لیہ کی ثقافت

ضلع لیہ کے مضافات میں اہم بستیاں

منظور بھٹہ

من حیث القوم ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم تاریخ صرف اور صرف اس آدمی کی لکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں جو چند سلح افراد ساتھ لے کر لوٹ مار پر نکل پڑے، وہ ہمارا ہیرو کہلاتا ہے۔ ہمیں ان لوگوں کی تاریخ رٹوا کر ہمارے ذہن کو پراگندہ کیا جاتا رہا ہے اس لیے ہمارے معاشرہ میں امن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ پہلے زمانہ میں بچے کھلونوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ مثلاً گڑیا ہٹی کے بیل ہمٹی کے برتن ہٹی کے گھروندے ہٹی کے پرندے، یا لکڑی کی چیزیں مثلاً، ہل، پنجابی، چار پائی جھولے وغیرہ یہ سب چیزیں امن کی علامات تھیں ۔ مگر اب بچہ جب چلنے پھر نے اور بولنے کی عمر تک پہنچتا ہے اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی تلوار پنج ، کلاشنکوپ ایسے ہتھیار نظر آتے ہیں۔ پلاسٹک کے پسٹل پلاسٹک کی گولیاں چلاتے پھرتے ہیں، کیونکہ ہمارا مائنڈ سیٹ بھی اسی طرح کا بنایا جارہا ہے۔ اسی لیے گھر کے ماحول سے لے کر ملک بلکہ بین الاقوامی سطح تک ہمارا ذ ہن ہماری سوچیں ہمارا کلچر تبدیل کیا جارہا ہے۔ ہمارے پر اس کلچر کو غیر مہذب بنایا جارہا ہے، ہم منفی رحجانات اپناتے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہیں بھی امن نظر نہیں آتا ۔ ایک دوست بر طانیہ گیا عجائب گھر کا وزٹ کیا۔ واپسی پر اس کے تاثرات کچھ اس طرح تھے۔” عجائب گھر کا وزٹ کرنے سے محسوس ہوا کہ پہلے جن قوموں کے ہاتھ میں اسلحہ تھا وہ قو میں اب مفلوک الحال ہیں مگر جن قوموں کے ہاتھ میں روزی روٹی کمانے کے اوزار تھے اب وہ تو میں خوشحال ہیں۔ بقول شہر و تاریخ ہمیشہ قوموں کی لکھی جاتی ہے نہ کہ فرد واحد کی ۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جناب محترم ڈاکٹر مزمل حسین موجودہ پر نسل پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کو اس نے پرانی اور اہم بستیوں کی تاریخ محفوظ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ ایک تاریخی اور دانشورانہ عمل ہے چونکہ قومیں ہی دھرتی کو خوبصورت یا بد صورت بناتی ہیں حکمران تو فقط حکمرانی اور استحصال کے لیے مسلط ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ کسی اور جگہ پیدا ہوتے ہیں کسی اور جگہ تربیت حاصل کرتے ہیں اور کسی اور جگہ حکمرانی کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے رہنما پیدا ہوتے ہیں ۔ بنائے نہیں جاتے۔ ان میں مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے، وہ قوم کی تربیت کر کے انھیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ مشکلات کا مقابلہ کر کے اپنے مستقبل کی راہیں تلاش کر سکیں۔انھیں حکمرانی کرنے کا شوق نہیں ہوتا۔ بلکہ انھیں قوم سے محبت ہوتی ہے تو میں روایات کی پاسبان ہوتی ہیں۔ خاص کر سرائیکی وسیب کی روایات اتنی خوبصورت اور مضبوط ہیں کہ بیرونی حملہ آور بھی اسے نہ مٹا سکے۔ کئی ہزار سال زوال کے باوجود بھی ابھی تک اسی طرح قائم و دائم ہیں۔ یہاں امن محبت خلوص ، رواداری ، نیک نیتی اور عدم تشدد کی روایات با تم موجود ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ ترقی یافتہ قو میں بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں یہاں احترام انسانیت، بزرگوں سے عقیدت ، اپنے ورثے کی حفاظت ان کی شناخت ہے۔ قومی تہوار، عیدین، میلے ٹھیلے، قصے کہانیاں وسیب میں ایک دوسرے کو آپس میں جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس سے انسان میں محبت پیار بھی بڑھتا ہے اور کتھارس بھی ہو جاتی ہے۔ انسان منفی رجحان چھوڑ کر مثبت راہیں تلاش کر ہے ہے ۔ یہاں سرائیکی وسیب میں خوبصورت روایات پہنچنے میں صوفیاء کرام کا بڑا کردار ہے۔ مگر افسوس اب ان خوبصورت روایات کا گلہ گھونٹا جارہا ہے۔ اس لیے نوجوان نسل منتشر و پن کا شکار ہورہی ہے اور بہکی نا اہل حکمرانوں کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وبستی بسنا جہاں آبادی ہو سرائیکی میں بستی کو دوستی” کہا جاتا ہے یعنی جہاں وسواں ہو ۔ دسوں ہشاش بشاش زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ بستیاں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک بستی جہاں عوام اپنی ضرورت کے تحت آباد ہو جاتی ہے۔ اور ایک جاگیردار اپنی ضرورت و مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بساتے ہیں جو جاگیرداروں کی بستیاں ہوتی ہیں وہاں ظلم جبر، بے انصافی اور غلامی کی زندگی ہوتی ہے۔ جاگیر دار اپنی مرضی کے مطابق انھیں زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر جو عوامی بستیاں ہوتی ہیں وہ آزاد، خود مختار اور بھر پور روایات کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ بستیوں میں اکثریت زراعت پیشہ افراد ہنر مند طبقات اور کاروباری لوگ بہتے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے بستیوں میں بارٹر سسٹم کا رواج تھا۔ یعنی چیز کے بدلے چیز ۔ روپے پیسے کی اتنی اہمیت نہ تھی۔ شادی خوشی یا موت فوت کی صورت میں بستی والے ایک دوسرے کا ایک کنبے کی طرح ساتھ دیتے تھے۔ یعنی میزبان کو کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ بچی کا جہیز ہو یا کہ شادی کا اہتمام سارے بستی والے مل جل کر کرتے تھے۔ موت فوت کی صورت میں کئی کئی دنوں تک مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام، رہائش کا بندوبست گھر والوں کا ہر تمی خیال بستی والے اپنا فرض سمجھتے تھے۔ کئی بستیاں تو کاروباری مراکز تھیں تجارتی سامان دور دور تک جاتا تھا۔ دریائے سندھ میں بحری جہاز چلتے تھے۔ ان کے ذریعے یہاں کا تجارتی سامان اور خاص کر لیہ کی مصنوعات مصر تک جاتی تھیں۔ مگر اب دریا سندھ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اور حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی سے اکثر بستیاں دریا برد ہوگئی ہیں۔ تھل کے علاقہ میں چکوک بن گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی کہیں کہیں پرانی بستیاں آباد ہیں۔ کچھہ کے علاقہ میں بھی کہیں کہیں بستیاں آباد ہیں۔ بستیاں اپنی شناخت اور روایات کے ساتھ موجود تھیں اور ہیں جو بستیاں دریا برد ہو گئی ہیں وہ دریائے سندھ اور تھل کے مقام پر اپنے پرانے ناموں کے ساتھ آباد ہیں۔ مگر کچھ بستیاں بکھر گئی ہیں۔ پہلے دور میں بستیوں میں حویلیوں کا رواج نہیں تھا۔ بلکہ بستی والے ایک دوسرے کے محافظ ہوتے تھے۔ ایک گھر کے پیچھے دوسرا گھر، دوسرے گھر کے پیچھے تیسرا گھر آباد ہوتا تھا تا کہ کوئی چور ڈاکو یا کوئی آوارہ آدمی پیٹھ پیچھے دار نہ کر جائے بستی والے ایک کنبے کی طرح رہتے تھے۔ بہن بھائیوں جیسا سلوک ہوا کرتا تھا۔ اس وقت نسل نو کی تربیت اس صبح پر کی جاتی کہ برائی نام کا شائبہ تک نہ رہتا۔ بڑوں کا احترام چھوٹوں پر شفقت اور ہمسایوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جاتا۔ گھر میں چولھا سسٹم ہوا کرتا تھا۔ رات کو ایک کچے کوٹھے کے درمیان چولھا بنایا جاتا۔ اس کے ارد گرد سب گھر والے سردیوں کے موسم میں آگ جلا کر بیٹھ جاتے۔ آگ بھی تاپتے رہتے کھانا بھی کھاتے رہتے۔ قصے کہانیوں اور اقوال زریں سے بچوں کی تربیت بھی کرتے رہتے۔ مثلاً فلاں شخص ہمارا بہت قریبی دوست ہے۔ اس کی اور ہماری زمینیں اکٹھی ہیں ہم بنے شریک ہیں، لہذا اس کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے، فلاں شخص اور میرے باپ نے ایک ماں کا اکٹھے دودھ پیا تھا ہم منہ بولے بھائی ہیں۔ اسے سرائیکی میں چھنیوں شریک” کہا جاتا ہے۔ اسی طرح فلاں شخص نے اور میرے باپ نے یا دادا نے پگڑیاں تبدیل کی تھیں ۔ اسی لیے وہ ہمارے بھائی ہیں وغیرہ وغیرہ اسی طرح قرابت اور پیار ومحبت کا لازوال سلسلہ شروع ہو جا تا تھا ۔ جو کئی نسلوں تک برقرار رہتا۔ اسی طرح اچھے رویے نئی نسل میں منتقل ہو جاتے۔ مگر اب ملھا مسلم کی بجائے پکن سٹم آگیا ہے۔ ایک عورت کھانا بنانے کے لیے کچن میں داخل ہوتی ہے باقی لوگ ٹی وی یا موبائل پر لگے رہتے ہیں۔ اپنی رح تہذیب کو چھوڑ کر دوسروں کی تہذیب اپناتے جارہے ہیں، جہاں اچھے رویوں کا فقدان ہے۔ سرائیکی تہذیب ایک رج تہذیب ہے۔ جہاں پیار و محبت ہر چیز ملاوٹ سے پاک ، دھوکا دہی، ہیرا پھیری، جھوٹ فریب نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ اگر کسی بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو مدعی پارٹی کہہ دیتی کہ مجرم بچے کا والد چا، ماموں یا کوئی قریبی رشتہ دار جو بھی فیصلہ کرے گا ، ہمیں منظور ہوگا ۔ ثالث جب فیصلہ کرتا تو انصاف پہلے اور رشتہ داری بعد میں سامنے رکھتا ۔ پہلے تو اس طرح کے واقعات بہت ہی کم ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی انسان ہونے کے ناطے خدانخواستہ کہیں قتل ہو جاتا تھا۔ صلح کی کوئی صورت نظر نہ آتی تو آخر پر مجرم پارٹی اپنی مستورات ساتھ لے کر ان کے گھر پہنچ جاتے تو پھر مقتول کے وارث فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ۔ وہ کہتے کہ ہماری مائیں بہنیں ، بیٹیاں ہمارے گھر آگئی ہیں۔ ان کو خالی ہاتھ واپس بھیجنا مناسب نہیں یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ ان کے سروں پر دوپٹے رکھ دیے جاتے ، ساتھ ہی قرآن مجید کا نسخہ بطور تحفہ دے دیتے اُن کو دل سے معاف کر دیتے۔ دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ پہلے کی طرح بہن بھائیوں والا سلوک کرتے حتی کہ پرانی رنجش بھلا کر از سرنو رشتہ داری بھی کر لیتے ۔ بستی کے درمیان ایک بڑی کی بیٹھک ہوتی جیسے ” و ساخ” کہا جاتا۔ وساخ وسوں کی علامت کا دوسرا نام تھا۔ جہاں لوگ کام کاج سے فارغ ہو کر اُدھر آجاتے ۔ دن ہو یا رات ایک میلے جیسا سماں ہوتا۔ کیا بوڑھے کیا جوان، بچے سب اس طرح گھل مل کر رہتے ، جیسے ایک کنبے کے فرد ہوں۔ رات گئے تک تھے، کہانیاں کھیل کو دجاری رہتا۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے احوال بھی معلوم ہو جاتے اور پیار محبت میں بھی اضافہ ہوتا، روزانہ ملنے سے سماجی ہم آہنگی مضبوط ہوتی۔ افراتفری اور مادہ پرستی کے باوجود جہاں جہاں بستیاں آباد ہیں، سیہ رویے اب بھی موجود ہیں۔ کچھ پرانی بستیاں جو کہ ضلع لیہ کے مضافات میں موجود تھیں۔ اب وہ اکثر شہر کا حصہ بن چکی ہیں جیسا کہ بستی شاہ نواز بستی شاہ حبیب بستی لکڑ والی بستی بھنگ بستی جعفریہ بستی آرا ئیں ۔ شہر سے دور والی بستیاں اب بھی اسی روایت کے ساتھ موجود ہیں۔ بستی چھتی بودلیاں والی بستی سبانی بستی قاضی ، بستی علیانی، بستی سا ہو والی بستی نور فقیر بستی سیال بستی تھند نشیب بستی وڑا شکوری بستی نوشہرہ، بستی واڑہ سیپڑاں بستی بند والی بستی لسکانی بستی خیر شاہ بستی ودھے والی ، بدھوڈاہر دی وقتی بستی چھینہ بستی در بولی ، بستی کوٹلہ نارنگ سارنگ بستی کو للہ قریشی بستی جکھہ بستی سرائی بستی ترگز پستی میرانی پستی کنل نشیب بستی شاد و خان بستی بھنڈ، بستی جو یہ بستی کنجال بستی چانڈیہ بستی نڑ کی پڑوپی بستی سہارن پستی گٹ بستی ٹھیکن پستی بری کمنگر بستی ہوت بستی چندرائن پستی گٹ بستی معین آباد بستی پنوار ، بستی شفیع آباد، بستی مڑھا والی بستی عنبر آباد پستی تو نگر بستی سیره پستیبھلر بستی گرواں بستی منجھوٹہ بستی سکھانی ہستی پہلاں سیداں والی۔

بستی شاہ نواز :

بستی شاہ نواز شہر یہ کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ بستی ۱۹۶۰ گی سے آباد ہے۔ یہاں حضرت شاہ نواز کا دربار ” ہے یہ اس کے نام سے مسنوب ہے۔ یہاں کے باشندوں کا تعلق کچھ کے علاقہ سے ہے۔ جب دریا سندھ نے بستی علیانی بستی تھند نشیب بستی کنجال اور بستی چانڈیہ کو ہڑپ کیا ۔ تو وہاں کی اکثر آباد لٹی پٹی حالت میں یہاں آکر آباد ہو گئے۔ ایک ظلم یہ ہوا کہ ان لوگوں کی زمینیں دریا نگل گیا۔ دوسری طرف یہاں کے استحصالی طبقہ نے ان سے پیسے لے کر رجسٹریاں ان کے نام کروا دیں۔ قبضہ گورنمنٹ TDA کی زمینوں کا دے دیا۔ یہ سادہ لوح انسان قیمت دینے کے باوجود بھی پریشان ہیں۔ اکثر لوگوں کا پیشہ مزدوری ہے۔ راقم ” کا تعلق ہی بستی سے ہے۔ پہلے یہاں دربار کچی قبر کی شکل میں تھا، مگر اب با قائدہ دربار کا روپ دھار رہا ہے۔ اس دربار کو بہتر صورت میں بنانے میں سجاد حسین شاہ کا کافی کردار ہے۔ اس بستی کے کچھ باثر لوگ اپنے ڈیرے کا نام دینے پر مصر تھے مگر راقم کی کوشش سے بستی کا نام حضرت شاہنواز کے نام سے منسوب اور مشہور کیا گیا۔ یہاں بھٹے کافی تعداد میں ہیں ، اکثر لوگ بھٹوں پر عورتوں اور بچوں سمیت کام کرتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ملازم اور کاروباری بھی ہیں۔ ایک مڈل سکول مردانہ اور ایک پرائمری سکول زنانہ موجود ہے۔ ایک بڑا قبرستان بھی موجود ہے۔ یہاں بھٹہ، بھٹی ، شیخ، کھوکھر، گورمانی، علیانی ، وینس کے قبائل آباد ہیں۔
بستی چھوہن : یہ بستی بھی اب شہر کا حصہ بن چکی ہے ۔ یہاں کی آبادی بھی اکثر مزدور پیشہ ہے۔ پہلے اونٹوں کے ذریعے مزدوری کیا کرتے تھے۔ مگر اب کاروباری بن چکے ہیں۔ اب ٹرک ٹرالر اور ویگنیں نظر آتی ہیں۔ یہاں تعلیمی رجحان بڑھ رہا ہے۔ تعلیم کی طرف توجہ دلانے میں عزیز احمد چھوہن کا کافی کردار ہے۔ جو کہ خود ایجو کیشن سے وابستہ ہیں۔ انتہائی ملنسار اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے سب بچے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ یہاں چھوہن اور ہانس طبقے آباد ہیں۔ ملک ملازم حسین بھٹہ سابق کونسلر ہیں اور اچھے کردار اور ور کر آدمی ہیں۔ بستی معین آباد یہاں کی آبادی زیادہ تر سیبر خاندان بھٹی خاندان ، پنوار خاندان اور کھوکھر خاندان پر مشتمل ہے۔ یہ بھی دریائے سندھ کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ ماسٹر معین الدین سیہڑ کے نام سے یہ بستی مشہور ہے۔ یہاں کی آبادی بھی مزدوری سے وابستہ ہے۔ شوگر ملز لیہ کے قریب ہے اسی وجہ سے اکثر لوگ شوگر ملز میں مزدوری کرتے ہیں۔ ارشاد احمد کھو کھر نامور شخصیت بھی اسی بستی میں رہتے ہیں۔

بستی نوشہرہ:

یہ پانچ ساڑھے پانچ سو سال پرانی ہے۔ یہاں کے بڑے زمیندار سامٹیہ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ خودان زمینداروں نے آباد کروائی تھی۔ یہاں زیادہ تر ماچھی ، جوتے ، سامیلیے ، کمہار اور ملیانی بلوچ آباد ہیں۔ یہ بستی نشیب اور تھل کے سنگم پر آباد ہے۔ یہاں ایک خوبصورت مسجد مغلیہ خاندان کے دور کی نشانی موجود ہے۔ ملک اللہ بخش سامٹیہ ، ملک عطا حسین سامٹیہ نامور تھے۔ ملک ریاض حسین ساملیہ رہنما پی پی پی بڑے روادار اور ملنسار آدمی ہیں۔ یہاں کی بیشتر آبادی مزدور پیشہ ہے۔ محمد افضل سیال نہیں رہتے ہیں۔
بستی سانی کہا جاتا ہے کہ یہاں کئی سو سال پہلے ایک نیک سیرت عورت جس کا نام مائی سبائی تھا رہتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ آبادی بڑھنے لگی ، ہندو برادری کافی تعداد میں آباد تھے۔ ہندو کاروباری تھے۔ یہاں کا تجارتی سامان اونٹوں پر دور دور تک جایا کرتا تھا، خاص کر ملتان اور پاک پتن تجارت ہوتی تھی۔ یہاں مٹی کے برتن وافر مقدار میں بنائے جاتے تھے۔ برتن پکانے کی نشانیاں یعنی ” آویاں اب بھی موجود ہیں۔ یہاں حکمت اور جراحت مشہور تھی ، اب بھی لوگ ان پیشوں سے وابستہ ہیں۔ یہاں کی اکثر آبادی مزدور پیشہ ہے چونکہ اب مٹی کے برتنوں کا رواج کم ہوتا جارہا ہے لوگوں کا رجحان تعلیم کی طرف ہوتا جارہا ہے۔ یہاں کے لوگ مذہبی رجحان رکھتے ہیں مگراب تعلیم کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی مختم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں کے لوگ شکار کا بھی لگاؤ رکھتے ہیں۔ پیروں کی شناخت کے ماہر ہیں ۔ حتی کہ خرگوش اور تیتر کے پیروں کے نشانات بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں ڈاکٹر محمد صدیق طاہر کے بچے اور حق نو از سواگی کے بچے آگے جا رہے ہیں۔ سواگی صاحب سرائیکی کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ محمد صدیق طاہر تحقیق کی دنیا میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔بستی قاضی اس بستی کا شمار پرانی بستیوں میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ یہ بستی اپنی پرانی روایات سے مالا مال ہے۔ یہاں بڑے بڑے حکماء پیدا ہوئے ، جو مریض کا کپڑا دیکھ اور سونگھ کر مرض کا پتہ لگا لیتے تھے۔ قاضی نور محمد کا نام حکمت کے حوالہ سے بڑا نمایاں ہے۔ قاضی برادری سراج برادری ، شیخ برادری یہاں کی بڑی قومیں ہیں۔ ڈاکٹر سعید احمد سراج یہاں کی معتبر شخصیت ہیں۔ یہاں ضرورت زندگی کی ہر چیز میسر ہے۔ پرویز منیر سرائیکی ادب سے شغف رکھتے ہیں۔ یہاں ہر سال بڑے پیمانے پر مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ فطرت کے قریب ہیں۔ اس لیے ان کے رویے بہت اچھے ہیں۔

بستی تھند نشیب

یہ پرانی بستیوں میں شمار ہوتی ہے، اب دریا برد ہو چکی ہے۔ یہاں کے لوگ محنت کش اور زراعت پیشہ تھے۔ اب دوبارہ آباد ہو رہی ہے۔ اس بستی نے بڑے بڑے نام ور لوگ پیدا کیے۔ نذر حسین سامٹیہ ایک بڑا تخلیق کار شخص ہے، جس نے ملاحوں کی مشکلات کو بھانپتے ہوئے ان کا حل تلاش کیا۔ پہلے ملاح کشتیاں چیوں ، یا نجھ“ کی مدد سے یا پھر بادبان کی مدد سے چلاتے تھے جو کہ ایک صبر آزما کام تھا۔ نذرحسین نے کشتیوں پر پیٹر انجن فٹ کر کے اس کے ساتھ چپوفٹ کر دیے ایک تو ملاح کی محنت کم ہو گئی دوسری منزل پر پہنچنے میں وقت کم لگتا ہے۔ دریا سندھ میں چلنے والی کشتیاں ان کی تخلیق سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ اس کی کئی اور تخلیقات بھی سامنے آئی ہیں۔ سائیکل پر مشین فٹ کر کے موٹر سائیکل کی مانند بنادی ہے۔ اسی طرح کی اور بھی کافی تخلیق سامنے آئی ہے۔ ملک غلام حیدر تھند سابق ضلع ناظم بھی اسی بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے پسماندہ علاقہ سے سیاست کا آغاز کر کے اپنے آپ کو منوایا ہے۔

بستی کنجال:

بستی کنجال پرانی بستیوں میں شامل ہے۔ مگر اب دریا برد ہو چکی ہے ۔ یہاں کے لینے والے اکثر زراعت سے وابستہ تھے۔ ہنر مند اور مزدور پیشہ بھی تھے۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی کنجال قوم پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ سرائیکی ثقافت کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں، میلوں ٹھیلوں سے شغف رکھتے ہیں ۔ گھڑ سواری، بیل دوڑانا کشتی ، دودا ان کے محبوب مشاغل ہیں۔ الہی بخش کنجال گھڑ سواری کا ماہر مانا جاتا تھا۔ اب ان مشاغل کی سر پرستی ڈاکٹر محمد جاوید اقبال کنجال کر رہے ہیں ، جو کہ لوگوں کی تفریح کا بہترین ذریعہ ہیں۔ لوگ جب کام کاج سے تھک جاتے ہیں تو موسم کی مناسبت سے ان مشاغل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بستی وانگه:

بستی واہگہ اب شہر کا حصہ بن چکی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں واہگہ قوم آباد تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے آنے والوں نے جائز نا جائز کلیم اپنے نام ایڈ جست کروا کر یہاں کے بسنے والوں کو بے دخل کر دیا۔ شہر کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے زمینوں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ زمین بیچ کر ان کی نسلیں آرام وسکون سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ مگر جو لوگ پہلے آباد تھے ان کی نسلیں در بدر ٹھو کر میں کھا رہی ہیں۔ اب وہاں واہگہ قوم کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔
اب اس بستی میں شیخ برادری بھٹہ برادری چھینہ برادری اکثریت میں آباد ہیں ۔ مختار احمد چھینہ اور غفور
احمد بھٹہ قد آور شخصیات ہیں۔ سجاد احمد بھٹہ اور طارق امین چھینہ ماہر تعلیم اس بستی میں رہتے ہیں۔

بستی جکھر :

بستی جھکڑ لیہ شہر سے مغرب کی طرف دریا سندھ کے کنارے واقع ہے۔ پہلے دریائے سندھ یہاں سے کافی دور تھا، مگر اب بستی کے نزدیک بھی بہہ رہا ہے۔ ملک قادر بخش جکھر، وزیر زراعت تھے، اسی بستی میں پیدا ہوئے۔ یہ بستی جکھر فیملی نے آباد کروائی۔ یہاں ہر طبقہ کے لوگ رہتے ہیں۔ محنت مزدوری اور زراعت سے وابستہ ہیں۔ ملک فضل حسین جکھر، جو کہ ملک قادر بخش جکھڑ کے داماد تھے، انتہائی ملنسار اور روادار انسان تھے۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ فصل جب تیار ہو جاتی تو ہمسایوں کے گھر کچھ نہ کچھ گندم ضرور بھیج دیتے۔ ان کے دکھ سکھ میں بھی شریک رہتے ۔ ان کے رویے عوامی تھے اور انتہائی مہمان نواز تھے۔ ملک نیاز احمد جکھرہ کئی بار قومی اسمبلی کےممبر بنے ۔ غلام حید ر طاہر جو کہ سرائیکی کے بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کا تعلق بھی اسی بستی سے ہے۔ بستی شاد و خان
بستی شاد و خان شہر لیہ سے شمال مغرب کی طرف تقریباً بیس کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ نشیبی علاقہ کے باوجود کافی ترقی یافتہ ہے۔ یہ بستی شاد و خان جسکانی کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں جسکانی ، جوتے ، اولکھ ، میانی اور موہانے آباد ہیں۔ اس کے آس پاس میلے ، وینس بھٹی بھی آباد ہیں۔بقول نورمحم تھند مورخ تاریخ لیہ جسکانیوں کی رشتہ داری انگریزوں سے بھی تھی۔ محمد رضا جسکانی انگریزدور میں ذیلدار تھے۔ پروفیسر مختیار حسین بلوچ ملیانی بھی اسی بستی کے باسی ہیں۔

بستی جوته:

بستی جو تہ اب شہر لیہ کا حصہ بن چکی ہے۔ شہر سے شمال کی طرف واقع ہے یہ خالصتا عوامی بستی ہے۔ ۱۹۳۰ء میں علی محمد جو تہ جھنگ سے ظالم راجہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہجرت کر کے یہاں پہنچا۔ اس کے چار بیٹے تھے ، خدا بخش ، عبدالرحیم ، عطا محمد اور غلام حسن اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی۔ ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا۔ اس کے پاس مال مویشی کافی تھا۔ اس لیے اس جگہ پر ڈیرہ لگا دیا۔ عبدالرحیم کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام غلام حسین رکھا گیا۔ اس وقت یہ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل تھی ۔ غلام حسین نے چوہیں سال کی عمر میں پہلوانی میں ضلعی تمغہ رستم کا اعزاز اپنے نام کرایا۔ انتہائی خوبصورت اور ملنسار انسان تھا ۔ مگر اس کی شہرت حاسدوں کو ہضم نہ ہو سکی۔ چوہیں سال کی عمر میں ہی پہنچا تھا کہ اسے زہر دے دیا گیا وہ تو فوت ہو گیا۔ مگر اس کا نام اب بھی زندہ ہے۔ اس کی ایک بہن تھی جس کی شادی سعید احمد جو تہ سے کر دی گئی۔ سعید احمد واپڈا میں ملازم ہے۔ بہت ہی ملنسار اور وضع دار انسان ہے۔ اب یہ بستی گنجان آباد بن چکی ہے۔ یہاں کھوکھر ، جوتے ہمراء، سید اور بھی بہت سی قومیں آباد ہیں۔ زیادہ تر ان کا روزی کمانے کا انحصار محنت مزدوری پر ہے مگر کچھ ملازمت پیشہ بھی ہیں۔

بستی مشکوری:

بستی مشکوری دیہات کچھ کے علاقہ میں واقع ہے۔ یہ شہر سے شمال مغرب کی جانب دریائے سندھ کے کنارے اپنی پرانی روایات کے ساتھ آباد ہے۔ یہاں کی زیادہ آبادی کشکوری برادری، وینیس برادری، چھینہ برادری پر مشتمل ہے۔ زراعت اور مزدوری سے لوگ وابستہ ہیں۔ محمد نواز خان کشکوری اور خادم حسین گشکوری نام در شخصیات تھے۔ باقر حسین ماجد جو خادم حسین کشکوری کے فرزند ہیں سرائیکی شاعری سے وابستہ ہیں، ان کا لب ولہجہ اپنا ہے بہت اچھے شعر لکھتے ہیں۔ دیہات کی جتنی بھی بستیاں ہیں ان کے محسن اونچی جگہ جسے سرائیکی میں تھلہ کہتے ہیں۔ بنائے جاتے ہیں تا کہ سیلاب سے محفوظ رہیں۔
بستی جعفریہ بستی جعفریہ اب شہر کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ قدیم بستی ہے یہاں زیادہ تر بھٹی برادری آباد ہے۔ زیادتر ان کا پیشہ سینٹری ورکر ہے ۔ مگر اب تعلیم یافتہ لوگ آگے آرہے ہیں۔ ٹیچر وکیل اور کاروباری بھی ہیں۔ شعیب جاذب ایک نام ور شاعر گزرے ہیں۔ نہری پٹواری تھے، کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کا تعلق اسی بستی سے تھا۔

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com