دانشور، سیاستدان اور سیاح ۔۔۔ میاں مظفر مہدی ہاشمی قریشی
تاریخی قصبہ ٹھٹھہ قریشی کے قریشی خاندان کا بڑا نام ہے اس خاندان کے افراد نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر اپنی اہلبیت ، قابلیت اور لیاقت کا لوہا منوایا ہے اس خاندان میں کئی نامی گرامی افراد پیدا ہوئے جنھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں سرزمین مظفر گڑھ کا نام روشن کیا۔ یہ خاندان ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ میاں فضل کریم قریشی، مظفر مہدی ہاشمی قریشی، میاں احسان کریم قریشی، میاں امتیاز علی قریشی ، عابد علیم قریشی اور میاں محمد عمران قریشی سمیت اس خاندان کے کئی افراد سیاست میں سرگرم عمل رہے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ میاں مظفر مہدی ہاشمی قریشی منفرد مقام کے حامل ہیں۔ میاں مظفر مہدی ہاشمی ضلع مظفر گڑھ کے دانشور سیاستدان تھے ۔ سابق صدر بھارت ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے استاد تھے ۔ پاکستان سوسائٹی لندن کے صدر رہے [98]۔ ٹھٹھہ قریشی کا یہ چشم و چراغ اور مظفر گڑھ کی سیاست کا روشن ستارہ 1928ء کو خدا بخش ہاشمی قریشی کے ہاں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے میٹرک کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹر کیا۔ لندن یونیورسٹی سے بی اے آنرز ہسٹری میں کیا۔ آپ کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی میں بیچرر رہے [99]-60 کی دہائی میں سیاست میں فعال ہوئے اور 1965ء میں مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ ایک عظیم محب وطن پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے عظیم داعی تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کے حو الے سے ایک شاندار کتاب بھی تحریر کی جو سن 19 میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب تاریخ نظریہ پاکستان کے بیک ٹائٹل پر اپنے بارے میں خود یوں رقم طراز ہیں [100]۔ میں از خود بھی بھی علم کی تلاش میں سرگرداں نہیں رہا۔ حالات کے چھیڑے مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے رہے۔ پنجند کے نزدیک چناب کے کنارے تھصہ قریشی سے اٹھا کر مجھے جمنا کے کنارے دہلی کھڑا کر دیا گیا۔ جامعہ اسلامیہ دہلی میں 6 برس قیام کے بعد مجھے میٹرک کی سند ملی گئی ۔ آزادی کے حصول کے بعد میں بلاد ہند سے بلاد پاکستان کی طرف منتقل ہو گیا۔ یہاں کسی بھی علمی ادارے میں میرا دل نہ لگا اور کچھ عرصہ محض آوارہ گردی میں گزرا۔ بالآخر راوی کے کنارے گورنمنٹ کالج کے نیو ہوٹل میں مجھے ایک کمر امل گیا۔ موروثی طور پر تاریخ کے علم سے مجھے جو تھوڑی بہت دلچسپی تھی اس کی بنا پر مجھے ایم اے تاریخ کی سند مل گئی ۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم میں ابھی میں نے ایک برس بھی پورا نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو دریائے ٹیمز کے کنارے کھڑا پایا ۔ لندن یونیورسٹی دو برس کے بعد مجھے بی اے آنرز کی سند کا حقدار قرار دیدیا۔ یہ سب کچھ بس ہو گیا۔ اس دوران میں بھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا ۔ نصابی سرگرمیوں سے زیادہ مجھے غیر نصابی معاملات میں دلچسپی رہی۔ کتاب سے زیادہ مجھے کسی بڑی شخصیت کی محبت لطف دیتی تھی ۔ میرے والد صاحب خدا بخش قریشی اسدی الہاشمی بذات خود ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے میری ابتدائی تربیت کی اور میری تعلیم کی خاطر کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ از خود نہ تو کبھی شہرت کے طالب رہے اور نہ انہیں کی ۔ لیکن پنجند سے لیکر جھنگ تک دریائے چناب کے کنارے کا شاید ہی کوئی خانوادہ ہو جو ان کے کردار کا معترف نہ ہو ۔ ان کے بعد میرے اساتذہ نے مجھے وہ کچھ دیا جو کتابیں انہیں دے سکتی تھیں۔ لیکن تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعد میرا بڑا مشغلہ سیاحت تھا۔ تمام مغربی یورپ، شمالی امریکہ، بھارت، بنگلہ دیش اور چین میں خوب گھوما اور یادداشتیں لکھیں ۔ ایک دفعہ مجھے قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی نواز دیا۔ جس کی بے لطفی سے میں نے چار برس تک لطف اٹھایا۔ 1971ء کی جنگ کے دوران میں نے رضا کارانہ طور پر مجاہد فورس میں شمولیت اختیار کی اور بطور کپتان فوجی تربیت حاصل کی ۔ ” رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھے۔
میاں مظفر مہدی ہاشمی دانشور لکھاری اور سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ ایک سیاح بھی تھے ۔ ساری زندگی سپر د سیاحت کرتے رہے۔ انہوں نے بھارت ، امریکہ، برطانیہ، فرانس سکیم ، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن، ناروے جیسے ملکوں کا سفر کیا۔ ان ملکوں کے سفر کی یادداشتوں پر ایک کتاب دیش پردیش، تحریر کی جو سن 19 میں شائع ہوئی۔ وہ اس کتاب کے پیش لفظ میں خود یوں تحریر کرتے ہیں۔ ” میں نے دنیا کے تقریباً 15 ممالک کی سیاحت کی ہے جبکہ اپنے ملک میں خوب گھوما پھرا ہوں ، وہ اپنے سفرنامے دیش پردیش کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ۔ یوں تو اُردو زبان میں متعد د سفرنامے لکھے گئے ہیں لیکن میرے آئیڈیل صرف دو مقدی بشاری اور علامہ مسعودی ہیں۔ میری زیادہ تر سیاحت تعلیم کے دوران ہوئی ، لندن یونیورسٹی میں جب بی اے آنرز کا طالبعلم تھا تو چھٹیوں میں تنہا نکل جاتا تھا۔ یورپ کے لوگوں سے ملتا، ان کے خیالات سنتا شہروں کو دیکھتا ، وہاں کے قصبوں میں قیام کرتا۔ وہاں کی خوبصورت زمین کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا اور اسی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک چلا جاتا۔ بھی بسوں میں بھی دوست کیسا تھ اسکی ذاتی کار میں [101] مظفر مہدی 1965ء کے بعد بھی سیاست میں سرگرم رہے۔ 1970ء کے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2010ء میں آپ کا انتقال ہوا ۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ انکے ایک بیٹے میاں افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی سفیر پاکستان رہنے والے سرزمین مظفر گڑھ کے اولین فرزند ہیں۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے