میلے کا لفظ میل سے نکلا ہے یعنی ” کٹھ اکٹھے ہونے کے لیے مختلف تہوار ۔ مختلف حوالے ہیں جہاں آدمی دنیا جہاں کی مصروفیت کو خیر باد کہہ کر اپنی ذات کے لیے چند لمحے چند گھنٹے چند دن نکالتا ہے تا کہ نفسیاتی طور پر ریلکس ہو سکے ۔ ذہن کا بوجھ ہلکا ہو سکے ۔ اس لیے شکار، کھیل کود، مشاعرے، موسیقی، قوالیاں، عرس ، میلاد، شادیاں، میلے یہ سب انسان کو سکون دینے ریلکس ہونے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا اپنا مزاج، اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ کچھ میلوں کا اہتمام عارضی طور پر کیا جاتا ہے اور کچھ تاریخی میلے ہوتے ہیں۔ جو مستقل طور پر منائے جاتے ہیں عارضی میلے ۔ جیسے جشن بہاراں ، جیب ریلی یا کسی زمنیدار کے ڈیرے پر فنکشن کر کے روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ مستقل طور پر سالانہ میلے جو لگتے ہیں ان میں میلہ بیساکھی میلہ چودھویں، میلہ حسن شیر ، میلہ عنایت شاہ بخاری اور میلہ کوٹ سلطان شامل ہیں۔ ان تاریخی میلوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ میلے کب شروع ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ پہلے درباروں پر علماء کرام واعظ ونصیحت کر کے لوگوں کی تربیت کرتے تھے ۔ پھر آہستہ آہستہ اور مشاغل بھی ساتھ ساتھ شروع ہونے لگے ۔ یعنی جیسے، موسیقی ، قوالی، مشاعرے کھیل کو د پھر سرکس تھیڑ چڑیا گھر موت کے کنویں وغیرہ۔ اب یہ میلے تاریخی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ دور دراز سے لوگ کھینچے چلے آتے ہیں اور ماحول کو انجوائے کرتے ہیں ۔ بازار سجتے ہیں ۔خرید و فروخت ہوتی ہے۔ کیا مردہ عورتیں، بچے ، جوان، بوڑھے بھی شرکت کرتے ہیں۔ بڑے میلوں میں عورتوں کے لیے خاص دن مقرر کر دیتے ہیں۔ جہاں صرف اور صرف عورتیں ہی ہوتی ہیں مردوں کا اس فنکشن میں آنا منع ہوتا ہے۔ میلے علاقہ وسیب کی لوک روایات، تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ مضلع لیہ دو تہائی علاقہ ریگستان پر مشتمل ہے جسے تھل کہا جاتا ہے۔ تھل کے لوگوں کے لیے سواری ، بار برادری کے لیے اونٹ ہی بہترین جانورہے۔ اونٹ کو صحرائی علاقے کا جہاز کہا جاتا ہے۔ اونٹ کے ذریعے یہاں سامان دور دراز علاقوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ کابل، قندھار سے لیکر، بہاول پور کوٹ مٹھن ، پاک پتن ملتان وغیرہ شادیوں خوشیوں کے لیے بھی اونٹ استعمال ہوتے تھے ۔ شادیوں کے موقع پر اونٹ کو زیوروں سے خوب سجایا جا تا تھا۔ جھا مجھریں جھلیں، گا نیاں پہنا کر اسے خوبصورت بنا کر جب ڈھول ، شرنا ہوتی کی دھن پر بارات جاتی تو اس کا ایک منفر د نظار المتا۔ یہ نظار اد یکھنے والوں کا دل موہ لیتا۔ اونٹ کو سواری کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ان میلوں پر اونٹوں کی خرید و فروخت عروج پر ہوتی ہے۔ نقد ادھار پر بھی اونٹ لیے اور دیے جاتے ہیں پیسوں کی وصولی بھی ان میلوں پر کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی نے میلہ کروڑ پر اونٹ ادھار لے لیا۔ وہ اگلے میلے یعنی حسن شیر پر دے گا حسن شیر پر خریدے ہوئے اونٹ یا بچے ہوئے کی وصولی میلہ عنایت شاہ پر ہوگی۔ میلہ بیساکھی ” پہلے تو پورے پنجاب میں جیسا کھی کے میلے بڑے زور شور اور اہتمام سے لگائے جاتے ہیں۔ مگر ضلع لیہ میں دو میلے جیسا کھ کے مہینے میں اپنی مثال آپ ہیں ایک میلہ بیساکھی کوئلہ حاجی شاہ در دوسرا میلہ کوٹ سلطان کسان بیساکھ میں اپنی فصل گندم کی کٹائی شروع کر دیتے ہیں کٹائی سے پہلے جشن منایا جاتا ہے یعنی خوشی کے ساتھ اپنی رادھی ہوئی فصل کو سمیٹا جاتا ہے میلے پر جا کر اپنے آپ کو ریلکس کرنا ، انجوائے کرنا ،خرید و فروخت کرنا ہوتا ہے اور گندم کی کٹائی کے لیے درانتیاں خریدی جاتی ہیں۔ میلہ بیسا کبھی کوٹلہ حاجی شاہ یہ میلہ بیساکھ کی پہلی، دوسری ، اور تیسری تاریخ کو اور اپریل کی گیارہ بارہ ، اور تیرہ تاریخ کو بڑے اہتمام اور جوش و خروش سے منعقد ہوتا ہے۔ یہاں کئی قسم کے کھیل مثلاً دودہ ، کبڈی، کسنی ، پتھر اٹھانا وغیرہ ، کنویں پر بیل دوڑانا ، موت کا کنواں تھیڑ ، سرکس، چڑیا گھر ، چڈول، نیزہ بازی جیسے منظر دل کو موہ لیتے ہیں۔ ریچھ کتے کی لڑائی کشتی خرگوش دوڑ ان کے علاوہ ہیں۔ یہ میلہ تین دن تک رہتا ہے۔ نزدیکی لوگ روزانہ گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر دور دراز سے آئے ہوئے لوگ وہی ڈیرے جمالیتے ہیں ۔ یا تو اپنے کیمپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لاتے ہیں یا کسی دوست رشتہ دار کے گھر مہمان بن جاتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ یہ میلہ زیادہ تر بیلوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ لیہ کے بیل بڑے مشہور ہیں۔ یہاں ان سے کھیتی باڑی بھی کی جاتی ہے ہل چلائے جاتے ہیں کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور بار برداری کے کام بھی آتے ہیں۔ کوٹلہ حاجی شاہ کا میلہ ایک مشہور بزرگ حاجی شاہ کے دربار کے نزدیک ایک کنواں ہے۔ جہاں پربیل دوڑائے جاتے ہیں ۔ جو بیل فی منٹ زیادہ چکر لگائے وہی اول انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن حاصل کرنے والے کو اسی حساب سے انعام دیا جاتا ہے۔ انعام، پگڑئی ، جھل اور نقد رقم سے نو ازا جاتا ہے۔ جس کا نیل پوزیشن لے لیتا ہے ان کے مالکوں کا خوشی کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ ڈھول ہوتی ، شرنا ، چپڑیاں، مالکوں کی ٹولی کا ناچنا قابلِ دید ہوتا ہے۔ اس میلے کو پینچ کرنے میں سید تو قیر حسین شاہ، سید ذولفقار حسین شاہ کا بڑا کردار ہے۔ ان کی معاونت کے لیے ملک غلام رسول پھلر ، ملک رحم بخش پھلر اور ملک فاروق دھول اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔ میلے کا انتظام ان کے ہاتھ ہوتا ہے۔میلہ کوٹ سلطان کوٹ سلطان ضلع لیہ کا چھوٹا مگر خوبصورت قصبہ ہے۔ یہ قصبہ ٹیلنٹ سے مالا مال ہے، یہاں کا تعلیمی ریٹ بہت زیادہ ہے۔ یہاں ڈاکٹر، وکیل، ٹیچر ، پر وفیسر ز، سیاست دان رہتے ہیں۔ مہر غلام حسین با روی ریٹائر ڈ سینٹر ہیڈ ماسٹر ، ملک بہادر ڈلو سابق پرنسپل ڈگری کالج کوٹ سلطان ، ڈاکٹر فقیر حسین شاہ، پروفیسر طاہر مسعود مہار ، موسیٰ کلیم ، ملازم سہو بڑے نام ہیں ۔ یہ میلہ بیساکھ کی دو، تین اور چار تاریخ کو منعقد ہوتا ہے۔ کنویں پر بیل کی دوڑ تھیٹر ہرکس، چڑیا گھر موت کا کنواں وغیرہ بکثرت ہوتے ہیں۔ خرید وفروخت کے لیے بازار سجائے جاتے ہیں۔ خاص کر کوٹ سلطان کا لہسن اور مرچیں پورے پاکستان میں مشہور ہیں ۔ اسی لیے اس میلہ پر لہسن کی خرید و فروخت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس میلے کو منعقد کرانے میں ڈلو برادری ، کھرل برادری ، دستی برادری کھوکھر برادری، رڈ برادری و جیر و برادری ،مہار (میر) برادری ہو برادری، گرمانی برادری ، رند بلوچ کا بڑا ہا تھ ہوتا ہے۔ فقیر محمدڈالو تقریباً پانچ من کا پتھر بیٹھ کر اپنے کندھے پر رکھ کر اٹھ جاتا تھا۔ فقیر محمد ڈلو کا نام پورےپنجاب میں تھا۔میلہ چودھویں تحصیل کروڑ لعل عیسن کا میلہ پورے بر صغیر میں مشہور ہے۔ ہر سال بھادوں کی چودہ تاریخ کو شروع ہو کر تقریبا ایک ہفتہ تک رہتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اونٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان بھر سے بیویاری اور اونٹ یہاں آتے ہیں۔ ہزاروں لوگ میلے سے مخطوظ بھی ہوتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ یہ گورنمنٹ کی تحویل میں ہوتا ہے۔ اس لیے میونسپل کمیٹی تحصیل کروڑ کا جو بھی چہ مین بنتا ہے۔ وہی اگوان ہوتا ہے دربار کی گدی نشین قریشی برادری ہے۔ یہاں مشاعرہ، موسیقی، قوالی تھیڑ سرکس ، چڑیا گھر موت کا کنواں ، دودہ، کشی، کبڈی کے مشاغل اپنی مثال آپ ہیں۔ مٹھائیاں برتنے کے برتن، کھلونوں کی دوکانیں دیکھنے سے متعلق رکھتے ہیں۔میلہ حسن شیر یہ ہر سال پندرہ ماگھ کو شروع ہوتا ہے اور ہفتہ بھر رہتا ہے۔ یہاں بھی اونٹوں کی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ چونکہ یہ میلہ سردیوں کی سوغات ہے، لوگ سردیوں کو انجوائے کرنے کے لیے دور دراز سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ مٹھائیوں، کھلونوں کے بڑے بڑے بازار سجتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حسن شیر کنوارہ فوت ہوا تھا ، اس لیے وہاں کی رہائشی فقیر برادری اس کو مہندی لگانے کی رسم ادا کرتی ہے۔ صبح سویرے عورتیں اکھٹی ہو کر ڈھول طبلے کے ساتھ مہندی کا تھال اُٹھا کر دربار پر حاضری دیتی ہیں۔ چھوٹی بچی کے ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی ہے۔ ایک جشن کا سماں بندھ جاتا ہے۔ یہ رسم جمعرات کو ادا کی جاتی ہے اس دن مردوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ میلے کے دوران فقیر برادری کی عورتوں کا جھگڑ ضرور ہوتا ہے۔ جھگڑا بھی زور شور سے ہوتا ہے جس کو میلے پر آئے ہوئے لوگ دیکھ کر محفوظ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کو پیر کی بددعا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال اپنا تما شالوگوں کو دکھاتے ہیں پھر جلدی صلح بھی ہو جاتی ہے۔ اس میلے پر اونٹوں کی خرید و فروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔میلہ عنایت شاہ یہ حضرت عنایت شاہ بخاری کے دربار پر ہر سال مارچ کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کا شمار برصغیر کے بڑے میلوں میں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان کیا غیر ملکوں سے بیویاری آتے ہیں۔ بڑے پیما نے پر اونٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ تھل دامان، روہی، تھر اور کوہستان سے اونٹ آتے ہیں۔ بیکا نہر کے اونٹ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے سر چھوٹے گردن لمبی سڈول جسم سواری کے لیے لوگ پسند کرتے ہیں ۔ جو اونٹ سواری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں مہرا کہا جاتا ہے، پہلے زمانے میں جس کے پاس مہرا ہوتا تھا وہ امراء کی فہرست میں شمار ہوتا۔ کہتے ہیں کہ مہرے کا سوار اپنے ہاتھ پر گھی کا کشور ار کھ کر مہرا ادوڑاتا تھا۔ جس کی رفتار چالیس پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی مگرگھی کا کٹورا چھلکتا نہیں تھا۔ مرا ایسی مہارت سے دوڑتا تھا۔ اور ان کی دوڑ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اونٹوں کا ناچ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اونٹ لڑائے بھی جاتے ہیں۔ بازار سجتے ہیں، ہوٹل ، مٹھائیوں کی دکانیں ، بچوں کے کھلونوں کی دکانیں ہر کس تھیڑیں، موت کے کنویں وغیرہ میلے کی رونق بڑھاتے ہیں۔ چولستان کے لاشاری مریدوں میں شامل ہیں۔ وہ میلے لگنے سے کئی دن پہلے پورے خاندان سمیت یہاں آکر خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ کانوں اور تیلوں سے بنائے گئے جھونپڑے جو بڑے خوبصورت نظاراپیش کرتے ہیں ۔ لاشاری عورتیں دربار پر جشن مناتی ہیں۔ سہرے، گانے ، ناچ پیش کرتی ہیں۔ یہ میلہ بھی گورنمنٹ کی تحویل میں ہوتا ہے۔ یہاں جو بھی ایم پی اے بنتا ہے، اس میلے کا انتظام وہی کرتا ہے۔ مزار پر چادر پوشی آخری دن کی جاتی ہے۔ وہاں انتظامیہ بھی موجود ہوتی ہے۔ اللہ وسایا شاہ گدی نشین ہے۔ وہ بھی انتظام میں شامل ہوتا ۔ سید مختار حسن شاہ جو کہ محکمہ ہیلتھ میں میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں وہ بھی سر پرستی کرتے ہیں۔ میلہ ہفتہ بھر رہتا ہے۔مقامی اور عارضی میلے یہ میلے مستقل طور پر تو نہیں ہوتے مگر پھر بھی لوگوں کی تفریح کا اہتمام ضرور ہوتا ہے، ہر سال کبھی کبھی کراتے ہیں مثلاً جیپ ریلی جشن بہاراں اور مختلف مقامی لوگ میلوں کا انعقاد کر کے تاریخ مرتب کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال ، باشم سہو، نواب افضل خان کلاچی ، ملک فقیر محمد دهول ، غلام حسن پهلر ، ملک فاروق دھول مختلف جگہوں پر نیزہ بازی ، دودہ کپڑی خرگوش دوڑ ، بیل دوڑ جیسے فنکشن کرائے جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے