مظفر گڑھ کی شخصیات

مظفر گڑھ کی نامور خواتین رہنما

ام کلثوم سیال۔ مظفر گڑھ کی قابل فخر بیٹی

نامساعد حالات ، معاشرتی جبر اور امتیازی سلوک کی روایت کے باجود ضلع مظفر گڑھ کی باہمت خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ ایسی باہمت خواتین میں محترم ام کلثوم سیال کا نام سرفہرست ہے ۔ سمائی خدمت اترقی خواتین، بچیوں کی تعلیم اور سیاسی میدان میں آپ نے ضلع مظفر گڑھ کے لوگوں کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دے کر نو جوان نسل کیلئے ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ مظفرگڑھ کی دھرتی کو اپنی اس قابل فخر بیٹی پر ناز ہے۔ أم كلثوم سیال 24 اگست 1968ء کو مظفر گڑھ میں مہر احمد بخش سیال ایڈوکیٹ کے گھر پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خورشید آباد سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ گرلز کالج مظفر گڑھ سے گریجوایشن کی۔ بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی ملتان سے ایم اے سیاست اور ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی ۔ 1996ء میں مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقے میں خواتین کی ترقی و تعلیم اور سماجی خدمت کا جذ بہ لیکر اٹھیں اور سا ئیکوپ نامی سماجی تنظیم (NGO) کی بنیاد رکھی ۔ اس کارخیر میں نھیں اپنے شوہر نامدار طا ہر سال مرحوم کی مکمل سپورٹ اور معاونت حاصل تھی۔ اب تک سماجی خدمت کے سینکڑوں پرا جیکٹ مکمل کر چکی ہیں ۔ سماجی خدمت کے شعبے میں ان کی لگن اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں نئے سماجی ورکرز کی تربیت کیلئے ماسٹرٹر میز مقرر کیا ۔ 1998ء میں اسلام آباد میں ٹریننگ پروگرام کے دوران اُس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز سے بیسٹ ٹریز ایوارڈ حاصل کیا ۔ سماجی خدمت کے شعبے میں اب تک کئی ایوارڈ اور اعزازات حاصل کر چکی ہیں ۔ حکومت پنجاب نے دو مرتبہ بہترین ویمن سوشل ورکر کا ایوارڈ عطا کیا ۔2000ء میں بلدیاتی سیاست میں فعال ہوئیں ۔ 2000ء کے ضلعی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا پورے ضلع سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے ضلعی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور عوامی فلاح کے ہر معاملے پر کردار ادا کیا ۔ 2005ء میں دوبارہ نمبر ضلعی اسمبلی منتخب ہوئیں ۔ 2016ء میں تیسری بار ضلع کونسل کی ممبر منتخب ہو ئیں ۔ اسی دوران حکومت پنجاب کے ساتھ ملکر 3 ہزار خواتین کونسلرز کی تعلیم و تربیت کا کام سر انجام دے چکی ہیں ۔ خواتین کے حقوق کی توانا آواز ہونے کے ناطے اور ترقی خواتین کے لئے خدمات کی وجہ سے انھیں 2015ء میں پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی مبیر بنادیا گیا۔ اب تک کئی ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ امریکہ، بھارت ہمتحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جانے کا موقع ملا۔ ام کلثوم سیال کا سماجی خدمت کا سفر جاری ہے۔

سینٹر خالدہ محسن قریشی

قصبہ شیخ عمر کے قریشی خاندان کو مظفر گڑھ کی سیاست میں بڑا مقام حاصل ہے۔ اس خاندان کے میاں محسن علی قریشی مرحوم کو اللہ تعالی نے خوب عزت اور شہرت سے نوازا۔ میاں محسن علی قریشی 1988ء میں با قاعد و طور پر عملی سیاست میں آئے ۔ وہ پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے اور مرتے دم تک پیپلز پارٹی میں رہے ۔ انھوں نے ہر مشکل گھڑی میں بھٹو کی بیٹی بے نظیر شہید کا ساتھ دیا۔ وہ بڑی مدت تک پیپلز پارٹی تحصیل کوٹ ادو کے صدر رہے۔ میاں محسن علی قریشی مرحوم عوامی انقلابی سیاسی رہنما تھے۔ عام آدمی کے ساتھ ان کا بڑا قریبی اور گہرا تعلق تھا ۔ ان کے دروازے اور دل ہر وقت عوام کیلئے کھلا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوٹ ادو کے عوام نے ہمیشہ ان کے ساتھ وفا کی اور ان کو سرخرو کیا۔
2002ء کے الیکشن میں بی اے کی شرط کی وجہ سے وہ خود الیکشن میں حصہ نہ لے سکے انہوں نے اپنی شریک حیات خالدہ محسن علی قریشی کو میدان اتارا۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر خالدہ محسن علی قریشی بڑے بڑے سیاست گھرانوں نجر خاندان اور کھر خاندان کو شکست دیکر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ان کی اس کامیابی کے پیچھے دراصل میاں محسن علی قریشی مرحوم کا ہاتھ تھا۔ خالدہ محسن قریشی نے 1984ء میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ۔ اسی کی دہائی میں ان کی شادی میاں محسن علی قریشی سے ہوئی۔ خالدہ محسن علی قریشی پر مشرف دور میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کیلئے بہت دباؤ تھا۔ انھیں وزرات اور کروڑوں روپے کے فنڈز کی آفر ہوئی مگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑی رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر ٹکٹ میاں محسن علی قریشی کو دیا ۔ 2008ء میں بھی خالدہ محسن علی قریشی کے شوہر نامدار میاں محسن علی قریشی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے خالدہ محسن علی قریشی کو سینٹ آف پاکستان کیلئے پنجاب سے سنیٹر منتخب کروایا ۔ آپ 2012ء سے 2018ء تک سینٹ آف پاکستان کی ممبر رہیں ۔ یوں مظفر گڑھ کی اس بیٹی کو مبر قومی اسمبلی اور سنیٹر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا جو سرزمین مظفر گڑھ کی خواتین کیلئے ایک اعزاز ہے۔ اس خاندان کو ایک بہت بڑے صدمے کا بھی سامنا کرنا پڑا 20ء میں میاں محسن علی قریشی کو برین ہیمرج ہوا آپ کئی برسوں تک اسلام آباد میں زیر علاج رہے ۔ آخر کا ر 2014ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ ان کے بعد ان کے بیٹے ڈاکٹر شبیر علی قریشی سیاست میں متحرک ہیں ۔ ڈاکٹر میاں شبیر علی قریشی 2017ء میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے مگر الیکشن 2018 ء میں تحریک انصاف نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا وہ آزاد حیثیت میں الیکشن کے میدان میں اترے اور عوام کی محبت کی بدولت تحریک انصاف کے ملک مصطفیٰ کھر اور ملک سلطان ہنجرا کو ہرا کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ اس خاندان سے کوٹ ادو کی
عوام کی بے لوث محبت کا سب بڑا ثبوت ہے۔
یوں خالدہ محسن علی قریشی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انھیں ان کے شوہر اور ان کے بیٹے کو مبر قومی اسمبلی منتخب
ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔

شاعرہ، ادیبہ ، ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر:کو ثر ثمرین

معروف شاعرہ، ادیبہ، ڈرامہ نگار، گیت نگار اور براڈ کاسٹ کور شمرین کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے۔ ان کے نانا حافظ سلطان محمود اپنے عہد کی تین مساجد میں درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے کئی خاندان مشرف بہ اسلام کیے۔ انکی والد و بلوچ اور والد کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ کوثر ثمرین نے بڑے ناروا حالات میں تعلیم حاصل کی ۔ روایتی رسم ورواج اور پابندیوں کے مقابل انکی والدہ ان کیلئے ڈھال نہیں۔ مظفر گڑھ گرلز کالج سے ہونہار طالبہ کی حیثیت سے کئی انعام حاصل کیے ۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے گریجوایشن اور ایم اے اردو لٹریچر کی اسناد حاصل کیں۔ اسکے بعد گیلانی لاء کالج میں داخلہ لیا کالج کے میگزین "العدل” کی ایڈیٹر بن گئیں۔ تہران یونیورسٹی ایران سے فارسی میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ پولیس ، تدریس اور براڈ کاسٹنگ تینوں شعبوں کے امتحانات میں نمبر ون پوزیشن حاصل کی اور ریڈیو پاکستان کا انتخاب کیا۔ کوثر ثمرین نے سات سال کی عمر سے شاعری شروع کی اور ریڈیو پاکستان ملتان سے بچوں کے پروگرام میں شرکت کی ۔ میٹرک کے بعد ان کے افسانے شاعری اور مضامین با قاعدہ امروز مشرق اور دیگر رسائل میں چھپنا
شروع ہوئے ۔
آجکل ملتان کی پہلی خاتون اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں۔ فنی سفر کے دوران سنٹرل نیوز آرگنائزیشن اسلام آباد سے قومی نشریاتی رابطے پر خبریں پڑھیں اور پروگرام پروڈیوس کیے۔ اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کی تربیتی اکیڈمی میں نائب پر نسل کے طور پر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ اسکے علاوہ ریڈیو اسکردو میں پہلی خاتون اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں جہاں انہوں نے منفرد پروگراموں کی بنیاد ڈالی اور سیا چین جیسے بلند ترین مقام سے بھی نشریات کیں جنہیں پورے علاقے میں سراہا گیا۔ ان کے ڈراموں اور پروگراموں میں وچن ، نما نما سیک، سنجالیاں ، پھلون گوش ( کشمیری)، ٹڈایسٹ ٹائم اور دیگر پروگرام شامل ہیں ڈرامہ آدھی دھوپ کیلئے ان کے لکھے ہوئے گیت پر ان کو ادا جعفری اور ریاض الرحمن ساغر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ پی ٹی وی ایکسی لینس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ سرائیکی کی پہلی خاتون سیرت نگار ہیں انکی کتاب، خوشبو بھریاں چھانواں ، جسکا اک اک حرف
با وضو لکھا اس کتاب کو مسعود کھدر پوش ایوارڈ ملا۔ ان دنوں ریڈیو ملتان سے وابستہ ہیں۔

معاشرتی المیوں سے جنم لینے والی ایک داستان ۔ مختاراں مائی

مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقوں کے اپنے مسائل ہیں۔ جہالت، غربت ، پسماندگی، خاندانی جھگڑے اور انتقام ہمارے ایسی خامیاں ہیں جن میں آبادی کی اکثریت الجھی ہوئی ہے ان خامیوں نے کئی المیوں کو جنم دیا ہے جو ہمارے ضلع کا داغ بن گئے ہیں۔ ان المیوں سے جنم لینے والی ایک داستان مختیاراں مائی کی ہے۔ 1972ء کو مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں میر والا میں پیدا ہوئیں ۔ والد ایک معمولی کاشت کار تھے ماں گھر یلو عورت تھی۔ دیہی زندگی میں عورت کی تعلیم کفر ہے۔ لہذا اختاراں مائی علم حاصل کرنے کے جرم سے محفوظ رہیں۔
جوان ہوئیں تو والدین نے دور کے رشتہ داروں میں شادی کردی جو کامیاب نہیں ہوئی اور کچھ سالوں بعد وہ میکے آگئیں ۔ 2002ء میں ان کے ساتھ ایسا دل خراش واقعہ پیش آیا کہ جس نے عام سی دیہاتی عورت کو پوری دنیا کے میڈیا کی اہم خبر بنا دیا۔ جون 2002ء میں مستوئی ذات کے کچھ افراد نے مبینہ طور پر ایک وقوعہ کا بدلہ لینے کے لئے ان کی عصمت دری کی کوشش کی ۔ اگر چہ رواج کے مطابق توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس عصمت دری کی کوشش کے بعد خود کشی کرے گی ۔ مگر مختاراں مائی نے اس وقوعے کی پیروی کی ، جسکو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے اٹھایا اور پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان کوگرفتار کر لیا۔ کیم تمبر 2002ء کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے عصمت دری کے الزام میں 6 افراد کو سزائے موت سنائی۔ ان افراد نے اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کی ۔ مارچ 2005 ء میں لاہور ہائیکورٹ نے قصور وار پائے جانے والے چھ افراد میں سے پانچ کو بری کر دیا اور ایک مرکزی مجرم کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی۔ اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے مختاراں مائی اور حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ۔ جون 2005 ء میں، سپریم کورٹ نے مختاراں کیس کے تمام 14 افراد کونئی سماعت کے لئے دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا اور تمام بریت کو ختم کر دیا۔ تاہم اپریل 2011ء میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے تمام افراد کو بری کر دیا صرف ایک شخص کو قصور وار قرار دیا۔ بعد میں مختیاراں مائی جنسی تشدد سے بچ جانے والی خواتین کے لئے ایک طاقتور علامت بن گئی۔ اب وہ خواتین کے حقوق کی ایک پر جوش وکیل ہے۔ اپریل 2007ء میں پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی مدد اور تعلیم کے لئے انہوں نے مختاراں مائی ویمن ویلفیئر آرگنائزیشن کا آغاز کیا۔ مختاراں مائی کو یورپی کونسل نے ایوارڈ دیا۔ امداد کی رقم سے جو انہوں نے حکومت اور بیرون ممالک سے حاصل کی ہے اس سے میر والا ( جتوئی ) میں سکول، خواتین کی ہاٹ لائن، ایک پبلک لائبریری، ایک مفت قانونی فورم، ایک ایمبولینس سروس اور عورتوں کی رہائش گاہ چلا رہی ہے ۔ قسمت کے عجیب وغریب موڑ میں ، ان مردوں کی بیٹیاں جن پر اس نے عصمت دری کا الزام لگایا تھا اب وہ اس کے ایک اسکول میں پڑھتی ہیں۔ 2009ء میں مختاراں مائی نے ناصر گبول نامی ایک پولیس ملازم سے شادی کر لی۔
2 اگست 2005 ء کو پاکستانی حکومت نے مختاراں مائی کو بہادری اور جرات کے لئے فاطمہ جناح گولڈ میڈل دیا۔ 2 نومبر 2005ء کو امریکی میگزین گلیمر نے انھیں ویمن آف دی ایئر قرار دیا ۔ 12 جنوری 2006ء کو مختاراں مائی کی یادداشتوں پر مبنی انکی سوانح عمری فرانس میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب بعد میں ہیں سے زیادہ زبانوں میں شائع ہوئی ۔ 16 جنوری 2006ء کو اپنی سوانح کی اشاعت کے موقع پر پیرس کا سفر کیا اور وزیر خارجہ نے ان کا استقبال کیا۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق ان کی خود نوشت فرانس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں تیسرے نمبر پر رہی ہے، اور اس کے بارے میں فلمیں بن رہی ہیں۔
2 مئی 2006ء کو مختیاراں مائی نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں تقریر کی۔ اکتوبر 2010 ء میں، کینیڈا کی یونیورسٹی نے مختاراں مائی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا۔ لورا بش اور فرانسیسی وزیر خارجہ جیسے افراد کی جانب سے ان کی تعریف کی گئی ہے۔ ان دنوں میر والا میں مقیم ہیں اور سماجی خدمت میں مصروف
ہیں

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com