بظاہر جنوبی پنجاب کے آٹھ حکومتی اراکین اسمبلی کا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر اتحاد ’’علیحدہ تشخص ‘‘ کے لیے وجود میں آیالیکن پسماندہ وسیب کے سرائیکی خطہ کے باسی ابھی تک یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک کے بڑے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے ماضی کی طرح یہ شوشہ چھوڑ رہے ہیں یا آیا کہ وہ وقت آپہنچاشاید خطہ کے مکینوں کا دیرینہ مطالبہ اپنی منزل پالے گا۔ ایک ایسا صوبہ جس کی آبادی 11کروڑ سے زائد ہے، اس حوالے سےاگر ہم باقی دنیا کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں پنجاب سے زیادہ آبادی والے صرف گیارہ ممالک ہیں۔ پنجاب کی تقسیم اس حوالے سے ناگزیر ٹھہرتی ہے کہ اتنی کثیر آبادی کے صوبے کومحض ایک ہیڈ کوارٹر یادارالخلافہ کے تحت یکساں سہولیات بہم پہنچانا کسی بھی صورت ممکن نہیں ۔پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں صرف جنوبی پنجاب کے ووٹ بنک کو اینٹھنے کے لیے ماضی میں سرائیکی صوبہ،بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے نعرہ پر گامزن رہیں لیکن عملی طور پر وسیب کے باسیوں کو ان کے حقوق اور تشخص دینے سے انکار کیا۔ پس پردہ سازشوں کے تانے بانے بھی بنے گئے، نام نہاددانشوروں کو پیٹ بھرنے کے لیے نقد رقوم اور سرکاری عہدے دے کر صوبہ کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ۔
یہاں پر مگر چند ایک مخلص آوازوں کوخراج تحسین پیش کرنا پڑتا ہے جو اول روز سے علاقہ تھل اور ترقی سے یکسر محروم سرائیکی خطہ، جس میں ایک بڑا بے آب و گیاہ صحرا چولستان بھی شامل ہے کے باسیوں کے لیے توانا آواز بنے۔ سازش کا ایک کارڈ یوں بھی کھیلا گیا کہ سرائیکی خطہ کے چند دانشوروں سے باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکومتی آشیر باد کے تحت وزیر اعلیٰ کو خطوط لکھوا کر تھل ڈویژن کی بحث کو جنم دیا گیا حالانکہ یہ وقت گزاری کا فارمولہ تھا۔ لہٰذا سال 2014میں وقت گزاری کے اسی فارمولے کے تحت جنوبی پنجاب کے اضلاع ،لیہ ،بھکر ،کوٹ ادو ،میانوالی میں کئی دن اس بحث نے طول پکڑ ے رکھاکہ اگر تھل ڈویژن بن جائے تو علیحدہ صوبہ کی ضرورت نہیں رہے گی ،جب یہ بحث چھڑی کہ نئے ڈویژن کا قیام اور صدر مقا م کا تعین کیا ہو گا تو قوم پرست رہنماؤں کی طرف سے یہ بات ببانگ دہل کہی گئی کہ تھل ڈویژن کا قیام سرائیکی صوبہ کی تحریک کو سبو تاژ کرنے کی ایک کڑی ہے جس کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کمیٹی تشکیل دے دی مگر حقیقت یہ تھی کہ پہلے سے طے شدہ نکات کو عملی جامہ پہناکر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے میڈیا پر یہ ڈھنڈورا پیٹا گیاکہ آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہوسکا ،جبکہ عملی طور پر حکومت ایسا کچھ کرنے کے موڈ میں ہوتی تو تب بھی ا تفاق ِ رائےکا ہونا ایک ناممکن عمل تھا ۔کئی ماہ اس بے نتیجہ عمل میں گزار دیے گئے تاہم اپنی خودساختہ سازش اور وسیب دشمن حکمت عملی کے تحت حکومت پنجاب وقتی طور پر نئے صوبے کی تحریک کو کمزور کرنے اور نئے صوبہ کے قیام کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب رہی۔
یہ بحث اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ جنوبی پنجاب میں تھل کا استحصال سب سے زیادہ ہوا اور جب ہم تھل کی تعریف کرتے ہیں تو خوشاب کا ضلع بھی اس میں آتا ہے ،تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد جو اُس وقت وعدے تھل کے باسیوں سے کیے گئے معاہدوں پر دانستہ عمل نہ کیا گیا ۔پانی کی ترسیل کے بدلے تھل کے باسیوں نے تین چوتھائی اراضی ایک مخصوس مدت کے لیے سرکار کودی جو سرکار حقیقی مالکان کو واپس کرنے کی پابند تھی۔ یہاں کے باسیوں کو پانی اُن کی مانگ کے مطابق ملا اور نہ ہی اُن کی اراضی لوٹائی گئی۔ وہی اراضی آج کلیم مافیا کے تصرف میں ہے،70برس گزر گئے ،ضلع لیہ سمیت تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ایکٹ پاس کرتے وقت جو وعدے ہوئے ایک بھی وفا نہ ہو سکا۔ 1949میں ٹی ڈی اے ایکٹ منظورہوا اور ایک نیم خود مختار ادارہ ٹی ڈی اے وجود میں آیا تاکہ مہاجرین کی آباد کاری کا کام جلداز جلد مکمل کیا جاسکے،گنجان آباد اضلاع سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جائے، اس پیش رفت میں گورنمنٹ پاک پنجاب نے مختلف نوٹیفکیشنزکے ذریعے ایک فارمولے کے تحت لوکل مالکان سے ضلع لیہ میں2لاکھ 71 ہزار 269ایکڑ رقبہ حاصل کیا، لوکل مالکان سے حاصل کی گئی اراضی مدت ہوئی گورنمنٹ اپنے تصرف میں لا چکی مگر تھل کے اضلاع کو آبپاش کرنے کے لیے جو تھل کینال دی گئی اس میں معاہدہ کے مطابق 10ہزار کیوسک پانی کی فراہمی آج تک نہیں ہوسکی۔ اس طرح تھل کا مقدر صدیوں سے جو پیاس تھی وہ آج بھی بدستور موجود ہے ۔
تھلوچیوں کی ہر 15 ایکڑ سے زائد زمین کا دو تہائی بحق سرکار تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر ضبط کر لیا گیا، جس سے 40 فیصد تھلوچی حق ِملکیت سے محروم ہوئے ،تین اضلاع ،لیہ ، بھکر، خوشاب کی ترقی کے لیے اتنے صنعتی ادارے قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا جن میں تین لاکھ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع ملنا تھے لیکن ان اضلاع کے لوگوں کا استحصال یہ ہوا کہ لیہ میں صرف ایک شوگر ملز اور ایک زرعی ورکشاپ کے ذریعے صرف 11سو افراد کو رو زگار دیا گیا۔ ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ کہ اربو ں کے عوامی و قومی اثاثہ جات لیہ شوگر ملز کوپنجابی اشرافیہ نے چند کروڑ میں قومی ملکیت سے نجی ملکیت میں دیکر مقامی افراد کا استحصال کیا اور آج لیہ کے اس کارخانہ میں دیگر اضلاع کے نوجوانوں کو روزگارکے مواقع میسر ہیں، لیکن مقامی افراد فقط روزمرہ مزدوری کی بنا پر اپنی جوانیاں دان کررہے ہیں۔
یہ اس نسل کی محرومیوں کا کیس ہے جو ہاتھوں میں ڈگریاں اُٹھائے مایوسی کی آخری دہلیز پر کھڑی ہے۔ بھکر میں ایک ٹیکسٹائل ملز کے ذریعے 2000 افراد کو روزگار دیا گیا جبکہ خوشاب میں قائد آباد کے مقام پر قائد آباد وولن ملز کے نام سے ایک کارخانہ لگا یا گیا جس میں صرف ایک ہزارمقامی باسیوں کو روز گار ملا،تین اضلاع میں تین لاکھ مقامی افراد کو روزگار مہیا کرنے کے بجائے صرف 4100 افراد کو روزگار دیا گیا ۔ لوگوں کے استحصال کی یہ انتہا ہے کہ خوشاب ٗ بھکر اور لیہ میں 30رکھوکھ تھیں جو تھلوچیوں کے لیے لائیوسٹاک کی خاطر مختص تھیں مگر ان رکھوکھ پر بھی ایسی سیاسی قوتیں قابض ہوگئیں جن کا کوئی استحقاق نہ تھا ۔ضلع لیہ میں واقع انگورہ فارم آج کسی اجڑے دیار کا پتہ دیتا ہے، وہاں کے مقامی بزرگوں کے بقول اس فارم میں ہرن ،خرگوش ،اعلیٰ نسل کی بکریاں اور بھیڑیں موجود تھیں۔ حکومتی عدم توجہی اور مقامی قیادتوں اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کے سبب ہرن اور خرگوش کی نسل تو ناپید ہوچکی ہے جبکہ بھیڑیں اور بکریاں صحیح معنوں میں دیکھ بھال نہ ہونے سے مختلف بیماریوں کی زد میں رہتی ہیں۔ یہ وہی انگورہ فارم ہے جو رکھ خیرے والا کے نام سے منسوب ہے اور جس کے بارے میں کچھ عرصہ سے یہ چہ میگوئیاں عام ہیں کہ اس اراضی کا کثیر رقبہ میاں صاحبان نےاپنے کسی دست راست کے نام لیز پر حاصل کر رکھا ہے ۔
نوٹ: یہ مضمون تجزیات ویب سائٹ لیا گیا ہے۔