مظفر گڑھ کی شخصیات

سرزمین مظفر گڑھ کے عظیم سپوت: بریگیڈیئر ڈاکٹر عبدالرحمن ملک

مظفر گڑھ کے ایک پسماندہ ترین گاؤں کے ایک یتیم بچے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ ضلع مظفر گڑھ کے پہلے سپوت تھے جو برٹش انڈیا میں آرمی کی میڈیکل سروس میں بطور ڈاکٹر شامل ہوئے ۔ ڈاکٹر عبدالرحمن ملک کا تعلق میرے گاؤس اور میرے خاندان سے تھا۔ آپ مظفر گڑھ شہر سے 50 کلومیٹر دور دریائے چناب کے پاس ایک گاؤں رحم والا موضع جھنڈے والی میں لگ بھگ 1919ء میں پیدا ہوئے ان کے والد حبیب اللہ بھٹصہ قریشی کے نواح میں ایک مسجد کے امام تھے اور یہاں کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے اور ہاتھ سے قرآن پاک لکھتے بھی تھے۔ بھٹہ قریشی کے قریشی خاندان کے کئی افراد حبیب اللہ کے شاگرد تھے ۔ عبدالرحمن ملک ابھی 6 سال کے تھے کہ 1925ء میں ایک ہفتے کے وقفے میں والد اور والدہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ دو بھائی اور ایک بہن یتیم ہو گئے ۔ انتہائی غربت اور پسماندگی میں بچپن گزرا۔ گاؤں میں غربت کا راج تھا۔ بچپن میں بہت ذہین تھے اور تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ پرائمری تک تعلیم گورنمنٹ سکول جھنڈے والی سے حاصل کی۔ اسی دوران گاؤں کے ایک اہل ترس شخص ملک مقبول کھا کبھی کے ہمراہ مظفر گڑھ پہنچ کر اس وقت کے گورنمنٹ ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ انجمن اسلامیہ مظفر گڑھ کے تحت چلنے والے مسلم بوائز ہوٹل ( یتیم خانہ ) میں مقیم رہے ۔ گاؤں سے مظفر گڑھ تک 50 کلومیٹر کا سفر پیدل طےکرتے تھے
تعلیم حاصل کرنے کی لگن اور قابلیت کی بنا پر کوڑے خان ٹرسٹ سے تعلیمی وظیفہ ملنا شروع ہوا۔ باقی ساری تعلیم وظائف کی مدد سے مکمل کی پانچویں اور آٹھویں کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا۔ ٹھٹھہ قریشی کے زمیندار میاں رحیم بخش قریشی ہاشمی کے بیٹے آپ کے کلاس فیلو تھے۔ ان کی قابلیت اور علم حاصل کرنے کی لگن کو دیکھ کر ٹھٹصہ قریشی کے میاں رحیم بخش قریشی نے انکی سرپرستی شروع کر دی۔ ان کے اپنے پانچ بیٹے تھے وہ ان کو اپنا چھٹا بیٹا سمجھتے تھے۔ میاں رحیم بخش قریشی نے زندگی بھر انکا ساتھ دیا۔ گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے میٹرک کا امتحان اول پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ بلکہ دو تین ڈویژنز میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ سکول میں نوابزادہ نصر اللہ خان ان کے کلاس فیلو تھے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے از راہ مذاق کہا تھا کہ نوابزادہ نصر اللہ میں سیاست دان بننے کی صلاحیت بچپن سے موجود تھی یہ سکول میں بھی ہمارے ساتھ بہت سیاست کرتے تھے ۔ اس زمانے میں میٹرک کے بعد ڈاکٹری کی ایک ڈگری ہوتی تھی۔ انھیں چار سالہ ایل ایس ایف ایمlicenciate of state medical faculty کے لئے گلانسی میڈیکل کالج امرتسر میں داخلہ ملا۔ چار سالہ کورس مکمل کر کے کچھ عرصہ شہر سلطان میں میڈیکل آفیسر کی خدمات سرانجام دیں۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈین آرمی کی میڈیکل سروس میں بطور ڈاکٹر کمیشن حاصل کیا ۔ دوسری جنگ عظیم میں اٹلی مصر اور صحرائے سینا کے محاذ پر زخمی سپاہیوں کے علاج و معالجے کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1945ء میں جنگ کے خاتمے پر کیپٹن کار بینک ملا اور ایم بی بی ایس کی تعلیم کا سلسلہ بمبئی کے میڈیکل کالج سے شروع کیا۔ ابھی تعلیم نامکمل تھی کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ یہ اور انکے تین مسلمان کلاس فیلوز بذریعہ ٹرین بھیتی سے دہلی پہنچے۔ دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے اس دوران ان چاروں کی ملاقات قائد اعظم سے ہوئی ۔ قائد اعظم نے انھیں بذریعہ ہوائی جہاز دیلی سے لاہور بھجوانے کا بندوبست کیا۔ یہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ادھوری تعلیم مکمل کی اور 1949ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ۔ پاکستان آرمی کی میڈیکل کور میں اپنی خدمات جاری رکھیں ۔ دوران سروس مشرقی پاکستان کے شہر جیسور، کراچی، ایبٹ آباد، کھاریاں، آزاد کشمیر، لاہور، راولپنڈی اور ملتان تعینات رہے ۔ 1965ء کی جنگ میں تر از خیل آزاد کشمیر میں خدمات سرانجام دیں۔ 1977ء میں ملتان سے بطور بریگیڈیئر ڈاکٹر ریٹائر ہوئے اور مستقل طور پر لاہور میں رہائش اختیار کی۔ 19 ستمبر 1991ء میں لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے ۔ 1955ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے انکی شادی عبد العزیز خان دستی کی بیٹی اور سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عبد الحمید خان دستی کی بھتیجی سے ہوئی۔ انکے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے بڑے بیٹے ڈاکٹر بدر رحمن ملک نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ چھوٹے بیٹے نجم رحمن ملک نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا جبکہ بیٹی منعیبہ رحمن نے پنجاب یونیورسٹی سے زوالوجی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ میجر جنرل ڈاکٹر ایم آئی برنی میجر جنرل ڈاکٹر محمود الحسن اور سابق سیکریٹری ہیلتھ ڈاکٹر رحمت اللہ چوہدری ان کے کلاس فیلو تھے ۔ الطاف گوہر انکی شریک حیات کے سگے خالو تھے۔ سابق گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی انکے قریبی دوست تھے ۔ ملتان تعیناتی کے دوران جنرل ضیا ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ ایک معاملے پر جنرل ضیا کی سفارش پر بھیجی گئی سمری کو رد کر دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دینے پر برطانوی حکومت نے کئی اعزازات سے نوازا ۔ اتنے بڑے عہدے پر پہنچنے کے باوجود اپنے گاؤں اور رشتہ داروں سے مرتے دم تک تعلق رکھا۔ اپنے رشتہ داروں اور اہل علاقہ کے ساتھ ہمیشہ شفقت کرتے رہے۔ دردمند دل رکھنے والے، خداترس، مہمان نواز اور یخنی انسان تھے ۔ غریب رشتہ داروں کی کفالت کی۔ اپنی بہن کے بیٹوں کو پڑھایا لکھایا۔ گاؤں کے تمام رشتہ داروں کی مالی اعانت کرتے تھے۔ جنرل فزیشن اور جنرل سرجن ہونے کے ناطے یہاں گاؤں میں آکر لوگوں کا علاج کرتے تھے۔ سابق ممبر صوبائی آسمیلی میاں عمران قریشی کے دادا میاں رحیم بخش قریشی کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے۔ ہمیشہ قریشی خاندان کے ساتھ محبت کا تعلق رہا۔ میاں افضل علیم قریشی گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ میں انکے کلاس فیلو تھے ۔ جبکہ ڈاکٹر اختر علیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com