی شادی کر دی جاتی تھی۔ اب تعلیم کی طرف رجحان بڑھنے کی وجہ سے شادیاں لیٹ کی جاتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں موجود ہیں۔ چھوٹی عمر کی شادی میں برائی کم ہوتی ۔ لڑکی جلد ہی سسرال خاندان میں اس کا حصہ بن کر مانوس ہو جاتی لڑائی جھگڑے کم ہوتے پیار محبت بڑھ جاتا۔ مگر چھوٹی عمر میں شادی کرنے سے بچوں کی تربیت صحیح طریقے سے نہ ہوتی۔ چونکہ لڑ کی اتنی میچور نہیں ہوتی تھی۔ بڑی عمر کی شادیوں میں لڑکالڑ کی میچور ہوتے ہیں۔ اولاد کی تربیت تو ٹھیک طریقے سے کر لیتے ہیں ۔ مگر سسرال خاندان سے مانوسیت کم ہوتی ہے، اس لیے اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔
منگنی کی رسم :
ں وہ منگنی کی رسم ” سے پہلے لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر اپنی عورتیں بھیجتے ہیں۔ عورتیں لڑکی کو پسند کرتی ہیں۔ اگر لڑ کی پسند آجائے تو واپسی پر لڑکے والوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر آتی ہیں۔ پھر لڑکی والے لڑکے والوں کے گھر جاتے ہیں۔ پھر دونوں خاندان ایک دوسرے کے گھر دو تین دفعہ آتے جاتے ہیں۔ پھر منگنی کی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں۔ منگنی والے دن لڑکی والے لڑکی کو بنا سنوار کر بٹھا دیتے ہیں۔ لڑکے والے مٹھائی کپڑوں کے سوٹ کوئی مندری ، انگوٹھی ، چھلہ ، میک اپ کا سامان لے کر لڑکی والوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں خاندانوں کے بزرگ بات پکی کر کے دعا خیر دے دیتے ہیں۔ پھر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ مٹھائی نائی تقسیم کرتا ہے جولڑکے والے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ نائی جن جن کو مٹھائی دیتا ہے اس سے پیسے وصول کرتا ہے جسے "ویل” کہا جاتا ہے۔ عورتوں میں نائن مٹھائی تقسیم کرتی ہے وہ بھی اسی طرح پیسے وصول کرتی ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے کو مبارک دینے کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں۔
گنڈھیں بدھنڑ :
گنڈ میں بد حضر” یعنی شادی کی تاریخ مقرر کرنا ۔ تاریخ مقرر کرنے سے پہلے لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر کوئی آدمی بھیج کر اپنے آنے کی اطلاع دے دیتے ہیں کہ ہم فلاں دن فلاں وقت تمھارے گھر آرہے ہیں۔ لڑکی والے اپنی اسطاعت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ شادی کی تاریخ لڑکی والے اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایام ماہواری کو مد نظر رکھ کر تاریخ کی کرتے ہیں۔ یہاں کی یہ بھی روایت تھی کہ گھر والا بزرگ آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے حال احوال پوچھتا تو آنے والے مہمانوں میں سے جو بڑا ہوتا وہ اپنا مدعا بیان کرتا۔ پہلے ادھر ادھر کے واقعات سناتا پھر اپنی بات کرتا ۔ شادی کے جتنے دن رہتے اتنی ہی گانٹھیں دھا گے کو دے دیتے ہیں۔ تاکہ دن یا درہ سکیں کیونکہ اس وقت اتنی تعلیم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اکثر لوگ ان پڑھ ہوتے تو ان کے لیے یہ طریقہ آسان ہوتا ۔ مگر اب اسطرح نہیں ہے۔ اب کسی خوبصورت کارڈ یا کاغذ پر مہندی ، جاگا اور بارات کی تاریخ لکھ کر خوبصورت پیک کر کے لڑکے والوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ کسی کسی برادری میں یہ بھی رواج ہے کہ لڑکے والوں کے ساتھ جتنے بھی مرد آتے ہیں انھیں بطور تحفہ ایک ایک لنگی دی جاتی ہے۔ جس کا مقصد ان کی عزت افزائی ہوتا ہے۔ دعا مانگنے کے بعد مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے اور لڑکی والوں کی طرف سے کھانا بھی کھلایا جاتا ہے۔
کا نڈھا:
” کا نڈھا ، یعنی اطلاع دینا، قوم برادری یا دوستوں کو بلانے کا نام کا نڈھا ہے۔ پہلے زمانے میں کا نڈھا زبانی کلامی دیا جاتا تھا۔ نائی جو تاریخ مقرر کرتے وقت ساتھ ہوتا تھا۔ اسے سب تاریخوں یعنی مینڈھی، آگا، بارات ، ولیمہ کا علم ہوتا ۔ بعض اوقات اسے برادری کا بھی علم ہوتا اسے کا نڈھا دینے کے لیے بھیج دیا جاتا ۔ جو دوست رشتہ دار نہ آنا چاہتا اسے کوئی اعتراض ہوتا تو وہ نائی کو کہ دنیا کہ مجھے فلاں اعتراض ہے ۔ پھر دلہا یا دلہن والے اس کے گھر جا کر اعتراض دور کرتے۔ پھر وہ ہنسی خوشی شادی میں شریک ہو جاتا۔
مینڈھی کھولنا :
مینڈھی کھولنا کنواری لڑکی کی ایک اپنی شناخت ہوتی۔ سر کے بال گندھے ہوئے ہوتے ۔ کانوں میں بندے ہوتے تو مینڈھی والے دن لڑکے والے زیادہ تر عورتیں ساتھ لے کر ان کے گھر پہنچ جاتے ۔ جو شادی سے کچھ دن پہلے یہ رسم ادا کی جاتی۔ کنوار کے گندھے ہوئے بالوں میں سے ایک لیٹ کھول دی جاتی پھر دھول کی تھاپ پر سہرے یعنی گانے گائے جاتے بھنگڑا ، جھمر ، دور سے آئے ہوئے مہمان لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پھرخوشی خوشی گھر لوٹ آتے ہیں۔
گھنڈ میں بیٹھنا:
گھنڈ میں بیٹھنا ” یعنی "مایوں بیٹھنا ” مینڈھی کی رسم ادا ہوتے ہی لڑکی کو مایوں بیٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی روز سے نہ وہ کسی کے سامنے آتی ہے، نہ منہ دکھاتی ہے، نہ بات چیت کرتی ہے چاہے اس کے جتنے بھی قریبی رشتہ دار ہوں ۔ حتی کہ باپ بھائی سے بھی پردہ کرتی ہے، عورتیں، لڑکیاں، محلے دارو ہی دلہن کے آس پاس رہتی ہیں، اس کو اکیلا نہیں رہنے دیا جاتا۔ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں جن بھوت یا پری کا ہاتھ نہ لگ جائے۔ ظاہری طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے لڑکی کے کپڑوں کی رکھوالی کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی اس کے کپڑوں کا دھاگہ توڑ کر جلا نہ دے۔ گمان ہوتا ہے کہ اس طرح کرنے سے شادی کا ناکام ہو جاتی ہے۔ مگر غالب گمان یہ ہے کہ اکثر شادیاں لڑکیوں کی مرضی کے خلاف کی جاتی ہیں۔ ڈر ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑا گیا تو شاید اس کے ذہن میں کوئی غلط خیال نہ آ جائے۔ دلہن کو خوبصورت بنانے کے لیے ایک تو مکان کے اندر کسی کونے میں بٹھا یا جاتا ہے اور دن میں کئی دفعہ اسے باشن ابٹن ملا جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت میک اپ کا رواج نہیں تھا ، میک اپ کے سامان کی جگہ بس باشن استعمال کیا جاتا۔ اب یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ میک اپ نے لے لی ہے۔
رسم مہندی :
رسم مہندی بارات سے دو دن پہلے لڑکے والے چند مرد اور عورتیں زیادہ میک اپ کا سامان لے کر لڑکی والوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لڑکی کا والدہ چا یا ماما لڑکی کے سر میں تھوڑا تیل لگاتے دیتے تھے۔ پھر دلہن کی سہیلیاں ، دلہن کے ہاتھوں پر مہندی لگانا شروع کرتی ہیں۔ خود بھی مہندی لگاتی ہیں ، ناچ گانے کے ساتھ یہ رسم شروع کی جاتی ہے۔ مرامن دھول کی نے یہ سہرے گاتی ہے اور ویل وصول کرتی ہے۔ مگر یہ رواج بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب دلہن کو سیدھا بیوٹی پارلر پر لے جایا جاتا ہے یا بیوٹی پارلر والی کوگھر بلا لیا جاتا ہے یہ دولہن کو میک اپ کر کے تیار کر دیتی ہے اور کافی پیسے بٹور لیتی ہے۔ اس کے بعد ناچ گانا، جھر دھر لیس کے ساتھ جہیز جسے سرائیکی میں ڈاج کہتے ہیں دکھایا جاتا ہے۔ ڈاج کو کسی خالی جگہ یا چار پائیوں پر سجالیا جاتا ہے اوربرادری والوں کو بلا کر دکھایا جاتا پھر اس کی مویز بنائی جاتی ہیں۔ جو لوگ اس فنکشن میں شریک نہیں ہو سکتے انھیں موویز دکھائی جاتی ہیں۔ جب لڑکے والے گھر لوٹ جاتے ہیں تو اسی وقت یا دوسرے دن لڑکی والے اسی طرح ناچنے گانے لڑکے والوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ مہندی کو خوبصورت فانوس نما برتن میں سجا کر لڑکے کی سالیاں دکھا کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی پر مہندی لگا کر انعام وصول کرتی ہیں۔ دلہا کے سبائے کو بھی مہندی لگائی جاتی ہے اور اس سے بھی انعام وصول کیا جاتا ہے۔
آگا یا جاگا :
یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں یعنی بارات سے ایک دن پہلے رات کو دوست احباب رشتہ دار، محلے دار دلہا کے گھر آجاتے ہیں۔ اسے میل کا نام دیا جاتا ہے۔ اب تو دوست احباب کافی لوگوں کے ساتھ معمر دھر لیں والی ٹولی کو ساتھ لے کر دور سے ناچتے گاتے دلہا کے گھر آجاتے ہیں۔ تاریخ مقرر کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ چاند کی ایسی تاریخ ہو جس میں چاندنی اپنا رنگ بکھیر رہی ہوتا کہ خوشی کا سماں دو بالا ہو جائے۔ ساری ساری رات ناچ گانے میں گزر جاتی ہے۔ موسیقی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے اور ڈھول والوں کی تو چاندی نکل آتی ہے۔ لوگ بہت زیادہ پیسے ویل کے طور پر دےدیتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی بارات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔
بارات:
جوں ہی جاگا کی رات گزرتی ہے بارات کی تیاری ہونے لگ جاتی ہے اور اونٹوں کو سجا کر زیورات سے آراستہ کر کے ساربان جت دلہا کے گھر آجاتے ہیں۔ برادری کے مطابق اونٹوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اونٹ والوں کو دعوت صرف ایک جت دیتا ہے جسے اگوان ” کہا جاتا ہے۔ اس کے اونٹ پر ہی دلہن بیٹھتی ہے۔ اس اونٹ کو موھری اونٹ کہا جاتا ہے۔ اسے خوب سجایا جاتا ہے ۔ گل میں گانیاں ، پیروں میں گھنگھر و، دوشالے خوبصورت کچاوے جن پر شیشے تاکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچاوے میں واپسی پر ایک اکھنے میں دلہن اور دوسرے اکھے میں اس کی بہن یا کوئی قریبی رشتہ دارلر کی کو بٹھایا جاتا ہے۔ جو دلہن کی سالی کے طور پر ہوتی ہے۔ جو دلہا کے گھر آکر دلہن کی سیج تیار کرتی ہے۔ جب بارات دلہن کے گھر کے قریب جاتی ہے تو عورتیں بچے اونٹوں سے اتر جاتے ہیں اور سہرے گانا شروع کر دیتی ہیں جس میں ناچ گانا بھی ہوتا ہے اور مرد بھی مجھمر دھر لیں شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح خوشی میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ گبھرو ک سر پر پیسے رکھ کر ویل ہوکائی جاتی ہے۔ اس طرح ناچتے گاتے دلہن والوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دلہن والوں نے ان کے لیے بیٹھنے اور کھانے کا انتظام کر رکھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ گھوٹ کو کھارے گھر سے چڑھا کر لے جاتے ہیں اور کچھ دھیچ در پر کھارے چڑھاتے ہیں۔
رسم کھا را:
گھر و یعنی دلہا کو پہلے والے پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کسی کنویں جس کے ساتھ مسجد ہو یا کسی نلکے پر لے جایا جاتا ہے یا پھر ایسی مسجد جس کے نزدیک نلکا موجود ہو۔ پہلے کسی قریبی دربار پر زیارت کے لیے لے جاتے ہیں، پھر کھارے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ گبھرو کے سر پر لال رنگ کی چادر جیسے لال سوہا ، یا کچھویڑی کہتے ہیں۔
چار آدمی پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گبھرو کے سر پر سے پگڑی نہیں اتاری جاتی اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نائی احتیاط سے آہستہ آہستہ پگڑی کو اوپر کر کے سر پر تیل جو کہ خوشبودار ہوتا ہے، لگا دیتا ہے پھر کپڑوں سمیت اسے نہلایا جاتا ہے۔ آخر پر پانی سے بھرا ہوا گھڑا گبھرو کو دیا جاتا ہے کہ وہ اسے ایک ہاتھ سے اپنے اوپر سر سے اونچا کر کے انڈیل دے۔ کوئی شرارتی قسم کا نائی گھڑاذرا اوپر کر کے اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تا کہ اسے اوپر اٹھانے میں دشواری پیدا ہو ۔ جو گھر دنو جوان طاقتور ہوتا ہے دو گھڑے کو تھوڑا سا جھٹکا دے کر آسانی سے اپنے اوپر انڈیل لیتا ہے۔ مگر کمزور اور نا سمجھ بھر د سے گھٹڑا نہیں اٹھایا جاتا تو پھر سب لوگ جو موجود ہوتے ہیں ہنس پڑتے ہیں۔ یہ رسم گبھرو کے جوان ہونے کی علامت کبھی جاتی ہے۔ غسل کے بعد گھوٹ کو نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ جب پگڑی باندھنے کا وقت آتا ہے تو پگڑی کا ایک سرا اکٹھا کر کے گبھرو کا باپ چھپا یا ماموں جو بھی میسر ہو اس پر کلمہ شریف ، دورود شریف پڑھ کر پھونک مار دیتا ہے اور لوگوں کو بھی درود پڑھ کر پھونک مارنے کا کہتا ہے، پھر اپنے ہاتھ سے گھوٹ کو پگڑی پہنا دیتا ہے۔ جب گبھرو کپڑے پہن لیتا ہے تو پھر نائی جوتا اس کے آگے رکھ دیتا ہے۔ گبھرو جوتا پہن کر جب آگے قدم بڑھاتا ہے تو نائی اسکے آگے گھڑے کی چھوٹی جس کے نیچے جیسے رکھے جاتے ہیں رکھ دیتا ہے۔ گھر واپنے پاؤس کی طاقت سے اس پر چوٹ لگاتا ہے چھوٹی ٹوٹ جاتی ہے پیسے نائی اٹھالیتا ہے اگر چھوٹی نہ ٹوٹے تو مہمانوں کے لیے مزاح کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈھول والے خوب ڈھول بجاتے ہیں اور ویلیں وصول کرتے ہیں۔ کمہار اپنی جگہ جو گھڑا اور چھوٹی لے کر آتا ہے، نائی اپنی جگہ جو دلہا کونسل کرواتا ہے، میراثی اپنی جگہ ڈھول ، توتی شرناں سے لوگوں کو محفوظ کرتے ہیں ۔ خوشبودار تیل جو نائی کے پاس ہوتا ہے سب لوگوں کو لگانے کے لیے دیا جاتا ہے اور ویل وصول کرتا جاتا ہے۔ مگر اب ایسی رسومات ختم ہوتی جارہی ہیں۔ اب دلہا کو بیوٹی پارلر لے جایا جاتا ہے، وہاں سے تیار ہو کر گھر آتا ہے۔ پھر بارات کاروں، بسوں پر لے جاتے ہیں۔ دلہا کی کار کو خوب سجایا جاتا ہے۔ دلہا کے ساتھ سبالا بھی بٹھایا جاتا ہے۔ آگے آگے دلہا کی کار ہوتی ہے پیچھے باقی کاریں نہیں ہوتی ہیں۔ جھومر دھر میں گانا بجانا کی رسمیں بھی ماند پڑتی جارہی ہیں۔
گانا سہرا :
کھارے چڑھانے کے بعد گبھرو کو کسی مسجد یا دربار پر لے جاتے ہیں آگئے آگئے ڈھول شرنا ہوتی والے اپنا رنگ مچاتے آہستہ آہستہ پیدل چلتے رہتے ہیں۔ ان کے پیچھے مرد عورتیں اور بچے سہرے گاتی ناچتی آتی ہیں۔ دلہا ان سے آگے آگے سر پر باریک سا کپڑا اپنے چلتا جاتا ہے۔ کندھے پر وہی سوہا ہوتا ہے، مسجد یا در بار کے سامنے جا کر برادری کا کوئی بزرگ گھوٹ کے بائیں بازو میں گانا باندھتا ہے۔ خاص کر ماموں کو کہا جاتا ہے۔ سبالے کو بھی گانا بائیں ہاتھ میں باندھا جاتا ہے۔ گبھرو کے ہاتھ میں لوہے کی چھری یا چاقو دیا جاتا ہے، تا کہ جنوں بھوتوں سے محفوظ رہے۔ سر پر پگڑی کے اوپر ایک منفرد سہرا باندھا جاتا ہے، جس کی خوبصورت بنی ہوئی تلے کی شاخیں منہ پر لہرا رہی ہوتی ہیں، جو کہ بہت ہی خوبصورت لگتی ہے اسے سکھالنا“ کہا جاتا ہے۔ جب تک گبھرو اپنی کنوار کے ساتھ پیج پر نہیں بیٹھ جاتا سر پر سہر اسجائے رکھتا ہے۔
گھڑا گھڑولی :
گھوٹ کو کھارے چڑھانے کی طرف لے جاتے ہوئے ایک چھوٹا سا گھڑا جسے گھڑولی کہتے ہیں، گبھرو کی بہنیں سر پر اٹھا کر گھر کی پھچھو یڑی کے ساتھ اپنے دوپٹے کو باندھ دیتی ہے۔ جیسے پلو باندھنا کہتے ہیں۔ جب گھر دکو کھارے چڑھایا جاتا ہے تو بہن کھول دیتی ہے مگر پیسے لینا نہیں بھولتی ہے۔سلامی جب کھارے کی رسم ادا ہو جاتی ہے تو گھوٹ نئے کپڑے پہن کر گانا ہاتھ میں سجا کر سر پر سہرا سجا کر پہلے پہل اپنے والد کے قدموں کو چھو کر سلامی وصول کرتا ہے، پھر چا چا، ماما، بھائی، دوست احباب سب کو گلے ملتا ہے اور سلام کرتا ہے۔ اس خوشی میں وہ اسے پیسے دیتے ہیں جیسے سلامی کہا جاتا ہے۔ مردوں سے پیسے وصول کر کے پھر عورتوں سے بھی سلامی وصول کرتا ہے۔ پیسے سبالا اپنے پاس رکھتا ہے جو بعد میں دولہے کو دے دیتا ہے ۔ پھربارات تیار ہو کر دھیتے در چلی جاتی ہے۔ دھیتے گھر جا کر پہلے نکاح کرتے ہیں جو مولوی صاحب پہلے سے دھیتے گھر آیا ہوا ہوتا ہے، نکاح پڑھا دیتا ہے جو لوگ بعد میں شریک ہوتے ہیں، دولہا اُن سے سلامی وصول کر کے سسرال کے زنان خانہ میں چلا جاتا ہے۔ کوئی کوئی سبالے کو ساتھ لے جاتے ہیں اور کوئی کوئی سبالے کو وہاں روک لیتے ہیں۔ وہاں زنان خانہ میں عورتوں سے سلامی وصول کر کے گبھرو اور کنوار کو اکٹھا پیج پر بیٹھا دیتے ہیں جیسے لانواں کہاجاتا ہے۔
لانواں:
دولہا اور دلہن کو پیج پر ایک ساتھ بیٹھنے کے عمل کو لانواں کہا جاتا ہے۔ جو وہاں رسومات ادا کی جاتی ہیں انھیں "سون سوب” کہا جاتا ہے۔ گھوٹ کی سالی تھال میں آنے کے چھوٹے چھوٹے سات دیے بنا کر گھوٹ کے آگے لے آتی ہے، گھوٹ اُسے ہاتھ سے اکٹھا کر کے بجھا دیتا ہے۔ یہ اس بات کا شگون ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اسے سات اولاد میں عطا فرمائے گا۔ بوڑھی عورتیں یعنی بزرگ عورتیں اُسے دعائیں دیتی ہیں کہ اللہ تمہیں "ست پتر تیا کرے یعنی اللہ تمہیں سات بیٹوں سے نوازے۔ گھوٹ سالی کو پیسے دے کر رخصت کرتا ہے۔ جب گھوٹ جوتا اتار کریج پر بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کی تاک میں لگے ہوئے بچے، بچیاں، سالیاں جوتا چھپا لیتی ہیں۔ مگر سبالا اگر چست ہو تو وہ فوراً جوتا اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ بڑی سالی کسی کٹورے یا گلاس کو سجا کر دودھ کا گلاس دلہا کو پیش کرتی ہے، جس میں میوہ جات بھی ہوتے ہیں۔ گرم گرم دودھ پہلے دلہا پی لیتا ہے پھر دلہن کو دے دیتا ہے۔ بچا ہوا دودھ دلیا کی سالیاں پی لیتی ہیں۔ حسب توفیق انعام وصول کرتی ہیں۔ اسے دودھ پلائی رسم کہتے ہیں۔ کنوار کی مٹھ میں پیسے دے کر کہا جاتا ہے، کہ اسے نہ کھولے بلکہ مضبوطی سے مٹھی بند کیے رہے۔ اُدھر دلہا کو کہا جاتا ہے کہ کنوار کی مٹھ کھولے مٹھ ایک ہاتھ سے کھولنا شرط ہوتی ہے۔ سبالا گھوٹ کو پہلے ہی سمجھا بجھا چکا ہوتا ہے، گھوٹ کنوار کی چھوٹی انگلی پر زور دے کر کھول لیتا ہے اگر مٹھو نہ کھلے تو باراتی عورتیں بہنے لگ جاتی ہیں اور یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ دلہا ہمیشہ اپنی بیوی کے تابع رہے گا، اگر مٹھ کھل جائے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ لڑکا طاقتور اور جوان ہے اور اپنی بیوی پر ہمیشہ وز بر رہے گا، پھر دلہا اور دلہن کو اکٹھے کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ خاص کر میٹھے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اکثر دلہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو دیکھا ہوا نہیں ہوتا یہ ان کی پہلی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ تی زندگی کا آغاز ہورہا ہوتا ہے اس لیے اسے خوشگوار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد دلہا مردوں میں چلا جاتا ہے تقریباً کھانا کھلا جا چکا ہوتا ہے۔ دھیتے نند روصول کر لیتے ہیں ، پھر کنوار کی رخصتی کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔
کنوار کی رخصتی:
سجا ہو ” موھری اونٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ کنوار کی بہن ،سہیلیاں ، رشتہ دار سب کنوار کومل کر اُسے الوداع کہتی ہیں۔ چونکہ وہ ہمیشہ کے لیے اس گھر کو الوداع کہے رہی ہوتی ہے، اس لیے اس گھر میں مایوسی کا سماں ہوتا ہے۔ کنوار کا والد یا بڑا بھائی کنوار کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے سہارا دیتا ہے۔ اور قرآن مجید کا نسخہ بھی سر کے اوپر ایک آدمی پکڑے ہوئے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ایسا اکثر ماموں کرتا ہے، والد کا سر پر ہاتھ رکھنے کا مطلب ہوتا ہے کہ میں ہمیشہ تمھاری سر پرستی کرتا رہوں گا اور قرآن مجید کا سایہ تمھارے سر پر ہوگا۔ پھر ایک تھال میں گندم کے دانے، جو، اور اس میں ریزگاری ملادی جاتی ہے۔ جب دلہن چلنے لگتی ہے تو وہ اپنے دائیں ہاتھ سے دانوں کی مٹھ بھر کر سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیتی ہے۔ یہ عمل کتنی بار کرتی ہے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آج میں پیا گھر جارہی ہوں اور اس گھر کی رونق کو الوداع کہ رہی ہوں۔ چونکہ اونٹ کا کچا دوا قدرے اونچا ہوتا ہے، اس لیے کنوار کا بھائی نیچے بیٹھے جاتا ہے۔ کنوار اس کے کندے پر پاؤں رکھ کر کچاوے میں بیٹھ جاتی ہے۔ ایک اکھے میں کنوار اور دوسرے اکھے میں کنوار کی بہن یا کوئی قریبی رشتہ دار بیٹھ جاتی ہے۔ اس وقت وہ اس کی سالی ہوتی ہے، جس نے آگے اس کی رہنمائی کرنی ہوتی ہے۔ جب اونٹ اٹھتا ہے کچا وے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے گھوٹ کنوار والے اکھے کو پکڑے رکھتا ہے۔ جب تک کنوارا اپنے گھر آ کر اتر نہیں جاتی گھوٹ ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ بارات جب روانہ ہوتی ہے تو راستے میں کئی ایک مواقع ایسے آتے ہیں مثلا سٹرک پر کوئی ریلوے پھانک آجاتا ہے، در یا پرکشتی پر سوار ہوتا پڑتا ہے وہ بھی انعام یعنی کھیوا لیے بغیر آگے نہیں جانے دیتے۔ بارات جب گھر پہنچتی ہے تو پہلے کسی قریبی دربار پر حاضری دی جاتی ہے۔ دربار کی زیارت کر کے پھر گھر آتے ہیں۔ جب دلہن کو اتارا جاتا ہے تو سہیلیاں یا قریبی رشتہ دار کنوار کے بازوں کو پکڑ کر چلتے ہیں ۔ دروازے پر جا کر رک جاتے ہیں۔ دلہن دروازے کی موہاڑی پکڑ کر رک جاتی ہے۔ اس رسم کو بو با نیادی یا موباڑی نہاری کہا جاتا ہے۔ پھر دلہا کا والد یا بڑا بھائی آگے آکر کہتا ہے کہ میں فلاں گائے بھیں، بکری آپ کے نام کرتا ہوں ۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر نقدی کی صورت میں دلہن کو راضی کیا جاتا ہے۔ پھر کنوار کو پیج پر بیٹھا دیا جاتا ہے جو پہلے سے تیار کرائی ہوتی ہے۔ پیج کوپھولوں اور کلیوں سے سجایا ہوا ہوتا ہے پھر گھر والے اور قریبی رشتہ دار منہ دیکھنے آجاتے ہیں جسے منہ دکھائی کا نام دیا
جاتا ہے۔
منہ دکھائی یا گھنڈ کھلائی:
جو بندہ پیسے دیتا ہے کنوار اسے منہ بھی دکھاتی اور علیک سلیک بھی کرتی ہے۔ جو پیسے نہیں دیتا اسے منہ نہیں دکھاتی ، یہ رات گئے تک شغل میلہ لگا رہتا ہے۔ گھوٹ کو کنوار اس وقت تک منہ نہیں دکھاتی جب تک وہ اسے اچھے بھلے پیسے نہ دے۔ دلہن کی گود میں اکثر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ رسم اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جھولی کو ہرا بھرا کر دے اور اسے نیک اولاد سے نوازے۔ دوسرے دن ولیمے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد نیند روصول کی جاتی ہے لوگ تھے طائف بھی دلہن کو دیتے ہیں۔ اس سے میزبان کا خرچے کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اور شادی میں شریک ہونے کا ثبوت بھی ہوتا ہے کہ فلاں رشتہ دار نے شرکت کی تھی۔ پہلے تعلیم کم تھی لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں ہوتا تھا پھر نائی اونچی آواز میں کہتا کہ فلاں جگہ سے آئے ہوئے فلاں شخص نے اتنی نیدر، اتنا سلام اور اتنی دیل دی ہے۔ ویل اسی نائی کی ہوتی تھی مگر اب وہ رواج بدلتے جا رہے ہیں اب شادیوں کیلئے شادی ہال اور ہوٹل بنتے جارہے ہیں ۔ دروازے پر دو آدمی کا پی پنسل لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور نیند ر سلام لکھتے جاتے ہیں۔ کھانے سے پہلے یا بعد میں نیندر کی وصولی کی جاتی ہے۔ شادی کے تیرے دن گھوٹ اور سبالے کو کسی دریا کے کنارے یا کنویں کے کنارے یا کسی مسجد کے دروازے پر لے جاکر گانے اُتارے جاتے ہیں اور گانوں کو دریا یا کنویں کے حوالے کر دیتے ہیں اور کچھ رقم بطور صدقہ دیتے ہیں۔
ستو واڑا:
شادی کے ساتویں دن کنوار کی بہن، پہلیاں یا قریبی رشتہ دار عورتیں کھانا پکا کر پھل فروٹ لے کر کنوار کے گھر پہنچ جاتی ہیں ۔ کنوار کئی دنوں کے لیے اپنے ماں باپ کے گھر رہنے کے لیے ان کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ پھر وہاں رشتہ دار محلے دار عورتیں اُس کو ملنے کے لیے آجاتی ہیں۔ مٹھائی کے ڈبے کپڑوں کے جوڑے دیے جاتے ہیں۔ کنوار چاہے سرال گھر ہو یا ماں باپ کے گھر اس وقت تک کام نہیں کرنے دیتے جب تک اس کے ہاتھوں پر مہندی رہتی ہے۔ اُسے معزز مہمان کی حیثیت دی جاتی ہے۔ جب وہ سرال گھر واپس آتی ہے تو والدین اسے کپڑوں کے جوڑے یا کوئی برتنے کی اور چیز ساتھ ضرور دیتے ہیں تا کہ اس کی عزت افزائی ہوتی رہے۔
حق مہر :
نکاح کے وقت شرعی حق مہر مقرر کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی بطور وکیل اور دو آدمی بطور گواہ دلہن کے ہاں بھیج کر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نکاح مسمی فلاں کے ساتھ کیا جا رہا ہے ، آپ کو منظور ہے عموماً وہ کہہ دیتی ہے کہ میراوارث میرا باپ ہے وہ جو بھی فیصلہ کرے گا مجھے منظور ہو گا ۔ حق مہر کی مقرر کی ہوئی رقم اسی وکیل کے ہاتھ بھیج دی جاتی یا پھر جب دلہا دلہن کے پاس جاتا ہے تو وہ رقم ادا کر دیتا ہے۔ کوئی کوئی چالاک خاوند معاف بھی کرا لیتے ہیں یاپھر ادھار بھی کرالیتے ہیں۔ مگر یہ غلط ہے۔ یہ حق شرعی ہوتا ہے اسے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
جهیزپہلے زمانے میں یہاں جھیز کا اتنازیادہ رواج نہیں تھا۔ تھوڑا بہت جو کچھ ہوتا دے دیا جاتا مثلاً چار پائی کٹر ا ، دو جوڑے کپڑوں کے، چند برتن، دیگڑی، تھالی کنی ، پچھی، لوٹا استاوا چکی ، ایک دو پڑچھے جو نگین ہوتے تھے۔ ایک مصلی وغیرہ چاندی کے زیور جسے ” کا ہنے” کہا جاتا ہے۔ چیلکاں کنگن، پو یا مندری، چھلہ، پازیباں ، گانی ہسی وغیرہ سونے کے زیوارت کم ہوتے تھے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ رسمیں بھی بدل رہی ہیں اب تو سامان کے لیے دو تین کمرے بھی کم پڑتے ہیں۔ مثلاً فریج، ٹی وی ، بیٹی ،سیف الماری ، پلنگ، رضا عیاں لکھیں، کمیل پسرہانے حتی کہ موٹر سائیکل اور کار تک دیے جاتے ہیں۔ اس رسم سے اب غریب لوگوں کے لیے بیٹیوں کی شادی کرنے ، اُن کے ہاتھ پہلے کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لڑکیاں اوور ایج ہو جاتی ہیں۔ مگر جہیز نہیں بن سکتا۔ کچھ مخصر حضرات آگے بڑھتے ہیں۔ کہیں کہیں اُن غریب لوگوں کی امداد ہوسکتی ہے۔ ورنہ دیکھا دیکھی اس رسم پر پورا اتر نا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ غریب احساس کمتری میں مبتلا ہو کر نفسیاتی مریض بنتے جارہےہیں۔
بیوہ کا نکاح:
شرعی طور پر تو بیوہ سے نکاح کرنا ثواب ہے مگر یہاں زیادہ تر نفسیات ہندوستانی ہے۔ یہاں بیوہ سے نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ عورت والوں کی طرف سے بھی اور مرد والوں کی طرف سے بھی بیوہ اور رنڈوے کی زندگی میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ والدین فوت ہو جاتے ہیں۔ بھائی ساتھ نہیں دیتے اس لیے اسے یا تو اور لوگوں کے گھر معمولی اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس لیے حکم ہے کہ بیوہ عورت اور رنڈ وامرد کا فوراً نکاح کر دینا چاہیے۔ ہوہ اگر اچھے کپڑے پہن لے یا میک اپ کرے تو اس پر انگلیاں اُٹھا نا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی لیے عورت چونکہ خود مختیار ہوتی ہے اُسے نکاح کر لینا چاہیے۔ طلاق اس علاقہ میں طلاق دینے کا رواج بہت کم ہے۔ چونکہ طلاق دینا یا لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی کہیں طلاق کا مسئلہ ہو تو خاوند تین کنکریاں ہاتھ میں لے کر ایک ایک کنکری اپنی بیوی کی طرف پھینک کر کہتا ہے کہ میں نے تجھے طلاق دے دی ہے۔ ان الفاظ کو دو آدمیوں کا سننا ضروری ہوتا ہے۔ دو آدمی بطور گواہ ہوتے ہیں۔ مگر اب طریقہ کار بدل چکا ہے۔ اب عرضی نویس کے پاس جا کر اشنام لکھوانا پڑتا ہے اور اس کی تین عدد نقول یونین کونسل میں جمع کرانی پڑتی ہیں۔ یونین کونسل کے ملازم ہر ماہ ایک نقل عورت کے گھر بذریعہ ڈاک بھجواتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ رسم نہیں ہے بلکہ حکومت وقت کا قانون ہے اس پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے۔
پیدائش کی رسمیں:
شادی کے بعد بچے کی پیدائش فطری بات ہے۔ سال تک بچہ پیدا نہ ہو تو لوگ محسوس نہیں کرتے ورنہ تشولش پیدا ہو جاتی ہے۔ خاص کر بوڑھی عورتیں شک کرنے لگ جاتی ہیں کہ خدانخواستہ لڑکی کو کوئی تکلیف نہ ہو، تو پھر ٹوٹکے شروع ہو جاتے ہیں، درباروں پر منتیں مانی جاتی ہیں، کوئی دربار کے ساتھ درخت ہو تو اس کی شاخوں پر گھنگرو، رومال ،سگیاں کھلونے باندھے جاتے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہو جائے دربار پر جا کر مجاور کو پیسے، بکرے یا کوئی اور چیز جیسے مرغی ، انڈے وغیرہ دے کر اسے راضی کیا جاتا ہے اور اپنی باندھی چیز اتار کر کسی کنویں یا دریا میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ کسی حساب دان سے حساب کروانا پھل دھا گے تعویذ لینا عام بات ہوتی ہے۔ دعا میں منگوانا ، صدقہ دینا خاص کر نندوں کو فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں لڑکی بانجھ پن کا شکار نہ ہو علاج معالجہ کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالی اولاد سے نوازتا ہے تو پھر گھر میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ لڑکی کے پیدا ہونے پر زیادہ خوشی نہیں منائی جاتی کیونکہ ان کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ دھیاں پر ایا دھن ہوتی ہیں یعنی انھوں نے دوسرے کے گھر بیاہ جانا ہوتا ہے اور کوئی علم نہیں کہ اس کا نصیب کیا ہوگا۔ اس پریشانی کی وجہ سے زیادہ خوشی نہیں منائی جاتی ۔ مگر جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو پھر کئی طرح کے جشن منائے جاتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو فورا علم ہو جاتا ہے کہ فلاں کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے وہ اپنے طلبچیوں کو ساتھ لے کر آدھمکتا ہے۔ ناچ گانوں کے ساتھ انعام وصول کرتا ہے۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ باپ کے کپڑوں پر لال رنگ قریبی دوست رشتہ دار انڈیلتے رہتے ہیں تا کہ علم ہو جائے کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ جب بچہ پیدا ہونے کے دن قریب آتے ہیں۔ بوڑھی عورتیں بچوں کو اکٹھا کر کے کہتیں ہیں کہ گھر کی چھت پر لائی ہے یا کان یعنی بچے لالی کہیں گے تو سمجھا جاتا ہے کہ بچی پیدا ہو گی اگر کاں کہیں گے تو سمجھا جائے گا کہ لڑکا پیدا ہو گا لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں نمایاں دانیاں ہوتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ علم نہیں اسکا اگلا گھر کیسا ہوگا اس لیے ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ لڑکے اگر ننگے پاؤں بھی پھر رہے ہوں تو اسے عار نہیں سمجھا جاتا مگر لڑ کی کہ سر پر دو پٹہ بھی مل جائے تو اپنے تو اپنے پرائے بھی محسوس کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
سو تبدیل کرنا:
اگر کسی عورت کے ہاں متواتر بچیاں پیدا ہونے لگ جائیں تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا پھر اس عمل کو تبدیل کرنے کیلئے مختلف ٹو سکے ہونے یار کمیں ادا کرنے لگ جاتے ہیں، اسے سو تبدیل کرنا کہتے ہیں مثلاً عورت کو کالے گدھے پر سوار کر کے اس کا منہ پیچھے کی طرف کر لیتے ہیں۔ گھر کے ارد گرد چکر لگواتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ آئند ولڑ کا پیدا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ کسی عورت کے بچے چھوٹی عمر میں مرنے لگ جائیں تو بچے کے پیدا ہوتے ہی دائی باہر آ کر کہتی ہے کہ اس کے ہاں گدھے کا بچہ پیدا ہوا ہے۔ ان کا گمان ہوتا ہے کہ بچوں کو کسی کی نظر لگ جاتی
ہے اسی وجہ سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔تریکل کسی عورت کے ہاں متواتر تین لڑکیاں پیدا ہو جا ئیں تو اُسے تریکل کہا جاتا ہے۔ اگر تین لڑکیوں کے بعد لڑ کا پیدا ہو جائے تو اسے نحوست خیال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کا والد فوت ہو جائے گا۔ یا خود لڑکا مر جائے گا۔ تو اس محوست کو ختم کرنے کے لیے ایک تانبے یا جست کی تھالی لے کر اسے درمیان میں چھید کر کے کوڑے کرکٹ پر پھینکا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اب محوست مختم ہو جائے گی۔
کھٹی پلانا :
بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے منہ میں دودھ ، رس چکی یا کوئی ایسی چیز ڈالنا جس کو وہ آسانی سے نکل جائے اسے گھٹی کہتے ہیں۔ یہ رسم بچے کے کردار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور گھٹی پلانے کے لے بوڑھی معزز اور باکردار عورت کو تلاش کیا جاتا تا کہ بچہ بڑا ہو کر با کردار ہے جو بچے شرارتی یا ضدی ہوں تو پھر کہا جاتا ہے کہ اس کو گدھی کے دودھ کی گھٹی پلائی گئی تھی۔ یا کبھی ماں کو غصہ آئے تو کہہ دیتی ہے کہ تجھے زہر کی گھٹی پلا دیتی تو آج سیہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ مگر ماں دل سے ایسی باتیں کبھی بھی نہیں کہتی ، نہ ہی اس کی فطرت میں شامل ہے بس فقط غصہناتارنے کے لیے ایسا کہہ دیتی ہے۔
اذان دینا:
بچہ پیدا ہونے کے تین دن بعد اسے نہلایا جاتا ہے۔ پھر علاقہ محلہ کے مولوی صاحب کو بلایا جاتا ہے کہ وہ اس کے کان میں آذان دے ۔ کیونکہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اس لیے اس کے کان میں آذان دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مولوی صاحب باوضو ہو کر بچے کے دونوں کانوں میں آہستہ آہستہ اذان دیتا ہے۔ پھر مولوی صاحب کو انعام دیا جاتا ہے جسے کھیوا” کہتے ہیں۔ انعام کے طور پر آٹے کی بڑی چنگیر اس کے اوپر دو چار پیسیاں گڑ کی رکھ کر کسی صاف ستھرے کپڑے سے ڈھانپ کر اسے دیا جاتا امیر آدمی تو بھیڑ بکری بھی ساتھ دے دیتے ہیں۔
عقیقہ:
بچے پیدا ہونے کے ساتویں دن چودھویں دن یا پھر اکیسویں دن دوستوں رشتہ داروں محلے داروں کو بلا کر کھانا کھلایا جاتا ہے۔ کوئی بڑا چھوٹا جانور ذبح کیا جاتا ہے اور اس کے تین حصے کیے جاتے ہیں۔ ایک حصہ گھر کے لیے۔ دوسرا حصہ دھیاں دھیڑیں ” کے لیے اور تیسر انتقسیم کرنے کے لیے کبھی ایسے کچا گوشت بھی تقسیم کیا جاتا ہے جسے ” کچی ونڈی” کہتے ہیں کوئی اسی دوران ختنہ بھی کروا دیتے ہیں۔ ان موقعوں پر دائی کا ہونالازمی قرار پاتا ہے کیونکہ اس کو بھی مکھیواد یا جاتا ہے۔
رسم ختنہ:
کچھ لوگ بچوں کا ختنہ جلدی کر دیتے ہیں اور کچھ دیر سے کرتے ہیں۔ ختنہ کرنے کے موقع پر با قاعدہ شادی کا سماں ہوتا ہے۔ اسی طرح ختنہ کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے۔ کا نڈھے دیے جاتے ہیں، کھانا کھلایا جاتا ہے۔ نیندر سلام وصول کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح گانا سہرا باندھا جاتا ہے ۔ رات کو سہرے گائے جاتے ہیں۔ ختنے والے دن بچے کو دروازے کے سامنے کسی ”سانڈک“ جو آئے گوندے کا بڑا سا مٹی کا برتن ہوتا ہے یا پھرسنٹر کوٹا جو سائنڈک سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے، اسے نیچے پیسے رکھ کر بٹھایا جاتا ہے ۔ پھر ختنہ کرنے والا جسے ” پرا ئیں ” کہا جاتا ہے، بچے کا ختنہ کرتا ہے۔ ختنہ کرنے کے بعد نیچے رکھے ہوئے پیسے اٹھا لیتا ہے۔ پھر مبارکوں کا دور چلتا ہے، ویلیں دی جاتی ہیں۔ ڈھول ، توتی ، شرنا سے ماحول گرمایا جاتا ہے۔ سارا دن اس خوشی میں گذر جاتا ہے۔ بچے کو جو سلامی دی جاتی ہے اسے تپا سے کہا جاتا ہے۔ مگر اب ختنہ ڈاکٹروں ہی سے کروا لیتے ہیں۔
رسم جھنڈ:
بچہ جو اپنے ساتھ بال لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسے جھنڈ کہتے ہیں ۔ یہ بال بڑے نرم و نازک ہوتے ہیں۔ ان کو اتر وانے کے لیے کسی قابل نائی کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ لیہ کے لوگ بڑے عقیدتمند ہیں کسی نہ کسی پیر کو ضرور مانتے ہیں اور ان کی بیعت ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس کے دربار پر جا کر بچے کے بال اتروانا ثواب سمجھتے ہیں۔ وہاں جا کر بال اتار کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی یا سونا مجاور کو دے دیتے ہیں۔ امیر آدمی تو وہاں کھانا بھی پکاتے ہیں۔ اپنے ساتھ کوئی گھٹا، بکرالے جا کر پکاتے ہیں اور ساتھ مہمان ہوتے ہیں۔ ان کو بھی کھلاتے ہیں پیر صاحب کے گھر بھی بھیج دیتے ہیں۔ اس رسم کو شد مانہ یعنی شاد مانہ کہتے ہیں اور یہ شادمانہ ہر سال اسی تاریخ کو دربار پر جا کر منایا جاتا ہے۔
رسم و همون :
رسم دهمون بچے کے ایک سال کی عمر پوری ہونے پر منائی جاتی ہے۔ جسے آج کل سالگرہ کہتے ہیں۔ سالگرہ تو ہر سال منائی جاتی ہے مگر یہ پہلے سال منائی جاتی ہے۔ اس رسم میں قریبی رشتہ دار عورتیں محلہ دار عورتیں بلائی جاتی ہیں۔ جو اور آٹے کی روٹیاں پکائی جاتی ہیں جیسے ” ڈالا ” کیا جاتا ہے موٹی موٹی روٹیاں جیسے "من” کہا جاتا ہے، کبھی میوہ جات کے ساتھ بنائی جاتی ہیں۔ جو کہ کافی مقدار میں ہوتی ہیں۔ پھر ان کو اکھلی مولھا یعنی لکڑی کے بنے ہوئے برتن میں باریک باریک کوٹا جاتا جسے ”چوری” کہا جاتا ہے۔ پھر اس چوری کے اوپر گڑ سے بنائی ہوئی اپت ڈالی جاتی ہے۔ گھر آئے ہوئے مہمانوں کو گرم گرم پیش کی جاتی ہے۔ دیہات کے لوگوں کی بڑی ہی مرغوب ڈش ہے۔ یہ بڑی طاقت ور خوراک ہے، لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
ڈاون کین:
جب بچہ چلنا شروع کرتا ہے تو پہلے پہلے ٹھیک طرح سے نہیں چل سکتا۔ چلنے لگتا ہے تو پھر گر جاتا ہے، پھر اٹھتا ہے، چلنے کی کوشش کرتا ہے، پھر گر جاتا ہے۔ یہ رکا وٹیں دور کرنے کے لیے یہ رسم ادا کی جاتی ہے جسے ڈاوان کین کہا جاتا ہے کہ اسے ڈاون ہیں وہ اسے صحیح طریقے سے چلنے نہیں دے رہے۔ ڈاون دونوں ٹانگوں کو کسی رہے سے کھلا کر کے باندھ دینے کا نام ہے۔ اکثر ان جانوروں کو ڈاون باندھا جاتا ہے جو ذرا شرارتی قسم کے ہوتے ہیں تا کہ وہ دوڑ نہ سکیں تو ڈاون کاٹتے وقت ماموں بچے کی ٹانگوں کے درمیان کلہاڑی یا چھری سے نیچے ایسے مارتا ہے
جیسے کوئی چیر کاٹ رہا ہوں ۔ جب یہ رسم ادا ہو جاتی ہے تو گھر میں پکے موٹے آٹے کے پکائے ہوئے من جو گھی، گڑ، میوہ جات سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں انھیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ من پکانے والی عورت کو لکھیواد یا جاتا ہے۔ آخر پر دعا مانگی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اس کے بچے کو کوئی مشکل وقت نہ دکھائے اور یہ ہمیشہ ایسے دوڑتا کھیلتا نظر
آئے۔
رسومات مرگ:
ایسی رسمیں جو انسان کے مرنے پر ادا کی جاتی ہیں انھیں رسومات مرگ کہا جاتا ہے۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں جوڑنا، کھابی باندھنا، غسل دینا، نماز جنازہ ادا کرنا قبرستان میں میت لے جانا، کفن دینا، دفن کرنا ، کوڑی روٹی کا انتظام کرنا قبل خوانی کرانا جمعرات کرانا یا کرنا ختم شریف پڑھنا، وغیرہ یہ رسومات ایسی ہیں کہ جس میں قریبی رشتہ دار محلے دار دوست احباب سب شامل ہوتے ہیں۔ یہ رسومات مرنے والے کے کردار کو اجاگر کرتی ہیں۔ کیونکہ مرنے والا تو چلا جاتا ہے مگر اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے اسی لیے اس کی یاد میں یہ رسمیں بڑےاہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ مرنے سے چند لمحے پہلے:خدانخواستہ جب آدمی کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو آخری وقت اسے سکرات لگتی ہے، یعنی روح پرواز کر رہی ہوتی ہے۔ تو اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اسے سکرات لگی ہوئی ہے تو پھر قریبی مرد عورتیں اس کے سرہانے بیٹھ کر درود شریف ، کلمہ شریف زور زور سے پڑھنے لگ جاتے ہیں، تا کہ وہ انھیں سن کر وہ بھی کلمہ شریف پڑھنے لگ جائے اور موت آسان ہو جائے۔ اگر پھر بھی مشکل آسان ہوتی نظر نہ آئے تو کسی حافظ قاری صاحب کو بلا کر قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پڑھی لکھی عورتیں اور مردسورہ یسین پڑھنے لگ جاتے ہیں تا کہ اس کی مشکل آسان ہو جائے اور آخری وقت زبان پر کلمہ شریف جاری ہو جائے ۔ نیک اور صالح لوگوں میں اس کا شمار ہو جائے ، جو آدمی مرتے وقت کلمہ شریف پڑھ لیتا ہے اسے جنتی سمجھا جاتا ہے۔
ہاتھ پاؤں جوڑنا :
جب انسان کی روح پرواز کرنے لگتی ہے، تو اس وقت تھوڑا بہت خون چلتا رہتا ہے۔ اعضاء نرم ہوتے
ہیں تو وارث فوراً اس کے ہاتھ پاؤں جوڑ نا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹانگیں سیدھی کر کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں کو کسی دھا گے یا کپڑے کی نیکی سے لویر کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، تا کہ ٹیڑھی میڑھی ٹانگیں نہ ہو جا ئیں اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں کی پتیوں کو سلا دیا جاتا ہے۔ تا کہ کھلی نہ رہ جائیں ۔ آنکھیں کچھ دیر تک زندہ رہتی ہیں اور کھلی رہتی ہیں۔ ان کو بار بار بند کیا جاتا ہے تا کہ آنکھیں بند ہو جائیں۔
کھابی باندھنا: ٹانگوں اور آنکھوں کو درست کر کے پھر منہ کے نیچےٹھوڑی کے نیچے کپڑا رکھ کر سر کے پچھلی طرف گانٹھ دی جاتی ہے، جسے کھابی کہتے ہیں تا کہ منہ کھلا نہ رہ جائے ، با امر مجبوری ہاتھ پیر یا منہ کو نہیں باندھ سکتے تو ورثاء پر وسیب کا بڑا دباؤ ہوتا ہے کہ شاید اس کی کثیر نہیں کی گئی۔ اس کا کوئی ولی وارث نہیں تھا یا اولا د بے فرمان تھی جنھوں نے اس کا خیال نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔
غسل
جب آدمی فوت ہو جاتا ہے تو پھر کچھ آدمیوں کو بھیج کر رشتہ داروں دوستوں کو اطلاع کر دی جاتی ہے کہ فلاں دن فلاں وقت اس کا نماز جنازہ ادا کیا جائے گا۔ اطلاع دینے والوں کو خابرو کہا جاتا ہے مگر اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اب مسجد میں جا کر لوڈ سپیکر پر اعلان کیا جاتا ہے یا موبائل کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے۔ لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں تو پھر میت کو غسل دینے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ کسی ایسی جگہ پر جہاں آنا جانا کم ہو ایک چار پائی کے سائز کا گڑھا کھودا جاتا ہے اس کے اوپر چھ ساڑھے چھ فٹ کا بنا ہوا پھٹا رکھا جاتا ہے۔ پانی گرم کر کے اس میں بیر کے پتے چھوڑ دیے جاتے ہیں ۔ میت کو پھٹے پر لیٹا کر چاروں طرف چار پائیوں سے پردہ کیا جاتا ہے پھر نیم گرم پانی سے پہلے میت کو وضو خشک مٹی کے روڑوں سے استنجا کیا جاتا ہے پھر میت کو غسل دیا جاتا ہے۔ مسل دیے جانے کے بعد اسے کفن پہنا یا جاتا ہے اور کفن کے اوپر مٹی سے یا کر بلا سے لائی ہوئی خاک شفاء سے کلمہ طیبہ لکھا جاتاہ پھر اس کے اوپر برادری والے کپڑااوڑ ھتے ہیں جس او چھاڑ کہا جاتا ہے۔ مرد ہونے کی صورت میں میت کو نسل ماں اور عورت ہونے کی صورت میں غسل ملوانی دیتی ہے۔
اوچھاڑ :
قریبی رشتہ دار دوست سوا دو گز کا کپڑا ڈالتے ہیں جسے اوچھاڑ کہا جاتا ہے اور پھر سبز رنگ کی ایک بڑی چادر جس پر قرآن مجید کی کچھ آیات نکلی ہوئی ہوتی ہیں وہ اکثر امام مسجد کے گھر ہوتی ہے منگوا کر اوڑھا دیتے ہیں اور کفن پر عطر ڈالا جاتا ہے۔ یا کافور کی نکیالیکر کفن کے او پر ملی جاتی ہیں تا کہ میں نہ آئے۔
نماز جنازہ:
غسل دینے کے بعد میت کو چار پائی پر لٹایا جاتا ہے، اوچھاڑ وغیرہ ڈالنے کے بعد چار پائی کو جنازہ گاہ لایا جاتا ہے۔ جنازہ گاہ میسر نہ ہونے کی صورت میں کسی خالی جگہ بشرط کہ پاک صاف ہو لے جایا جاتا ہے۔ تین بار جناز در رکھا اور اٹھایا جاتا ہے، کلمہ شہادت کا ورد ہوتا ہے۔ باری باری لوگ میت کو کندھا دیتے ہیں جسے تین ثواب سمجھا جاتا ہے۔ آگے آگے نعت خواں یا قاری صاحب نعتیں اور قرآن مجید پڑھتے جاتے ہیں۔ پیچھے لوگ پیدل چلے آتے ہیں اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ غسل کے بعد میت کو گھر واپس نہیں لوٹا یا جاتا اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ میت کو کسی سائیڈ پر رکھ کر عورتوں کو منہ دکھلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مردمیت کا منہ دیکھتے ہیں۔ نماز جنازہ مولوی صاحب پڑھاتا ہے۔ نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے مولوی صاحب اعلان کرتا ہے کہ اگر کسی نے اس سے پیسے وغیر ہ لینے ہوں تو وہ ورثاء سے وصول کر سکتا ہے۔ اگر چھوٹی موٹی غلطی ہو گئی ہو تو معافی کی درخواست ہے۔ یہ اعلان ورثاء کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ جنازہ کے بعد ورثاء میں کوئی آدمی اعلان کرتا ہے کہ ” کم کار آلیاں کوں رخصت عام”۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے کام کرنے ہیں تو وہ جاسکتے ہیں اسے رخصت عام کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر قبرستان نزدیک ہو تو قریبی لوگ میت کو اٹھا کر قبرستان کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اگر دور ہو تو پھر کسی سواری کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالی یاڈالہ وغیرہ۔
دفن اور اذان :
قبر بنانے والوں نے پہلے ہی قبر تیار کر رکھی ہوتی ہے۔ قبر کے ساتھ چار پائی رکھ کر میت کو ایسے اٹھایا جاتا ہے کہ میت کو تکلیف نہ تمیمن اوچھاڑ ا تار لیے جاتے ہیں۔ ایک کو سر کے نیچے، دوسرے کو کمر کے نیچے اور تیسرے کوٹانگوں کے نیچے رکھ کر چھ بندے او پر اٹھاتے ہیں اور نیچے سے چار پائی نکال لی جاتی ہے دو آدمی قبر میں اتر جاتے ہیں وہ میت کو بڑے آرام سے نیچے اتارنے میں کچھ مٹی کے روڈوں پر کلمہ شریف درود شریف کو پڑھ کر میت کے سرہانے رکھ دیتے ہیں اور کچھ لوگ خاک شفاء بھی ساتھ رکھ دیتے ہیں۔ سر کے سیدھ میں ایک کا نا کھڑا کر دیا جاتا ہے تا کہ قبر کی صحیح شناخت ہو سکے پھر قریبی لوگ قبر پر مٹی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب مٹی پوری ہو جاتی ہے، اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ میت کا منہ قبلہ کی طرف ہو پھر مولوی قبلہ شریف کی طرف منہ کر کے اذان دیتا۔ اس کے بعد چھوہارے یا کوئی دوسری مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔ یادر ہے کہ سارے اوچھاڑ ا تار لیے جاتے ہیں اوچھاڑوں کی تعداد ناک میں ہوتی ہے۔ تین، پانچ یا سات جوقبر کھودنے والے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ قبر کا منہ گھڑوں یاپلیٹوں سے بند کیا جاتا ہے۔ جو لوگ میت کو دفنا کو واپس آتے ہیں انھیں ” کہاری“ کہا جاتا ہے۔
کوڑی روٹی:
کہاری جب واپس میت والوں کے گھر آتے ہیں تو پہلے وہ کوئی ترپال در یاں یا پڑ اچھے وغیر ہ بچھا دیتے ہیں ۔ کہاری وہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں، پھر میت کے لیے دعا مانگی جاتی ہے۔ انھیں جو روٹی کھلائی جاتی ہے، اسے کوڑی روٹی کہا جاتا ہے۔ کوڑی روٹی کا انتظام برادری والے مل جل کر کرتے ہیں۔ اکثر چاول پکائے جاتے ہیں۔ دوسرے دن گھر والے نہاتے اور کپڑے دھوتے ہیں اور گھر میں دھونی دکھائی جاتی ہے۔ تین دن تک میت کے کمرے میں دیے روشن کیے جاتے ہیں مگمان کیا جاتا ہے کہ روح تین دن تک اپنے گھر کا چکر لگاتی رہتی ہے۔ تین دن کے بعد ختم شریف کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے ” قل خوانی“ کہا جاتا ہے۔
قل خوانی:
مرگ کے تیسرے دن ختم شریف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نعت خوان علماء کو دعوت دی جاتی ہے۔ تین دن تک مرگ والوں کو رشتہ دار محلے دار کھانا نہیں پکانے دیتے۔ کھانے کا انتظام وہ خود کرتے ہیں۔ قل خوانی والے دن سب دور نزیک کے دوست رشتہ دار شریک ہوتے ہیں۔ علماء کرام موت پر گفتگو کرتے ہیں ، اصلاحی تقریریں ہوتی ہیں۔ خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ پھل فروٹ، چاول، گوشت ، روٹی وغیرہ تقسیم کی جاتی ہے۔ میت کے برتنے کی چیز میں مثلا مصلی ، کپڑے ، جوتے کھیں، سرہانے برتن جیسے لوٹا پلیس وغیرہ نسل دینے والے کو دی جاتی ہے۔ بڑے لڑکے کو پک بدھوائی جاتی ہے۔ بیوہ کو جوڑے دیے جاتے ہیں۔ پک کا مطلب کہ اب کنبے کا سر براہ اس کا بڑا بیٹاہوگا۔ عورتیں متوفی کی بیوہ اور بیٹوں کو گلے لگ کر روتی ہیں۔ جیسے ” مکان کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔ مولوی صاحب آخر پر متوفی کے لیے دعا مانگتا ہے۔ آنے والی جمعرات تک لوگوں کا آنا جانا لگا رہتاہے۔
جمعراتیں:
قل خوانی کے بعد جو بھی پہلی جمعرات آتی ہے۔ اس دن ختم شریف کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ساتھ خیرات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس طرح تین، پانچ یا سات جمعراتیں کی جاتی ہیں۔ ہر جمعرات پر خیرات اور ختم شریف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کو ایصال ثواب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد بیسواں، چالیسواں اور سال کے بعد جو خیرات کی جاتی ہے اسے ورھیٹر اں“ کہا جاتا ہے۔
بارش نہ ہونے کی صورت میں رسومات:
جب گرمیاں زیادہ پڑنے لگ جائیں جو برداشت سے زیادہ ہوں تو پھر لوگ مختلف رسموں کا سہارا لیتے
ہیں مثلاً نماز استسقاء، انفرادی نماز ، مکوڑے کو الٹالٹکا دینا، مسجدوں میں دعا ئیں منگوانا، خیراتیں کرنا ، ڈ ڈبڑ کا نا،
گڑیاں جلانا وغیرہ وغیرہ
نماز استقاء:
کسی خالی میدان میں جا کر امام کے پیچھے با قاعدہ نماز ادا کرتے ہیں۔ قبلہ منہ کر کے امام کے پیچھے بازوؤں کو آگے سیدھا کر کے ہاتھ الٹے کر کے دعا مانگتے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات اس دعا کو منظور فرما کر بارش
دے دیتی ہے۔یا ہم چندہ اکٹھا کر کے خیرات کی جاتی ہے۔ جہاں بڑے ایسا کام کر رہے ہوتے ہیں وہاں بچے پیچھے
نہیں رہتے وہ بھی اپنا حصہ ضرور ملاتے ہیں مثلاً ڈڈ بڑ کا نا گڑیاں جلانا وغیرہ۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے