میاں عطا محمد قریشی:مظفر گڑھ کے پہلے عوامی سیاست دان
جاگیر داروں اور وڈیروں کی سرزمین مظفر گڑھ میں پسماندہ پس منظر کے حامل جس سیاسی کارکن نے اس کی دہائی میں سیاست کی دنیا میں تہلکہ مچایا تھا اسکا نام تھا عطامحمد قریشی ۔ آپ کا تعلق مخدوم شہاب الدین قریشی ڈیڈھے لعل کے خانوادے سے ہے۔ آپ 1932ء کو بستی ڈیڈھے لعل میں میاں غلام حبیب قریشی اور نور بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بستی کے نیک بزرگ اور درویش آدمی تھے اور علاقے کے پیر تھے اور پورے علاقے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ عطا محمد قریشی سب سے بڑے بھائی تھے چھوٹے بھائی میاں فدا حسین قریشی ان سے 7 سال چھوٹے تھے ابتدائی تعلیم پانچویں جماعت تک گاؤں سے حاصل کی ۔ بعد میں پرائیویٹ طور پر اساتذہ سے پڑھ کر ادیب فاضل اور منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ ان کی والدہ بچپن میں فوت ہو گئی تھی اس لئے ان کی دادی زینت بی بی نے انکی پرورش اور تربیت کی ۔ 1954ء میں رشیدہ بیگم سے انکی شادی ہوئی ۔ 1956ء میں تلاش معاش کے لئے پیدل ملتان گئے مگر کوئی ملازمت نہ ملی اور مایوس ہو کر واپس گاؤں آگئے ۔ کچھ عرصہ بعد 1957 ء میں اپنی بیوی اور نومولود بیٹی کولیکر قسمت آزمائی کیلئے دوبارہ ملتان آئے ۔ محنت مزدوری کرتے رہے ۔ ملتان میں 14 نمبر چونگی اور ڈیرہ اڈا پر پٹرول پمپوں پر بطور سیلز مین نوکریاں کیں۔ تعلیم بھی جاری رکھی ۔ کچھ عرصہ بعد 1963ء میں شیخ تجبل کے ساتھ ملکر اپنا پٹرول پمپ لگالیا۔ سیاست میں دلچسپی لیتے تھے وڈیرہ شاہی کے سخت خلاف تھے ۔ 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے متاثر ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور جلد ہی پارٹی کے سرگرم کارکن بن گئے ۔ 1979ء میں بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سرگرمیاں جاری رکھیں اس لئے 1982ء میں الذولفقار کا سرگرم رکن اور فنڈنگ کے الزام میں مارشل لا حکومت نے گرفتار کر لیا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں تشدد کا نشانہ بنے ۔ کوٹ لکھپت جیل میں رہے اور ملٹری کورٹ سے باعزت بری ہوئے ۔ مقامی بلدیاتی سیاست سے بطور کونسلر سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں مبر ضلع کونسل بھی منتخب ہوئے .
1985ء میں غیر جماعتی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا مگر میاں عطا محمد قریشی عوام کے پر زور اصرار پر صوبائی اسمبلی کے ایکشن کیلئے میدان میں آئے ۔ پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر انھوں نے 1985ء میں صوبائی اسمبلی کے ایکشن میں حصہ لیا اور بطور آزاد امیدوار کامیابی حاصل کی اور بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست سے دو چار کیا۔ کامیابی کے بعد آپ 1985ء میں نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی پنجاب حکومت میں شامل ہو گئے ۔ بعد میں پیپلز پارٹی کو خیر باد کہ کر نواز شریف کے ساتھ ملکر سیاست کرتے رہے ۔ 1988ء میں قومی سیاست میں داخل ہوئے اور اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا حلقہ این اے 136 سے الیکشن ہار گئے ۔ 1990ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان اسلامی جمہوری اتحاد کے اتحادی تھے انھیں ٹکٹ نہیں ملا۔ میاں عطا محمد قریشی جمعیت علمائے اسلام پاکستان ( شاہ نورانی ) کا ٹکٹ لیکر الیکشن میں اترے اور نوابزادہ نصر اللہ خان کو شکست دیگر کامیابی حاصل کی۔ ان کی جیت کی خبر بی بی سی اور عالمی نشریاتی اداروں نے شہ سرخیوں میں نشر کی تھی۔ ان کی یہ کامیابی ان کے سیاسی کیرئر کی سب سے بڑی کامیابی تھی کیونکہ نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے بڑے سیاست دان کو شکست دینا ایک بڑا کارنامہ تھا ملک اور بیرون ملک ان کی پذیرائی کی گئی۔ 1990ء میں الیکشن جیت کروز یر اعظم نواز شریف کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئے ۔ 1993ء کے الیکشن میں میاں عطا محمد قریشی ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر نوابزادہ نصر اللہ خان کے مدمقابل تھے۔ اس بار انھیں بنکوں کا ڈیفالٹر ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں الجھا دیا گیا تھا لہذا انھیں الیکشن کمپین کیلئے وقت نبیل سکا اور الیکشن ہار گئے ۔ 1997ء کے الیکشن میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے اور اس بار ان کے مد مقابل دو بڑے سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان اور ملک مصطفیٰ کھر تھے ۔ مگر اس بار انھوں نے دونوں بڑے سیاستدانوں کو شکست دیگر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا اس باروہ ریلوے کے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بنائے گئے ۔ مسلم لیگ (ن) ضلع مظفر گڑھ کے صدر بھی رہے۔ 2002ء میں مشرف کے مارشل کے دوران وہ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے مگر بی اے کی شرط کی وجہ سے انتخابی سیاست سے باہر ہو گئے اور نئی حلقہ بندیوں اور نئے سیاسی رجحانات کی وجہ سے وہ سیاست میں مقام کھو بیٹھے جو انھیں پہلے حاصل تھا۔ اگر چہ 2008ء کے الیکشن میں انھوں نے انتخابی سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ سے ن لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لیا مگر صحت کی خرابی کی وجہ سے الیکشن کمپین نہ چلا سکے۔ سیاست میں آنے کے بعد کاروبار شروع کیا۔ بنکوں سے قرضہ لے کر پٹرول پمپ ، کاٹن فیکٹری اور فلوریل قائم کی ۔ مگر قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے پر سب چیزیں بنک قرقی کا شکار ہوئیں۔ زندگی کے آخری ایام میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندانی تنازعات میں الجھے رہے۔ ایک وقت تھا جب ان کا طوطی بولتا تھا۔ مظفر گڑھ کی سیاست میں انھیں بڑا مقام حاصل تھا۔ آپ عوامی سیاستدان تھے ۔ آپ نے سیاست کو ڈرائنگ رومز اور سیاسی وڈیروں کے ڈیروں سے نکال کر گلی کوچوں اور کھیت کھلیانوں میں پہنچایا۔ آپ عام آدمی کے مسائل کے حل کیلئےکوشاں رہتے تھے ۔ جو آپ سے ایک بار ملتاوہ آپ کے حسن اخلاق کا گرویدہ ہو جاتا ۔ خان گڑھ اور روہیلانوالی کے کئی ایسے گھرانے تھے جو 20 سال تک آپ کی حمایت میں ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے رہے ۔ اپنے دور اقتدار میں علاقے کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ سینکڑوں دیہاتوں میں بجلی پہنچائی ،سڑکیں بنوائیں ،گرڈنیشن ہوائے اور سکول بوائے ۔ علاقے کے نوجوانوں کی مالی مدد کرتے تھے بہت سے خاندانوں کی کفالت کی ۔ انکی سیاست کا سب سے بڑا طرہ امتیاز یہ تھا کہ اپنے دوٹر کی بہت عزت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں ان کا مرہون منت ہوں یہ میرے مرہون منت نہیں ہیں ۔ وضع داری ، رکھ رکھاؤ اور مہمان نوازی کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔ لوگوں کو عزت دینے کا فن انھیں خوب آتا تھا ۔ ادیب فاضل ہونے کی وجہ سے ادب سے بھی لگاؤ تھا ملتان کی رہائش گاہ پر ادبی محفلیں منعقد کروانے تھے بطور ممبر قومی اسمبلی مختلف وفود کے ساتھ بیرون ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں ایم این اے ہوٹل میں ان کی رہائش پر ہر وقت علاقے کے لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا۔ آپ کے بیٹے تنویر رسول قریشی اور عمران رسول قریشی باپ کے نقش قدم پر نہ چل سکے اور سیاست میں مقام حاصل نہ کر سکے ۔ انکی تین بیٹیاں ڈاکٹر ہیں۔ 1980ء میں ملتان میں دوسری شادی کی۔ اس بیوی میں سے بھی دو بچے ہوئے ۔
مظفر گڑھ کی سیاست کو عوامی انقلابی رنگ دینے والے میاں عطا محمد قریشی 2 جنوری 2013ء میں ملتان میں اللہ کو پیارے ہوئے اور اپنے آبائی گاؤں ڈیڈھے لعل میں حضرت ڈیڈ ھے لعل کے دربار کے اندر دفن ہوئے ۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔