مظفر گڑھ کے عظیم اساتذہ
پروفیسر کریم بخش شاکر :قدرت اللہ شہاب کے استاد
مظفر گڑھ کی دھرتی نے کئی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ ان شخصیات میں سے کئی ایسے افراد بھی ہیں کہ جن کے عزم واستقلال کے سامنے غربت، پسماندگی اور محرومی بھی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ ان افراد نے اپنی ہمت اور جدو جہد سے ایسا مقام حاصل کیا کہ آج کے جدید دور کا انسان ان کی کامیابیوں پر حیران رہ جاتا ہے۔ ان عظیم اور با ہمت ہستیوں میں ایک ہستی پروفیسر کریم بخش شاکر ہیں جو نواب زادہ نصر اللہ خان ، نواب مشتاق احمد گورمانی ممتاز دولتانہ، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، نوابزادہ عبد الغفور ہوتی اور ایم مسعود جیسے کئی بیوروکریٹ اور سیاست دانوں کے استاد تھے ۔ پروفیسر کریم بخش شاکر 5 جنوری 1892ء کو مظفر گڑھ کے انتہائی پسماندہ گاؤں مونڈ کا میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول مونڈ کا سے حاصل کی۔ 1909ء میں گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ 1911ء میں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے انٹر اور 1913ء میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔
بی اے کرنے کے بعد درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ ہوئے گورنمنٹ ہائی سکول منٹگمری میں تعیناتی ہوئی۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ میں تعینات رہے پھر یہاں سے ملتان ٹرانسفر ہو گئے ۔ ملازمت میں آنے کے بعد بھی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا [125]۔ آپ کو مظفر گڑھ کے پہلے ڈبل گریجوایٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایم اے کی تعلیم کے دوران مشہور احراری لیڈر مولانا مظہر علی اظہر کے کلاس فیلور ہے۔ جب ایمرسن کالج ملتان کا قیام عمل میں آیا تو آپ کالج سے وابستہ ہو گئے ۔ 1925ء میں آپ کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا ۔ یہاں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے رہے اسی دوران علم حاصل کرنے اور لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ آپ کی تصانیف میں شرح فراس مولا نا عبد العزیز پر ہاروی، کتاب الصلاة ، شعار الاخیار، کشف النقاب ، ارکان اربعه، اذکار الصلاة، ضرورت حدیث ، قول محمود در مسئله سود، احسن المقالات والکمالات اور دائمی جنتری شامل ہیں آپ نے کئی ملکوں کا سفر کیا۔ مکہ معظمہ میں مولانا عبید اللہ سندھی سے سند حدیث حاصل کی فلسطین ، شام، اعراق اور مصر میں قیام پذیر رہے ۔ جامعہ الازہر قاہرہ میں مقیم رہے۔ مفتی اعظم فلسطین سے ملے۔ گورنر جدہ شیخ محمد نظیف سے ملاقات کی ۔ بر صغیر کے طول و عرض کا سفر کیا وقت کے بڑے علما سے ملاقات کی ان میں مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے مولا نا زکریا، حضرت رائے پوری ، دیوبند میں مولانا حسین احمدمدنی، مولا نا طبیب، مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی شفیع شامل ہیں ۔ دلی میں قیام پذیر رہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء اور شاہ عبدالرحیم دہلوی کے مزارات پر حاضری دی۔
آپ کا انتقال 1946ء میں ہوا۔
عظیم معلم: سردار در محمد خان
پاکستان بننے سے پہلے مظفر گڑھ تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ تھا مسلمانوں میں شرح خواندگی بمشکل 2 فیصد تھی ۔ صرف امرا کے بچے جدید انگریزی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ ایسے میں مظفر گڑھ کے پہلے ڈپٹی کمشنر شیخ سراج الدین کی طرف سے ترغیب دینے پر یہاں کے ایک مسلمان وکیل سردار عبدالحمید خان دستی نے انجمن اسلامیہ مظفر گڑھ کی بنیا درکھ کر مسلمانوں کو تعلیم دینے کا نیک کام شروع کیا اور دور دراز کے مسلمان طلبہ کی سہولت کے لئے مسلم ہوٹل ( یتیم خانہ) کی بنیاد رکھی بعد میں سردار در محمد خان جسے دردمند دل رکھنے والے ایک جید استاد کو اس مسلم ہوٹل کا انچارج مقرر کیا۔ سردار در محمد خان کے زیر سایہ انکی رہنمائی کی بدولت ہزاروں طلبہ نے اپنی زندگیوں کو علم کے نور سے منور کیا۔ سردار در محمد خان کا تعلق تونسہ شریف کے مکانی بلوچ خاندان سے تھا۔ آپ 1890ء میں تونسہ شریف کے گاؤں بنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول بنڈی اور مڈل کا امتحان مڈل سکول ہیرو بچھادھی سے پاس کیا۔ بچپن سے علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آپ نے انتہائی نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کی تعلیم کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان رخ کیا وہاں گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انٹر کی تعلیم کے لئے آپ ریاست بہاولپور تشریف لے گئے وہاں صادق ایجرٹن کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا اور اس وقت کی ضرورت کے مطابق تدریسی کورس کیا اور بطور مدرس محکمہ تعلیم پنجاب کو جوائن کیا۔ پہلی تقرری ضلع جھنگ میں ہوئی۔ بعد میں ضلع مظفر گڑھ میں تبادلہ ہوا یہاں آپ کی تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ میں ہوئی۔ یہاں ضلع کے بڑے بڑے ہندو اور مسلمان جاگیر دار گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آپ کے شاگردوں میں نوابزادہ نصر اللہ خان ، نواب مشتاق گورمانی، بریگیڈیئر ڈاکٹر عبدالرحمن ملک اور مظفر مہدی ہاشمی سمیت کئی بڑی شخصیات شامل ہیں ۔ آپ کے خاندان کے افراد کے مطابق سابق صدر جنرل یحیی خان بھی آپ کے شاگرد تھے۔ جبکہ عبد العلیم خان ترین آئی جی جیل خانہ جات مغربی پاکستان اور جسٹس شیر احمد بھی آپ کے زیر سایہ زیر تعلیم رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے انجمن اسلامیہ کے زیر اہتمام مسلم ہوٹل کے انچارج بن کر ملت کی خدمت کا کام جاری رکھا۔ آپ 9 مئی 1979ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے ۔
ایک عظیم استاد اور ان کا گھرانہ: شاکر محمد خان
مظفر گڑھ کے محلہ قائم والا کا ایک خاندان ایسا ہے کہ جس کے افراد نے زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اس خاندان نے علم سے لیکر سیاست تک ہر شعبے میں خوب کا میابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کا میابیوں کے پیچھے ایک ایسی شخصیت کارفرما ہے کہ جس کی اصول پسندی ، محنت اور ایمانداری کا ایک زمانہ معترف ہے
یہ شخصیت ہیں شاکر محمد خان۔ شاک محمد خان 1911 ء کو مولوی محمد نواز خان کو رائی بلوچ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ان کے والد اس وقت کے پڑھے لکھے انسان تھے انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ۔ مولوی محمد نواز خان کو رائی علاقہ کے لوگوں کو قرآن پاک، عربی صرف و نحو اور فارسی کی کتب گلستان و د بوستان کی تعلیم دیتے تھے۔ شاکر محمد خان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی محمد نو از خان کو رائی سے حاصل کی۔ عربی صرف و نحو اور فارسی کی کتب گلستان و بوستان کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی اور انہوں نے ڈیل Math کی گریجوایشن 1932 ء میں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے کی ملکہ تعلیم میں بطور مدرس تعینات ہوئے دوران سروس ساہیوال ، فانہ یا (انڈیا) مظفر گڑھ اور یہ تعینات رہے۔ 1966ء میں بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول لیہ سے ریٹائر ڈ ہوئے ۔ شاکر محمد خان ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی بہنیں بھی محکمہ تعلیم میں بطور ٹیچر کام کرتی تھیں اور ان کی تعیناتی امرتسر میں ہوئی ۔ اسی دوران امرتسر کی ایک کشمیری فیملی میں شاکر محمد خان ان کے بھائی بشیر احمد خان اور نذیر احمد خان کی شادی ہوئی ۔ آپ مولانا ابواعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے ۔ اس لئے خاندان سمیت ان کے قافلے میں شامل ہوئے اور آج بھی ان کا خاندان جماعت اسلامی میں شامل ہے۔ آپ سابق مبرقومی آمبلی لیاقت بلو کے چا اور سر ہیں۔ آپ کے 5 بیٹے اور 7 پٹیاں تھیں ۔ آپ نے اپنے تمام بچوں کو علی تعلیم دلوائی اور وہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔
ان کے بیٹے محمد صابر خاں فوج میں کرنل رہے محمد طارق خان 2 مرتبہ ناظم یونین کونسل سٹی 1 مظفر گڑھ اور وائس چیئر مین بلد یہ مظفر گڑھ رہے ۔ محمد خالد خان اسٹنٹ ڈائریکٹر قومی بچت پاکستان تھے ۔ محمد شاہد خان بھی فوج میں رہے۔ طاہر خان پاک فوج میں میجر رہے۔ جبکہ ساتوں بیٹیاں ماسٹر کر کے شعبہ تعلیم سے وابستہ رہیں ۔ بڑی بیٹی شمیم شاکر خان گریڈ 20 میں بطور ہیڈ مسٹرس ریٹائرڈ ہوئیں ۔ فریدہ فاروق خاں ایم ایس سی ریاضی گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج مظفرگڑھ کی پرنسپل رہیں۔ اسما شاکر بھی اعلی تعلیم یافتہ تھی ۔ فوزیہ شاکر بھی ریاضی ڈبل Math کی ٹیچر ایم اے اسلامیات تھیں مگر بعد میں کینیڈا منتقل ہو گئیں ۔ فرزانہ شاکر گریڈ 20 میں فزکس کی پروفیسر تھیں ، ایک اور ہونہار بیٹی پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت خان پنجاب یونیورسٹی میں شیخ زید اسلامک سنٹر کی سربراہ اور ڈین رہیں اور ایم اے عربی، قرآن پاک کی حافظہ اور پی ایچ ڈی اسلامیات تھیں جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی منزہ شاکر بھی ایم اے اسلامیات اور لیکچرارر ہیں ۔ آپ نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے بھائیوں کے بچوں کی بھی تعلیم و تربیت کی ۔ آپ 1993ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آج آپ کے خاندان میں کھی، مردو خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ آپ کے پوتے محمد عدیل صابر خاں پاک آرمی سے بطور کرنل ریٹائرڈ ہوئے ہیں ۔ آپ کے کئی پوتے اور نوا سے ڈاکٹر ز ، انجینئر ز اور اعلیٰ افسران ہیں۔ ان کا ایک بھتیجا پاکستان ایئر فورس میں کارڈن لیڈرر ہے ان کا ایک نواسہ محمد عمر فاروق خان پنجاب پولیس میں ڈی ایس پی ہیں ۔ دوسرے دو نوا سے رضا ظفر اور محسن رضا ایکسین واپڈا ہیں ۔ وطن عزیز پاکستان اور اسلام کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی اس خاندان کے افراد پیچھے نہیں رہے ۔ اس خاندان کے دو نو جوان کشمیر میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ۔ طلال خالد خان شہید اور شعیب طارق خان شہید نے جدو جہد آزادی کشمیر میں اپنا خون دیکر سرزمین مظفر گڑھ کا نام روشن کیا۔
منظور حسین شاکر : بانی شاکر اکیڈمی
منظور حسین شاکر 1948ء کو خان گڑھ میں محمد عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم خان گڑھ سے حاصل کی ۔ میٹرک کے بعد PTC کا امتحان پاس کیا ۔ بے روزگاری کے دنوں میں محنت مزدوری بھی کرتے رہے ۔ 1968ء میں بطور مدرس محکمہ تعلیم پنجاب سے کیریئر کا آغاز کیا وسندے والی میں تعینات ہوئے ۔ اپنی محنت لگن اور پیشہ پیغمبری کو کمل ایمانداری سے سر انجام دینے پر انکی قابلیت کی دھاک بیٹھ گئی ۔ اسی دوران مختلف نجی تعلیمی اداروں میں پارٹ ٹائم خدمات سرانجام دیں۔ 1981ء میں اپنے گھر میں شاکر اکیڈمی خان گڑھ کی بنیا د رکھی ۔ 1988ء میں اس ادارے کی عمارت قائم ہوئی۔ جماعت پنجم کے وظیفہ امتحان کی تیاری کے ماہر کے طور پر آپ کی شہرت ضلع کی حدود سے نکل کر ملک بھر میں پھیل گئی اور ملک بھر سے طلبہ آپ کی طرف کھینچے چلے آئے ۔ 1993ء میں شاکر پبلک سکول کو ایلیمنٹری کا درجہ ملا۔ 2000ء میں سکول کو سیکنڈری کا درجہ ملا اور میٹرک کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ والدین کے پر زور اصرار پر 2004ء میں سکول کو ہائرسیکنڈری کا درجہ ملا اور ایف ایس سی کی کلاسز کا آغاز کر دیا گیا۔ 1988ء پیکر 2020 ء تک سکول لا تعداد پوزیشنز اور اعزازات اپنے نام کئے ہیں ۔ 1995ء میں ان کی شاندار تعلیمی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے نوازا جو صدر فاروق احمد لغاری نے انھیں پیش کیا۔ آپ نے وزیر اعظم پاکستان ملک معراج خالد سے سند امتیاز حاصل کی تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے جناح ٹیلنٹ ایوارڈ وصول کیا ۔ 15 مارچ 2017 ء کو آپ اللہ کو پیارے ہوئے ضلع مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقے میں علم کی جدو جہد میں استاد شاکر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔