ضلع میں بزرگان دین اور اولیاء کرام کے مزارات بھی موجود ہیں جہاں لاکھوں لوگ عبادت اور زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان مزارات پر عرس و میلاد کی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ ان عظیم ہستیوں نے اس ضلع میں تبلیغ اسلام کی اور لوگوں کی معاشرتی اصلاح کر کے ان کی زندگیوں کو تبدیل کیا۔ تحصیل کوٹ ادو میں حضرت دین پناہ کی مزار دائرہ دین پناہ میں ہے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی سید عبدالوہاب تھا اور سید جلال الدین سرخ بخاری اورچ شریف آپ کے مورث اعلیٰ تھے ۔ آپ تقریبا چار سو سال پہلے یہاں تشریف لائے ۔ آپ کے کمالات سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے لکڑی کی کشتی تیار کرائی تھی جو زمین پر بغیر پانی کے چلتی تھی اور آپ اس میں بیٹھ کر سیر کرتے تھے۔ اس کشتی کے کچھ حصے اب بھی موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر بادشاہ سنیاسی کے روپ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مرید بننے کی خواہش کی لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ اس نے حکم جاری کیا کہ جہاں تک آپ کے نقارے کی آواز جائے وہ سارا علاقہ آپ کو بطور جا گیر دیا جائے آپ نے تھوڑے مواضعات فقراء کے خرچ کیلئے رکھ کر باقی لوگوں میں تقسیم کر دئیے ۔ آپ کا مزار دائرہ دین پناہ میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا ایک مزار دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر بھی موجود ہے۔ آپ کی وفات کے وقت مغربی اور مشرقی کنارے رہنے والے عقیدت مندوں کا اصرار تھا کہ وہ اپنے علاقہ میں مزار بنانا چاہتے ہیں۔ آپ نے خواب میں بشارت دی کہ دونوں فریق الگ الگ صندوق بنا ئیں اور ہر صندوق میں ان کا جسد خا کی موجود ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور دونوں طرف آپ کا مزار موجود ہے۔ تحصیل کوٹ ادو میں حضرت نور شاہ طلائی، قاضی سلطان محمود سنانواں حضرت بی بی پاک مہبر پیر برخور دار حضرت پیر جاھین والا موضع بدھ کے مزارات بھی ہیں۔ تحصیل مظفر گڑھ میں بابا بگا شیر کا مزار ہے۔ حضرت طاہر شاہ ہاشمی المعروف پیر بگا شیر خانپورشمالی کے قدیم شہر میں تشریف لائے تو اس قصبہ کی قسمت جاگ اُٹھی۔ آپ کی بہت سی کرامات مشہور ہیں جس میں کاغذ کی کشتی کا حقیقی کشتی بن جانا بھی ہے۔ روایت ہے کہ خان پور کے جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جس سے مقامی آبادی کے لوگ بہت خوفزدہ رہتے تھے۔ وہ شیر آپ کی زیارت کیلئے آتا تھا۔ لوگ اس سفید رنگ کے شیر کو آپ کے پاس دیکھ کر آپ کو بگا شیر کہنے لگے۔ انگریز مورخ مسٹر ڈیزل نے لکھا ہے کہ آپ کی گا ئیں سفید رنگ کا یہ شیر چرا تا تھا اور پہرہ بھی دیتا تھا۔ تحصیل کے شمال میں شاہ عبداللہ نوری احمد برئی سلطان کا مزار بھی موضع احمد بری سلطان میں واقع ہے جب کہ شہر کے نزدیک شیخ لدھو کا بھی مزار ہے۔ مظفر گڑھ شہر کے جنوب میں حضرت پیر داؤد جہانیاں کا مزار موضع دین پور میں واقع ہے۔ یہاں ہر سال سالانہ میلہ لگتا ہے۔ آپ بہت بڑے بزرگ تھے۔ مظفر گڑھ شہر میں حضرت غوث حمزہ کا مزار ریلوے روڈ پر واقع ہے جبکہ شیروانی چوک سے آگے کرم حسنین شاہ المعروف چور شاہ کا مزار بھی ہے۔ موضع موسیٰ خلیفہ میں جان محمد سائیں، موضع ڈونہ میں پیر فتح شاہ واں پانی میں پیر بخاری کرم داد قریشی میں سید عبداللہ شاہ بخاری، موضع جادہ چانڈیہ میں میاں چھٹن علی علی پور روڈ پر میراں حیات سائیں اور حضرت ڈیڈ ھے لال کے مزارات ہیں۔ آپ کا اصل نام شہاب الدین تھا۔ آپ کو یہ لقب مخدوم جہانیاں جہاں گفت نے دیا تھا۔ دربار روہیلا نوالی کے نزدیک ہے وہاں شوال میں عرس ہوتا ہے۔ صاحب کرامت بزرگ تھے جبکہ مراد آباد کے نزدیک حضرت مانجھن سلطان اور رنگ پور میں پیر علی مردان کے مزارات ہیں۔ تحصیل جتوئی میں حضرت عالم پیر بخاری کا مزار شہر سلطان میں واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ بلخ بخارا سے تشریف لائے تھے ۔ آپ کی بہت سی کرامات مشہور ہیں۔ ہر سال دربار پر سالانہ عرس اور میلہ ہوتا ہے۔ تحصیل علی پور میں حضرت محبت فقیر کا مزار واقع ہے۔ مظفر گڑھ شہر سے پانچ کلو میٹر جنوب کی طرف حضرت میراں حیات سائیں کا دربار ہے۔ اس دربار کے ساتھ کھجوروں کا باغ تھا اور روایت تھی کہ ان کھجوروں کی چھڑی یا پتے اگر گھر میں رکھے جائیں تو سانپ داخل نہیں ہوگا۔
علاوہ ازیں حضرت خواجہ عبد الواحد چشتی، سید حاجی شاہ خواجہ عبدالودود چشتی، حضرت جہاں شاہ بخاری، خواجہ حافظ سلطان کے مزارات بھی موجود ہیں۔ ریلوے سٹیشن بدھ کے نزدیک حضرت شیخ بدھ کا مزار بھی ہے۔ قصبہ گجرات کے نزدیک حضرت بابا سید محمد کریم شاہ صاحب المعروف کریم قلندر کا آستانہ ہے۔ سرکار کی بہت کرامات مشہور ہیں ہر روز سینکڑوں لوگ اس عظیم شخصیت کے آستانہ پر حاضری دیتے ہیں اور ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔
1960ء کے بعد محکمہ اوقاف کا دفتر قائم ہوا اور انسپکٹر کی تعیناتی کی گئی تاہم 1996ء سے منیجر اوقاف تعینات کیا گیا ہے۔ محکمہ اوقاف کے پاس درج ذیل مزارات کا انتظام
ہے۔
1 دربار حضرت غوث حمزہ مظفر گڑھ
2 دربار حضرت داؤد جہانیاں پیر جہانیاں
3 دربار حضرت محمد طاہر بابا بگا شیر
4 دربار حضرت عبداللہ شاہ بخاری
5 دربار حضرت علم الدین بخاری شہر سلطان
6 دربار حضرت محبت فقیر علی پور
7 دربار حضرت دائرہ دین پناه
8 دربار حضرت نورشاہ قلند رکوٹ ادو حضرت شیخ لدھو کا دربار بھی کچھ عرصہ محکمہ کی تحویل میں رہا ہے تاہم اب یہ نہیں ہے۔ محکمہ اوقاف میں منیجر اوقاف اور دفتری عملہ کے علاوہ ایک ڈسٹرکٹ خطیب ( گریڈ سولہ ) جب کہ پانچ خطیب حضرات ہیں جو سات گریڈ سے بارہ گریڈ میں ہیں اور دربار سے متصل مساجد میں تعینات ہیں۔ ان میں امام بارگاہ انجمن حسینیہ مظفر گڑھ کا خطیب بھی شامل ہے۔ محکمہ کے پاس 47 پراپرٹی ہیں جن میں زرعی اراضی کے علاوہ لکر اں اور چوک قریشی میں وکانات شامل ہیں۔ یہ اراضی نیلام عام کے ذریعے آکشن کی جاتی ہے۔ ضلعی دفتر ڈیرہ غازی خان میں تعینات زونل ایڈ منسٹریٹ کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ ان درباروں سے درج ذیل سالوں میں مجموعی آمدنی کی تفصیل اس طرح ہے:
سال 05-2004 کے دوران کیش بکس سے اکیس لاکھ 17 ہزار سات سو تئیس روپے کرایہ سے تین لاکھ دس ہزار روپے زر پیشہ سے چودہ لاکھ 45 ہزار روپے گل فروشی ہے چھ ہزار دوسورو پے اور مجموعی طور پر 168 کھ چھبیس ہزار روپے کی آمدنی ہوئی۔ جبکہ سال 06-2005 میں 57 لاکھ تر اسی ہزار تین سو نوے روپے کی آمدنی ہوئی جس میں کیش بکس سے اکیس لاکھ چوالیس ہزار آٹھ سو چالیس روپے کی رقم شامل ہے جبکہ باقی رقم کر یہ در پیش گل فروشی اور متفرق مدات کے ذریعے ہوئی۔ محکمہ اوقاف کے سرکل میں جو مظفر گڑھ اور لیہ کے اضلاع پر مشتمل ہے مختلف موضعات میں سات سو تیس (733) ایکڑ وقف اراضی زیر تحویل ممکنہ ہے جس میں پانچ سو اکیس ایکڑ قابل نیلام ہے اس سے چودہ لاکھ تہتر ہزار نو سو دوسرے سالانہ زر پٹہ وصول پائے وقف میں کل 37 ملازمین ہیں۔
مجموعی طور پر سال 03-2002 میں محکمہ کو مزارات سے چالیس لاکھ چھیانوے ہزار روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ چوبیس لاکھ 27 ہزار روپے کے اخراجات ہوئے۔ ضلع میں محکمہ اوقاف کی ملکیت شہری ہسکنی اور زرعی اراضی ہزاروں ایکڑ میں موجود ہے۔ لیکن محکمہ کی غفلت کی وجہ سے مظفر گڑھ شہر ، بصیرہ ، گجرات ، کرم داد قریشی ، چوک سرور شهید علی پور اور دیگر مقامات پر لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ہو عقیدت مندوں کی جانب سے نذرانے کی معقول رقم محکمہ اوقاف کو ہر سال حاصل ہوتی ہے تاہم ان مزارات پر زائرین کی سہولت کیلئے مناسب اقدامات نہ کئے گئے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔