ملک محمد شبیر لنگڑیال : دانشور ،وکیل ، اور سیاستدان
دانشور ، وکیل ، سیاستدان، اعلی تعلیم یافتہ اور صاحب مطالعہ ملک محمد شبیر لنگڑیال سرزمین مظفر گڑھ کی زندہ تاریخ ہیں۔ ضلع کے سیاسی وسماجی واقعات کے چشم دیدہ گواہ ہیں۔ ان کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ جن کے افراد میں تہائی کھرا اپن اور خود داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ذہانت ، فطانت اور یاداشت جیسی خوبیاں انھیں انکے والد کے نھیالی آدم کھا بھی کے کھا بھی خاندان سے ورثے میں ملی ہیں ۔
ملک محمد شبیر لنگڑیال نے ایک بار قومی اسمبلی کے لیکشن میں حصہ لیا مگر کھرے پن ، صاف گوئی اور دیانت داری کے اوصاف کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہو گئے کیونکہ منافقت کرنا عوام کو جھوٹی تسلی دینا اور جھوٹا وعدہ کرنا ان کی فطرت میں شامل نہ تھا ۔ اگر چہ سیاست سے تعلق رہا مگر 1985ء کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیا ۔ پاکستان بننے سے بھی پہلے ان کا خاندان متمول اور تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے دادا ملک گل محمد لنگڑیال لگ بھگ 12 مربع اراضی کے مالک تھے ان کے 7 بیٹے تھے انہوں نے اپنے سب بیٹوں کو علم کے حصول کی طرف مائل کیا۔ ان کے والد ملک غلام فرید لنگڑیال کا شمار سرزمین مظفر گڑھ کے اولین مسلمان و کلا میں ہوتا ہے ۔ ملک غلام فرید لنگڑیال نے ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی اور ملتان سے گریجوایشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر کے 1935ء میں علی پور تحصیل سے پہلے مسلمان وکیل کی حیثیت سے وکالت کا آغاز کیا۔ علی پور میں ہندو اور سکھ دیکھا کا غلبہ تھا۔ انہوں نے اس پہلے مسلمان وکیل کی سخت مخالفت کی مگر جلد ہی وہ اس شہر میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ قیام پاکستان سے پہلے علی پور بار کے جنرل سیکرٹری بنے جبکہ 1946 ء سے 1976 ء اپنی وفات تک علی پور بار کے صدر رہے جو اپنی جگہ پر ایک اعزاز ہے ۔ ملک غلام فرید بھی بڑے بچے ، کھرے اور بے باک انسان تھے ۔ ملک غلام فرید علی پور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رہنما ہیں ۔ اس علاقے کے تمام جاگیردار انگریز کے پروردہ اور یونینسٹ پارٹی میں تھے ۔ ملک غلام فرید ایڈوکیٹ نے علی پور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھایا اور ان کی بدولت اس علاقے میں آل انڈیا مسلم لیگ میں لوگ شامل ہوئے آپ کی ان خدمات کے صلہ میں اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے علی پور تشریف لاکر انھیں سند امتیاز سے نوازا۔ ملک غلام فرید لنگڑیال کو 1954 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے علی پور کی سیٹ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا مگر اس وقت کی حکومت ہر صورت میں ری پبلکن پارٹی کو توانا چاہتی تھی اس لئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے ان کے کاغذات نامزدگی داخل نہیں ہو
نے دیئے۔
ملک محمد بیر لنگڑیال 1941ء کو علی پور میں پیدا ہوئے ان کا آبائی گاؤں موضع لنگڑیال ہے ۔ 1957ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول علی پور سے کیا ۔ 1957ء سے 1961 ء تک چار سال ایف سی کالج لاہور میں رہے وہیں سے گریجوایشن کی ۔ گریجوایشن کے بعد قانون کی تعلیم کیلئے برصغیر پاک وہند کے نامور تعلیمی ادارے سندھ مسلم لا کالج کراچی میں داخلہ لیا۔ سندھ مسلم لا کالج میں ذوالفقار علی بھٹو وزٹنگ لیکچرر کے طور پر پڑھاتے تھے انھیں ذوالفقار علی بھٹو سے انٹر نیشنل لا کا مضمون پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ حقیقی طور پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے شاگرد ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے استاد ذوالفقار علی بھٹو بڑے ذہین فطین اور نفیس آدمی تھے ۔ ان کے ہاتھ بہت نرم تھے ایک بار از راہ مذاق میں نے انھیں انگریزی میں کہا کہ سر اگر آپ انقلاب فرانس کے زمانے میں ہوتے تو آپ ان نرم ہاتھوں کی وجہ سے نہ بچتے ۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے مسکرا کر کہا مسٹر لنگڑیال تم بہت شرارتی ہو۔ سندھ مسلم لا کالج کراچی سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد وکیل بن گئے اور 1981ء میں ہائی کورٹ ملتان میں وکالت شروع کی اور ملتان منتقل ہو گئے ۔ اب تک وہیں مقیم ہیں۔ ان کی شادی سابق چیئر مین ضلع کونسل اور گوپانگ قبیلے کے چیف سردار منظور احمد خان گوپانگ کی بیٹی سے ہوئی۔ ان کے تین بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں ان کا ایک بیٹا علامہ حامد سعید کاظمی کا داماد ہے۔ ایک بیٹی اوج شریف کے سجادہ نشین مخدوم افتخار گیلانی کے بیٹے کے ساتھ بیاہی گئی ہے جبکہ دوسری بیٹی سردار عاشق خان گوپانگ کے بیٹے ڈاکٹر ناصر جمال خان گوپانگ کی شریک حیات ہے ۔ مظفر گڑھ کے مشہور وکلا ملک غلام احمد لنگڑیال ، ملک محبوب علی لنگڑیال ، ملک عبد القدیر حسن لنگڑیال اور ملک بلال لنگڑیال ان کے چچازاد بھائی ہیں ۔ سابق ممبر صوبائی اسمبلی ملک احمد کریم قسور لنگڑیال ان کے بھتیجے ہیں ۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیا درکھی تو انھوں نے ان کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی مگر یہ اس وقت وکالت میں مصروف تھے سیاست میں نہیں آنا چاہتے تھے ۔ سیاسی طور پر ان کا جھکا و جمعیت علمائے پاکستان شاہ احمد نورانی گروپ سے رہا۔ آپ جے یوپی کے ضلعی صدر اور سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کے ممبر رہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان شاہ احمد نورانی اور گوپانگ گروپ کی حمایت سے اپنی بیوی کے سگے ماموں ڈاکٹر ذوالفقار برق کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ اس الیکشن میں انھیں عوام کی طرف سے بھر پور پذیرائی ملی مگر ضیاء کی مارشل حکومت ہر صورت ڈاکٹر ذوالفقار برق کو جتوانا چاہتی تھی۔ قومی اسمبلی کی علی پورسیٹ پر آپ 10 ہزار کی لیڈ سے جیت رہے تھے مگر انھیں 3 ہزار سے ہرا دیا گیا۔ راتوں رات حکومت کے دباؤ اور لالچ میں آکر ریٹرنگ آفیسر نے ان کے مخالف امیدوار کی جیت کا اعلان کر دیا ۔ تب سے آپ انتخابی سیاست سے ایسے دلبر داشتہ ہوئے کہ پھر کبھی میدان میں نہ اترے۔ بعد میں دومرتبہ جمعیت علمائے پاکستان کے سر براہ شاہ احمد نورانی کو اپنے حلقے علی پور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا شاہ احمد نورانی سے ان کا بہت قریبی اور دیر یہ تعلق رہاوہ علی پور میں ان کے ہاں قیام کرتے تھے ۔ 1985ء میں جب انھوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو سردار عاشق خان گوپانگ اور سید عبداللہ شاہ بخاری ان کے صوبائی اسمبلی کے ونگ تھے۔
1978ء سے 1984 ءتک اور پھر 1988 ء تا 1995 ء دومرتبہ مہر پنجاب بار کونسل منتخب ہوئے ۔ اس وقت ضلع مظفر گڑھ کی ایک سیٹ ہوتی تھی اور انتخابی حلقہ پورا پانجاب تھا۔ آپ تحصیل سطح سے ممبر پنجاب بار بننے والے پہلے وکیل تھے ۔ تاریخ ، سیاست اور ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ فارسی شاعری پر عبور حاصل ہے۔ ضلع کی واحد شخصیت ہیں جن سے مل کر اور گفتگو کر کے اپنی کم علمی کا احساس ہوتا ہے۔ ملک محمد شبیر لنگڑیال میں ماضی کے تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ شخص کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسے عظیم لوگ ہماری دھرتی کا مان اور سرزمین مظفر گڑھ کا فخر ہیں ۔ آپ مہذب مہمان نواز اور اخلاص کا پیکر ہیں۔ آپ کے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر اکرام فرید لنگڑیال بھی خاندان کی اعلیٰ رواجوں کے امین ہیں۔ آپ ہم وقت دھی انسانیت سے سرشار ہیں ان دنوں کا رڈیالوجی ہسپتال ملتان میں تعینات ہیں ۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔