مظفر گڑھ کا تنہا وکیل : مظفر خان مگسی
نواب مظفر خان شہید حاکم ملتان کے نام سے مشہور ضلع مظفر گڑھ کے پسماندہ اور اللہ راسی عوام کے لئے مظفر گڑھ کے ایک عظیم سپوت مظفر خان کسی نے شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے بلاشبہ منظفر خان مگسی اس بے لوث خدمت پر قومی ایوارڈ کے حقدار ہیں ۔
مظفر خان مگسی کا تعلق مظفر گڑھ کے بلوچ مگسی قبیلے سے ہے۔ ایک چھوٹے سے زمیندار ہیں۔ برسوں سے سرائیکی وسیب کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کئی عشروں سے سرائیکی صوبے کی تحریک سے وابستہ ہیں بھی معروف سرائیکی رہنما تاج لنگاہ کے ساتھ وابستہ تھے مگر بعد میں انہوں نے اپنی الگ پارٹی سرائیکی انقلابی کونسل کے نام سے بنالی۔ آپ اس پارٹی کے سربراہ ہیں ۔ مظفر خان مگسی صرف قوم پرست رہنما ہی نہیں بلکہ سرائیکی زبان کے شاعر اور ناول نگار بھی ہیں سرائیکی زبان میں ایک شاہکار ناول قومی غلامی دے پندھ ( قومی آزادی کی خدائی تحریک ) کے نام سے لکھ چکے ہیں جس میں فرعون مصر کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی غلامی کی صدیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک شاہکار ناول ہے اگر یہ ناول انگریزی زبان میں ہوتا اور مظفر خان مگسی کا تعلق یورپ کے کسی ملک سے ہوتا تو مظفر خان مگسی نوبل پرائز حاصل کر چکے ہوتے مگر سرائیکی ہونے کی وجہ سے نہ مظفر خان مگسی کو اور نہ ان کے ناول کو پذیرائی مل سکی۔
ایک انقلابی سیاسی رہنما، بچے سرائیکی قوم پرست، مصنف اور شاعر مظفر خان مگسی نے حالیہ دنوں میں ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ جو مظفر گڑھ کی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی سے تعلق رکھنے والے جتوئی قبیلے کے سردار کوڑے خان جتوئی نے ضلع مظفر گڑھ کے لاکھوں غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے 1896ء میں اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی ایک وصیت کے ذریعے ضلع کونسل مظفر گڑھ کو منتقل کی تھی۔ بلاشبہ سردار کوڑے خان جتوئی بر صغیر پاک و ہند کے واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقبہ وقف کیا جن کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردار کوڑے خان جتوئی کی وقف کردہ اراضی کی آمدن کے معاملات درست نہیں رہے اور نہ اتنے بڑے اثاثے سے فائدہ اٹھایا گیا ہے اب مظفر گڑھ کے عوام کے نئے محسن مظفر خان مگسی ہیں جنھوں نے تن تنہا، بے یارومددگار اور بغیر کسی وکیل کے اس اراضی کی واگزاری اور کوڑے خان ٹرسٹ کی آمدن کا مقدمہ 25 سال تک سپریم کورٹ میں لڑا ہے ۔ مظفر خان کسی کی استقامت، جذبے صبر اور جدو جہد کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے بھری عدالت میں کئی بار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بلکہ اپنے فیصلے میں بھی ابھی تحسین کی ہے 25 سال تک بغیر کسی مالی مدد کے مقد سے کولڑ نا قانون کی تعلیم کے بغیر مقدمے کے نکات پر بحث کرنا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپنا موقف پیش کر نا یہ کام صرف مظفر خان مگسی جیسا انقلابی اور ان تھک رہنما ہی کر سکتا ہے۔ شروع شروع میں کچھ وکلا اور مقامی شہری اس مشہور زمانہ کیس مظفرخان مگسی بنام ضلع کونسل انتظامیہ مظفر گڑھ میں مظفر خان مگسی کے ساتھ تھے مگر بعد میں ان کے حو صلے جواب دے گئے۔ مگر دھان پان سالنحیف و نزار اور اپنی عزم کا مالک مظفر خان مگسی ضلع کونسل کی انتظامی مشینری اور بڑے بڑے سرکاری وکیلوں کے مقابلے میں تن تنہا ڈٹا رہا. اس 25 سال میں کوڑے خان ٹرسٹ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر قابض افراد اور ضلع کونسل انتظامیہ نے مظفر خان مگسی کو راضی کرنے ، توڑنے اور جھکانے کی کوشش کی مگر وسیع تر قومی مفاد میں یہ شخص چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔ کوئی لالچ اور کوئی پیش کش اس اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکی۔ مشن یہ تھا کہ ٹرسٹ کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو قابضین سے بازیاب کرانا تا کہ ٹرسٹ کی کروڑوں روپے کی آمدن مظفر گڑھ کے نوجوانوں کی تعلیم و صحت پر خرچ ہو سکے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام آباد جانے کے لئے اور مقدمے کی پیروی کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے انھیں اکثر دوستوں سے ادھار لینا پڑا۔ اسلام آباد جا کر کسی ہوٹل میں رہنا بھی ان کے پہنچ سے دور تھا اس لئے یہ وہاں جا کر مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے ساتھ رات بسر کرتے اور صبح سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ۔ کئی برسوں تک اس مقدمے کو سنا نہیں گیا۔ اس کی سماعت کے لیے مظفر خان مگسی ہر نئے آنے والے چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھتے رہے۔ مسلسل کئی برسوں تک میڈیا کے ذریعے اس مقدمے کی جلد سماعت کی اپیلیں کرتے رہے۔ آخر کار سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اس اہم مقدمے جس سے مظفر گڑھ کے لاکھوں طلبہ کا مستقبیل جڑا تھا کو سننے کا فیصلہ کیا۔ جب پہلی سماعت شروع ہوئی اور چیف جسٹس نے مدعی مقدمہ مظفر خان مگسی سے اپنا وکیل پیش کرنے کا کہا تو عدالت عظمیٰ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ اس مقدمے کا مدعی خود ہی وکیل ہے۔ مظفر خان مگسی کے اس جذبے اور خلوص کو دیکھ کر چیف جسٹس نے با قاعدگی سے اس مقدمے کی سماعت جاری رکھی اور آخر کا راکتوبر 2018ء کو اس فیصلہ سنایا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے عرضداشت کی سماعت مکمل کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفر گڑھ کی سربراہی میں سردار کوڑا خان ٹرسٹ قائم کرتے ہوئے سردار کوڑا خان جتوئی مرحوم کے نام سے قائم کچھ تعلیمی اداروں کو ٹرسٹ کی تحویل میں دینے کے احکامات صادر کیے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سے پہلے ہی ضلعی انتظامیہ کے ذریعے قبضہ گروپوں سے اراضی واگزار کروا چکی تھی اب اس اراضی کی شفاف طریقے سے نیلامی کی جارہی ہے۔ ٹرسٹ کی زمین پر جو سرکاری ادارے اور دفاتر بن چکے ہیں ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔ درخواست گزار کی طرف سے سردار کوڑے خان یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے پر حکومت پنجاب کو کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں معاملات کا جائزہ لے۔ اس وقت لگ بھگ 40 کروڑ روپے ٹرسٹ کے پاس جمع ہیں جو مظفر گڑھ کے عوام کی تعلیم و صحت پر خرچ کئے جارہے ہیں ۔ یہ سارا کریڈٹ مظفر خان مگسی کو جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔