مظفر گڑھ کے بزرگان دین
حضرت شیخ سادن شهید
آپ کا اصل نام مخدوم محمد سعید الدین قریشی ہے مگر آپ شیخ سادن شہید کے نام سے زیادہ مشہور ہیں ۔ آپ کا تعلق حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے خاندان سے ہے۔ آپ کے انکے چازاد بھائی ہیں [1] ۔ آپ سات بھائی تھے، مخدوم عبد الرشید حقانی، مخدوم محمد عبد الرحمن شاہ، مخدوم محمد موسیٰ شاہ ،مخدوم محمد راول دریا المعروف حاجی شاہ، حضرت ڈیڈھا مل ، مخدوم محمد طاہر شاہ (المعروف بابا بگا شیر ) مخدوم محمد سعید الدین المعروف شیخ سادن شہید اور مخدوم محمد فقیر علی شاہ (المعروف پیر ملافقیر ) ۔ آپ کی ایک بہن بی بی مخدومہ رشیدہ خاتون
( زوجہ شیخ السلام مخدوم بہاؤالدین زکریا، والده ماجد و مخدوم صدرالدین عارف ، دادی شاہ رکن الدین عالم ) تھیں۔
ایک روایت کے مطابق حضرت شیخ سادن نے سندھ ، ملتان اور لاہور پر منگولوں کے تسلط اور تیسرے حملے کے خلاف 1286 ء میں جنگ بیاس میں غیاث الدین بلبن کے بڑے بیٹے شہزادہ محمد کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا [2]۔ اس معرکے میں منگولوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور وہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے اور اس علاقہ پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ اس شاندار فتح اور شہادت کے بعد شہزادہ محمد خان شہید کے نام سے مشہور ہوئے ۔ بیٹے کی موت کا غم غیاث الدین بلبن سے برداشت نہ ہوا اور کچھ عرصے کے بعد وہ بھی وفات پاگئے ۔ دہلی میں شہزادہ محمد خان کو شاہی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور جن میں ایک شکستہ مقبرے کے کھنڈرات کے درمیان شہزادہ محمد اور غیاث الدین بلبن کی قبریں موجود ہیں۔ شہزادہ محمد کے ہمراہ جام شہادت نوش پانے والے شیخ سادن شہید کو شاہی اعزاز کے ساتھ انکے رہائشی علاقے میں دفنا یا گیا اور شاہی طرز کا مزار ان کی شان میں بنوایا گیا [3]۔ آپ کی شہادت کے حوالے سے کئی اور روایات ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ نے بوڑھی عورت کی پکار پر ڈاکوؤں کے خلاف اس کی مدد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کا مقبرہ ہیڈ محمد والا سے دو کلو میٹر بجانب جھنگ بستی سرور والا کے مشرق میں بستی چھلاریاں میں دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ اور مرجع خلائق ہیں۔
حضرت سخی دین پناہ
حضرت سخی دین پناہ کے نام سے مشہور قصبہ دائرہ دین پناہ تحصیل کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں واقع ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کے وسط میں سید عبد الوہاب شاہ بخاری المعروف کمی دین پناہ کا مزار خستہ حالی کے باوجود بھر پور جاو وجلال کے ساتھ موجود ہے۔ یہ قصبہ دائرہ دین پناہ بھی اپنی تاریخ اور محل وقوع کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مغرب میں سات کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ بہتا ہے۔ یہ تاریخی قصبہ اپنی جغرافیائی حالت کے باعث بادشاہوں کے درمیان میدان جنگ بھی بنا رہا ہے۔ حضرت دین پناہ کی ولادت 955 ھ کو اوچ شریف میں ہوئی۔ آج سے آٹھ صدی قبل آپ کے جد امجد سید جلال الدین شاہ بخاری عرب سے براستہ سندھ اوج تشریف لائے ۔ آپ کے والد محترم کا اسم مبارک سید شاہ حسین بن بڑھن شاہ اور والدہ محترمہ کا نام حضرت بی بی آمنہ تھا۔ بچپن ہی سے آپکا رحجان زہد و تقوی اور پر ہیز گاری کی طرف مائل تھا۔ آپ اولا در سو میل می کرد و اولاد علی میں سے ہیں ۔ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری اور حضرت جہانیاں جہاں گشت آپ کے جد امجد ہیں آپ تبلیغ اسلام کی خاطر اوچ شریف سے قصبہ دائرہ تشریف لائے۔ یہ قصبہ ایک دائرہ نامی ہندو راجہ کے نام پر مشہور تھا اور ہندؤوں کا مرکز تھا۔ لیکن آپ کی آمد سے اس قصبے کا نام دائرہ دین پناہ مشہور ہو گیا [4]۔ ها التوسل جب حضرت عبد الوہاب المعروف حضرت دین پناہ یہاں تشریف لائے تو یہاں کے ہندوؤں جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ دائرہ نامی ہندو راجہ یہ دیکھ کر سخت پریشان ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ اس طرح تو میرا نام مٹ جائے گا حضرت دین پناہ نے اسے یقین دلایا کہ تیرا نام بھی باقی رہے گا اس لئے شہر کا نام دائرہ دین پناہ مشہور ہو گیا ۔ روایت ہے کہ یہ ہندو راجہ دائرہ بھی آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ آپ نے یہاں مکول خاندان کی نیک اور پارسا خاتون حضرت مائی سہاگن کے ہاں سکونت اختیار کی ۔ دائرہ دین پناہ شرقی اور دین پناه غربی دونوں جگہوں پر حضرت بی بی مائی سہاگن کی اولا د موجود ہے۔ جو اپنے آپ کو حضرت دین پناہ کا خادم کہلاتے ہیں حضرت دین پناہ کی خدمت کے باعث لوگ انہیں مخدوم کے لقب سے پکارتے ہیں ۔ حضرت بی بی مائی سہاگن کا مزار بھی دائرہ دین پناہ میں توجہ کا مرکز ہے [5]۔ حضرت دین پناہ نے اسلام کی روشنی کو ہر دل تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ پورے برصغیر کی خاک چھانی اور آپ کی دن رات کی محنت سے لاکھوں ہندو مسلمان ہوئے ۔ آپ نے برصغیر کے کونے کونے میں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ آپ نے پیدل حج بھی کئے۔ بعد ازاں اپنے سفر کے لئے ایک بیڑا بھی تعمیر کرایا۔ لوگوں کے بقول یہ بیڑا آج بھی تحصیل تونسہ کی بہتی بھیرہ میں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ آپ روزانہ اپنے ڈیرے پر لنگر کا انتظام کرتے اور لنگر کے لئے لوگ جنس اور نقدی کی صورت میں نذرانہ بھیجتے ۔ ان نذرانوں کو جمع کرنے کے لئے آپ نے ایک اونٹ پالا ہوا تھا۔ جس کا نام آپ میاں میلو تھا۔ یہی میاں میلوا اپنی گردن میں سیاہ رنگ کا اڑھائی فٹ چوڑا ، آٹھ فٹ لمبا کا سہ ( کشکول) لئے بغیر کسی شتربان کے صرف مسلمانوں کے ہی دروازوں پر جاتا اور کھانے پینے کا سامان اکٹھا کرتا۔ میلو سے لوگوں کو اس قدر عقیدت ہوئی کہ مرنے کے بعد اس کا مزار بنادیا۔ میلو کا مزار آج بھی حضرت دین پناہ کے مزار سے تین کلو میٹر دور بستی جھنگی میں موجود ہے [6]۔ حضرت سید عبدالوہاب شاہ بخاری المعروف سخی دین پناہ کی کرامات کے بیشمار قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ مشہور ہے کہ حضرت دین پناہ کا ایک بیٹا (کشتی) ہوتا تھا جو حکم خداوندی سے خشکی پر چلتا تھا اور سرکار اس پر کئی میلوں سفر کرتے تھے۔ ایک دفعہ بی دین پناہ کشتی میں سفر کر رہے تھے اور دائرہ سے شمال کی جانب تقریباً 50 میل دور کروڑ لعل عیسن پہنچے جہاں پر حضرت لعل عیسن موجود تھے جو حضرت سخی دین پناہ کے ہم عصر بھی تھے ۔ انہوں نے کشتی کو رکنے کا حکم دیا اور بیٹڑارک گیا۔ حضرت سخی دین پناہ نے کہا کہ بیڑا رو کنے والے کے سینگ کیوں نہیں نکل آتے تو یہ کہتے ہی حضرت عل عیسن کے سینگ نمودار ہو گئے پھر حضرت لعل عیسن کی والدہ ماجدہ جو کہ نیک اور پارسا خاتون تھیں حضرت دین پناہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور معافی کی طلب گار ہوئیں ان کی عزت و تکریم کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی دین پناہ نے حضرت لعل عیسن کو معاف کر دیا مگر آج بھی ان کے خاندان جو اصل قریش ہیں ان کے سروں پرسینگ کے نشان پیدائشی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ حضرت بی دین پناہ کے کشف و کرامات کے قصے سن کر شہنشاہ ہند مغل بادشاہ جلال الدین اکبر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی خدمت میں ہیرے جواہرات پیش کئے ، اسی دوران ایک غریب عقیدت مند جو کہ تھوڑے سے گیہوں لیکر بھی حاضر ہو گیا ۔ حضرت نے ہیرے اور جواہرات کو ہاتھ میں پکڑ کر دبایا تو ان ہیرے جواہرات سے خون نکلنے لگا اور پھر غریب عقیدت مند کے گیہوں کو ہاتھ میں پکڑ کر دبایا تو اس میں سے دودھ نکلنے لگا۔ جس کے بعد کی دین پناہ نے غریب عقیدت مند کے گیہوں قبول کر لیے جبکہ شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کے جواہرات یہ کہہ کر واپس لوٹا دیے کہ ان میں غریب اور مجبور لوگوں کا خون شامل ہے۔ یہ سارا ماجرہ دیکھنے کے بعد شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر حضرت کی دین پناہ کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا اور قدم بوی کر کے الٹے پاؤں واپس لوٹ گیا [7]۔ حضرت کی دین پناہ کی وفات 1011ھ میں ہوئی اور ان کے عقیدت مند شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر نے آپ کا مغل طرز تعمیر کا حامل شاندار مزار تعمیر کروایا اور مزار کے اطراف میں وسیع زمین ان کے عقیدت مندوں کی آمد ورفت اور قیام کیلئے وقف کی [8]۔ آج آپ کا مزار قصبہ دائرہ دین پناہ میں موجود ہے۔
حضرت ڈیڈھے لعل قریشی
آپ کا اصل نام شہاب الدین قریشی ہے ۔ آپ بھی حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ بابا بگا شیر ، شیخ سادن شہید، مخدوم موسیٰ قتال اور مخدوم عبد الرشید کے بھائی ہیں ۔ بزرگوں کے مطابق آپ ولایت و کمالات میں بھائیوں سے زیادہ درجہ رکھتے تھے اس لئے ڈیڈھا ( ڈیڑھ ) عمل کہلائے ۔ آپ کو یہ خطاب مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے دیا تھا۔ آپ تبلیغ دین کے سلسلے میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے حکم پر روہیلانوالی کے نزدیکی علاقے میں تشریف لائے ۔ یہاں مسجد اور حجرہ تعمیر کروایا ۔ یہاں تبلیغ دین اور قرآن و حدیث کی ترویج میں زندگی گزار دی۔ ہر پلو یہیں فوت ہوئے اور قصبہ ڈیڈھے محل موضع ہر پلو ( روہیلا نوالی ) میں دفن ہوئے ۔ آپ کی وفات کے بعد نواب آف بہاولپور نے آپ کا مزار تعمیر کروایا جو آج بھی موجود ہے [9]۔
حضرت بابا بگا شیر ۔۔ خانپور بگا شیر
آپ کا اصل نام محمدطاہر قریشی ہے مگر آپ بابا بگا شیر کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کا تعلق قریشی خاندان سے ہے۔ آپ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے چا زاد بھائی ہیں [10]۔ آپ حضرت مخدوم عبدالرشید معانی ( مخدوم رشید) کے بھائی ہیں ۔ آپ نہایت عابد وزاہد اور پرہیز گار تھے۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں مظفر گڑھ کے نزدیک صحرائے تھل میں تشریف لائے اور رہائش پذیر ہوئے۔ مقامی داستان کے مطابق ان دنوں یہاں ایک سفید رنگ کے شیر نے علاقے میں خوف طاری کر رکھا تھا۔ آپ کے آنے کے بعد وہ آپ کا مطیع ہو گیا کہتے ہیں جب آپ صحرا میں عبادت کرتے تو شیر با ہر بیٹھ کر پہرہ دیتا۔ لوگوں نے آپ کو بابا بگا شیر والا کہنا شروع کر دیا [11]۔ اور آپ اسی نام سے مشہور ہو گئے ۔ خانپور بگا شیر کا قصبہ بھی آپ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ کی وفات یہیں ہوئی، بعد میں بھیرہ کے زمیندار اور آپ کے عقیدت مند سردار فتح محمد خاں قندرانی نے آپ کا خوبصورت مزار تعمیر کروای [12] ۔ جو آج بھی خان پور بگا شیر میں موجود ہے ۔ حضرت بابا بگا شیر کا عرس ہر سال ساون کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے۔
حضرت شیخ لد ھو
آپ کا تعلق قریشی خاندان سے ہے۔ آپ شیخ سادن اور حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے بھیجے ہیں [13]۔ آپ نے تھل کے ایک بے آباد ویرانے کو مسکن بنایا ۔ بعد میں یہ جگہ بستی لدھو کے نام سے مشہور ہوئی ۔ آپ کا مزار مظفر گڑھ شہر کے نواح میں بھٹہ پور کے قریب بطرف مغرب صحرائے تھل میں ایک چھوٹی سی بستی میں واقع ہے۔ آپ نے اس علاقے میں دین اسلام کی ترویح کا کام کیا علاقے کی چانڈیہ ، قند رانی ، سنانواں اور کالرو برادری آپ کے مرید ہیں۔ آپ اپنے وقت کے بڑے صوفی بزرگ اور عالم دین تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کا شاندار مزار آپ کے عقیدت مندوں نے بنوایا۔
حضرت داؤد جہانیاں
آپ مظفر گڑھ کے گاؤں رام پور کے رہنے والے تھے ۔ اب رام پور کا نیا نام دین پور ہے ۔ آپ رام پور ( دین پور ) کے مقامی زمیندار تھے اور میل خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ۔ آپکا اصل نام میاں داؤد ہے [14] ۔ آپ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مرید خاص تھے ۔ آپ کی خدمت گزاری ، اطاعت اور عقیدت مندی سے خوش ہو کر مخدوم جہانیاں گشت نے فرمایا کہ میاں داؤد آج سے تم بھی جہانیاں ہو ہم بھی جہانیاں ہیں۔ اس سے آپ حضرت داؤد جہانیاں کے نام سے مشہور ہوئے ۔ مظفر گڑھ شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر موضع دین پور میں آپ کا مزار واقع ہے ۔ مزار سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر مرکزی شاہراہ علی پور روڈ پر واقع قصبہ پیر جہانیاں آپ کے نام سے منسوب ہے [15]۔ ان کے مقبرے کے دروازے پر یہ شعر درج ہے ۔
تار یک گشت جملہ جہاں بہ جمال شاہ
تاریخ کوہ ہفت صد ہشتا دو پنج سال
دریائے چناب کے کنارے لطف پور میں پیر داؤد جہانیاں کی چوکی یا جائے آرام واقع ہے۔ ایک مرتبہ مخدوم جہانیاں مظفر گڑھ سے گزر رہے تھے کہ آپ نے لوگوں سے فرمایا: کون ہے جو مجھے دودھ پلائے ، اور اپنی بھینس مروائے ؟ چنانچہ کسی نے بھی حامی نہ بھری لیکن ایک زمیندار میاں داؤد نامی دوڑتا ہوا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی حضرت میں دودھ پیش کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: میاں سوچ لو بھینس مر جائے گی ۔ اس نے عرض کی حضور یہ تو بھینس ہے، جان طلب کریں تو حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا دودھ لے آؤ۔ میاں داؤد فوراً گھر سے گلاس میں دودھ لے آئے اور کہہ آئے کہ بھینس مرنے لگے تو ذبح کر لینا۔ چنانچہ حضرت نے گلاس کو منہ سے لگایا ہی تھا کہ ادھر بھینس کے گلے پر چھری پھر گئی۔ اس واقعہ کو پانچ سال گزر گئے ۔ میاں داؤد کی ایک چھوٹی سی بھینس کی بچی تھی۔ وہ اس کی پرورش کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے آگے پھر ایک بچی جنم دی اور میاں داؤد کے گھر میں دودھ کی نہر اور خوشی کی لہر آگئی لیکن مخدوم جہانیاں پھر پہنچ گئے اور پہلے والا سوال کیا۔ میاں داؤ د پھر دودھ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ نے دودھ پیا ادھر پہلے کی طرح بھینس کے گلے پر چھری پھر گئی اور اس کی آگے ایک ماہ کی بچی رہ گئی۔ آپ تشریف لے گئے ۔ میاں داؤد اس بچی کی پرورش کرنا شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اس نے ایک بچی دی اور پھر مخدوم پہنچ گئے ۔ اس طرح یہ واقعہ چار دفعہ پیش آیا۔ چوتھی مرتبہ مخدوم نے دودھ پیا بھینس ذبیح ہو گئی مگر اس دفعہ حضرت گئے نہیں بلکہ کھڑے رہے۔ کبھی میاں داؤد کی طرف اور کبھی ذبح ہونے والی بھینس کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا میاں داؤد میرے پیچھے آؤ۔ اب حضرت مخدوم آگے اور میاں داؤد پیچھے چل رہے تھے ۔ چلتے چلتے دونوں ایک دریا کے کنارے پہنچ گئے ۔ آپ نے وضو فر مایا اور نماز ادا کی۔ پھر میاں داؤد سے فرمایا تمہاری بھینس کا کیا نام تھا۔ اس نے عرض کی۔ میری بھینس کا نام ” سونی” تھا۔ حضرت نے فرمایا: بہتر ، اب جس طرف پانی کا بہاؤ ہے ، اسی طرف تم سوہنی سوہنی پکارتے جاؤ مگر پیچھے مڑکر نہ دیکھنا۔ میاں داؤد نے ایسا ہی کیا۔ لیکن کچھ دور جا کر انہوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بہت سی بھینسیں اس کے پیچھے آرہی ہیں ۔ حضرت مخدوم نے دور ہی سے فرمایا: میاں داؤد ، تم نے یہ کیا کیا! اگر تم اسی طرح چلے جاتے اور مڑ کر نہ دیکھتے تو ہر طرف بھینسیں ہی بھینسیں نظر آتیں۔ اس نے عرض کی: حضور میں غریب آدمی ہوں ، انہیں کیسے سنبھالتا؟ ان کا چارا کہاں سے لاتا؟ آپ نے فرمایا: ہر چیز کا رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ تم ان کے لیے جو بھی گھاس لا سکو گے وہی پورا ہو جائے گا۔ آپ دعا کر کے چلے گئے ۔ میاں داؤد نے ایک نوکر رکھ لیا جو بھینسوں کی دیکھ بھال کرتا ۔ خود میاں داؤ د سر پر دودھ کا مٹکا اٹھاتا اور کئی میل دور اوچ شریف میں جا کر حضرت مخدوم جہانیاں کے لنگر میں شامل کرتا ۔ اسی طرح کئی سال گذر گئے ۔ ایک دن حضرت مخدوم گھر سے باہر تشریف فرما تھے کہ میاں داؤ د سر پر مٹکا اٹھائے سامنے سے گذرا۔ حضرت مخدوم نے ملازم بھیج کر میاں داد کو پاس بلایا۔ اس نے سر سے منکا اتار کر ایک طرف رکھا اور بڑے احترام سے قدم بوس ہوا۔ آپ نے اسے گلے لگایا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا۔ بھائی داؤ آپ نے بہت محنت کی ہے۔ اپنا دایاں ہاتھ بڑھاؤ تا کہ تجھے پیران کرام سے ملادوں۔ میاں داؤد حضرت کے دست حق پرست پر بیعت ہو کر سلسلہ سہروردیہ میں داخل ہوئے ۔ اور شیخ کی توجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں کمال درجے تک پہنچ گئے [16]۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت مخدوم نے فرمایا: ہم بھی پیر جہانیاں ہیں تم بھی پیر جہانیاں ہو ۔ چنانچہ میاں داؤد آپ کی نظر کرم سے پیر جہانیاں’ کے لقب سے مشہور ہو گزرے ہیں ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کا مقبرہ تعمیر کیا گیا جو قدیم فن تعمیر کا حامل ہے۔ والی ملتان نواب مظفر خان نے اپنے دور میں اس مقبرے کی تعمیر ومرمت کروائی تھی بعد میں دیوان ساول مل نے بھی مرمت کا کام کروایا۔ یہاں ایک در بے کساں ہے جہاں بیمار، دھی اور لاچار لوگ آکر دعا ئیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ حضرت داؤد جہانیاں کے ایک بھائی لجن درویش کے نام سے مشہور ہیں ۔ لجن درویش آپ کے خلیفہ مجاز تھے ۔ آپ نے انھیں مرید بنانے کی اجازت دی تھی ۔ گزیٹیئر آف بہاولپور میں لکھا ہے کہ ان کا مزار خان پور ریلوے سٹیشن سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ انہوں نے اس علاقے میں متعد دقبائل کو مسلمان کیا جن میں رو تجھے، کھویے ملھے اور میرے شامل ہیں [17]۔ دربار پیر جہانیاں کے موجودہ سجادہ نشین پیر مخدوم اولیس علی پیر جہانیاں میں مخدوم امتیاز رسول کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ فارسی کی تعلیم دورہ حدیث اور دورہ تفسیر مولانا خدا بخش اظہر شجاع آبادی سے مکمل کیا۔ کالج کے دنوں میں انجمن طلبہ اسلام کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں فعال رہے ۔ آج کل تبلیغ دین کے کام سے وابستہ ہیں۔ سندھ میں آپ کے مریدین کی کثیر تعداد موجود ہے۔ سندھ میں کئی ہندوؤں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ آپ درگاہ مخدوم جہانیاں پر مثنوی مولا نا روم کا درس دیتے ہیں ۔ آپ نے ابن سینا کالج ملتان سے فاصل طب و جراحت کی سندلی ہے۔ آپ علم و حکمت کا سمندر ہیں [18]۔
حضرت محب جہانیاں
مظفر گڑھ شہر کے جنوب مغرب میں 25 کلو میٹر کے فاصلہ پر موضع میتلا کے ایک گاؤں میں محبت جہانیاں کا مزار واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مزار تقریبا 900 سال پرانا ہے۔ اب یہ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے۔۔ آپ ذات کے سید ہیں ۔ آپ کا تعلق اوچ سے ہے۔ آپ اس علاقے میں تبلیغ دین کی خاطر آئے ۔ آپ کے دست حق پر صحرائے تھل کے بہت سارے قبائل نے اسلام قبول کیا ۔ مظفر گڑھ گزٹیئر کے مطابق آپ کا مزار 9 سو سال پرانا ہے [19]۔ آپ ساری زندگی مونڈ کا مہر پور اور شاہ جمال سمیت آس پاس کے علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ پہلی بیوی سید زادی تھی۔ دربار کے موجودہ گدی نشین نے دعوی کیا ہے کہ آپ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے بیٹے ہیں ۔ آپکی دوسری شادی میلا خاندان میں ہوئی [20]۔ آپ کی آل اولاد کے قبریں بھی آپ کے دربار کے ساتھ موجود ہیں ۔ اب میتلا خاندان کے افراد انکے دربار کے متولی ہیں ۔ غازی خان میرانی کو آپ سے بہت عقیدت تھی۔
حضرت نور شاہ قلندر
حضرت نور شاہ قلندربخاری سید تھے ۔ آپ کے آباؤ اجداد بخارا سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ آپ کا اصل نام نور شاہ بخاری ہے ، آپ حافظ جمال اللہ ملتانی سے پہلے دور کے بزرگ ہیں [21] آپ کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں ۔ سائیں فیض بلوچ نے اپنی کتاب سانجھ سلوک کے مضمون حضرت نورشاہ قلندر، تلائی اور میلہ میں لکھا ہے کہ آپ کا دور لگ بھگ تین سو سال پہلے کا ہے آپ ساری عمر کنوارے رہے ۔ آپ آزاد طبع اور قلندر مزاج صوفی بزرگ ہیں۔ آپ ساری زندگی تبلیغ دین کے کام میں مصروف رہے ۔ روایت ہے کی آپ کے آنے سے پہلے یہ جگہ ( نورشاہ تلائی) تلائی چانڈیہ کہلاتی تھی آپ جب اس جگہ تشریف لائے اور یہاں پانی کا کنواں کھدوایا آس پاس کی مختلف قوموں کے لوگ بھی یہاں آباد ہوئے اور یہ جگہ آپ کے نام سے نور شاہ تلائی مشہور ہوگئی ۔ تلائی سرائیکی زبان میں تالاب یا ٹو بھے کو کہتے ہیں۔ اسی جگہ بارش کا پانی جمع ہو کر تلائی کی شکل اختیار کر لیتا تھا اس وجہ سے یہ جگہ تلائی چانڈیہ کہلاتی تھی۔ نور شاہ تلائی میں آج بھی سمرا قوم کے لوگ آباد ہیں جو مٹی کے برتن بنانے کا کام کرتے ہیں۔ آپ کی حیاتی میں اسی قوم کے افراد آپ کی خدمت گزاری پر مامور تھے ۔ آج بھی خادمان دربار کا سلسلہ اسی سمرا قوم میں چلا آ رہا ہے (22)۔ روایت ہے کہ آپ نے ساری زندگی موجودہ دربار سے بطرف مشرق واقع جال کے درخت کے نیچے گزار دی۔ آپ کے پاس وضو کے لیے استادوا اور پینے کے پانی کیلئے مشکا ہر وقت موجود رہتا ۔ آپ آنے جانے والے مسافروں کو پانی پلاتے تھے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ وسیع ہوتا چلا گیا مقامی روایت ہے کہ آپ صاحب معرفت بزرگ فقیر منش اور قلندر تھے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق آپ کی وفات کے بعد آپ کا مزار اس وقت کے مغل بادشاہ نے تعمیر کروایا تھا جس کی چھت عمدہ لکڑی سے آراستہ کی گئی تھی ۔ یہ مزار 1975 ء تک اپنی اصل حالت میں موجود تھا۔ 1978ء میں سمرا برادری کے حاجی غلام محمد نے مزار کی نئے سرے سے تعمیر کروائی یہ دربار 1982 ء سے محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہے۔ حضرت عالم پیر بخاری آپ کا تعلق اوچ شریف کے بخاری خاندان سے ہے آپ کا پورا نام حضرت علم الدین شاہ بخاری ہے۔ آپ کے والد سید سلطان احمد قتال بخاری تھے ۔ آپ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کے ہم عصر تھے ۔ آپ کے دو اور بھائی بھی تھے ۔ سید عبادالدین شاہ بخاری نے جلال پور پیر والا کے شمال میں علی پور سادات کا گاؤں آباد کیا [23]۔ آپ کے والد سید سلطان احمد قمال بخاری نے دریائے چناب کے مغربی کنارے پر مقامی زمیندار میاں سلطان محمود مجزا کی عطا کی گئی زمین پر شہر سلطان کا گاؤں آباد کیا اور اپنے بیٹے حضرت علم الدین شاہ بخاری کو یہاں تبلیغ دین کیلئے مقرر کیا 24] ۔ آپ نے زندگی یہیں گزاری یہیں فوت ہوئے اور آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔ مقبرے کی موجودہ عمارت دیوان محمد غوث نے تعمیر کرائی جواب بھی موجود ہے۔ آپ کے مزار پر ہر سال بہت مشہور میلہ عالم پیر بخاری لگتا ہے۔
حضرت میراں حیات
آپ کا لقب ابو تراب ہے۔ آپ علاقے میں ڈاچی والا پیر کے نام سے مشہور ہیں [25] ۔ مقامی روایت ہے کہ آپ کا تعلق پیر عبد القادر جیلانی کے خاندان سے ہے آپ ان کے بھتیجے ہیں ۔ آپ کا عرس ہر سال ماہ رمضان میں منعقد ہوتا ہے۔ آپ کو ڈاچی والا پیر اس لئے کہتے ہیں کہ جب آپ بغداد شریف سے اس علاقے میں تشریف لائے تو آپ ڈاچی پر سوار تھے۔ وہ ڈاچی بڑا عرصہ آپ کے پاس رہی آپ اس پر سواری کرتے تھے اسی وجہ سے ڈاچی والا پیر کے نام سے مشہور ہوئے [26]۔ آپ کا مزار گاؤں میراں حیات میں واقع ہے۔ دربار میراں میں حیات علی پور روڈ پر مظفر گڑھ شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر منڈا چوک کے ساتھ واقع ہے۔
حضرت شیخ بدھ
آپ کا تعلق مظفر گڑھ کے ایک قبیلہ بدھ سے ہے ۔ آپ شیخ الاسلام حضرت صدر الدین عارف ملتانی سہروردی کے مرید خاص تھے ۔ آپ کا مزار قصبہ بدھ میں موجود ہے [27] ۔ آپ نے اپنے مرشد کے حکم پر اس پسماندہ علاقے میں لوگوں کو دین اسلام کی اور تبلیغ کی ساری زندگی زہد و عبادت میں گزار دی ۔ آپ وفات کے بعد قصبہ بدھ میں دفن ہوئے ۔ آپ کے حوالے سے کئی کرامات مشہور ہیں۔
خواجہ عبد الواحد چشتی
آپ وقت کے بڑے عالم اور بزرگ تھے ۔ آپ کا تعلق بغداد سے ہے ۔ آپ بغداد سے ہجرت کر کے مظفر گڑھ کے قصبے سدھاری آئے اور یہاں رہائش پذیر ہوئے اور یہاں تبلیغ دین کا کام شروع کیا۔ آپ یہیں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے ۔ آپ کا مزار کوٹ ادو کے پاس قصبہ سدھاری میں واقع ہے –
حضرت حاجی حسین شاہ بخاری ( شہر سلطان)
آپ کا تعلق بھی بخاری خاندان سے ہے ۔ آپ 1893ء میں شہر سلطان میں پیدا ہوئے ۔ حفظ قرآن کرنے کے بعد درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔ 25 سال کی عمر میں تارک الدنیا ہو گئے ۔ 1918ء میں پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف کی بیعت کی [29]۔ چار مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ اجمیر ، ملتان اور لاہور کی روحانی درسگاہوں سے فیض حاصل کیا ۔ آپ کی دعوت اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا 19 مئی 1955ء کو آپ کا وصال ہوا اور شہر سلطان میں دفن کیا گیا۔
حضرت ما بجھن سلطان
اصل نام نور عالم شاہ ۔ ہے مگر پیر مانجھن سلطان کے نام مشہور ہیں ۔ ان کا در بار مراد آباد کے نزدیک بستی جڑھ میں واقع ہے۔ آپ حضرت زین العابدین کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ ساری زندگی کنوارے رہے 63 سال کی عمر میں وفات پائی [30]۔ آپ کے بارے کئی روایات مشہور ہیں آپ فارسی زبان کے شاعر بھی تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے۔
من خاک دلم خاک بت جاں ہمہ خاک
کوہ خاک زمین خاک بت جاں ہمہ خاک
حضرت محبت فقیر
آپ انیسویں صدی کے شروع میں اوچ شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا اصل نام قائم دین ہے مگر محبت فقیر کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ بھٹی قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔ طبیعت شروع سے روحانیت اور خدمت خلق کی طرف راغب تھی ۔ ساری زندگی انسانوں اور جنگل کے جانوروں کو پانی پلانے پر گزار دی۔ اس حوالے سے کئی کہانیاں آپ سے منسوب ہیں ۔ آپ نے اپنی والدہ کی بھی بہت خدمت کی۔ آپ کی ساری زندگی علی پور کے علاقے میں گزری ۔ 1935ء میں آپ کا وصال ہوا ۔ مرکزی عید گاہ خیر پور سادات میں نماز جنازہ ادا کیا گیا ۔ وصیت کے مطابق موضع میں مجیٹھ میں مسجد کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ایک ہندو عقیدت مند دیوان بھیری لال نے آپ کا مزار تعمیر کر وایا اور مسافر خانہ بھی بنوایا ۔ 1990ء میں مزار کی دوبارہ تعمیر ومرمت ہوئی
حضرت کل کنول سائیں
آپ کا اصل نام شیخ نصیر الدین لنگاہ ہے۔ تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے متعلق معلومات نہیں ملتی ہیں۔ آپ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مرید تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا زمانہ ساتویں صدی ہجری کا ہے ۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی جینسیں چراتے تھے اور دودھ روزانہ اوچ شریف ان کی خدمت میں پہنچاتے تھے۔ اس خدمت سے خوش ہو کر مرشد نے اس خدمت گار کو کل کنول کا نام دیا اور آپ اس نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا مزار علی پور کے نزدیک واقع ہے ۔
حضرت غوث حمزہ اور امیر حمزہ
آپ نیک ولی اور صوفی بزرگ ہو گزرے ہیں۔ حضرت امیر حمزہ غوث حمزہ نامی دو بزرگوں کا مزار مظفر گڑھ شہر کے وسط میں واقع ہے۔ ان کے حالات زندگی کے متعلق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
حضرت شاہ جمال
آپ کا در بارقصبہ شاہ جمال میں ہے ۔ قصبہ شاہ جما کا پر ان نام سمجھر تھا مگر بعد میں آپ کے نام سے شاہ جمال مشہور ہوا ۔ آپ حافظ قرآن تھے آپ صوفی بزرگ اور درویش صفت انسان تھے ۔ آپ کا دربار سردار فتح محمد قندرانی نے بنوایا تھا۔ کئی مرتبہ دربار کی تعمیر و مرمت ہو چکی ہے [33]۔
حضرت قاضی سلطان محمود
سنانواں کے نزدیک ایک گاؤں منفی حمزہ میں ملک محمد عبد اللہ کے گھر پیدا ہوئے چاچڑاں شریف، کوٹ مٹھن اور خان پور سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ وقت کے بڑے عالم دین، مقر ر محدث اور مفسر تھے۔ آپ نے 11 سال تک چاچڑاں میں درس دیا ۔ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر انگریزوں کی سخت مخالفت کی اور عثمانی ترک خلافت کی حمایت کی (34)۔ انگریزی فوج میں بھرتی کو حرام قرار دیا۔ حق گوئی اور بے باکی کی آپ کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ کر کے آخری حصے میں منفی حمزہ تشریف لائے اور یہیں اللہ کو پیارے ہوئے آپ کا مزار ڈوگر کلاسرہ میں ہے۔ دیگر بزرگان دین سرزمین مظفر گڑھ کے دیگر بزرگان دین میں حضرت مہرن سلطان کا مزار رو ہیلانوالی کے نزدیک واقع ہے ۔ سید شہاب الدولہ اور عبد اللہ شاہ بخاری کے مزارات کر مداد قریشی میں واقع ہیں کر مداد قریشی میں قریشی خاندان کے ایک بزرگ میاں شیر محمد غازی کا مزار بھی واقع ہے۔ قصبہ گجرات میں دو بزرگوں حاجی اسحاق اور حاجی اسماعیل کے مزارات واقع ہیں ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ حضرت نظام الدین اولیا کے شاگرد ہیں ۔ سنانواں میں سیرت ملی شاہ اور حضرت شاہ حسین کے مزارات واقع ہیں۔ محمود کوٹ میں حضرت چین سلطان، خواجہ محمد حسین پنوار چشتی ، حضرت قلندر تراب شاہ، سید سلطان اکبر شہید اور حضرت امام شاہ بخاری کے مزارات واقع ہیں ۔ دائرہ دین پناہ میں مائی سہاگن ، شاہ یعقوب اور میاں میلو کے مزارات واقع ہیں۔ کوٹ ادو میں حیدرغازی کا مزار واقع ہے آپ حضرت دین پناہ کے ہم عصر تھے۔ اس کے علاوہ کوٹ ادو میں سید مٹھن شاہ ، سید نصرالدین شاہ بخاری، سید نهنگ شاه بخاری حضرت سید صالح اسماعیل سندھی ، حضرت بہاؤالدین ، حافظ صاحب گڑھی قریبی ، حضرت سید زاہد شاہ بخاری اور سید اللہ بخش شاہ کبیری کے مزارات واقع ہیں۔ حضرت مسنبل شہید، حضرت فتح شاہ اور حضرت میاں موسی ” کے مزارات بصیرہ قلندرانی کے پاس موجود ہیں۔ مظفر گڑھ شہر میں ریلوے سٹیشن کے سامنے حضرت سید شہید المعروف پیر پراٹھے شاہ کا مزار واقع ہے۔ آپ کے تعلق مشہور ہے کہ آپ حضرت غوث حمزہ اور حضرت امیر حمزہ کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ جبکہ پیر عبداللہ شاہ المعروف پیر کالے شاہ کا مزار مظفر گڑھ شہر کے محلہ شیخوپورہ میں واقع ہے اور محلہ قائم والا میں سید کرم حسین شاہ المعروف چور شاہ کا مزار ہے۔ مظفر گڑھ شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر بستی گازراں کے پاس حضرت غلام محمد شاہ کا مزار واقع ہے آپ اپنے وقت کے بڑے بائل صوفی بزرگ ہو گزرے ہیں۔ موضع احمد بری سلطان میں حضرت احمد بری سلطان کا مزار ہے ، موضع موسیٰ خلیفہ میں جان محمد سائیں اور موضع جادہ چانڈیہ میں میاں چھٹن علی کے مزارات واقع ہیں۔ روہیلانوالی کے نزدیک موضع رکن والی میں حضرت جندن امام شاہ کا مزار ہے ۔ حضرت نورشاہ بغدادی کا مزار ہستی خلیفہ قادر پور یک مجوزہ کے پاس واقع ہے۔ سیت پور میں حضرت جہان شاہ غازی ، مخدوم کیمیا نظر اور مخدوم موسیٰ ظاہر شمسی کے مزارات واقع ہیں، جبکہ سلطان پور میں حضرت خواجہ حافظ، کندائی میں سلطان احمد چشتی بھنبھری میں گلن پیر کا مزار واقع ہے۔ رنگ پور کے نزدیک کڑی علی مردان میں پیر علی کامل اور پیر دین شاہ کے مزار ہیں۔ جتوئی میں پیر مسافر شاہ کا مزار واقع ہے۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے