باب الاسلام ـــــــــــــــــ میانوالی
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم ملک
سندھ اور ۹۰ ہجری (۷۱۲ را ۷۱ عیسوی) میں فتح ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہوا اور کئی صدیوں تک اسلامی سلطنت کا حصہ رہا۔ یہیں سے ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو فتح کرنے کی کوشیش کی گئیں۔ کو کوئی قابل ذکر علاقہ فتح ہو کر اسلامی سندھ میں داخل نہیں ہوا۔ تاہم سندھ کے بعض نواحی علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ضرور ہوا۔ سندھ میں مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی کامرانیوں سے زیادہ اہم وہ نظریاتی اور تمذہبی فتح ہے جس نے سندھ کے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر کے ان کے سینوں کو نور اسلام سے منور کیا۔ یہ فتح بڑے دور رس نتائج کی حامل تھی کہ آج بھی عربی زبان اور عربی تہذیب کے آثار وہاں نمایاں ہیں۔ اسی لئے سندھ کو ہندوستان میں داخل ہونے کا دروازہ یا ”باب الاسلام” کہا جاتا ہے۔ اس طرح سندھ کو جو اعزاز حاصل ہے وہ ہندوستان کے کسی دوسرے خطے کو حاصل نہیں اور سندھ کا یہ اعزاز کسی طرح بھی چھینا نہیں جا سکتا۔
یہ صحیح ہے کہ بلوچستان کا علاقہ سندھ سے بھی پہلے فتح ہو کر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا۔ بلکہ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسم کو بھیجنے سے پہلے بلوچستان کے نائب گورنر علافی کو سندھ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ مگر اس کے باوجود ہم بلوچستان کو ہند کا باب الاسلام نہیں کہہ سکتے وہ اس
لئے کہ :
(1): بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے باقی ہندوستان سے الگ تھلگ تھا۔
(۲): بلوچستان ایران کی ساسانی سلطنت کا جزو تھا۔ اس لئے اس کا ہندوستان سے سیاسی اور ثقافتی رابطہ برائے نام تھا۔
(۳): بلوچستان نے باقی ہندوستان کی عسکری یا فکری تسخیر میں کوئی (قابل ذکر)کردار ادا نہیں کیا۔
سندھ اور بلوچستان کے علاوہ عربوں کا ہندوستان میں داخل ہونے کا ایک اور رستہ بھی تھا۔ یہ رستہ بنوں اور میانوالی ہے جہاں مسلمان بلوچستان کی فتح سے بھی بہت پہلے پہنچے اور مذکورہ علاقہ فتح ہو کر مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔ مگر یہ علاقہ ویر تک اسلامی سلطنت کے ماتحت نہیں رہا۔ کیوں کہ جب زا باستان (کابل اور اس کے لحق علاقوں میں بغاوت ہوئی تو یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور پھر دوبارہ فتح نہیں کیا جا سکا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے کی تسخیر سے ہندوستان کی مزید تسخیر کا باب وا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اس علاقے کا اسلامی فتوحات کے آغاز میں فتح ہونا کئی لحاظ سے اہم تھا۔ وہ اس لئے کہ :
(1): بلوچستان کے بر عکس یہ علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل نہ تھا۔ اس لئے یہ ہند
اصل India Proper) شمار ہوتا تھا۔
(۲): چونکہ یہ علاقہ ابتدائی اسلامی فتوحات یعنی ۴۴ھ یا ۶۶۵٫۶۶۶ عیسوی میں فتح ہوا اس لئے کئی صحابہ کرام نے اس میں شرکت فرمائی۔
(۳): بنوں اور میانوالی پر حملہ کرتے ہوئے جو رستہ ہندوستان کی تسخیر کے لئے اختیار کیا گیا وہ تسخیر ہند کا سب سے زیادہ سہل اور سب سے زیادہ قدرتی راستہ تھا۔ جس کو اس سے قبل اور اس کے بعد کے نامور فاتحین مثلاً آریہ کشان غزنوی منگول ، مغل وغیرہ نے اختیار کیا۔
(۴): بنوں اور میانوالی کا علاقہ ہندوستان کو وسطی اور مغربی ایشیا سے ملانے والی اہم ترین شاہراہ پر واقع تھا۔ اس لئے اس کی تسخیر کے تجارتی اور اقتصادی نتائج بھی کافی اہمیت رکھتے تھے۔ کیو نکہ عربوں کا سیاسی تسلط ختم ہونے کے باوجود مال اور افکار کے قافلوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
ان حقائق سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے مذکورہ علاقے کی فتح کی کافی اہمیت ہے۔ اس لئے بنوں اور میانوالی کے علاقے کو ”باب الاسلام” کہنا غلط نہیں ۔ مگر بعض وجوہات کی بنا پر اس کا علمی حلقوں میں نوٹس نہیں لیا گیا۔ مورخین اور اہل علم کی عدم دلچسپی کی غالبا” دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ مذکورہ علاقہ مستقلاً ” اور زیادہ دیر تک اسلامی سلطنت میں شامل رہا۔ دوسری اور غالبا” بڑی وجہ یہ کہ عربی مورخین اور مصنفین نے جن جگہوں کے نام لکھتے ہیں ان میں سے بیشتر کی شناخت اب ناممکن ہے۔ جس کی وجہ سے مورخین کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔
ذیل میں بنوں اور میانوالی پر عربوں کے اس ابتدائی حملے کی تفصیلات کو تاریخی سیاق و سباق اور تاریخی شواہد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ بعض متعلقہ مقامات کی شناخت اور نشان دہی کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف اس مضمون کے سمجھنے میں آسانی رہے گی بلکہ مزید تحقیق کے لئے راہ کھل سکے گی۔ بلاذری نے فتوح البلدان میں اس حملے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۲۴ھ بمطابق ۶۶ / ۶۶۵ء میں مہلب بن ابی صفرہ نے بتہ اور الاهواز پر حملہ کر کے کفار کے ساتھ جنگ کی۔
بعض نسخوں میں الاحواز کو لاھواز لکھا گیا ہے۔ بلاذری کے مطابق یہ دونوں شہر کابل اور ملتان کے درمیان واقع تھے ۔ طبری اور ابن الاثیر نے اس کی کچھ مزید تفصیل دی ہے کہ اس وقت خراسان کے جزل آفیسر کمانڈنٹ عبد الرحمان ابن سمرہ تھے اور مہلب ابن ابی صفرہ ان کے زیر کمان افسر تھے۔ اور تسخیر کابل کے بعد ہندوستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مہلبی لشکر نے بتہ اور الاهوازر لاھواز پر حملہ کیا۔ ازری شاعر نے جنگ بتہ میں اپنے قبیلے کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے اس جنگ کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔ الم تران الاردلیلته نيوابنته کانوخیر جیش المهلب کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس رات قبیلہ ازدنے بتہ پر حملہ کیا تو یہی لوگ مطلب کی فوج کے بہترین سپاہی تھے۔
ابن اثیر اور بلاذری کی دوسری روایات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شہروں کو فتح کرنے کے بعد عبداللہ بن سوار العید کو ” سرحدات ہند” کا نائب گورنر بنایا گیا۔ اور یہ تقرری عراق کے گورنر عبد اللہ بن عامر نے کی۔ گویا یوں یح کردہ علاقہ خراسان کی بجائے براہ راست کوفہ (عراق) کے ماتحت کر دیا گیا۔ کیونکہ یہ وضاحت موجود نہیں کہ کون کی سرحد اس لئے "سرحد ہند” سے مراد بلوچستان کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں اس سے مراد بلوچستان کا علاقہ نہیں کیوں کہ تبہ الاہواز کے شہروں کی تسخیر کے بعد مذکورہ بالا تقرری کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تقرری بتہ الاہواز کے نوضح کردہ علاقے کے متعلق ہے دوسرے یہ کہ قلات (بلوچستان) پر حملے کا ذکر بلاذری نے فتح بتہ کے بعد کیا ہے۔ اور شاید یہ پہلا حملہ کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ ایک دوسرے (بلکہ تیرے حملے کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اور جب قلات اور مکران (بلوچستان) کے علاقے کہیں آخیر عہد امیر معاویہ مسخر ہوئے تو وہاں راشد بن عمر الهدیدی الاذری کو والی مقرر کیا گیا۔
اس بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ بن سواری العبدی کو "سرحد ہند”کے جن علاقوں کا والی بنایا گیا وہ کابل کے جنوب مشرق کے نوضع کردہ علاقے تھے۔ کیونکہ علاقوں کی تسخیر کے بعد ہی اس تقرری کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور راشد بن عمر الحدیدی الاذری کو قلات اور حکمران کی فتح کے بعد وہاں کی ” سرحد ہند ” کا والی مقرر کیا گیا ہے۔
بتہ اور الاهواز امیر معاویہ کے دور حکومت کے اوائل میں ۴۴ھ میں فتح ہوئے۔ جبکہ بلوچستان کے علاقے آخیر عمد معاویہ میں زیر نگیں ہوئے۔ البتہ بلوچستان کا مغربی حصہ (موجودہ ایرانی بلوچستان) خلفائے راشدین کے دور میں فتح ہو چکا تھا۔ عرب اسے کرمان کہتے تھے۔ مگر بقیہ بلوچستان فتح نہیں ہو سکا تھا۔ باوجود کہ یہ علاقہ عربوں کے زیادہ نزدیک تھا اور ایرانی سلطنت میں شامل تھا مگر اسے دو اسباب کی بنا پر نظر انداز کیا گیا ۔ پہلی وجہ تو اس علاقے کی کم زرخیزی اور شادابی تھی اور دوسری وجہ اس کی عسکری یا سٹریٹجک اہمیت اتنی زیادہ نہ تھی۔ کیونکہ ایرانی بادشاہوں نے عربوں سے شکست کھانے کے بعد شمالی علاقوں کا رخ کیا اور ان کے تعاقب میں اسلامی افواج شمالی ایران (جسے عرب خراسان کہتے تھے ) جلدی پہنچ گئیں۔ آخری ایرانی شهنشاه یزدگرد نے زابلستان میں ہی آخری جنگیں لڑیں اور عہد عثمان میں اس کی شکست اور موت کے بعد جب شاہ پرستوں کا زور ٹوٹا تو اس علاقے پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہو گئی ۔ اگر ایرانی بادشاہ خراسان کی بجائے بلوچستان کا رخ کرتا تو پھر بلوچستان کی سٹر۔ بیجک اہمیت بڑھ جاتی۔ چونکہ ایسا نہیں ہوااس لئے اسلامی افواج کابل اور اس کے نواحی علاقوں میں جلد ہی پہنچ گئیں اور اسے فع کر لیا ۔ یہی وجہ تھی کہ کابل کی فتح کے بعد صلب ابن ابی صفرہ نے مشرق کا رخ کرتے ہوئے ہندوستان کی فتح کا باب وا کیا اور بتہ اور الاہواز کو فتح کیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ بتہ اور الاهواز کہاں اور کس علاقے میں واقع تھے؟ بتہ اصل میں بن کاہ ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس سے مراد موجودہ شہر بنوں ہے مطلب کی آمد سے پہلے اس شہر کے اسی نام سے آباد ہونے کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ عربوں کے آنے سے کوئی سو سوا سو سال پیشتر چینی سیاح ہیون سانگ جب وطن واپس لوٹتے ہوئے یہاں سے گزرا تو اس نے بنوں کا ذکر (Falana) کے نام سے کیا۔ جو کہ بن کہ کا چینی تلفظ ہے۔
جہاں تک الاحواز کا تعلق ہے تو اس شہر کو لاھور ہی کھنا چاہیے کیونکہ الاهواز املا یا کتابت کی غلطی ہے جو کہ "ر” پر زائد نقطہ لگنے سے پیدا ہوئی ہے۔ لاهوار کو بلاذری اور دیگر عرب مورخین نے مختلف طرح سے لکھا ہے مثلاً لمبادر لها دور لہور لہوور وغیرہ لاہوار کو دیکھ کر بظاہر خیال ادھر ہی جاتا ہے کہ اس سےمراد موجودہ شہر لاہور ہو گا۔ مگر اسے موجودہ شہر پر اس لئے قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ:
(1): یہ بات تاریخی واقعات کے خلاف ہے کہ ابتدائی عرب حملہ آور فتوحات حاصل کرتے ہوئے دریائے راوی تک جا پہنچے ہوں۔ عقل بھی اسے تعلیم نہیں کرتی۔
(۲): زمانہ مذکور میں اس لاہور کے آباد ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ اگر تعلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ شہر اس وقت موجود تھا تو پھر بھی یہ مانا پڑے گا کہ اس سے مراد ( راوی کا) لاہور ہرگز نہیں۔
(۳): ہندوستان میں ایک ہی نام کے دو یا دو سے زائد) شهر بیک وقت یا زمانہ متصل میں آباد رہے ہیں ۔ راوی کا لاہور جب آباد ہوا تو بعد کے عرب مورخین اور جغرافیہ نویسیوں نے الگ ذکر کیا مثلاً الادریسی نے نزہتہ المشتاق میں اس کا زمانہ 10 صدی عیسوی لکھا ہے اور وہ انتہائی محتاط اور باخبر مصنف سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے لاہور کا ذکر سندھ یا مضافات سندھ کے علاقے میں کیا گیا ہے۔
(۴): عرب مورخین بلاذری وغیرہ نے الاهوار کا ذکر کرتے ہوئے کابل اور ملتان کے درمیان بتایا ہے جبکہ موجودہ شہر لاہور کابل اور ملتان کے درمیان کسی طرح واقع نہیں ہے۔ بلکہ یہ ملتان اور ولی کے درمیان ہے۔ لہذا ہمیں صلب کے لاہور کو کابل اور ملتان کے درمیان تلاش کرنا چاہیے۔ اب چونکہ بنوں تک تو مطلب کے اسلامی لشکر کا آنا ثابت ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس گم شدہ شہر لاہور کو بنوں کے قرب و جوار میں تلاش کیا جائے نہ کہ راوی کے نزدیک۔
(۵): بنوں اور دریائے سندھ کے نزدیک کا لاہور بہت بعد کے زمانہ تک آباد رہا۔ غزنوی عہد میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے (گیارھویں صدی عیسوی) اور شاہ خوارزم جب مغربی پنجاب میں داخل ہوا۔ (۱۲۲۰ء) تو اس وقت بھی اس لاہور کا ذکر کتب تاریخ میں موجود ہے۔ گویا مہلب کے حملے ۶۶۵٫۶۶ء سے شاہ خوارزم کی آمد ۱۲۲۰/۲۲ء تک چھ پونے چھ سو سال تک یہ شہر کسی نہ کسی طرح آباد رہا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس زمانے تک (رادی کے) لاہور کی شہرت نصف النہار تک پہنچ چکی تھی اور اسے غزنوی سلطنت کا مرکزی اور سلاطین دہلی کے عہد میں صوبائی دارلحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا تھا۔
شاید ایک عام آدمی کے لئے نئے لاہور کا ہونا وجہ حیرانی ہو ۔ مگر اہل علم لوگوں سے پوشیدہ نہیں کہ یہ لاہور دریائے سندھ کے قرب و جوار میں زمانہ قدیم سے آباد تھا۔ تاہم مورخین میں اس شہر کے محل وقوع کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے مختلف مورخوں نے مختلف آرا پیش کی ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ صوابی ضلع مردان میں تھا۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی وہاں ایک برباد شدہ شہر کے کھنڈرات اور ایک گھاٹ لاہور کے نام سے موسوم ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ صوابی میں لاہور نام کا شہر تھا مگر اسے مطلب کے حملے کا لاہور قرار نہیں دیا جا سکتا وہ اس لئے کہ:
(1): اس لاہور نے مہلب کے درود ہند کے کوئی تین صدی بعد ہندو شاہیہ کے دور میں شہرت حاصل کی جبکہ انند پال نے غزنویوں کے ہاتھوں پسپائی اختیار کرتے ہوئے پشاور کے بعد اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔
(۲): مصلب کا لشکر جو بنوں تک آ چکا تھا اس کے لئے وہاں سے صوابی جانا کم و بیش نا ممکن تھا۔ علاقے کے جغرافیائی خدو خال Topography) سے عدم واقفیت کی بنا پر ہی یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مصلب کا لشکر بنوں آنے کے بعد صوابی کے لاہور پر حملہ کرنے گیا ہو گا۔
لاہور کے بارے میں بعض دوسرے مورخین کا قیاس ہے کہ یہ کوہ جود کو ہستان نمک کا مغربی حصہ ، یعنی سیکیسر کے نزدیک واقع تھا۔ اس لاہور کو شاہ خوارزم نے اس وقت فتح کیا جبکہ وہ ۲۲۔ ۱۲۲۰ء میں مغربی پنجاب میں نئی سلطنت قائم کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ نندنہ ضلع جہلم اس کا پایہ تخت تھا اور مقامی باشندے کھو کھروں میں شادی کرنے سے شاہ خوارزم کو جنگجو کھو کھر قبیلے کی امداد اور نصرت حاصل ہو گئی۔ چنانچہ ان کی مدد سے اس نے جود کو عبور کر کے کلورکوٹ (موجودہ ضلع بھکر) کو فتح کیا۔ کلور کوٹ اس وقت حاکم سندھ ناصر الدین قباچہ کے ماتحت تھا۔ اس دوران اسے غزنی کے نئے حکمرانوں سے بھی جنگ لڑنا پڑی اور شاہ خوارزم نے لاہور ” پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت غزنی کی حدود سلطنت دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس لئے قیاس ہے کہ خوارزم شاہ نے جس لاہور کو فتح کیا وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہو گا۔ اس بارے میں مزید تفصیلات پروفیسر حبیب اللہ کی کتاب (Foundation of Muslim Rule in India) میں ملیں گی۔ لاہور کا یہ محل و قوع مہلب کے حملے کے لاہور کے ساتھ ایک حد تک لگا کھاتا تھا۔ مگر یقین کے ساتھ پھر بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ شہر کہاں تھا۔ البتہ در امانی سندھ کے مشرق اور قصبہ واں بھچراں کے شمال اور گاؤں پکہ منجیرہ سے متصل ایک تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات تادم تحریر موجود ہیں اس کھنڈرات والی جگہ کو ” جلالہ ” کہا جاتا ہے جس سے مراد غالبا” جلا ہوا ہے یہ شہر کئی میلوں تک پھیلا ہوا ہےاور لگتا ہے کہ یہ کئی دفعہ اجڑنے کے بعد دوبارہ آباد ہوا ۔ اس طرح یہ شہر کئی صدیوں تک آباد رہا ہوگا۔ عربی مورخین کے لہوورر لاھوار کے جو مختلف املا ملتے ہیں اس میں ایک املا جھور بھی ہے۔ اس طرح اس قیاس کو تقویت ملتی ہے ۔ کہ یہ عربوں کے حملے لاہور ، لہوور ، جہور ہی ہو ۔ مگر راقم کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ وہی لہور ہے تو پھر یہ شہر اس جگہ نہ تھا جہاں اس کے کھنڈرات ہیں۔ زیادہ امکان ہے کہ مہلب کا لاہور سندھ کے پار مغرب میں ہوگا اور تباہی کے بعد اسے مشرق میں بمقام جود بسایا گیا ہو گا۔
اب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ مطلب نے کابل سے ہندوستان کی طرف آتے ہوئے کون سا راستہ اختیار کیا ۔ کابل سے ہندوستان آنے کے لئے دو ممکنہ راستے ہو سکتے تھے۔ پہلا راستہ درہ خیبر کا ہے۔ مگر مہلب نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ اگر وہ درہ خیبر سے داخل ہوتا تو پھر اس کا بنوں پہنچنا محال بلکہ ایک طرح سے ناممکن تھا۔ دوسرا راستہ کابل سے کچھ نیچے آکر دریائے کرم کے کنارے چلتا ہوا ہندوستان پہنچتا ہے۔ زیادہ ممکن ہے کہ مہلب نے یہیں راستہ اختیار کیا ہوگا۔ یہ راستہ کچھ آگے آکر دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک شاخ تھوڑے سے خم کے ساتھ شکرورہ ، کوہاٹ، اور کالا باغ (ضلع میانوالی) کے اوپر آتی ہے اس راستے کا معروف نام شکردرہ ہی ہے۔ جو شترورہ کا بگاڑ ہے یعنی ایسا درہ جسے صرف اونٹوں پر ہی عبور کیا جا سکتا ہے۔ تجارت کے لئے یہ راستہ کافی اہم اور سود مند تھا مگر عسکری اعتبار سے اس کی اہمیت اور افادیت کم تھی۔ عرب مورخین اس راستے کو سنکرام کہتے ہیں۔ شکرام دراصل سنگرام کا معرب ہے۔ ستگرام کا شہر اس درے کے شمالی سرے پر واقع تھا۔ یہ نام سن اور گرام سے مشتق ہے۔ گرام گاؤں کو کہتے ہیں ۔ اور شاید من دیوتا یا مقدس ہستی کا نام تھا۔ جس سے یہ نگرام مشہور ہوا۔ عربوں نے اس کو سنکرام کہا۔
دریائے کرم کے ساتھ سنگرام کی جانب گھومنے کی بجائے اگر دریا کے ساتھ ساتھ چلیں تو راستہ سیدھا بنوں پہنچتا ہے۔ اور دریائے کرم مزید ہیں بچیں میل آگے درہ تنگ کو عبور کرتا ہوا عیسی خیل (ضلع میانوالی) کے نزدیک دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ دریائے کرم کی مناسبت سے عرب مورخین نے اس راستے اور علاقے) کو کرمان کہا ہے۔ یہ کرمان جیسا کہ ابن خلدون نے وضاحت کی ہے اس کرمان سے مختلف ہے جو کہ سرحد فارس پر واقع تھا۔ اور عربی تاریخوں میں اس نام کی وجہ سے کافی غلط فہمی بھی پیدا ہوئی ہے۔ سنکرام کے مقابلے میں کرمان کا راستہ زیادہ سہل اور عسکری لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اس لئے اکثر فاتحین نے یہ راستہ اختیار کیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ کرم سے نکلنے والے راستے کی دونوں شاخیں سنگرام اور کرمان ضلع میانوالی میں آکر کھلتی ہیں۔ اول الذکر کالا باغ کے اوپر آخر الذکر فیسی خیل کے نیچے ، میانوالی پہنچ کر یہ راستہ پھر دو اطراف کو جاتا ہے۔
(۱): دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سیدھامتان
(۲): سیکیسر کے دامن کے ساتھ ساتھ سیدھا بھیرہ
سیکیسر کے دامن کے ساتھ چلنے والے راستے کو بقول پروفیسر حبیب اللہ عرب مورخ شنوران کہتے تھے۔ شنوران کی کوئی وجہ تسمیہ نہیں بتائی گئی۔ البتہ ایک توجیح یہ ہو سکتی ہے کہ شنوران ”دھنو” سے نکلا ہو۔ دھنو نام کا ایک شہر چھٹی ساتویں صدی عیسوی میں موجودہ میانوالی شہر کے نزدیک آباد تھا جس کے کھنڈرات چاہ میانہ کے نزدیک اس وقت تک موجود ہیں۔ کھنڈرات والی جگہ ”دھنو” کے نام سے موسوم ہے۔ دھنو ، میانوالی کا پیش رو شہر ہے جو عربوں کے درود ہند کے وقت کافی اہم اور مرکزی شہر تھا۔ اس کی مناسبت سے سیکیسر کے جنوب میں اضلاع خوشاب اور میانوالی کا علاقہ شنوران کے نام سے مشہور تھا۔ یہ الگ مملکت بھی تھی۔
میانوالی سے ملتان کا راستہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا تھا زیادہ تر دریا کا مغربی کنارہ ہی استعمال ہو تا تھا۔ اور سموان یا ڈیرہ اسماعیل کے مقام پر سندھ کو عبور کیا جاتا تھا۔ دریائے کرم جہاں سندھ میں آکر ملتا ہے اس کے نیچے ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ ہے جسے آج کل خسور کی پہاڑیاں کہا جاتا ہے ۔ مگر عمد سلاطین کے مورخ اسے ” سنگ سرخ” کہتے تھے ۔ سنگ سرخ کے دامن کے ساتھ اور سندھ کے کنارے کنارے کا راستہ غزنویوں ، غوریوں ، منگولوں ، مغلوں کے اکثر زیر استعمال رہا سلاطین کے مورخ اس راستے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ از متان براہ سنگ سرخ غزنین یا کابل رفت مگر فرشتہ جیسا زیرک اور تفصیل پسند مورخ اور تاریخ مبارک شاہی کے مصنف نے بھی ملتان سے غزنی کے راستے کا ذکر کرتے ہوئے بعض جگہ سنگ سرخ کی بجائے براہ لاہور غزنین رفت لکھا ہے۔ گویا سکیسر کے دامن کے ساتھ والے راستے کو اگر شنوران کہا جاتا تھا تو دریائے سندھ کے مغرب میں خسور کی پہاڑیوں کے ساتھ جانے والے راستے کو "راہ سنگ سرخ ” اور راہ لاہور ” کا نام دیا جاتا تھا۔ مہلب بن ابی صفرہ نے کابل سے ہندوستان کی طرف فاتحانہ پیش قدمی کرتے ہوئے کرمان کا راستہ اختیار کیا اور بنہ موجودہ بنوں پر حملہ آور ہوا یہ واضح نہیں اور نہ ہی ہمیں صحیح طور پر معلوم ہے کہ یہ لاہور کہاں واقع ہے۔
مگر ایک بات یقینی ہے کہ اس لشکر نے دریائے سندھ کو عبور نہیں کیا ورنہ بلاذری، اور ابن اثیر جیسے مورخین ضرور اس کی طرف اشارہ کرتے۔ دوسری بات جو یقینی ہے کہ اس لشکر نے بنوں کی تسخیر کے بعد دریائے کرم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ مشہور راستہ اختیار کیا جسے مطلب سے قبل کے اور بعد کے فاتحین نے اکثر اوقات استعمال کیا۔ لشکر مصلب دره تنگ پہنچا اور خسور کی پہاڑیوں (سنگ سرخ) کے ساتھ جنوب کو گھوما، وہاں پہاڑی کے اوپر ایک مضبوط قلعہ سکین تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس قلعہ کا اس زمانے میں کیا نام تھا مگر قرائن بتاتے ہیں کہ یہی وہ راستہ ہے جسے براہ سنگ سرخ” اور "راہ لاہور ” کہا گیا ہے اس قلعہ کا مقامی نام کافر کوٹ ہے۔ مسلم نے اسے (آرکیالوجیکل سروے جلد XIV میں) ٹل راجہ کا کافرکوٹ” Kafir Kot of Till Raja) کہا ہے۔ اس قلعے پر عرب حملہ آوروں کے نشانات چند قبور اور ایک بے ترتیب سی مسجد کی صورت میں موجود ہیں ۔ جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ صلب نے بنوں کو فتح کرنے کے بعد لازمی طور پر اس قلعہ پر حملہ کر کے اسے فتح کیا ہو گا۔ اور کیا عجب یہی گم شدہ شہر لاحوار لہور ہو!!
ذیل میں کافرکوٹ کے آثار کے متعلق قدرے تفصیل سے لکھا جاتا ہےنا کہ معلوم ہو سکے کہ وہاں عرب حملہ آوروں کے آثار کس نوعیت اور اہمیت کے
ہیں۔
یہ قلعہ کافرکوٹ پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ قلعے کے لئے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ قلعے کے بنانے والوں کی زبر دست جنگی حکمت عملی کا منہ ہوتا
ثبوت ہے۔
یہ قلعہ پہاڑی کے اوپر تکونی صورت میں ہے جس کی جنوب میں ایک گری اور ناقابل گزر پہاڑی کھائی (Gorge) ہے۔ مشرق کی سمت میں دریائے سندھ ہے، شمال مغربی جانب ایک طویل اور بلند فصیل پہاڑی کے اوپر بنائی گئی ہے۔ اس فصیل کا بیشتر حصہ ابھی تک قائم ہے۔ یہ فصیل پتھر کے بڑے بڑے اور گھڑے ہوئے بلاکوں سے بنائی گئی ہے۔ قلعے کا صدر دروازہ بھی اس جانب پہاڑی پر ہے۔ صدر دروازے کا کافی حصہ گر چکا ہے، صرف کچھ حصہ کھڑا ہے ۔ اس دروازے کے سامنے ایک ہموار سا میدان ہے۔ جو غالبا” فوجوں کی پریڈ کے لئے کام میں لایا جاتا ہو گا شمال مغرب کی جانب فصیل بنانے سے معا یہ خیال آتا ہے کہ قلعے والوں کو اندیشہ تھا کہ نیم پہاڑی کے اوپر براہ راست بھی حملہ کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ملب نے پہاڑ کی پشت پر سے اچانک حملہ کیا۔ قلعے کے اندر تین سٹوپے بھی اس وقت تک موجود ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ایک دو منزلہ مکان بالائی منزل سمیت موجود ہے باقی رہائشی یا فوجی مکانات اس وقت کھنڈر بن چکے ہیں ۔ دریا کی سمت میں پہاڑی ڈھلوان پر تراش کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔
پہاڑی کے اوپر پلٹن میدان میں ، قلعے کے صدر دروازے کے سامنے چند ایک قبریں ہیں جو قلعے کے بھاری بھر کم پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ ان قبروں سے متصل ایک مسجد ہے۔ جس کی چوڑائی زیادہ نہیں، اور جس کے گرد معمولی اونچی حویلی بھی ہے۔ قبلہ کی سمت مصلی بنایا گیا ہے۔ یہ مسجد سطح زمین ہم تین چارفٹ بلند ہے ۔ جو قلعے کے اکھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئی ہے مسلم نے تمام تفصیلات دینے کے باوجود قبروں اور مسجد کا ذکر مصلح” یا سہوا” نہیں کیا۔ یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ قلعہ مکمل طور پر مسخر ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ مسخر ہونےکے بعد یہ دوبارہ آباد نہ ہو سکا۔ مسجد کی موجودگی اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ حملہ آور واقعی مسلمان تھے۔ قلعے کے باقیات اور آثار گواہی دیتے ہیں کہ یہ قلعہ ۵۴۴ صدی عیسوی میں تعمیر ہوا۔ اس لئے شبہ نہیں کہ قلعہ پر ملی لشکر نے لازمی حملہ کیا ہو گا ۔ یہ قلعہ ہمارا عدم پتہ لہور ہے۔ اگر یہ شہر لاہور نہ بھی ہو پھر بھی یہ اندازہ قرین حقیقت ہے کہ یہاں مہلب کے لشکر کے قدم ضرور پہنچے تھے۔
کالا باغ میں بھی ایسی چند قبریں ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ صحابہ کرام کی قبریں ہیں۔ اب چونکہ کالا باغ کے قدیمی شہر کے آثار باقی نہیں اس لئے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ قبریں واقعی عرب حملہ آوروں کی ہیں یا نہیں۔ تاہم کافرکوٹ کے متعلق ہم کم و بیش یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عرب حملہ آوروں کی ہی قبریں ہیں اور یہ مطلب کے لشکر ہی کے مجاہدین ہیں۔ چونکہ مہلب کا حملہ ۴۴ھ میں ہوا جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ بقید حیات تھے، اس لئے بعید نہیں کہ مذکورہ قبروں میں واقعی صحابیان رسول محو استراحت ہوں اور اس طرح میانوالی کی سرزمین کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہے کہ اس نے ہندوستان میں سب سے پہلے صحابیان رسول کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا۔ اور لشکر اسلام کو خوش آمدید کہا۔ اس طرح یہ سرزمین "باب الاسلام” کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ وما توفیقی الا بالله العلى العظيم!
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔